بسم اﷲ الرحمن ارحیم
مشرقی پاکستان کے مرکزی شہرڈھاکہ کی یونیورسٹی میں ایک نوجوان عبدالملک
مجاہد نے اسلامی نظام تعلیم کے نفاذ میں ایک زبردست تقریر کی،وہ جیسے ہی
باہر نکلے توعوامی لیگ کے سیکولرغنڈوں نے انہیں ڈنڈے مارمارکر شہید
کردیا۔اس وقوعے پر اس وقت مفکراسلام سیدابوالاعلی مودودی ؒ نے تبصرہ کرتے
ہوئے کہاکہ یہ پہلی شہادت ضرور ہے،آخری نہیں۔محمدمرسی عیسی العیاط،منتخب
جمہوری صدرریاست اسلامیہ مصرکاعدالتی وانتظامی قتل بھی اسی قبیل سے ہے۔امت
مسلمہ دراصل شہادوں کاایک طویل اور جاری و ساری سفرہے۔انبیاء علیھم السلام
سے تاسیس پزیرسرفروشان حق کایہ فاقلہ تاقیامت رواں دواں رہے گااور خون
شہادت دین اسلام کے شجرسایہ دارکو ہمیشہ سے ہمیشہ تک سرسبزوشاداب رکھے
گا۔وادی مکہ سے بدرواحداور کربلاکے سنگلاخ صحرائی سفرکے راستے تقسیم
ہنداوراس کے بعد اکیسویں صدی کی خون آشام دہلیزتک قربانیوں کی ایک طویل تر
داستان ہے جس میں جام شہادت نوش جاں کرکے حیات جاودانی حاصل کرنے والے ان
گنت خوش نصیب ہیں جواپنی مراد پاگئے۔تصویرکادوسرارخ یہ ہے کہ قاتلین بھی
ہمیشہ تواس دنیامیں نہیں رہے اور نہ ہی رہیں گے۔آج انہوں نے اپنے ہاتھوں سے
ایک راسخ العقیدہ مجاہداسلام کو آگے روانہ کردیاہے توکل ان کی بھی باری
تیارہے۔اﷲتعالی کے حضورسب کی پیشی لازمی ہے اور عدالت اخری میں دارومحشرسب
سے پہلے قتل کے مقدمات کی سماعت فرمائے گا،جہاں ہرہرمقتول اپنے قاتل کو
گریبان سے پکڑکرعادل مطلق کے سامنے پیش کرے گااور عرض کرے گا اے بارالہ،آپ
نے تومجھے حق زندگی عطاکیاتھالیکن اس ظالم نے مجھے اس حق سے محروم کردیا۔اس
آخری عدالت کا فیصلہ کہیں بھی چیلنج نہیں ہوسکے گا اس کے نفاذ کے راہ میں
کوئی رکاوٹ بھی حائل نہیں ہوسکے گی۔
شہیدمحمدمرسی عیسی العیاط بھی ان خوش بختوں میں سے ہیں جن کے مقدرمیں کاتب
تقدیرنے شہادت کااعلی و ارفع مقام لکھ دیاتھا۔اقامت دین کا اقرار اور
استقامت واستقلال کاجرم انہیں اس مقام تک لانے کاباعث
بنا۔8ــ․اگست1951کوشمالی مصر کے ’’العدوہ‘‘نامی گاؤں میں پیداہوئے۔ان کے
والد ایک کاشتکارتھے اور والدہ محترمہ ایک گھریلو خاتون تھیں۔یہ بھی ایک
تاریخی حقیقت ہے کی جس بڑے انسان کی تاریخ کھولواس کی ماں معمولی پڑھی لکھی
اور گھریلو خاتون ہوتی ہے۔آج تک شاید کسی اعلی تعلیم یافتہ اورمشہورومعروف
خاتون کے کسی بچے نے کوئی کارہائے نمایاں سرانجام نہیں دیے ۔شہیدمرسی پانچ
بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔انہوں نے ایک بار صحافیوں کو بتایاتھا کہ سکول
سے واپسی پر انہیں گدھے کی سواری میسرہواکرتی تھی۔ایساشاید دیہاتی ماحول کے
باعث تھا۔1975تا1976انہوں نے مصری فوج کے ایک کیمیائی ہتھیاروں والے دستے
میں عسکری نوعیت کی خدمات بھی سرانجام دیں۔اس کے بعد انہوں نے دوبارہ اپنی
تعلیمی مصروفیات کاتسلسل جاری کرلیااور جامعہ قاہرہ سے انجینرنگ کے اندر
