عجیب وقت آن پڑا،سچ کا کال ،ہمت جرات کا
فقدان، حمیت غیرت سب نہ جانے کہاں کھو گئیں،نفسی نفسی حشر سے قبل ہی حشر کا
ساماں تیار،سب کے دماغوں پر تالے سب کی زبانیں گنگ،فیض آباد پر یخ سردی میں
دھرنا دینے والے عشاق نہ جانے کہاں اڈاریاں مار گئے ، ڈی چوک پر کفن باندھ
کر قبریں کھودنے والے کینیڈا سے آئے قادری کے ایمان افروز بیانات سے جھومتے
سراور جینا مرنا طاہر تیرے سنگ کے ترانے گاتی زبانیں ،وہ قادری اور ان کے
داعین انقلاب ، کوئی راہنمائی تو کرے کہ یہ سب کردار ایماندار تھے یا ایمان
فروش، کبھی ایمان پر کبھی جذبات اور کبھی لوگوں کی لاشوں پر سیاست کرنے
والے اب کی بار سارے کے سارے خاموش،کیا توہین صرف اس وقت ہوتی ہے جب کہیں
دور اوپر سے کوئی ڈوری ہلائی جائے یا اس وقت جب ملک میں میاں نواز شریف یا
آصف علی زرداری اینڈ کمپنی کی حکومت ہو اور کیا توہین کے اپنے الگ الگ
پیمانے اور انداز ہوتے ہیں ، جب ہر کام ٹائمنگ کے ساتھ ہو تو پھر ایسی ہی
بے حسی کے مظاہرے دیکھنے کو ملتے ہیں جیسے اب نظر آ رہے ہیں، واے ناکامی
متاع کارواں جاتا رہا ،کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا، ہمارا مقصد ہر
گز یہ نہیں کہ ہر کوئی سڑک پر نکل آئے ،شہر شہر جلسے اور جلوس ہوں ،کسی بھی
صورت کسی بھی وجہ سے اپنے لوگوں کے لیے مسائل پیدا کرنا نہ کوئی حتجاج ہے
نہ احتجاج کا طریقہ مگر کیا کہیے کہ ایسا ہی چلن آج کے حکمرانوں نے کل تک
متعارف کروا رکھا تھا،چور پکڑیں لٹیروں کو جیلوں میں بھی ڈالیں مگر یہ بھی
ذہن میں رکھیں کہ آپ حاکم وقت ہیں سلطان راہی نہیں،میں کسی کو نہیں چھوڑوں
گا میں ن اپنے اﷲ سے وعدہ کیا ہے کہ اﷲ مجھے حکومت دے میں نے ان میں سے کسی
کو نہیں چھوڑنا بالکل بھی نہیں چھوڑنا اس وقت تک جب تک یہ میری پارٹی میں
نہیں ا ٓ جاتے ،ہاں میری پارٹی میں آ گئے یا میرے اتحادی بن گئے تو میں نہ
صرف ان کو کچھ نہیں کہوں گا بلکہ اعلیٰ ترین عہدے بھی دوں گا،میں پچھلے دس
سال کی کرپشن کی گردان تو الاپوں گا مگر اس سے پیچھے نہیں جاؤں گا کیوں آخر
میں بھی انسان اور سیاستدان ہوں، کیا کہنے آپ کی بلائیں لینے کو جی چاہتا
ہے میرے کپتان، غصے سے لال پیلے ہونے کی بجائے اپنے احتساب کے اداروں کی
خبر لیں کہ اب تک کسی سے کچھ برآمد کیوں نہیں ہو سکا اور جب کچھ برآمد نہیں
ہو رہا کیوں کہ کوئی ثبوت نہیں تو اپنے آپ کو کنٹرول میں رکھیں آپ کی باڈی
لینگیوئج ایک ہارے ہوئے جواری کی بجائے ایک وزیر اعظم کی ہونی چاہیے ،کیا
