اعصابی جنگ کا آغاز

‘وزیر اعظم بننے سے قبل عمران خان نے عوامی جلسو ں میں بڑی شدت کے ساتھ اس بات کا اظہار کیا تھا کہ وہ آصف زرداری و نواز شریف کو جیل میں دیکھ رہے ہیں ۔ عمران خان کے انتخابی دعوی کتنے پورے ہوئے یا ہونگے یہ تو اب سہانے خواب بن گئے ہیں لیکن وزیر اعظم کا یہ خواب ضرور شرمندہ تعبیر ہوگیا کہ آصف علی زرداری اور نواز شریف سمیت کئی نامور سیاسی شخصیات کو جیلوں میں بھیج دیا گیا ۔ یقینی طور پر تحریک انصاف کے لئے یہ بڑی کامیابی ہے ۔ لیکن یہاں جب پی ٹی آئی احتساب کے حوالے سے کریڈٹ لیتی ہے تو یہ بھی ضرور کہتی ہے کہ ان کی حکومت نے تو ان پر کوئی کیس ہی نہیں بنائے بلکہ یہ تو انہوں نے خود ایک دوسرے پر بنائے تھے ، ۔ ان کا کہنا صائب ہے ۔ لیکن مجھے چچا علم دین نے بڑے گُر کی بات کہی کہ ہم مان لیتے ہیں کہ پی پی پی اور نون لیگ نے سیاسی اختلافات کی وجہ سے ایک دوسرے کے خلاف مقدمات بنائے تھے ، اور پھر وہ ثابت بھی نہیں کرسکے ، لیکن اب جو ملکی صورتحال میں پی ٹی آئی کردار ادا کررہی ہے ، اس پر غور کیجئے کہ جب دونوں سیاسی جماعتوں کے خلاف موجودہ حکومت میں احتسابی کوڑا چل رہا ہے تو جب مستقبل میں دونوں سیاسی جماعتیں یکجا ہوگئیں تو پی ٹی آئی کے ساتھ کیا ہوگا ۔ یہ سوچ سوچ کر’’ ہول‘‘ آرہا ہے۔ پی ٹی آئی میں اس وقت معدودے چند ہی نظریاتی شخصیات ہیں باقی تمام’ الیکٹ ایبل ‘ ہیں ۔ موسم بدلتے ہی پرندے اڑ جاتے ہیں۔ اس لئے احتسابی کوڑا زور سے نہیں پڑتا ۔ بقول عمران خان وہ فرشتے کہاں سے لائیں ۔ تو سیاست میں فرشتوں کا کوئی کام بھی نہیں ہے ، ہاں انتخابات کے دن ’’ فرشتے ‘‘ ووٹ ڈال دیا کرتے تھے ، لیکن الیکشن سائنس تبدیل ہونے کی وجہ سے اب عوامی ووٹ کی اہمیت کم ہوتے ہوتے ختم ہو رہی ہے ، اس کی مثال ہمارے پڑوسی ملک بھارت کی سامنے ہے کہ کس طرح وہ جدید الیکشن سائنس کی مدد سے کامیاب ہوئے اور یہی طریق کار افغانستان میں بھی اپنایا جائے گا۔