1978ء میں ایم فل سطح کی سند حاصل کرلی۔اعلی تعلیمی کارکردگی کی
بنیادپرانہیں حکومت مصرنے امریکہ میں ڈاکٹریٹ کے لیے منتخب کرلیا۔انہوں نے
سرکاری اخراجات پر امریکہ میں یونیورسٹی آف ساؤدرن کیلیفورنیاسے 1982ء میں
ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرلی۔تعلیمی کامیابی کایہ ایک شاندار سفر تھا۔ایک عام
سے گاؤں میں جنم لینے والا معمولی کاشتکارکا بیٹا جدیددنیاؤں کی بہترین
یونیورسٹی سے تعلیم کی اعلی ترین سند کامستحق قرارپاجائے،یہ بہت بڑے
اعزازکی بات ہے۔ہزاروں بلکہ لاکھوں میں کوئی ایک آدھ طالب علم ہی اتنی بڑی
ذہنی وعلمی قابلیت کاحامل ہوتا ہے جو بلاشبہ پوری قوم کا قیمتی اثاثہ
ہوتاہے ۔ایسے نوجوان قبیلے کی آنکھ کاتارا ہوتے ہیں اوراپنے ملک و قوم کے
لیے باعث عزت وافتخارہوتے ہیں۔
تعلیم و تدریس انبیاء کی میراث ہے۔دنیامیں نام پیداکرنے والی اکثریت اسی
شیوے سے متعلق رہی ہے۔شہیدمحمدمرسی نے بھی فراغت تعلیم کے بعد اسی میدان
کاحسن انتخاب کیا۔وہ امریکہ میں ہی کیلیفورنیااسٹیٹ یونیورسٹی میں 1982ء
سے1985ء تک تدریسی فرائض سرانجام دیتے رہے۔اس دوران وہ اپنی اعلی ترین پیشہ
ورانہ خدمات کے اعتراف کے طور پر عالمی شہرت یافتہ خلائی تحقیقاتی ادارے
ناسا(National Aeronautics and Space Administration )میں بھی کام کرتے رہے
،جو دنیابھرمیں بہت بڑی عزت افزائی سمجھی جاتی ہے۔اس ادارے سے معمولی تعلق
کی اسناد کو بھی اپنے گھرکے دیوان خانے میں سجاکر رکھاجاتاہے تاکہ ہرآنے
جانے والا اس کا مشاہدہ کرے اور اس کے حامل کا قد مزید بلند ہو چکے۔تین سال
کی پیشہ ورانہ خدمات کے بعد شہید مرسی پر حب الوطنی کاجذبہ عود کر آیااور
وہ مصر لوٹ آئے۔یہاں ’’جامعہ الزقازیق‘‘میں تدریسی فرائض سرانجام دیتے
رہے۔’’زقازیق‘‘مصرکے مشرقی صوبے کاایک شہر ہے۔یہاں وہ صدرشعبہ انجینئرنگ کی
حیثیت سے تعینات ہوئے اور 2010ء تک یہیں پر اپنے فرائض منصبی اداکرتے
رہے۔تعلیمی اور پیشہ ورانہ زندگی سے انسان کی ذہنی اپچ کا اندازہ بخوبی
لگایا جاسکتاہے۔پوری دنیا میں کتنے فیصد لوگ ہیں جو چکاچوندروشنیوں کے
ملکوں سے اپنے تیسری دنیاکے پسماندہ معاشروں میں لوٹ آتے ہیں۔شہیدمرسی کے
بارے می بآسانی اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ جب روشن مستقبل ،پیسے کی چمک اور
لذت نفسانی کے بے پناہ سامان میسرہوں تب بھی ان کو پاؤں کی ٹھوکر پر رکھ کر
اپنی ارض وطن کی طرف لوٹ آنا کتنی بڑی قربانی ہے۔انسانوں کی حقیقی قیادت
کایہی سچاتاریخی معیار واحد ہے کہ کون کتنی قربانی دے سکتاہے۔قربانیوں کی
سیڑھیوں سے قیادت کی سیڑھیاں چڑھی جاتی رہتی ہیں۔جوقیادتیں قربانی کے علاوہ
کسی اور راستے سے منصب اقتدارتک پہنچتی ہیں مورخ کاقلم انہیں راہزن
قراردیتاہے اور بعد کی نسلیں ان پر لعنتیں بھیجتی رہتی ہیں۔جن افراد کو
