حجتہ الاسلام ---- حقانیتِ اسلام پر ایک خوبصورت تحریر

حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی رحمة اﷲ علیہ کا اسمِ گرامی علمی حلقوں میں تعارف کا محتاج نہیں ہے، یہ کہنے میں کوئی مبالغہ نہیں ہے کہ آج برصغیر پاک و ہند میں جہاں جہاں علمِ دین کی کوئی کرن نظر آتی ہے، وہ زیادہ تر اسی آفتابِ علم کا پرتو ہے، بحرِ حکمت کے اس شناور کو اﷲ نے جو علوم و معارف عطا فرمائے تھے ان کی نظیر اس آخری دور میں خال خال ہی ہے، اس مردِ با خدا نے اُس زمانے میں ہندوستان کے اندر حق کا آوازہ بلند کیا تھا جب وہاں حق کے پرستاروں کے لئے دار کے تختے لٹکے ہوئے تھے۔

انہوں نے اپنی زندگی میں تلوار کا جہاد بھی کیا، قلم کا بھی اور زبان کا بھی اور آخر میں دیوبند کے اندر ”دارالعلوم‘ کے نام سے ایک ایسا چشمہ فیض جاری کردیا جس نے ایک عالم کو سیراب کیا۔ رحمہ اﷲ تعالیٰ رحمة و اسعة

”حجة الاسلام“ حضرت نانوتویؒ کی وہ تصنیف ہے جسے آپ نے چوبیس گھنٹے کی ایک فرصت میں قلم برداشتہ تحریر فرمایا تھا، اصل میں یہ ایک تقریر تھی جو آپ نے چانداپور کے میلہ خدا شناسی کے لئے لکھی تھی، یہ میلہ 1876 ءکو انگریزوں نے عیسائیت کی ترویج کیلئے ضلع شاہجہاں پور کے ایک رئیس پیارے لال کبیر منتھی کو آلہ کار بنا کر منعقد کیا تھا اور اس میں ہر مذہب والے کو اپنے مذہب کی تشریح کی دعوت دی گئی تھی، انگلستان کا ایک شعلہ بیان مقرر پادری نویس اس میلے کا کماندار اعلیٰ تھا۔

اس میلے کی دلچسپ روداد”میلہ خدا شناسی“ کے نام سے الگ چھپ چکی ہے، مختصر یہ کہ حضرت مولانا نانوتوی رحمة اﷲ علیہ اپنے دلائل کے زور، ایمان کی قوت اور اندازِ بیان کی سحر انگیزی سے اس پورے میلے پر اس طرح چھا گئے تھے کہ غیر مسلموں نے بھی آپ کو اس میلہ کا فاتح قرار دیا۔

حضرت نانوتویؒ کو اس مجلس میں شرکت کا دعوت نامہ عین وقت پر پہنچا تھا، اور آپ نے ایک دن ایک رات میں بیٹھ کر یہ تقریر لکھی تھی۔ ”میلہ خدا شناسی“ میں تو آپ نے تمام تقریر زبانی ہی فرمائی، لیکن یہ تقریر بعد میں دارالعلوم دیوبند سے ”حجة الاسلام “ کے نام سے شائع ہوئی۔

