سید قطب کے بعد محمد مرسی

ملکوں میں بٹی امت مسلمہ، ملکوں کے اندر سیاسی طور پر تقسیم در تقسیم مسلمان، شائد ابھی تک اس حقیقت کا ادراک نہیں کر پائے ہیں کہ جنگ جاری ہے۔

بہار عرب کی انقلابی ہوائیں جب مصر میں داخل ہوئیں تو قاہرہ کے التحریر اسکواہر میں جمہوریت کے حامیوں کے سامنے حسنی مبارک کی آمریت نے دم توڑ دیا۔ فری ایڈ فیئر الیکشن کا ڈول ڈالا گیا۔ تو اخوان المسلمین کے حمائت یافتہ محمد مرسی (1951 ۔ 2019) مصر کے پانچویں اور عوام کی ووٹوں سے منتخب ہونے والے پہلے جمہوری صدر بنے۔

محمدمرسی ایک سیاستدان، پروفیسراور انجینئر تھے۔ ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد وہ کیلیفورنیا اسٹیٹ یونیورسٹی میں بطور اسٹنٹ پروفیسر پڑہاتے رہے۔حافظ قرآن مرسی ابتداہ ہی سے اخوان کے ساتھ وابستہ تھے مگر امریکہ سے واپسی کے بعد انھوں نے فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی بنائی یاد رہے اخوان المسلمین کے سیاست میں حصہ لینے پر پابندی ہے۔ اس پارٹی نے مرسی کی قیادت میں مصری عوام کی 51.7 فیصد حمائت حاصل کر لی۔ مصری عوام کو پہلی بار اقتدار نصیب ہوا تھا۔ لہذا الیکشن مین کامیابی حاصل کرتے ہی امریکہ سے تعلیم یافتہ محمد مرسی نے اپنی پارٹی سے یہ کہہ کر استعفیٰ دے دیا کہ وہ اب اپنی پارٹی کے نہیں بلکہ پورے مصر کے صدر ہیں۔ اہل جمہور نے ایک عبوری آئین نافذ کیا اور اس آئین کے تحت جمہوری صدر کو لا محدود اختیارات حاصل ہو گئے جن میں ایسے ادارے بھی شامل تھے جن کی باگ 1952 سے فوجی جرنیلوں کے ہاتھوں میں تھی۔فوج مرسی کے ان اقدامات پر غیر مطمئن تھی۔ مرسی کے سیاسی مخالفین، جنھوں نے ووٹ مرسی کے خلاف دیا تھا۔ التحریر اسکوائر میں دھرنا دینے اکھٹے ہونا شروع ہوئے۔ مرسی کے حامی مزاحمتی دھرنے کے لیے التحریر اسکائر میں جمع ہوئے، وہ ان اقدامات کی تحسین کر رہے تھے جو مرسی نے فوج کے اثر ورسوخ کو کم کرنے کے لیے کیے تھے۔ان اقدامات میں حسنی مبارک کے دور کے فوجی افسران کو ہٹا کر جونئیر افسران کی تعیناتی شامل تھی۔مرسی نے ان تمام جرنیلوں کو نکال باہر کیا تھا جو تیس سالون سے سیاہ و سفید کے مالک بنے ہوئے تھے۔ حتیٰ کے طویل مدت تک وزیر دفاع رہنے والے فیلڈ مارشل اور اس کے متوقع جانشین کو بھی گھر بھجوا دیا تھا۔اور انٹیلی جنس چیف کو بھی فارغ کر دیا۔

عبد الفتح السیسی کو کو نیا وزیر دفاع خود مرسی نے مقرر کیا تھا۔

التحریر اسکوائر میں جمع مرسی کے حامی فوج کی نظر میں امن و امان کے لیے خطرہ تھے۔ فوج نے مرسی کو 48 گھنٹے کا الٹی میٹم دیا کہ وہ سیاسی افراتفری کو روکیں۔ صدر محمد مرسی نے اس انتباہ کو نظر انداز کر دیا تو فوج نے قصر صدارت پر قبضہ کر کے صدر کو گرفتار کر لیا۔ مرسی کے حامی مزاحمتی دھرنے کے لیے التحریر اسکائر میں جمع ہوئے تو سات سو مظاہرین کو موقع پر ہی ہلاک کر دیا گیا۔ ہزاروں افراد کو جیلوں میں ڈالا گیا۔

