بسم اﷲ الرحمن الرحیم
وسط ایشیائی ریاست کرغیزستان کے دارالحکومت بشکیک میں شنگھائی تعاون تنظیم
کی انیسویں سربراہی کانفرنس میں شرکت کے بعد پاکستان میں ہونے والے دو اہم
واقعات کی وجہ سے دنیا کی نظر ایک دفعہ پھر پاکستان پر مرکوز ہو چکی ہے۔
شنگھائی کانفرنس میں بھی پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم کی شرکت عالمی
میڈیا کی خصوصی توجہ کا مرکز رہے۔ اگرچہ اس موقع پر پاک بھارت وزرائے اعظم
کی ملاقات تو نہ ہوسکی تاہم روسی صدر ولادیمیرپوٹن اورعمران خان کی قربت
اورغیر رسمی گپ شپ پرنہ صرف عالمی میڈیا میں چہ میگوئیاں کی جاتی رہیں بلکہ
بھارت میں بھی مختلف قسم کے تنقیدی تبصرے ہوتے رہے ۔ اقتصادی ، سیاسی اور
سیکورٹی تعاون کے لیے 1996میں بنائے گئے اس فورم میں پاکستان اور بھارت کو
2017میں رکنیت دی گئی جبکہ اس سے پہلے یہ دونوں ممالک مبصر کی حیثیت سے
شریک ہوتے تھے ۔سربراہی اجلاس میں دہشت گردی سے نمٹنے کا معاملہ مرکزی نکتہ
کے طور پر سامنے رہا۔ کانفرنس کے اختتام پر جاری ہونے والے اعلامیہ میں بھی
دہشت گردی کو خصوصی طور پرمرکوز کیا گیا۔کانفرنس کے اعلامیہ میں دہشت گردی
کی ہر قسم کو مسترد کرتے ہوئے یہ بھی کہا گیا کہ دہشت گردی و انتہا پسندی
کو ختم کرنے کے بہانے دیگر ممالک میں مداخلت کو بھی کلی طور پر رد کیا گیا
بظاہر یہ اشارہ امریکی مداخلت کی جانب تھا کیونکہ عالمی سطح پر شنگھائی
تعاون کی تنظیم کو ایشیا میں امریکی ایجنڈے کے خلاف ایک مزاحمتی ردعمل کے
طور پر دیکھا جاتا ہے۔ کانفرنس کا بنیادی ایجنڈہ چونکہ علاقائی سیکورٹی سے
متعلق تھا اس لیے یہ گمان کیا گیا تھا کہ اس موقع پر پاک بھارت وزرائے اعظم
کی موجودگی سے دونوں ممالک کے تناؤ کو ختم کرنے کے لیے کوئی بریک تھرومتوقع
ہو سکتا ہے تاہم اس کے باوجود رسمی ہیلو ہائے سے بات آگے نہ بڑھ سکی ۔ اس
موقع پر حیرت انگیز طور پر وزیراعظم عمران خان کی تقریر سے مسئلہ کشمیر کا
ذکر غائب رہا جس پرپاکستانی حلقوں کی جانب سے بھی کسی قسم کا ردعمل سامنے
نہیں آیا جس سے بظاہر یہ محسوس ہو رہا ہے کہ اس موقع پر مسئلہ کشمیر کو
دانستہ نظر انداز کیا گیا تاکہ یہ فورم بھی پاک بھارت تناؤ کی نذر نہ ہو
جائے۔ وزیر اعظم عمران خان نے اپنی تقریر میں امن ، استحکام اور خوشحالی کے
لیے آٹھ نکاتی ایجنڈا پیش کرتے ہوئے کہا کہ جنوبی ایشیا میں ترقی و خوشحالی
کے لیے باہمی اختلافات کو ختم کرتے ہوئے امن بقائے باہمی کی بنیاد پر
اختلافات کو ختم کرنا ہوگا ۔ شنگھائی تعاون کی تنظیم علاقائی تعاون کے ساتھ
ساتھ تنازعات کے حل کے لیے بھی اپنا کردار ادا کرے ۔ افغانستان میں جاری
امن مذاکرات کے لیے روس اور چین کی کاوشوں کو بھی سراہتے ہوئے کہا کہ خطے
کی ترقی کے لیے افغانستان میں امن کا قیام بہت ضروری ہے ۔ بنیادی طور پر
وزیراعظم نے کانفرنس سے خطاب کے دوران ایک balanced approachکو اختیار کیا
۔ اسی پالیسی کے باعث بھارت کی جارحانہ پالیسی کو بھی بے نقاب کیا جو کشمیر
جیسے بڑے تنازعہ سے ہمیشہ چشم پوشی کرتا رہا ہے ۔ دوسری طرف مودی سرکار اور
بھارتی میڈیا کی جانب سے مسلسل پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کرنے اور دہشت
گردقرار دینے کی مستقل کوششوں کو بھی برح طرح دھچکہ لگا ہے اور پاکستان نے
اس محاذ پر بھارت کو بری طرح ناکام کیا ہے۔
بشکیک کانفرنس سے واپسی کے بعد بھارت کی جانب سے پاکستان کو مذاکرات کے لیے
کچھ مثبت اشارے بھی ملنا شروع ہو گئے ہیں ۔پاکستانی وزیراعظم نے بھارتی
وزیر اعظم نریندرامودی کو دوبارہ منتخب ہونے پر مبارکباد دیتے ہوئے لکھا
تھا کہ پاکستان کشمیر سمیت تمام تنازعات کاحل چاہتا ہے اور مذاکرات کے
ذریعے ہی تنازعات کو حل کرکے آگے بڑھا جا سکتا ہے اور جنوبی ایشیا میں غربت
و افلاس جو بڑا چیلنج بن چکا ہے اسے ختم کیا جا سکتا ہے ۔ سفارتی آداب کا
