کرپشن سماجی ناصور

پاکستان ایک اسلامی جمہوریہ ہے ۔ہجرتِ مدینہ کے بعد پاکستان کا قیام دوسری بڑی ہجرت ہے ۔ یہ ملک عطیہ خدواندی ہے ۔ منشائے الہٰی ہے ، بشارت ِ رسول ؐ ہے ، 26-27رمضان المبارک1366ھ لیلۃ لقدر کے روح پرور منظر میں اس کا قیام اس کی روحانیت کا زندہ ثبوت ہے۔پاکستان کو درپیش مسائل سے تو آپ سب واقف ہی ہیں لیکن دیگر اہم مسئلوں کی طرح ایک اہم مسئلہ کرپشن بھی ہے یا یوں کہیں کہ دہشتگردی کے بعد دوسرا بڑا اور اہم ترین مسئلہ کرپشن ہے۔ کرپشن ایک ایسا مرض ہے جس کا علاج ممکن ہے مگر پاکستان میں اسے لاعلاج سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے معاشرے کا ہر دوسرا شخص اس بیماری میں مبتلا ہے۔ بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناحؒ ؒ کے وصال کے بعد دولت کے پُجاریوں کا ایک گروہ شیطانیت کا لبادہ اوڑھ کر اپنا اُلو سیدھا کرنے میں مصروف ہوگیا۔1947ء سے بدعنوانی نے پاکستان میں پہلے گھونسلہ بنایا اور پھر اپنا مسکن ہی تیار کر لیا۔1947ء کے بعد سے اب تک اینٹی کرپشن کے ایکٹ بنے ، شعبہ جات قائم ہوئے ، کم از کم30 مرتبہ کسی نہ کسی حوالے سے کرپشن کے خلاف اقدامات کا آغاز ہوا۔یکم نومبر1991ء میں ایک جامع قانون NAB(National Accountability Bureau)نفاذ ہوا ۔قومی احتساب بیورو نے نامساعد حالات میں بہت سے بد عنوان عناصر کا پوسٹ مارٹم کیا ۔ اس ادارہ نے کرپشن کے پَھن پھیلائے اژدھا کو قابو میں لانے کی کوشش شروع کی۔نیب نے کرپشن کے خلاف شعور بیدار کرنے ،کرپشن روکنے اور کرپشن کو قوت کے ساتھ ختم کرنے کی بھرپور جدوجہد کی۔ الحمدللہ!سیاسی دبائو کے باوجود نیب نے کئی مگر مچھ قابو کر کے اُن کے حلق سے قومی دولت نکلوانے میں کامیابی حاصل کی۔
پاکستان کرپشن کی دلدل میں گھرا ہوا ہے۔ اعلیٰ درجے کے سیاستدان کسی نہ کسی طرح کرپشن کی زد میں ہیں۔ سیاسی رہنما کرپشن کے خلاف تقریریں تو کرتے ہیں لیکن کرپشن کی وجوہات پر بات نہیں کرتے اور نا ہی اس کے خاتمے کے لئے کردار ادا کرتے ہیں۔ ہر سیاسی جماعت میں کرپٹ لوگ موجود ہیں اور اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ اکثر کچھ حلقوں کی جانب سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ کرپشن کے ذمہ دار صرف اور صرف سیاستدان ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ چند سیاسی رہنماؤں نے کرپشن کے ریکارڈ قائم کررکھے ہیں مگر صرف سیاستدانوں پر ملبہ ڈال کر ہم اس مرض سے چھٹکارا حاصل نہیں کر سکتے۔

کرپشن کو ام الخبائث کہا جاسکتا ہے، کیونکہ بے بہا برائیاں اس کی کوکھ سے جنم لیتی ہیں، کرپشن اعلیٰ اقدار کی دشمن ہے جو معاشرے کو دیمک کی طرح اندر سے چاٹ کر کھوکھلا کردیتی ہے۔ یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ قوموں کی تباہی میں مرکزی کردار ہمیشہ کرپشن کا ہی ہوتا ہے، یہ کسی بھی صورت میں ہو، جس قوم میں جتنی زیادہ کرپشن ہو گی، وہ قوم اتنی ہی جلدبربادی کے گڑھے میں جاگرتی ہے، اگر کسی قوم کے رگ وپے میں کرپشن سرایت کرجائے تو وہ اپنی شناخت وساخت اور مقام و مرتبے سے یوں ہاتھ دھو بیٹھتی ہے، جیسے کوئی بلند مقام کبھی اس قوم کو ملا ہی نہیں تھا ۔کرپشن کینسر کی مانند خطرناک اور سماج کو سماجی موت سے ہمکنار کرنے والا بھیانک مرض ہے، جس معاشرے کو لگ جائے اس معاشرے کی بربادی یقینی سمجھیں۔ کرپشن معاشرے میں ایک اچھوت مرض کی طرح پھیلتی ہے اور زندگی کے ہر پہلو کو تباہ کرکے رکھ دیتی ہے، جس طرح آکاس کی زرد بیل درختوں کو جکڑ کر ان کی زندگی چوس لیتی ہے، اسی طرح اگر ایک بار کرپشن کسی صحت مند و توانا معاشرے پر آگرے تو ایک ادارے سے دوسرے ادارے کو جکڑتی چلی جاتی ہے، حتیٰ کہ ہر چیز زرد ہو جاتی ہے اور آباد اور کامیاب اداروں میں کچھ عرصے بعد الو بولنا شروع ہو جاتے ہیں، یہاں تک کہ معاشرے کی اخلاقی صحت کے محافظ ادارے بھی کرپشن کا شکار ہو کر رہزن بن جاتے ہیں، جتنی زیادہ انٹی کرپشن کمیٹیاں یا ادارے بنائیں، اسی قدر کرپشن کے ریٹ زیادہ ہو جاتے ہیں۔

