اردو پاکستان کی قومی زبان ہے جس طرح پاکستان ایک دن میں
وجود میں نہیں آیا بلکہ یہ کئی سالوں پر محیط ان تھک کوششوں اور بے مثال
قربانیوں کا حاصل ہے اسی طرح ہماری قومی زبان اردو بھی ایک دن میں وجود میں
نہیں آئی یہ برصغیر میں مسلم حکمرانوں کے عروج کی وہ یادگار ہے جو آج بھی
اپنی تمام تر خوبصورتی اور تمکنت کے ساتھ زندہ و تابندہ ہے -
اردو اپنی موجودہ شکل میں مغلیہ عہد میں فارسی، ترکی، عربی اور برصغیر کی
مقامی زبانوں کے اختلاط سے وجود میں آئی مغلوں کے عروج کا زمانہ، اردو کے
عروج کا زمانہ بھی ہے، اردو اور مغلیہ حکومت کا سفر یکساں رفتار سے جاری
رہا، اردو کا ترقی کی طرف اور مغل دربار کا تنزل کی طرف۔۔انیسویں صدی کے
نصف آخر میں جب مغل حکومت دم توڑ رہی تھی اردو اپنے بام کمال کو پہنچ چکی
تھی حتی کے مغل حکومت کے آخری بادشاہ بہادر شاہ ظفر بھی صاحب دیوان شاعر
تھے۔ اردو کی اس ترقی میں نا صرف مسلمان بلکہ ہندو بھی برابر کے شریک تھے
لیکن ۱۸۵۷ کی جنگ آزادی کے بعد جب حکمران قوم نے مسلمانوں کے قومی اور
مذہبی تشخص کو بری طرح پامال کیا اور مسلمانوں کے دور عروج کی ہر یادگار کو
حقیر اور کمتر ثابت کر نے کی کوشش کی گئی تو متحدہ ہندوستان کا مشترکہ ورثہ
"اردو" بھی بیرونی حملوں سے محفوظ نہ رہی۔
اور تعجب کی بات تو یہ ہے کہ وہ ہندو جو اردو کی ترقی میں برابر کے شریک
تھے انہی کی طرف سے اردو کش تحریکیں چلائی گیئں۔ ۱۸۶۷ میں بنارس سے اردو کے
خلاف تحریک کا آغاز ہوا، اردو جسے ہندو "ہندوستانی" یا "ہندی" زبان کا نام
دیتے تھے اس میں سے عربی الاصل الفاظ نکال کر سنسکرت کے الفاظ شامل کئے گئے
اور ہندووں کی طرف سے گورنر کیپمبل پر اردو کی بجائے "دیوناگری ہندی" کو
عدالتی اور سرکاری زبان کا درجہ دینے کے لیے دباو ڈالا گیا مسلمانوں کی
مخالفت کے باوجود ظالم اکثریت کا یہ مطالبہ قبول کر لیا گیا، اور یہی وہ
پہلا موقعہ تھا جب سر سید احمد خان نے ہندو مسلم اتحاد سے مایوس ہو کر دو
قومی نظر یہ پیش کیا۔
اردو زبان کے تحفظ کے لیے "اردو ڈیفنس ایسوسی ایشن" بنائی گئی۔اردو کے تحفظ
کے لیے قراردادیں منظور کی گیئں۔ بعد ازاں قیام پاکستان کے لیے مسلم قوم کو
متحد کر نے کے مسلم رہنماوں نے اردو کو ہی ذریعہ بنایا۔
قیام پاکستان کے بعد قائداعظم نے متعدد بار پاکستان کے دستور میں اردو کو
قومی زبان کا درجہ دینے کی پیشن گوئی کی، اردو کی یہ پزیرائی مشرقی پاکستان
کے ہندو گروہ کو پھر پسند نہ آئی بنگالی کو قومی زبان بنانے کے لیے جلوس
نکالے گیے ہڑتالیں کی گیئں کرفیو نافذ ہوئے اگرچہ بعد میں اردو کے ساتھ
بنگالی کو بھی قومی زبان کا درجہ دینے کا مطالبہ مان لیا گیا، لیکن لسانی
بنیادوں پر بوئے گیے ان فسادات نے ملکی سیاست پر ایسے تباہ کن اثرات ڈالے
جن کا نتیجہ آخر کار مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور بنگلہ دیش کے قیام کی
صورت میں ظاہر ہوا۔
اردو زبان کی بقاءکے لئے ہمارے اسلاف نے بے شمار قربانیاں دیں عظیم تر
خسارے سے دوچار ہو نا پڑا لیکن اردو کی سالمیت پر آنچ نہیں آنے دی، اور جو
کام ہمارے دشمن سے کئی دہائیوں میں نہ ہو سکا تھا وہ گذشتہ چند سال میں ان
کے میڈیا نے کر دیکھایا، آتما، شانتی، شبھ مہرت، وچن جیسے کئی خالص ہندی
سنسکرت کے الفاظ ہماری روز مرہ بول چال کا حصہ بنتے جا رہے ہیں، آخر ہم
اپنے دشمن کے ان لسانی واروں سے اتنے بے خبر کیوں ہیں؟، آیئے ہم آج سے عہد
کریں کہ ہم اپنی آئندہ نسلوں کو ان کے اسلاف کی کوششوں اور قربانیوں سے
آگاہ کریں گے اور اپنے وطن اور قومی زبان کو ویسی ہی عزت اور محبت دیں گے
جس کا خواب ہمارے قائد محمد علی جناح نے دیکھا تھا۔
|