راج کماری مریم نواز اور شہزادہ بلاول بھٹو زرداری
کا عمران خان نیازی کی حکومت کے خلاف مشترکہ احتجاجی تحریک چلانے کے لیے
،سپریم کورٹ سے نا اہل قرار دیے جانے والے سابق وزیر اعظم نواز شریف صاحب
کے لاہور میں واقع، رائے ونڈ جاتی امرء محل میں ون تو ون ملاقات میں اتفاق
ہو گیا۔
اقتدار کا نشہ بھی کیا چیز ہے کہ لوگ اس کے لیے سب کچھ کرنے کے لیے تیار ہو
جاتے ہیں۔تاریخ میں جاہ بجاہ یہ قصے موجود ہیں کہ کسی شہزادے نے باپ کو قتل
کر کے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ کہیں لکھا ہے کہ بھائی نے بھائی کو قتل کر کے
اقتدار حاصل کر لیا۔ ایک خاندان کے بعد دوسرے خاندان نے اقتدار پرغلبہ حاصل
کر لیا۔ جہاں تک مسلمانوں کے نیک دل مغل بادشاہ اورنگ زیبؒ کو اپنی پھوپھی
نے کہا تھا کہ بادشاہوں کے کوئی بھی رشتے دار نہیں ہوتے ۔بس اقتدار ہی سب
کچھ ہوتا ہے۔کیا بلاول زرداری کو بھی پھوپھی صاحبہ اور مریم صفدر کو چچا نے
یہی مشورہ دیا ہے؟کیا اقتدار کی لالچ کے فلسفہ کو سامنے رکھ کر پاکستان کے
غریب عوام یہ سمجھیں کہ مریم صفدر صاحبہ نے اسی لیے اپنے پرانے نیشنل
آڈینٹی کارڈ سے اپنے نام کے ساتھ لکھے اپنی شوہر کے نا م صفدر کو ہٹوا کر
رواج کے خلاف اپنے نام کے ساتھ اپنے والد کا نام مریم نوازلکھوایا۔ اور اسی
طرح بلاول زرداری نے بھی مروجہ رواج کے برخلاف تاریخ میں ایک نیا اضافہ
کرتے ہوئے اپنے والد زرداری کے ساتھ اپنے والدہ اور نانا بھٹو کا اضافہ
کروایا۔ دونوں اپنے والدین کے نام سے عوام کو پھر بے وقوف بنانے کا عزم
رکھتے ہیں۔نہ مریم اور نہ بلاول کو عوام کی پریشانیوں کا ادراک ہے۔ دونوں
سونے کے چمچے لیے پیدا ہوئے ہیں۔ کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ اقتدار
کے لیے آصف علی زرداری صاحب نے جعلی وصیت نامے کے تحت پیپلز پارٹی پر قبضہ
کیا۔تاریخ کا عجب تماشا ہے کہ اقتدار میں رہنے کے لیے دونوں خاندانوں کی
اُولادیں اقتددار پر مستقل قبضہ حاصل کرنے کے لیے یہ سب کچھ کر رہی ہیں۔
اسی لیے ہم نے مجبوراًمضمون کے شروع میں مریم صفدر صاحبہ کو را ج کماری اور
بلاول زرداری کو شہزادہ لکھا۔
جدید جمہوری حکومتوں میں عوام کی فلاح و بہبود کے لیے بادشاہت کے مقابلے
میں،مملکت، پارلیمنٹ یعنی مقننہ،حکومت یعنی انتظامیہ، عدلیہ یعنی مقننہ کے
بنائے ہوئے قانون کے مطابق فیصلے کرنا اور صحافت یعنی سیاست دانوں کی
کارکردگی سے عوام کو با خبر رکھنا ہے۔ ان اداروں کو کسی بھی مملکت کے چار