اب تو ہر شعبے اور ادارے میں کرپشن اپنے عروج پر پہنچ گئی ہے۔ ہر صحافی کرپٹ نہیں مگر اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ صحافی بھی کرپٹ ہوتے ہیں، جو اپنے ذاتی مفادات کے لئے کرپٹ سیاسی رہنماؤں کو سپورٹ کرتے ہیں، ان کی طرف داری کرتے ہیں اور کچھ اینکرپرسن تو یوں گفتگو کرتے ہیں جیسے وہ کسی سیاسی جماعت کے ترجمان ہوں اس کے پیچھے بھی ان کے مفادات ہوتے ہیں اور ایسے اینکرز اور صحافیوں کو آپ بھی جانتے ہیں۔ ہم وزیروں مشیروں کو تو کرپٹ کہتے ہی ہیں مگر میرے نزدیک کرپشن کی جڑ بیوروکریسی ہے۔ ہر سرکاری ملازم کرپٹ نہیں مگر اکثریت کرپٹ ملازمین کی ہے۔ کسی بھی ادارے میں چلے جائیں خواہ وہ صوبائی حکومت کے ماتحت ہو یا وفاقی حکومت کے آپ اپنے جائز کام کے لئے اس وقت تک بھٹکتے رہیں گے جب تک آپ کسی سے جوڑ توڑ نا کرلیں۔ بڑے افسران کی بات تو اپنی جگہ اگر کسی نائب قاصد یا چپڑاسی سے بھی واسطہ پڑ جائے تو جب تک چائے پانی کے نام پر رشوت نہیں لے گا آپ کے معمولی مسئلے کو بھی کھینچتا رہے گا۔ یہ بھی سچ ہے کہ لوگ برتھ/ڈیتھ سرٹیفیکیٹ، نکاح نامہ وغیرہ بنوانے کے لئے بھی رشوت نا دیں تو یونین کونسل آفس میں بیٹھے ملازمین آپ کا جائز کام کرنے میں ٹال مٹول کرتے ہیں۔

2016ء ’’پانامہ لیکس‘‘ نے رہی سہی کسر پوری کر دی ہے ۔ چھوٹی عدالتوں سے پریم کورٹ تک پانامہ کا تذکرہ زبانِ زدِ عام ہے ۔ دنیا کے کئی ممالک کے اہم ترین چہروں کے پیچھے چھپے دولت کے انبار بے نقاب ہو چکے ہیں۔ پاکستان میں بھی میڈیا ، جلسے جلوس اور اخبارات و جرائد نے شائع ہونے والی خبروں سے اندازہ کیا جاسکتاہے کہ ہم کرپشن کی کن حدود کو چھو چکے ہیں۔ محکمہ انسدادِ رشوت ستانی نے اپنے دائرہ کار کے مطابق کرپشن کے سامنے بند باندھنے کی بھرپور کوشش کی ہے ۔ کئی ایماندار افسر کلمۂ حق بلند کرنے کی پاداش میں پسِ تصویر جا چکے ہیں۔ ایمانداری سے کام کرنا مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں ہے ۔ پاکستان میں اللہ تعالیٰ کی تمام نعمتیں موجود ہیں لیکن اُس کا استعمال درست نہیں۔ مجموعی طور پر ہم احسان فراموشی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ پاکستان نعمتِ خداوندی ہے ۔ ہم اس نعمت کو خود غرضی اور لالچ کے تیشہ سے زخمی کر رہے ہیں۔ ہر فرد ملت کے مقدر کا ستارہ ہے ۔ فرد سے قوم بنتی ہے ۔ اگر ہر فرد اپنا احتساب کرتا رہے تو کبھی بگاڑ پیدا نہیں ہو سکتا۔ بدقسمتی سے ہمیں قائداعظم کے بعد اپنے ملک میں قائد نظر نہیں آئے بل کہ حکمران میسر آئے ہیں۔

حضرت عبداللہ بن عمرر ضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”رشوت لینے اوردینے والے پراللہ کی لعنت برستی ہے“۔(رواہ ابن ماجہ)

ایک دوسری حدیث میں اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : رشوت دینے والا اور لینے والا دونوں آگ میں ہیں۔
 

Zunair Ali
About the Author: Zunair Ali Read More Articles by Zunair Ali: 4 Articles with 3170 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.