طشتری میں رکھ کر منصب قیادت پیش کیاجاتاہے یاجو موروثی قیادت کے حامل ہوتے
ہیں ان سے ان کی قوموں کو استحصال محض ہی حاصل ہوتاہے۔مصر اوروطن عزیز سمیت
کل امت مسلمہ کی تاریخ اس امرحقیقی پر شاہد ہے۔
محمدمرسی شہیدکویہ اعزازحاصل ہے کہ اج تک کی مصری تاریخ میں وہ اپنے ملک کے
واحد منتخب صدر ہیں۔اس سے پہلے 2000ء سے2005ء تک کی مصری پارلیمان میں بھی
آزاد منتخب رکن کی حیثیت سے شامل رہے۔آزاد رکنیت کی وجہ یہ تھی کہ مصرکے
غیرمنتخب استبدادی صدرحسنی مبارک نے ’’اخوان المسلمون‘‘پرپابندی لگائی
تھی۔پانی جب اپنی منزل کی طرف بڑھتاہے تو کوئی رکاوٹ اس کاراستہ نہیں روک
سکتی،پانی کہیں بلندہوکر تو مشرق کے راستے سے اور کہیں مغرب کی طرف منہ کر
نیچے سے سرنگ بناکر اور تمام بندتوڑ کر اپناراستہ خود بناتاہے اور
چلتارہتاہے۔مسلمان دنیاکے کم و بیش تمام حکمرانوں نے اسلامی نظریاتی عوامی
سیل رواں کاراستہ روک کر باطل قوتوں اور شرپسند طاقتوں کو خوش کرنے کی کوشش
کی ہے لیکن ہنوز وہ اپنے مقصدمیں بری طرح ناکام ہیں۔اسی طرح ’’اخوان
المسلمون‘‘نے بھی نام بدل کر عوامی حمایت سے اپنے اکران کو پارلیمان تک
پہنچایا۔ ان میں سے ایک شہیدمحمدمرسی بھی تھے۔رکن پارلیمان کی حیثیت سے
انہوں نے قومی و بین الاقوامی حالات پر بہت ٹھوس،جامع ،مدلل اور جرات مند
موقف اپنایا۔خاص طورپر امریکہ میں عالمی مرکزتجارت کے اوپرگیارہ ستمبرکے
حملوں پر ان کے بیانات کو بہت وزن دیاگیاتھا۔یہ وہ وقت تھا جب امریکہ
بہادرکاجلال اپنی بلندیوں کوچھورہاتھا اور دنیاکی بڑی بڑی حکومتیں بھی
امریکہ کی مخالفت سے گریزاں تھیں،لیکن اس وقت قوت ایمانی والے اس رکن مصر ی
پارلیمان نے کھل کر بیانات دیے کہ مزکورہ وقوعہ محض تیارشدہ ایک خودساختہ
سازش کانتیجہ ہے ۔انہوں نے اسی وقت یہ پیشین گوئی بھی کردی تھی کہ صہیونی
طاقتیں امریکہ کے اس واقعے کو بنیاد بناکر امت مسلمہ کے خلاف ایک عسکری
محاذکھولناچاہتی ہیں۔ان کی مخالفت اس حدتک حقائق پر مبنی تھی کہ عالم عرب
کے اخباروں نے اور دیگرصحافتی اداروں نے اسے شہ سرخیوں کے ساتھ بیان کیا جس
کے جواب میں امریکہ کو اپنا دفاع کرنا مشکل ہو گیا۔چنانچہ امریکی دباؤ پر
مصری حکومت نے شہیدمحمدمرسی کو ’’اخوان المسلمون‘‘کے چوبیس دیگرافراد کے
ہمراہ گرفتارکر لیااورانہیں قیدخانے میں ڈال دیاگیا۔ان پر ناجائزمقمات
بنائے گئے اور عقوبات داررورسن ان پرروارکھی گئیں۔
2012ء میں جب مصر میں صدارتی انتخابات ہوئے تو’’اخوان المسلون‘‘نے
’’محمدخیرت سعدالشاطر‘‘کو اپنا صدارتی امیدوار نامزدکیا۔یہ مضبوط ایمان اور
باکردارمصری راہنما تھے لیکن مصرکی سپریم کونسل آف آرمڈ فورسز(Egyptian
Supreme Council of the Armed Forces)نے ان کو انتخابی عمل کے لیے نااہل
قراردے دیا۔اس نااہلی کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن اول و آخر ایک ہی وجہ