ستون کہا گیا ہے۔ سیاستدانوں کے اپنے بنائے ہوئے قوانین کے مطابق عدلیہ کے
فیصلہ پر ایک پارٹی کے لیڈر سزا کاٹ رہا ہے۔ دوسری پارٹی کے لیڈر کو نیب نے
گرفتار کر لیا ہے۔ مزے کی بات ہے کہ زرداری صاحب کے خلاف نواز لیگ کے دور
میں مقدمے قائم ہوئے تھے۔ اس مقدموں کے فیصلے یا کاراوئی اب ہو رہی ہے ۔
عدلیہ کے فیصلوں کی مہذب دنیا کے سیاسی لیڈر احترام کرتے ہیں۔ اس لیے آپ
حضرات بھی احترام کرنا چاہیے۔ یہ کیا عجیب معاملہ ہے کہ جب نواز شریف کے
خلاف عدلیہ نے فیصلہ دیا تو ملک میں عدلیہ کے خلاف اور فوج کے خلاف مہم
چلائی گئی۔ کہا گیا کہ جمہورت خطرے میں ہے۔نہیں بھائی آپ کرپشن کی وجہ سے
خطرے میں ہیں۔ ملک قائم دائم ہے اور ان شاء اﷲ قائم رہے گا۔ملک کے غداروں
مجیب اور الطاف کے خلاف فوجی کاروائی کے حوالے دیے گئے۔کیا فوج کا پاکستان
کی حفاظت نہ کرے اور ملک کے غداروں کو کھلی چھٹی دے دے؟ کہا گیامارشل لا لگ
جائے گا۔پارلیمنٹ توڑ دی جائے گی۔ ہم نے ان ہی دنوں میں کالم لکھا تھا کہ
نہ جمہورت ختم ہوئی اور نہ ہی مارشل لا لگا۔ بلکہ جمہورت چلتی رہی۔ نواز
شریف کے بعد نون لیگ کے دوسرے شخص کو پارلیمنٹ نے ملک کا وزیر اعظم کا چن
لیا۔ہاں کرپشن میں لوگ پکڑے گئے اور آئندہ بھی پکڑے جائیں گے۔ نظام حکومت
پھر بھی چلتا رہے گا۔
(مرحوم)ذوالفقار علی بھٹو صاحب کی پیپلز پارٹی تین دفعہ اقتدار میں رہی۔
نون لیگ کے نواز شریف تین دفعہ پاکستان کے وزیر اعظم رہے۔ دونوں پارٹیاں
باری باری پچھلے پینتیس چالیس سال سے پاکستان کے عوام پر حکومت کرتے رہے
ہیں۔ مگر ملک کے غریب عوام کے حالات نہ بدلے۔ ان دونوں کے وارے نہارے ہوتے
گئے۔ ان کے اثاثے روز بہ روز بڑھتے گئے۔ اس لیے اس مضمون میں ان دنوں ہی
زیر بحث ہیں۔پیپلز پارٹی کی حکومت ذاولفقار علی بھٹو کے دور میں اُدھر تم
اِدھر ہم کے بیانیہ اور قومی اداروں کو قومیانے ،اس کے بعد بینظیرشہید،
وزیر اعظم پاکستان کے دور میں آصف علی زرداری مرد اوّل کی کرپشن کے
قصوں،بیڈ گورنر زاور ان کی صدارت کے پانچ سالوں میں ملک کی بین الاقوامی
طور پر بدنام ہوئی تھی۔ زرداری صاحب مسٹر ٹین پر سنٹ مشہور ہوئے۔اقتدار میں
آنے سے پہلے زرداری صاحب کی لیے لوگ کہتے تھے کہ بمبینوں سینما کے ٹکٹ بلیک
میں فروخت کرتے تھے ۔ آصف علی زرداری نے اقتدار میں آ کر، کرپشن کے پیسوں
سے لندن میں سرے محل، سوئس بنکوں میں پاکستان سے کرپشن کیے گئے پیسے
رکھے۔اندرون بیرون ملک اثاثوں بنائے۔ بین الاقوامی طور پر ملنے والی امداد