تقاضا تھا کہ بھارت اس خط کا جواب دیتا تاہم ایسا نہیں ہوا ۔ شاید یہ بشکیک
کانفرنس میں اسلام آباد ماسکو کے بڑھتی ہوئی قربتیں تھیں کہ بھارت اس خط کا
جواب لکھنے پر مجبور ہو گیا ۔جوں جوں روس پاک تعلقات میں بہتری آرہی ہے
بھارتی میڈیا میں نہ صرف پاکستان کے خلاف شرانگیزی بڑھ گئی ہے بلکہ بھارت
مجبور ہو رہا ہے کہ وہ پاکستان کی طرف ہاتھ بڑھائے ۔ پاکستان بھارتی ہٹ
دھرمی اور منفی رویے کے باوجود دونوں عالمی سطح پر ہر فورم میں دونوں ممالک
کے درمیان مکالمہ اور تعاون کے لیے سرگرداں رہاہے۔ پاکستان کی تمام تر توجہ
اس وقت اپنی معاشی صورتحال کو بہتر بنانے کی طرف ہے ۔ سی پیک معاشی بحران
سے نکلنے کی نہ صرف واحد امید ہے بلکہ یہ خطے کو جوڑنے کے لیے بھی ایک طویل
المیعاد منصوبہ ہے اور بدقسمتی سے اس خطے میں بھارت واحد ملک ہے جو چین کے
بیلٹ اینڈ روڈ کے منصوبے کی مخالفت کرتا نظر آتا ہے۔ یہ بات اظہر من الشمس
ہے کہ بھارت کی جانب سے پاکستان اور چین کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے بغیر
خطے میں ترقی کا عمل مکمل نہیں کیا جا سکتا اور شنگھائی تعاون تنظیم جیسا
فورم موثر نہیں ہو سکتا ۔
شنگھائی تعاون کی تنظیم کے بعد لاہور پراسس کے نام سے ہونے والی افغان امن
عمل کے لیے کانفرنس کا انعقاد تھا ۔ یہ اپنی نوعیت کی پہلی کانفرنس تھی جس
میں افغانستان سے 18سیاسی جماعتوں کے علاوہ مختلف گروپس کے چالیس سے زائد
نمائندے شامل ہوئے ۔ اس کانفرنس میں سابق وزیر اعظم اور حزب اسلامی کے
سربراہ گلبدین حکمت یار، اشرف غنی کے خلاف مضبوط سمجھے جانے والے صدارتی
امیدوارحنیف اتمر، کریم خلیلی ،احمد ولی مسعود ،محمد محقق اور عطامحمد نو ر
کی شرکت سے کانفرنس کی اہمیت مزید بڑھ گئی ۔ اگرچہ اس کانفرنس میں کچھ
سیکورٹی خدشات اور امریکہ کے ساتھ جاری مذاکرات کے باعث طالبان کے نمائندہ
شامل نہیں ہوئے تاہم اس میں کوئی دوسری رائے نہیں ہو سکتی ہے کانفرنس کا
اعلامیہ وہی ہے جس کے بارے میں طالبان رہنما مختلف فورم پر اظہارخیال کرتے
رہے ہیں ۔ یہ کانفرنس اس لحاظ سے بھی اہمیت کی حامل ہو چکی ہے کہ افغان صدر
اشرف غنی رواں ماہ کے اختتام پر پاکستان کو دورہ کررہے ہیں ۔ اس کانفرنس
میں جہاں افغان زعما ء نے پاکستان کی جانب سے افغان مہاجرین کی میزبانی پر
شکریہ ادا کیا وہیں پاکستان نے اس بات کا اعادہ بھی کیا کہ وہ افغانستان
میں امن کے قیام کے لیے اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔ یہ کانفرنس اس لیے بھی
اہمیت کی حامل رہی کہ طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کا آٹھواں دور
آئندہ ہفتے دوحہ میں شروع ہو رہا ہے۔فریقین کے درمیان ہونے والے گزشتہ سات
مذاکرات کا یہ تسلسل جنوبی ایشیا میں امن کے قیام کے لیے نہایت مثبت پیش
رفت ہے ۔
شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کے بعد امیر قطر کا دورہ پاکستان بھی
خارجہ پالیسی کی کامیابی کا مظہر ہے۔ یہ تمام مثبت اقدامات اس بات کا ثبوت
ہیں کہ موجودہ حکومت خارجہ پالیسی کے محاذ پر نہایت سنجیدگی اور تندہی کے
ساتھ کام کررہی ہے ۔وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اپنی ٹیم کے ہمراہ نہ صرف
جنوبی ایشیا میں اپنی اہمیت منوانے میں کامیاب ہو چکے ہیں بلکہ عالمی سطح
پر بھی پاکستان کو نمایاں مقام مل رہا ہے ۔سفارتی محاذ پر پاکستان کو ایک
طرف بھارتی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے مختلف چیلنجز کا سامنا ہے تو دوسری طرف
چین و روسی بلاک میں جانے کی جہ سے امریکہ کے ساتھ بھی تعلقات سرد جنگ کا
سامنا ہے ۔ اس موقع پر وزارت خارجہ کی انتھک محنتوں اور balanced approchکے
باعث پاکستان اس محاذ پر کامیابی کا سفر جاری رکھے ہوئے ہے ۔ اس پالیسی میں
تسلسل نہ صرف پاکستان علاقائی سطح پر نمایاں کردار ادا کرسے گا بلکہ عالمی
سطح پر بھی اپنی اہمیت منواسکے گا۔
|