اس تقریر کو بلا شبہ ”دریا بکوزہ“ کہا جاسکتا ہے، اس میں حضرت نانوتویؒ نے تقریباً تمام اسلامی عقائد کو مختصر مگر دِل نشین اور مستحکم دلائل کے ساتھ اس خوبصورتی سے بیان فرمایا ہے کہ اس کا ایک ایک صفحہ عقل اور دِل کو بیک وقت اپیل کرتا ہے، خدا کے وجود، توحید ، اولاد سے بے نیازی، اِبطالِ تثلیث، مسئلہ تقدیر، جبر و قدر، عباداتِ بدنی و مالی کے فلسفے، اِثباتِ رسالت و عصمتِ انبیائ، شفاعت، اِبطال کفارہ، مدارِ نبوت، معجزات، اعجازِ قرآن، تحقیقِ نسخ، معجزہ شقِ قمر، حلتِ گوشت، حرمتِ مردار، طریقہ ذبح اسلامی، ان میں سے ہر ایک مسئلے پر اس تقریر میں مدلل کلام موجود ہے، دلائل اتنے واضح کہ عقل مطمئن ہوتی چلی جائے، اور اندازِ بیان اتنا دِل نشین کہ براہ راست دِل پر اثر انداز ہو، ایک ایک سطر سے مصنف کا یہ یقین اور اعتماد ٹپکتا ہے کہ اسلام ہی دینِ حق ہے۔ مصنف رحمہ اﷲ کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ دقیق فلسفیانہ باتوں کو گرد و پیش کی خارجی مثالوں سے اس طرح واضح فرماتے ہیں کہ وہ دِل میں اُترتی چلی جاتی ہیں،”خدا کا کوئی بیٹا نہیں ہوسکتا“ اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”اپنے گھر اگر بندر یا سور کی شکل کا لڑکا پیدا ہو جائے تو کس قدر رنجیدہ ہوں کہ الٰہی پناہ! حالانکہ بندر اور سور اور آدمی، اور بھی کچھ نہیں تو مخلوق ہونے اور کھانے پینے اور بول و براز میں تو شریک ہیں، اور خدا کے لئے ایسی اولاد تجویز کریں جس کو کچھ مناسبت ہی نہ ہو۔ تم ہی فرماﺅ کہ جو شخص کھانے پینے کا محتاج ہو، بول و براز سے مجبور ہو، اس میں اور خدا میں کون سی بات کا اشتراک ہے جو خدا کا بیٹا یا خدا کہتے ہو؟ “

انبیاءکی ضرورت اور ان کے معصوم ہونے کو کس لطیف پیرائے میں بیان فرماتے ہیں: ”بادشاہانِ دُنیا اس تھوڑی سی نخوت پر اپنے ہی بنی نوع سے نہیں کہتے، دُکان دُکان اور مکان مکان پر کہتے نہیں پھرتے ، مقربانِ بارگاہ ہی سے کہہ دیتے ہیں، وہ اوروں کو سنا دیتے ہیں، اور بذریعہ اشتہارات و منادی اعلان کرا دیتے ہیں، خداوندِ عالم کو ایسا کیا کم سمجھ لیا ہے کہ وہ ہر کسی سے کہتا پھرے، وہاں بھی یہی ہوگا کہ اپنے مقربوں سے اور خواصوں سے فرمائے اور وہ اوروں کو پہنچائیں، ایسے لوگوں کو اہلِ اسلام انبیاء اور پیغمبر اور رسول کہتے ہیں۔

لیکن دُنیا کے تقرب اور خواصی کے لئے سراپا اطاعت ہونا ضرور ہے، اپنے مخالفوں کو اپنی بارگاہ میں کون گھسنے دیتا ہے؟ اور مسندِ قرب پر کون قدم رکھنے دیتا ہے؟ اس لئے یہ ضرور ہے کہ وہ مقرب جن پر اسرار و مافی الضمیر آشکار کئے جائیں یعنی اُصول اَحکام سے اطلاع دی جائے، ظاہر و باطن میں مطیع ہوں، مگر جس کو خداوندِ علیم و خبیر بااعتبارِ ظاہر و باطن مطیع و فرمانبردار سمجھے گا۔ اس میں غلطی ممکن نہیں، البتہ بادشاہانِ دُنیا موافق و مخالف و مطیع و عاصی و مخلص و مکار کے سمجھنے میں بسا اوقات غلطی کھا جاتے ہیں .... مگر خدا تعالیٰ کی درگاہ کے مقرب بوجہ عدمِ امکانِ غلط فہمی ہمیشہ مطیع و مقرب ہی رہیں گے، نظر بریں یہ لازم ہے کہ انبیاءمعصوم بھی ہوں“۔

اعجازِ قرآن کریم پر گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”علاوہ بریں عبارتِ قرانی ہر کس و ناکس رند بازاری کے نزدیک بھی اسی طرح اور عبارتوں سے ممتاز ہوتی ہے جیسے کسی خوش نویس کا خط بد نویس کے خط سے، پھر جیسے تناسبِ خد و خال معشوقان اور تناسبِ حروف خطِ خوش نویسان معلوم ہو جاتا ہے اور پھر کوئی اس کی حقیقت اس سے زیادہ نہیں بتا سکتا کہ دیکھ لو یہ موجود ہے، ایسے ہی تناسبِ عبارتِ قرآنی .... ہر کسی کو معلوم ہو جاتا ہے، پر اس کی ”حقیقت“ اس سے زیادہ کوئی نہیں بتلا سکتا کہ دیکھ لو یہ موجود ہے“۔