میں کرپشن کی۔ ان وجوہات کی بنیاد پر ان کے خلاف مقدمے قائم ہوئے۔ کرپشن
میں گیارہ سال قید کاٹی۔ ذرائع کے مطابق اداروں میں بھرتی کیے ہوئے ان کے
اپنے آدمیوں نے کرپشن کے ریکارڈ جلا دیے۔ نیب کے پاس صرف فوٹو اسٹیٹ
ریکارڈبچا۔ جس پر نیب نے یہ کہہ کر کرپشن کے مقدمے ختم کر دیے کہ فوٹو
اسٹیٹ پر کاروائی نہیں کی جاسکتی۔صدارت کے دور میں سوئس بنکوں میں پڑے
زرداری صاحب کے پیسوں کے لیے سپریم کورٹ کی حکم پر خط نہ لکھنے پر پیپلز
پارٹی کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی صاحب کو عدلیہ نے عہدے دے ہٹا دیا گیا۔
پیپلز پارٹی کے دوسرے وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف جو راجہ رینٹل کے نام سے
مشہور ہوئے۔ ان کو بھی اختیارات کے ناجائز استعمال اور کرپشن کیس میں عہدے
سے عدلیہ نے ہٹایا گیا اور اب بھی مقدمے چل رہے ہیں۔
نواز شریف کے لیے کہا جاتا ہے کہ جب اقتدار میں نہیں تھے تو ان کی ایک لوہے
کی اتفاق فونڈری تھی۔تین دفعہ پاکستان کے وزیراعظم بننے کے دوران ایک
فیکٹری سے کیارہ فیکٹریاں کیسے بنی؟بیرون ملک اسٹیل ملز لگانے کے پیسا کہاں
سے آیا۔حسن اتفاق کے جب اﷲ تعالی ٰ کو پاکستان کے مظلوم عوام پر رحم آیا
تو،بین الاقوامی طور پر نواز شریف کے خاندان کا نام آف شور کمپنیوں میں نام
نکل آیا۔ اپوزیشن نے اس پر گرفت کی تو نواز شریف پریشان ہوئے۔ ایک دفعہ
پارلیمنٹ میں اپنے دولت اور کاروبار کی طوطہ کہانی سنائی۔ دو دفعہ
الیکٹرونک میڈیا پر عوام کے سامنے اپنی بے گناہی کی داستان سنائی۔ عدالت کو
خط لکھا کہ میرے خاندان پر الزام کی تحقیقات کی جائیں۔ تاکہ دودھ کا دودھ
اور پانی کا پانی ہو جائے۔ عدالت نے واپس جواب دیا کہ پرانے قانون کے مطابق
اس کیس کو اگر دیکھا جائے تو سالوں لگ جائیں گے۔پارلیمنٹ نئے ٹی اور آر
بنائے جائیں تو ہم کیس سن کر فیصلہ کریں گے۔پارلیمنٹ میں نواز لیگ کی دو
تہائی اکثریت ہونے کے باجود ٹی اور آر نہیں بن سکے۔ عدالت میں جماعت
اسلامی،عوامی مسلم لیگ اورتحریک انصاف نے کرپشن کے خلاف مقدمے قائم کیے۔
عدالت نے کیس سننے سے پہلے تمام فریقوں سے تحریری طور پر ضمانت کا کہا کہ
عدالت جو بھی فیصلہ کرے گی سب کو منظور کرنا پڑے گا۔ سب نے عدالت کو اس کی
تحریری ضمانت دی۔مگر عدالت کانواز شریف کے خلاف فیصلہ آیا تو طوفان کھڑا کر
دیا۔ عدلیہ اورفوج پر تنقید کی گئی۔ اس وقت اقتدار کے نشے میں ان سے چوک ہو
گئی تھی کہ شاید عدلیہ ان کے حق میں فیصلہ کرے گی۔ جبکہ عدلیہ آزاد ہے
