*میری پہلی عید سرگودھا میں جب*
*صبع 5 بجے اٹھ کر ڈیوٹی جانے کے لئے تیاری کی اور ڈیوٹی پر چل دیا ہم اپنی
تیاری کے ساتھ مسجد کے باہر جاکر کر کھڑے ہو *گے اور اپنے صاحبان کو
وائرلیس کر دیا کہ ہم آن لوکیشن ہوگے ہیں لوگ نئے کپڑے پہنے ہنسی *خوشی میں
آتے دکھائی دے رہے تھے بڑے بھائیوں نے چھوٹے بھائیوں کو ہاتھوں میں اٹھایا
*ہوا تھا باپ اپنے بیٹوں کو انگلیاں تھامے خوشی خوشی میں مسجد کی طرف رواح
تھے..*
*گرمی کی شدت بڑھتی جارہی تھی میں دور سے لوگوں کو خوشی سے آتے ہوئے دیکھتا
رہا *اور مسکراتا رہا.... مولوی صاحب نے ٹائم کے مطابق صفیں درست کرنے کا
اعلان کیا اور عید *پڑھانے کے لئے کھڑے ہو گے... ہم باہر لوگوں کے آنے جانے
کا جائزہ لے رہے تھے کہ جب مولوی *صاحب نے سلام پھیرا دعا کی اور سب کو عید
کی مبارک دی. لوگ ایک دوسرے کو مبارکباد کرتے اور گلے لگانا شروع کردیا...
*یہ دیکھ کر آنکھوں میں جیسے نمی سی آگئی تھی اور چبھن پیدا کررہی تھی میں
نے جلدی سے جاکر موبائل پر بیلس کروایا *دل بےچین تھا امی سے بات کرنی تھی
ابو سے بات کرنی تھی بھائیوں کو دل کا حال بتانا تھا بہن سے عید کے بارے
*پوچھنا تھا. پہلے تو عید کے رش کی وجہ سے کال ہی نہیں مل رہی تھی جب ملی
تو بڑی باجی نے فون اٹھایا فیضی سارے ادھر *جمع ہیں تمھاری ہی باتیں کررہے
تھےامی صبح سے کہہ رہی ہے میرے بیٹے کی عید کیسے گزر رہی ہوگی پتہ نہیں اس
نے کچھ *کھایا بھی ہے کہ نہیں بتاؤ عید کیسی گزر رہی ہے؟ موج مستیاں کر رہے
ہو کہ نہیں؟ میں نے بتانا *تھا کہ میں بہت خوش ہوں عید اچھی گزر رہی ہے
لیکن یہ سب کچھ میں کہ نہ سکا ان کو بھلا *کیا پتہ کہ ادھر ٹائم ملے تو عید
پڑھتے ہیں انہیں کیا پتہ مسجد جاکر بھی آپ دوسروں کے لئے *اجنبی رہتے ہیں
اور وہ آپ کے لئے دنیا کے درجنوں قصبوں کے مسلمان گلے ملتے ہیں لیکن ان
*میں وہ گرمجوشی کہاں جو اپنے گلے مل. کر دکھاتے ہیں یہ پانچ منٹ کی ملاوٹ
آپ کی *عید ہوتی ہے پھر وہی پرانے* *دھندے اور گھر کی یادیں کہ وہ عید کس
طرح منا رہے ہوں* *گے..*
*خیر اس دن بڑی باجی مجھ سے *سوال پوچھتی گئیں میں نے جواب دینا چاہا لیکن
دے نہ پایا مجھے لگا کہ میں بولو گا تو رونے کی آوازیں دور دور تک *جائے گی
ہیلو بھی نہ کہہ سکا. اسی چپ میں میرے نمکین آنسو میرے ہونٹوں تک پہنچ چکے
تھے *لیکن میں ہونٹوں کو دانتوں میں دبا کر دیر تک گم سم بیٹھا رہا میں نے
ہونٹ زور سے دبا رکھے *تھے اور گھر والوں کی جدائی میں دل سے نکلی ہوئی
کوئی آہ گلے تک پہنچنے سے پہلے ہی مر *چکی ہوتی. اس دن پہلی دفعہ احساس ہوا
گھر کیا چیز ہے بھائی کیا ہیں.. ماں باپ کیا ہوتے *ہیں. دوسری طرف سے
متواتر ہیلو ہیلو کی آواز آتی رہی لیکن ادھر مکمل خاموشی چھائی رہی *پھر
باجی نے کہا شاید عید کی وجہ سے نیٹ ورک مصروف ہے اور اس لئے آواز نہیں
آرہی میں *کمرے میں بیٹھ گیا اور سوچنے لگ گیا کیا یہی تھی میری منزل؟*
*اے دور دیس کے باسیو تمہیں گھر والوں کے ساتھ منائے جانے والی عید
مبارک...* |