ہائے یہ گھر سے باہر عیدیں

عیدیں تبھی تک عیدیں ہوتی ہیں تبھی تک میٹھی لگتی ہیں جب تک ہم بڑے سمجھدار نہیں ہوتے اور گھر سے باہر عید کیا ہوتی ہے یہ صرف وہی سمجھ سکتا ہے جو گزار رہا ہوتا ہے.... اور میں نے بھی سے 25 سال بعد سمجھا..

*میری پہلی عید سرگودھا میں جب*
*صبع 5 بجے اٹھ کر ڈیوٹی جانے کے لئے تیاری کی اور ڈیوٹی پر چل دیا ہم اپنی تیاری کے ساتھ مسجد کے باہر جاکر کر کھڑے ہو *گے اور اپنے صاحبان کو وائرلیس کر دیا کہ ہم آن لوکیشن ہوگے ہیں لوگ نئے کپڑے پہنے ہنسی *خوشی میں آتے دکھائی دے رہے تھے بڑے بھائیوں نے چھوٹے بھائیوں کو ہاتھوں میں اٹھایا *ہوا تھا باپ اپنے بیٹوں کو انگلیاں تھامے خوشی خوشی میں مسجد کی طرف رواح تھے..*

*گرمی کی شدت بڑھتی جارہی تھی میں دور سے لوگوں کو خوشی سے آتے ہوئے دیکھتا رہا *اور مسکراتا رہا.... مولوی صاحب نے ٹائم کے مطابق صفیں درست کرنے کا اعلان کیا اور عید *پڑھانے کے لئے کھڑے ہو گے... ہم باہر لوگوں کے آنے جانے کا جائزہ لے رہے تھے کہ جب مولوی *صاحب نے سلام پھیرا دعا کی اور سب کو عید کی مبارک دی. لوگ ایک دوسرے کو مبارکباد کرتے اور گلے لگانا شروع کردیا... *یہ دیکھ کر آنکھوں میں جیسے نمی سی آگئی تھی اور چبھن پیدا کررہی تھی میں نے جلدی سے جاکر موبائل پر بیلس کروایا *دل بےچین تھا امی سے بات کرنی تھی ابو سے بات کرنی تھی بھائیوں کو دل کا حال بتانا تھا بہن سے عید کے بارے *پوچھنا تھا. پہلے تو عید کے رش کی وجہ سے کال ہی نہیں مل رہی تھی جب ملی تو بڑی باجی نے فون اٹھایا فیضی سارے ادھر *جمع ہیں تمھاری ہی باتیں کررہے تھےامی صبح سے کہہ رہی ہے میرے بیٹے کی عید کیسے گزر رہی ہوگی پتہ نہیں اس نے کچھ *کھایا بھی ہے کہ نہیں بتاؤ عید کیسی گزر رہی ہے؟ موج مستیاں کر رہے ہو کہ نہیں؟ میں نے بتانا *تھا کہ میں بہت خوش ہوں عید اچھی گزر رہی ہے لیکن یہ سب کچھ میں کہ نہ سکا ان کو بھلا *کیا پتہ کہ ادھر ٹائم ملے تو عید پڑھتے ہیں انہیں کیا پتہ مسجد جاکر بھی آپ دوسروں کے لئے *اجنبی رہتے ہیں اور وہ آپ کے لئے دنیا کے درجنوں قصبوں کے مسلمان گلے ملتے ہیں لیکن ان *میں وہ گرمجوشی کہاں جو اپنے گلے مل. کر دکھاتے ہیں یہ پانچ منٹ کی ملاوٹ آپ کی *عید ہوتی ہے پھر وہی پرانے* *دھندے اور گھر کی یادیں کہ وہ عید کس طرح منا رہے ہوں* *گے..*

*خیر اس دن بڑی باجی مجھ سے *سوال پوچھتی گئیں میں نے جواب دینا چاہا لیکن دے نہ پایا مجھے لگا کہ میں بولو گا تو رونے کی آوازیں دور دور تک *جائے گی ہیلو بھی نہ کہہ سکا. اسی چپ میں میرے نمکین آنسو میرے ہونٹوں تک پہنچ چکے تھے *لیکن میں ہونٹوں کو دانتوں میں دبا کر دیر تک گم سم بیٹھا رہا میں نے ہونٹ زور سے دبا رکھے *تھے اور گھر والوں کی جدائی میں دل سے نکلی ہوئی کوئی آہ گلے تک پہنچنے سے پہلے ہی مر *چکی ہوتی. اس دن پہلی دفعہ احساس ہوا گھر کیا چیز ہے بھائی کیا ہیں.. ماں باپ کیا ہوتے *ہیں. دوسری طرف سے متواتر ہیلو ہیلو کی آواز آتی رہی لیکن ادھر مکمل خاموشی چھائی رہی *پھر باجی نے کہا شاید عید کی وجہ سے نیٹ ورک مصروف ہے اور اس لئے آواز نہیں آرہی میں *کمرے میں بیٹھ گیا اور سوچنے لگ گیا کیا یہی تھی میری منزل؟*
*اے دور دیس کے باسیو تمہیں گھر والوں کے ساتھ منائے جانے والی عید مبارک...*

Fazidar
About the Author: Fazidar Read More Articles by Fazidar: 14 Articles with 21933 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.