کلاس نہم کے سالانہ امتحانات میں 15 دن باقی تھے۔ گھر کے
صحن میں بیٹھا فزکس کی تیاری کر رھا تھا ۔ ابو جی بھی صحن میں بیٹھے دھوپ
سے لطف اندوز ھو رھے تھے۔ گلی سے اچانک آواز آئی۔۔۔ پکوڑے نے، تازے نے،
کرارے نے، آلوواں والے نے، میتھی والے نے میسو ودیا۔
آواز سننتے ہی للچائی ہوئی نظروں سے ابو جی کی طرف دیکھا ۔ ابو جی مسکراۓ
اور مجھے 20 روپے دیے۔ میں پکوڑے لے کر گھر واپس آگیا ۔ پکوڑے کھاتے کھاتے
میرے اور ابو جی کے مابین مکالمہ شروع ہو گیا۔
میں:- پہلی کلاس سے دیکھ رہا ہوں ہوں یہ بابا جی پکوڑے بیچ رہے ہیں آخر
کتنی دیر ہوگئی انہیں یہ کام کرتے۔
ابو جی :- جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے تب سے ہی ان کو دیکھ رہا ہوں لیکن
اب پہلے کی نسبت کافی ضعیف ہو چکے ہیں۔
میں:- کیا اولاد نہیں بابا جی کی؟ ابو جی:- دو بیٹے ہیں
میں:- وہ کوئی کام یا جاب وغیرہ نہیں کرتے؟؟
ابوجی:- کیوں نہیں کرتے،ایک لاھور میں پراپرٹی کا کاروبار کرتا ہے اور
دوسرا سرکاری ملازم ہے
میں:- تو پھر بابا جی ان کے ساتھ کیوں نہیں رہتے۔۔ ناراض ہیں اپنے بیٹوں سے
کیا؟؟
ابو جی:- نہیں نہیں کوئی باپ اپنے بیٹوں سے ناراض نہیں ہوتا۔
میں:- تو پھر اس عمر میں بھی کیوں مزدوری کر رہے ہیں بابا جی
ابو جی:- یہ بابا جی کا گاؤں اور اپنے پیشے سے عشق کا منہ بولتا ثبوت ھے کہ
وہ اس عمر میں بھی اپنے بیٹوں کی محبت، کمائی اور لاھور کی رنگینوں کو
بالاۓ طاق رکھتے ہوۓ آج بھی پکوڑے بیچ رہے ہیں ۔۔ خیر چھوڑو اور یہ بتاؤ کہ
کیا تم نے بھی کسی سے ایسا عشق کیا ہے ؟؟
میں:- ( تھوڑا شرما کر اور گردن جھکا کہ بولا) جی اردو والی میڈم (صائمہ )سے
پھرپکوڑوں میں وہ لذت نہ رہی |