سمجھ میں آتی ہے کہ محمدخیرت ایک اسلامی ذہن کے راہنما تھے اور فوج کاغالب
عنصر سیکولرذہن کاحامل تھا۔حالانکہ فوج کا جمہوری معاملات میں دخل اندازی
کا کوئی جواز نہیں ہے۔یہ تواچھاہوا کہ ’’اخوان المسلمون‘‘نے ایک متبادل
امیدوار کی حیثیت سے محمدمرسی کا نام دیاہواتھا،جو انتخابات میں اسلام پسند
قوتوں کے نمائندی کی حیثیت سے سامنے آئے۔’’صفوت حجازی‘‘جو مصر کامعروف نام
تھا،انہوں نے کھل کر محمدمرسی کی حمایت کی۔صفوت حجازی مصری ٹیلی ویژن پر
مبلغ کی حیثیت سے بہت مشہور تھے اور پورے مصرمیں امام کی حیثیت سے جانے
پہچانے اور مانے جاتے تھے اور مصری قوم کے ہاں کی رائے بہت بڑاوزن رکھتی
تھی۔بعدازاں انہیں بھی اس شہادت حق کے جرم میں پابندسلاسل کردیا
گیاتھا۔تائیدایزدی اور بے پناہ عوامی حمائت کے نتیجے میں 24جون2012ء کو
محمدمرسی کی صدارت کاباضابطہ اعلان کردیاگیا۔ایک جمہوری حکمران کے طورپر
اپنی قومی ذمہ داراں سنبھالتے ہی انہوں نے اپنی جماعتی ذمہ داریوں سے
مستعفی ہونے کااعلان کردیا۔عوام کے ببہت بڑے جم غفیر نے مصرمیں قاہرہ کے
اندر عالمی شہرت یافتہ ’تحریرچوک‘‘کے اند راس کامیابی پر اﷲتعالی کے
شکرکاجشن منایا۔صدرمرسی نے اپنے ابتدائی خطاب اور اولین بیانات میں کہاکہ
وہ آئین کے پابندرہیں گے اوراپنی فکر کو زبردستی عوام پر نہیں ٹھونسیں
گے،انہوں نے کہا کہ غیرمسلم بھی اس ملک کت اسی طرح شہری ہیں جس طرح کہ میں
ایک شہری ہوں
اور غیرمسلموں کو مذہبی آزادی کا یقین بھی دلایا۔
کفروشرک کا حق کے ساتھ نباہ ناممکنات عالم میں سے ہے۔یہ دونوں طاقتیں ازل
سے تاامروز ستیزہ کار ہیں۔مصر جیسے ملک میں ایک اسلامی ذہن کے فرد کا
اقتدارمیں آجانا سیکولراستعمار کے لیے ناقابل برداشت ہوگیاتھا۔’’جمہوریت
‘‘کے نام پر سیکولرقوتوں نے دنیامیں ڈھونگ رچارکھاہے۔انہیں صرف اپنے مفادات
کا تحفظ چاہیے،اپنے سودی معاشی نظام کی بڑھوتری چاہیے اور دنیابھرکے وسائل
پرناجائز غاصبانہ قبضہ چاہیے۔اس کے لیے انہیں جمہوریت کاراگ الاپنا پڑے تو
بھی ٹھیک ہے اوراگر آمریت کی سرپرستی کرنی پڑے تو بھی رواہے اور خاندانی و
موروثی سیاست کی پزیرائی کرنی ہوتو بھی فبھا۔عالمی جمہوری ٹھیکیداروں نے
مصرکے اندرجمہوری صدر کے خلاف سازشوں کے جال بننا شروع کر دیے ۔عبداﷲبن ابی
کاکردارپہلے دن سے اسلامی ریاست کے ساتھ لگارہاہے۔اس منافق کی نسل سے پرورش
پانے والے کرداربڑی کم قیمت پراپنے ملک و قوم و ملت حتی کہ اپنے ایمان کو
بھی فروخت کردیتے ہیں۔چنانچہ دشمن کو بہت سہولت سے مسلمانوں کے اندر یہ
کردارمیسر آجاتے ہیں۔خاص طورپر دورغلامی کے بعد سے غداری کایہ ادارہ بہت
متحرک ہوچکا ہے۔جن ملکوں میں سیکولرجمہوریت رائج ہے وہاں پردشمن کو چندسکوں
کے عوض یہ کردار بہت جلدی میسرآجاتے ہیں۔کچھ یہی صورتحال مصرمیں بھی ہوئی۔
صدرمحمدمرسی بہت محتاط اندازسے عوامی حمایت کے ساتھ آئین کے مطابق چلتے