معجزہ ”شقِّ قمر“ پر بطلیموسی یا جدید فیثاغوری فلکیات کی رو سے جو اعتراضات ہوسکتے تھے اس پر مفصل اور فاضلانہ گفتگو کے بعد اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے کہ:”کوئی صاحب فرماتے ہیں کہ اگر انشقاقِ قمر ہوا ہوتا تو سارے جہان میں شور پڑ جاتا، تاریخوں میں لکھا جاتا “ تحریر فرماتے ہیں: ”علاوہ بریں طلوعِ قمر کے تھوڑی دیر کے بعد یہ قصہ واقع ہوا، اس لئے کہ جبلِ حرا کے دونوں ٹکڑوں کے بیچ میں حائل ہو جانے کا مذکور ہے، اس صورت میں ممالک مغرب میں تو اس وقت تک عجب نہیں طلوع بھی نہ ہوا ہو اور بعض مواقع میں عجب نہیں کہ ایک ٹکڑا دوسرے ٹکڑے کی آڑ میں آگیا ہو اور اس لئے انشقاقِ قمر اس جا پر محسوس نہ ہوا ہو، ہاں! ہندوستان میں اس وقت ارتفاعِ قمر البتہ زیادہ ہوگا اور اس لئے وہاں اور جگہ کی نسبت اس کی اطلاع کا زیادہ احتمال ہے، مگر جیسے اس وقت ہندوستان میں ارتفاعِ قمر زیادہ ہوگا ویسا ہی اس وقت رات بھی آدھی ہوگی اور ظاہر ہے اس وقت کون جاگتا ہوتا ہے۔

سوا اس کے ہندوستانیوں کو قدیم سے اس طرح توجہ ہی نہیں تھی کہ تاریخ لکھا کریں، باایں ہمہ تاریخوں میں واردہے کہ یہاں کے ایک راجہ نے ایک رات یہ واقعہ بچسمِ خود دیکھا تھا“۔

یہ ”مشتے نمونے از خردارے“ ہے، پوری کتاب کا حال یہی ہے کہ اسے پڑھ کر دِل کو اطمینان کی دولت میسر آتی ہے اور قلب و دماغ کے دریچے کھلتے ہیں، کتاب مجموعی طور پر عام فہم ہے لیکن بعض جگہ دقیق مباحث بھی آگئے ہیں....

کتاب کے شروع میں شیخ الہند حضرت مولانا محمودحسن صاحب قدس سرہ کا ایک مختصر مقدمہ ہے جس میں کتاب کی تصنیف کا واقعہ مذکور ہے۔

بلاشبہ ”حجة الاسلام“ ایسی کتاب ہے کہ اسے گھر گھر پھیلنا چاہئے، مسلمانوں اور غیر مسلم دونوں طبقوں میں اس کی خوب نشر و اشاعت ہونی چاہئے، نیز ضرورت ہے کہ اس کتاب کے دوسری زبانوں بالخصوص عربی اور انگریزی میں ترجمے کئے جائیں....ہم اپنے قارئین سے اس کتاب کے مطالعے کی پُرزور سفارش کرتے ہیں۔

آخر میں بندہ پُرتقصیر مدثرجمال تونسوی عرض پرداز ہے کہ :الحمدللہ !حضرت مولانا صوفی عبدالحمید سواتی نوراللہ مرقدہ نے کافی عرصہ قبل اس کتاب کا خوبصورت عربی ترجمہ کردیاہے جو اُن کے ادارہ ” نشر واشاعت مدرسہ نصرت العلوم گوجرانوالہ“ سے شائع ہوچکا ہے۔ذوقِ عربیت رکھنے والوں کے لئے اس کا مطالعہ بہت مفید رہے گا۔

تحریر:شیخ الاسلام مفتی محمدتقی عثمانی حفظہ اللہ تعالیٰ
mudasser jamal
About the Author: mudasser jamal Read More Articles by mudasser jamal: 202 Articles with 343824 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.