گرفتار صدر پر قتل، قطر کے لیے جاسوسی کرنے، جیل توڑنے اور حماس تنظیم جو مصر میں خلاف قانون قرار دی گئی تھی کے ساتھ روابط کے الزام لگے۔

شستہ اورروان لہجے میں انگریزی بولنے والے محمدمرسی کو عدالت میں پہلی بار پیش کیا گیا تو وہ ایک ساونڈ پروف پنجرے میں بند تھے۔ پہلی سماعت پر سابقہ صدر کا یہ موقف سامنے آیا کہ فوج نے غیر قانونی طور پر تختہ الٹا ہے اور عدالت کے اختیار سماعت کو بھی مسترد کر دیا۔ مصری عدالت نے تیز ی سے سماعت مکمل کی، سابقہ صدر کو سزائے موت، دوسرے مقدمے میں بیس سال قید اورتیسرے مقدمے میں تین سال کی قید کی سزا سنائی۔ ان کی موت کی سزا تو اپیل کے بعد ختم کر دی گئی مگر دوسری سزاہیں بحال رہیں۔

کمرہ عدالت میں موت سے قبل محمد مرسی، جن کی تین بیویاں، چار بیٹے اور ایک بیٹی ہے، کو چھ سال تک اس طرح قید تنہائی میں رکھا گیا کہ ان کے خانداں کے کسی فرد کو ان سے ملنے کی اجازت نہ تھی۔ان کے خلاف ملک کے اندر زبردست پروپیگنڈہ مہم شروع کی گئی۔ جس کے مطابق وہ غیر ملکی ایجنٹ، مصر کا غدار، جیلوں کو توڑ کر اپنے حامی آزاد کرانے والا، قانون اور آئین کو نہ ماننے والا، دہشت گردوں کا حامی، ملکی راز دوسرے ملکوں میں افشا ء کرنے والااور قاتل بتایا گیااور ملک کی فوج، عدلیہ اور اداروں کا دشمن ظاہر کیا گیا۔ ایمنسٹی والوں کا کہنا ہے دوران اسیری، ملک کے سابقہ صدر کو سونے کے لیے ننگا فرش میسر رہا۔ ان کا قرآن مہیا کرنے کا مطالبہ رد کر دیا گیا۔ان کے دونوں بھائیوں اور مصر میں موجود ان کے بیٹوں (دو بیٹے امریکی شہری ہیں)سمیت کسی کو بھی ان چھ سالوں میں ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی۔موت کے بعد جیل کے ہسپتال کے لان میں مرسی کے بیٹون کو جنازہ پڑہنے کی اجازت دی اور فوج نے اپنی نگرانی میں میت کو دفنا دیا۔

سید قطب کے بعد اخوان کے ہاں محمد مرسی طویل عرصہ تک یاد رکھے جائیں گے۔ البتہ ان کی سیاسی زندگی، قصر صدارت تک رسائی اور پھر بے کسی کی موت تاریخ کا حصہ ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق اس وقت محمد مرسی کے چالیس ہزار حامی جیلوں میں بند ہیں۔

ملکوں میں بٹی امت مسلمہ، ملکوں کے اندر سیاسی طور پر تقسیم در تقسیم مسلمان، شائد ابھی تک اس حقیقت کا ادراک نہیں کر پائے ہیں کہ جنگ جاری ہے۔ سابقہ امریکی صدر بش سینٗرکے الفاظ میں یہ جنگ امریکہ سے دور ممالک میں لڑی جارہی ہے ۔اس جاری جنگ کی نوعیت پر ایک مصری اخبار نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا مرسی، احمق ہی نہیں بے وقوف بھی ہے اس اخبار کا اشارہ اس ڈیڑھ بلین ڈالر کی طرف تھا جو امریکہ مصری فوج کو ہر سال وعدوں کو پورا کرنے کے عوض ادا کرتا ہے۔
 

Dilpazir Ahmed
About the Author: Dilpazir Ahmed Read More Articles by Dilpazir Ahmed: 135 Articles with 169446 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.