رہے۔انہوں نے معیشیت،خارجہ اموراورفلسطین سمیت دیگرحکومتی صیغوں کی اصلاح
کی طرف خصوصی توجہ دی۔بہت جلد نتائج بھی برآمدہوناشروع ہو گئے۔خاص طورپر
مسئلہ فلسطین اپنے فطری حل کی طرف سرعت سے بڑھنے لگا۔بڑی واضع سی بات ہے کہ
فسلسطین کامسئلہ باقی رہنے میں اسرائیل کی بقاہے جب کہ مسئلہ فلسطین حل ہو
جانے کی صورت میں اسرائیل کو فناہے۔امریکہ سمیت کل صہیونی طاقتوں کو
مسرکااسلام دوست صدر بری طرح کھٹکنے لگاکہ مسئلہ فلسطین کے ناطے ان کے حلق
تک صدرمرسی کاہاتھ پہنچنے والا تھا۔عالمی طاقتوں نے حسب معمول مصری فوج کو
بڑی آسانی سے استعمال کرتے ہوئے صدر مرسی کے گرد گھیراتنگ کرنا شروع کر
دیا۔عوام کی بہت بڑی تعداد اپنے دل پسند صدرکی حمایت میں سڑکوں پر نکلے اور
ہفتوں تک بیٹھے رہے۔یہ رمضان کے بہت سخت گرمی کے ایام تھے جب فجر کی نماز
کے دوران حالت سجدہ میں موجود مظاہرین پر مصرکی سیکولر فوج نے اپنے ٹینک
چڑھادیے اور بیسیوں فرزندان توحید چشم زدن میں فوجی ٹنکوں کی گھومتی ہوئی
آہنی سلاخوں سے لپٹ کر جام شہادت نوش کر گئے۔یہ مسلمان ملکوں کی سیکولر
افواج کا کردارہے،کہیں تو ہیلی کاپٹرسے مظاہرین پر گولیاں چلادی جاتی ہیں
توکہیں اپنی قوم کے افراف کو پکڑ پکڑ کر دشمنوں کے حوالے کر دیاجاتاہے اور
یہاں حالت سجدہ میں ٹینک چڑھادیے گئے۔بلآخرحکومت پر فوج نے قبضہ
کرلیااورجولائی 2013ء کو منتخب صدر کو پس دیوار زنداں دھکیل دیاگیا۔
عدالتی استحصال کا ایک طویل دورشروع ہوا۔سیکولرفوجی استبداد،جس میں انسانیت
نام کو نہ ہو اس سے عدل و انصاف کی توقع کرنا کارعبث ہے۔قسم قسم کے نت نئے
الزامات لگائے گئے ،فرضی مقدمات میں ملوث کر کے عدالوں سے اپنی مرضی کے
فیصلے حاصل کیے گئے ۔قیدخانے میں ان کے ساتھ جو سلوک کیاگیااس کا کسی طرح
کا بھی اندازہ غلط نہیں ہوسکتا۔سیکولرفکر دراصل انسانیت سے عاری ہے۔چھ سات
سالوں کے دوران صدر مرسی پر دخت پابندیاں رہیں اور ان پر کمرہ عدالت میں
بھی عدالتی آزادیوں پر قدغن تھی۔17جون2019ء کو مصرکے ریڈیونے اچانک خبر دی
کی کمرہ عدالت میں صدرمرسی بے ہوش ہوگئے اور پھران کی وفات کی خبر نشر کردی
گئی۔روایات کے مطابق سابق صدرکی آخری رسومات سرکاری طورپراداکی جانی چاہیے
تھیں،لیکن ان کا جنازہ تک نہیں دکھایاگیا۔ان کے اہل خانہ میں سے صرف دو
یاتین افراد کو ان کاآخری دیدارکرایا گیااور نہایت مجرمانہ خاموشی سے انہیں
کہیں دفن کردیاگیا۔ساری دنیاکا میڈیا،جمہوری آزادیوں کی تنظیمیں،انسانی
حقوق کے علمبرداراور اقوام متحدہ سمیت کل سیکولرعناصر مطلقاََخاموش ہیں،صرف
ترکی کے صدر طیب ارزگان نے کچھ سخت الفاظ استعمال کرکے مصری حکومت کے خلاف
بیان دیاہے۔صدرمرسی کی حیات و ممات دونوں سیکولرازم کو بے نقاب کرگئے۔اﷲ
تعالی انہیں غریق رحمت کرے اور ان کی شہادت قبول کرے اور امت مسلمہ کوان کا
بہترین نعم البدل عطا کرے آمین۔ |