عدلیہ نے کئی فیصلے نواز شریف کے حق میں بھی کئے۔ عدلیہ نے تحریک انصاف کے
سیکرٹیری جرنل کو بھی کرپشن میں نا اہل قرار دیا۔اب نواز شر یف صاحب جیل
میں سزا کاٹ رہے ہیں۔ حمزہ شہباز کو بھی نیب نے گرفتار کر لیا ہے۔ ان کے
خاندان کے خلاف نیب میں مقدمے چل رہے ہیں۔ جعلی اکاؤنٹ اور منی لانڈرنگ میں
زرداری صاحب اور ان کی بہن فریال تالپور صاحبہ بھی گرفتار ہیں۔یہ سب فیصلے
ان کے ہی بنائے ہوئے قانون کے تحت ہو ر ہے ہیں۔ عمران خان حکومت کا مؤقف ہے
کہ تحریک انصاف حکومت اپنے منشور، کرپشن فری پاکستان کے لیے جیت کر آئی ہے۔
حکومت عوام سے اپنے کرپشن فری پاکستان کے وعدے پر عمل کر رہی ہے۔ وہ ہر
حالت میں ملک سے کرپشن ختم کر رہے گی۔ غریب عوام کے ٹیکس کا لوٹا ہوا پیسا
قانون کے تحت واپس وصول کر کے، پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کے دور کے قرضوں
کا سود اور اصل ادا کریں گے۔ اگر جمہوریت، انصاف اور اپنے ہی بنائے ہوئے
قانون پر ان پارٹیوں کا اعتماد ہوتا تو قانون کو اپنا راستہ نکالنے دیتے۔
مگر عمران کے مطابق مریم صاحبہ اور بلاول صاحب اپنے والدین اور رشتہ داروں
کی کرپشن پر این او آر حاصل کرنے کے تحریک چلانے پر متحد ہوئے ہیں۔ ان کو
چاہیے تھا کہ قانون کا احترام کرتے۔جمہوریت کی روح کے مطابق حقیقی اپوزیشن
کا کرادر اداکرتے۔ عوام کے مسائل کے آواز اُُٹھاتے تو عوام بھی ان کاساتھ
دیتی۔ ملک میں مہنگائی اور قیمتیں بڑھنے پر احتجاج کرتے۔ مگرکرپشن میں ملوث
اپنے اپنے ابو ؤں کو بچانے کے لیے حکومت گرانے نے پر اتفاق کیا ہے۔ دوسری
طرف ذرائع کہتے ہیں کہ تحریک انصاف کے دور حکومت میں اگر کرپشن کو ختم نہ
کیا گیا تو کرپٹ سیاست دان ملک کو دیوالیہ کر کے چھوڑیں گے۔
قارئین!دوسری طرف حقیقی اپوزیشن کا کرادر ادا کرنے کے لیے مہنگائی ، بجلی
گیس کی قیمتوں میں اضافے اور آئی ایم ایف کے قرضوں سے عوام کی جان چھڑانے
کے لیے جماعت اسلامی نے ۱۶؍ جون سے لاہور میں سخت احتجاج کیا ہے۔ اس احتجاج
کو پورے ملک میں پھیلانے کا اعلان کیا ہے۔ سراج الحق صاحب ،امیر جماعت
اسلامی اور سینیٹر نے کہا ہے کہ تحریک انصاف نے پاکستان کو آئی ایم ایف کے
حوالے کر دیا ہے جو پاکستان کے عوام کو نامنظور ہے۔ہم کرپشن بچانے کے لیے
حکومت گرانے کے احتجاج میں شریک نہیں ہوں گے۔ بلکہ عوام کو مشکلات سے
نکالنے کے حکومت کو صحیح فیصلے کرنے پر مجبور کرنے کے لیے ملک گیرتحریک
چلائیں گے۔ اﷲ مثل مدینہ ریاست پاکستان کا محافظ ہو آمین۔
|