اب جبکہ عمران خان کی سب سے بڑی خواہش پوری ہوگئی ہے تو حکومت پر بہت بڑی ذمے داری عاید ہوجاتی ہے کہ چاہے یہ مقدمات جھوٹے سچے جیسے بھی ہوں ، پی پی پی اور نون لیگ نے ایک دوسرے کے خلاف بنائے ہوں ، اب انہیں ثابت کرکے جلد از جلد فیصلے کو قوم کے سامنے لانا فرض بن جاتا ہے۔ خصوصی کمیشن بنائیں یا پھر خصوصی عدالتیں ، اس سے عوام کو کوئی غرض نہیں بلکہ انہیں ٹرائل میں’’ انصاف ‘‘ ہوتا نظر آنا چاہے ۔ حکومت کے لئے سب سے بڑا چیلنج ’ ریکوری ‘ کا ہے ، احتسابی ادارے نے تو گرفتاریاں کرلیں ، عدالتوں میں مقدمات بھی چلیں گے ، ضمانتیں بھی ہونگی ، لیکن قوم کی وہ دولت جو بقول پی ٹی آئی ان سابق حکمراں خاندانوں نے لوٹیں ہیں ، ملک پر 30ہزار ارب روپے کا قرض لادا ہے ، 97ارب ڈالرز مالیاتی اداروں کے قرضوں سے ملکی معیشت کو نقصان دیا ہے ، ملک کے مجموعی بجٹ کا آدھا ٹیکس سود میں چلا جاتا ہے ، اصل قرض جگہ پر رہتا ہے، بلکہ سود کی ادائیگی کے لئے سخت شرائط پر قرض لئے جاتے ہیں ، امور مملکت و تنخواہوں کی ادائیگی کے لئے قرض و سود لیا جاتا ہے تو پھر عوام کے سامنے یہ سب کچھ ظاہر کرنے کے بعد حکومت کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ ثابت بھی کرے اور اربوں ڈالرز کو ملکی خزانے میں واپس جمع بھی کرائے ۔ موجودہ حکومت کو اس سے بہتر موقع کب مل سکتا ہے کہ ریاست کے تمام ادارے ایک صفحے پر ہیں ، یہاں تک کہ معاشی مشکلات کا ادارک کرتے ہوئے مسلح افواج کے بجٹ میں اضافہ بھی نہیں ہوا ، حالانکہ پاکستانی افواج کے بجٹ میں اضافہ ناگزیر تھا کیونکہ پاکستان کی تینوں سرحدوں پر ملک دشمن عناصر پاکستان کی سا لمیت کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں ، تینوں جانب سے پاکستان میں مداخلت ، جارحیت اور در اندازی کی جاتی ہے ، ان حالات میں ضروری تھا کہ پاک افواج کو مزید مضبوط بنانے کے لئے خصوصی پیکیج دیا جاتا ، ایٹمی و جنگی اثاثوں کو جدید و اپ گریڈ کرنے کے لئے خود انحصاری پالیسی کے تحت فوجی بجٹ میں اضافہ کیا جاتا ، تاکہ مسلح افواج اندرون و بیرونی شر پسندعناصر سے مزید قوت کے ساتھ نبرآزما ہوسکے ۔ تاہم پاک افواج نے ملک کے مالی مشکلات کی وجہ سے حکومت کو موقع فراہم کیا ہے کہ معیشت کی بحالی و مضبوطی کے لئے جانوں کی قربانیاں تو دیتے ہی ہیں ، مالی قربانی سے بھی دریغ نہیں کریں گے ۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاک افواج تن و تنہا اپنی مدد آپ کے تحت بڑی جنگ لڑ رہی ہے ، ہمیں انہیں مزید مضبوط بنانے کی ضرورت ماضی کی بانسبت آج زیادہ ہے ، ان حالات میں دفاعی بجٹ میں اضافہ نہ کرنے کے مسلح افواج کے فیصلے کو پوری قوم نے سراہا ہے ۔تاہم پاکستانی عوام موجودہ حکومت سے زرلٹ مانگے گی۔ وزیر اعظم نصف شب کو کی جانے والی تقریر میں اعتراف کرچکے ہیں کہ ان پر اب دباؤ نہیں ہے ، وہ معاشی بحران و مملکت کے ڈیفالٹ ہونے کے دباؤ سے نکل چکے ہیں اور اب ان کی پوری توجہ ملکی خزانے لوٹنے والوں پر ہوگی ، انہوں نے اعلیٰ سطح کے ایک کمیشن بھی بنانے کا اعلان کیا ہے ۔اعلیٰ سطح کمیشن تشکیل میں ایف آئی اے، آئی بی، آئی ایس آئی، ایف بی آر، ایس ای سی پی اور دیگر ادارے شامل ہوں گے جو تحقیقات کریں گے۔
پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے سخت ترین بجٹ پیش کرنے پر سیاسی و عوامی تنقید کا ہونا فطری ہے کیونکہ عوام نے ہمیشہ سختی ہی برداشت کی ہے ۔ اُس وقت بھی جب پاکستان پر 6ہزار ارب ڈالر قرضہ تھا ، ایسے وقت بھی جب 46ارب ڈالر قرضہ ہوا اور اِس وقت بھی جب ملک پر97ارب ڈالر قرض ہے اور آئندہ بھی برداشت کرے گی جب موجودہ حکومت روپے کی قدر گراتے جائے گی ، غیر ملکی قرضوں میں ابھی تک عرب ممالک کے احسانات لے چکی ہیں ، آٓئی ایم ایف کا قسط وار پروگرام پر معاہدہ بھی ہوچکا ہے ، ورلڈ بنک اور ایشین ڈویلپمنٹ بنک سے بھی قرض ملے گا ۔ لیکن قرض اُس وقت ہی اترے گا جب معاشی پہیہ چلے گا ۔