ایک آزاد اور اسلامی ملک کے بیس کروڑ باسیوں کے وزیر اعظم کا بات کرنے کا
انداز ایسا ہوتا ہے جو آپ کا ہے، دعوے ریاست مدینہ کے، سٹا ئل مولا جٹ
کا،بھاشن کا ٹائم رات بارہ بجے اور تبصرے جنگ بد ر پر،تین سو تیرہ لڑنے کے
لیے نکلے باقی ڈر گئے لکھ دی لعنت ایسی سوچ پر،اس سے بہتر ہے کہ آپ کسی سے
چند لفظ لکھوا لیں تاکہ الٹی سیدھی بکواس سے بندہ بچ جائے، آپ کی دیکھا
دیکھی آپ کے حامی و اسپورٹرز پر بھی وہی رنگ چڑھ گیا کہ جو ذرا سی بھی
تنقید کرے مغلظات کی وہ پچکاری ماروکہ اس کی نسلیں تک یاد رکھیں،دنیا کا ہر
شخص زیادہ سے زیادہ ایک دو یا تین مضامین پر اور وہ بھی کسی حد تک دسترس
رکھتا ہے مگر مکمل عبور حاصل ہونے کا دعویدار کوئی نہیں ہوتا،عقلمند شخص
کبھی اس کام میں ہاتھ نہیں ڈالتا جو اس کا نہیں ہوتا یا جو اس سے نہیں ہوتا
مگر آپ کو اڑتا تیر بغل میں دابنے کا شوق نہ جانے کب اور کیسے چڑھا،آپ
چائینہ گئے تو ایک ملین ٹریز کو دس بلین بتا آئے حلف لینے کی باری پر آپ سے
خاتم النبین نہیں بولا گیا بندہ ریہرسل ہی کر لیتا ہے گھر میں ،دوسروں کو
پرچی کے طعنے وہ دے جسے کم از کم اپنی ہی ڈیڑھ گز لمبی زبان پر عبور ہو ،پرچی
کا کم ترین فائدہ یہ ہوتا ہے کہ بندہ بہت سی ذلالت سے بچ جاتا ہے اور جو
اسے لکھ کر دیا جاتا ہے وہی کچھ پڑھتا ہے مگر آپ نے تو حد ہی کر دی،بجٹ
اجلاس میں اپوزیشن نے آپ کو تگنی کا ناچ نچوا کر رکھ دیا اپوزیشن کا تو کام
ہی یہی ہے، آپ کو اپنا وقت بھول گیا کہ آپ کیا کرتے تھے ،آپ نے دن کا غصہ
رات کے آخری پہر اتارنے کا فیصلہ کیا اور کیا شاندار انداز سے اتارا ،کیا
ہی اچھا ہوتا کہ آپ اپنے زریں فرمودات سے اسلام اور اس کی مقدس ہستیوں کو
بخش دیتے آپ فرماتے ہیں کہ کہ جنگ بدر میں تین سو تیرہ لوگ لڑنے آئے باقی
ڈر گئے تھے ،کیا آپ کو پتہ ہے کہ اس وقت تھے کتنے اگر آپ نے ساری زندگی گھر
میں کتے نہ پالے ہوتے اور انہیں کے درمیان زندگی نہ گذاری ہوتی کسی دیندار
شخص کی محفل میں چار چھ ماہ گذارے ہوتے یا ایسے کسی بندے کو گھر بلایا ہوتا
تو آپ کو پتہ چلتا کہ اصل تاریخ وہ نہیں جو زیک گولڈ سمتھ کے بڑوں نے لکھی
اصل تاریخ یہ نہیں ہے یہودیوں نے مسلمانوں کو ڈرپوک اور لوٹ مار کرنے والا
گروہ لکھا ہے ،مگر حقیقت کچھ اور ہے خان صاحب بدر کے میدان میں تو چشم فلک
نے وہ نظارہ دیکھا جس کی مثال کبھی مل ہی نہیں سکتی ایک ہزار کے مقابلے میں
تین سو تیرہ،ور ان تین سو تیرہ کے پاس سات سو گھوڑوں کے مقابل صرف دو گھوڑے