بجٹ2019-20کے سامنے آنے کے بعد صنعت کاروں اور غریب عوام میں سخت تشویش کی لہر دوڑ چکی ہے ۔ خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ اگر یہ بجٹ منظور ہوجاتا ہے تو ملکی معاشی پالیسی کو مزیدجھٹکا لگے گا ۔ ان حالات میں بیرونی سرمایہ کاری اور ایکسپورٹ کی ضرورت بڑھ جاتی ہے ، افرادی قوت کو بیرون ملک ملازمتوں کے لئے مربوط منصوبہ بندی ضروری ہے کیونکہ ملک میں زرمبادلہ کا سب سے بڑا حصہ اورسیز پاکستانیوں کے ترسیلات زر کی وجہ سے ہی آتا ہے۔ موجودہ حکومت کے پاس یہ آخری موقع ہے کہ وہ اپنی اقتصادی ٹیم اور کابینہ کے ساتھ ملک کو درپیش مسائل حل کرنے کے لئے اپوزیشن کی سیاست چھوڑ کر پوری توجہ مسائل کے حل پر مرکوز کردے۔

اب تو ان کے مخالفین جیلوں میں ہیں ضمانتوں پر آجاتے ہیں تو بھی ان سے بھی کچھ نہ ملا ۔ جن کو سزا ہوئی ہے ، ان سے بھی ، سب کچھ ویسا کا ویسا ہی ہے۔ ایمنسٹی اسکیم کا انجام کیا ہوگا ، نجکاری سے کتنے مسائل حل ہونگے ۔ اس جیسے کئی ایشوز حکومت کے لئے چیلنج رکھتے ہیں ۔ اپوزیشن جماعتیں علامتی احتجاج شروع کرچکی ہیں۔ حکومتی اراکین پریشان ہوجاتے ہیں اس کا اندازہ اُس وقت شدت سے ہوا جب پارلیمنٹ میں بجٹ تقریر کے دوران اپوزیشن احتجاج کررہی تھی اور حکومتی اراکین بار بار وزیر مملکت کی بجٹ تقریر کے صفحات کو دیکھتے تھے کہ باقی کتنے رہ گئے ہیں۔ یہ مضحکہ خیز منظر پوری دنیا میں دیکھا جارہا تھا ۔ حکومت سیاسی مخالفین کی گرفتاریوں سمیت من پسند بجٹ پر ساری قوت صرف کرچکی ہے ۔ اب کون کون جیل جائے گا ، اس سے عوام کو غرض نہیں ، کیونکہ جب دو بڑی جماعتوں کے قائدین کو جیل میں ڈال دیا گیا تو دس؍بارہ سابق وزیروں کو ڈالنے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا ۔ اعصابی جنگ کا آغاز تو اب شروع ہوا ہے ، دیکھنا ہے اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا ؟۔
 
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 399 Articles with 296487 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.