باقی سارے پیدل ڈھنگ کا نیزہ نہ تلوا ر سامنے لشکر جرار مگر یہاں ہر کوئی
ایک دوسرے سے پہلے لڑنے مرنے کو تیار،بڑے تو بڑے بچے بھی ایڑیاں اٹھا اٹھا
کر اپنے آپ کو بڑوں میں شمار کرتے رہے کہ انہیں بھی اس معرکے میں شامل کیا
جائے،ایک نو عمر صحابی لشکر کے اندر چھپتے رہے کہ کم عمری کی وجہ سے کہیں
اﷲ کے رسول ﷺ جنگ میں جانے سے روک نہ دیں دو معصوم بچوں نے اسی میدان بدر
میں ابوجہل کو ڈھونڈ کر جہنم واصل کیا تھا اور آپ فرما رہے ہیں کہ وہ ڈر
گئے تھے صدقے آپ کی عقل و دانش اور آپ کے علم پر،آپ ہرزہ سرا ہیں کہ احد کے
میدان میں وہ مسلمان لوٹ مار میں مشغول ہو گئے جن کے سالا ر اﷲ کے رسولﷺ
تھے ،حد ہوتی ہے ڈھٹائی کی لوگ کہتے ہیں کہ جناب کوکین استعمال کرتے ہیں ہم
نے کبھی اس بات کو اہمیت نہیں دی کہ جناب نشہ کرتے ہیں مگر یقین کریں ا س
رات آپ کے فرمودات کو سن کر لگا کہ کوئی بھی شخص ہو ش وہواس میں اس قدر
بونگیاں اور چولیاں نیں مار سکتا،اپوزیشن نے اگر دن کے وقت بجٹ اجلاس میں
احتجاج کیا تو یہ ان کا حق ہے اس کے لیے اوے جاگیردارا کہہ کر آدھی رات کو
پوری دنیا کے سامنے تماشا بننے کی کیا ضرورت تھی ،آپ کچھ کہہ رہے تھے اور
آپ کا پی ٹی وی جس نے آپ کے دورہ بیجنگ کو بیگنگ لکھ دیا تھاقوم کو کچھ اور
دکھا رہا تھا بہت کچھ تو انہوں نے سنسنر کر لیا ورنہ آپ نے تو نجانے کیسے
کیسے موتی جھاڑے تھے اپنے منہ سے مگر بھلا ہو کسی غیرت مند پرڈیوسرکاجس نے
بہت سے شاندار الفاظ اور آپ کے بھاشنوں سے قوم کے کانوں کو محفوظ رکھا،اس
کے بعد دوسری شدید ترین حیرت اس وقت ہوئی جب دو روز گذرنے کے بعد کسی بھی
طرف سے جناب خان صاحب سے معافی کا مطالبہ تو دور کی بات کھل کر مذمت بھی
نہیں کی گئی کہاں ہیں ثنا خوان تقدیس مشرق جو سابقہ دور میں بات بات پر لٹھ
اٹھا کر آن واحد میں کشتوں کے پشتے لگانے کو تیار ہو جاتے تھے،مولانا طارق
جمیل صاحب جن کو خان صاحب سے ریاست مدینہ کے بارے میں بڑی امیدیں
ہیں،مولانا خادم رضوی ،مولانا ڈاکٹر اشرف جلالی،مولانا سراج الحق اور ہمارے
بہت ہی پیارے ایم پی اے اور منسٹر حافظ عمار یاسر صاحب آپ کی زبانیں کیوں
گنگ ہو گئیں ہیں پنجاب انتظار میں ہے کہ کب جناب حافظ صاحب اس معاملے پر
صوبائی اسمبلی میں قرار داد پیش کرتے ہیں،اوردیکھتے ہیں کہ یہ سارے اتحادی
مولانا ایم پی ایز و ایم این ایز اور منسٹر ز عمران سے وفاداری نبھاتے ہیں
یا اپنے ایمان سے،فیصلہ ان پر ہے،،اﷲ ہم سب پر رحم فرمائے،
|