ہم تو پہلے ہی لکھ لکھ کر تھک گئے ہیں کہ بھارت جنوبی
ایشیا میں ایک چڑیل کا روپ دھارچکاہے جو صرف مسلمانوں کے خون سے اپنی پیاس
بجھاتی ہے ہمارے کہے پر یقین نہ کرنے والے سیکولر بھارت کے لبادے میں چھپے
اصلی ہندوستان بارے یہ رپورٹ پڑھ لیں شاید ان کا ضمیرجاگ اٹھے
امریکہ نے مذہبی آزادیوں سے متعلق رپورٹ جاری کردی جس میں بھارت میں مذہبی
عدم برداشت کا گہرائی سے تجزیہ کیا گیا۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ
ہندوقوم پرست گروہوں نے بھارت کوباقی قومیتوں کیلئے تشدد اورخوف وہراس
پھیلانے والا ملک ثابت کیا۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ بھارت میں کئی
ریاستوں نے گاؤکشی کے خلاف قانون بنائے، ہندوانتہا پسندوں نے گائے ذبح کرنے
والے مسلمانوں پر تشدد کیا جب کہ بی جے پی مذہبی اقلیتوں کے ساتھ امتیازی
سلوک کر رہی ہے۔رپورٹ کے مطابق ہندوقوم پرست گروپوں نے بھارت میں غیر
ہندووں، دلتوں کے خلاف تشدد، دھمکیوں اور حراسگی سے کام لیا، حکومتی اور
غیر حکومتی دونوں عناصر اس میں ملوث رہے، تقریبا ایک تہائی ریاستی حکومتوں
نے غیر ہندووں کے خلاف مذہبی تبدیلی کے مخالف اور گائے کے ذبیح کے قوانین
پر عمل کیا، کئی نسلوں سے دودھ، چمڑے اور گوشت کے کاروبارمیں ملوث مسلمان
اور دلت تاجروں کے خلاف بلوائیوں نے حملے کئے جب کہ عیسائیوں کو زبردستی
مذہب کی تبدیلی پر مجبور کیا گیا۔رپورٹ کے مطابق گائے کے تحفظ کے نام پر
2017 میں دس سے زائد افراد کو ماردیا گیا، غیر ہندووں کو ‘‘گھر واپسی’’ کے
نام سے تقریبات میں زبردستی ہندو بنایا گیا، غیرملکی امداد سے چلنے والی
این جی اوزکوبھی مذہبی اقلیتوں کے خلاف استعمال کیا گیا، مذہبی آزادیوں کی
بدترین صورتحال دس ریاستوں میں بہت زیادہ دیکھنے کو ملی۔رپورٹ میں یہ بھی
کہا گیاہے کہ بی جی پی کا ہندو انتہا پسند گروپوں کے ساتھ الحاق ہے، بی جے
پی کے کئی اراکین نے مذہبی اقلیتوں کے خلاف امتیازی زبان استعمال کی،
اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ دو سالوں میں فرقہ ورانہ تشدد میں بہت تیزی سے
اضافہ ہوا اورمودی حکومت فرقہ ورانہ تشدد کے شکار اقلیتوں کو تحفظ دینے میں
ناکام رہی، مودی کی جماعت کے راہنماؤں کی بھڑکیلی تقریروں سے اقلیتوں کے
خلاف تشدد کو ہوا ملی جب کہ بھارتی ریاستی ادارے ان چیلنجوں سے نمٹنے میں
بری طرح سے ناکام رہے۔دوسری جانب امریکی رپورٹ میں مذہبی آزادیوں اورعدم
برداشت کے معاملہ پر بھارت کو درجہ دوئم میں رکھا گیا، بین الاقوامی
ریلیجئیس فریڈم ایکٹ کے تحت بھارت کو مخصوص تشویش والے ممالک کی صف میں
رکھا گیا ہے۔ بھارت نے اپنے ملک میں اقلیتوں خاص طورپرمسلمانوں پر اتنے ظلم
کئے ہیں کہ امریکیوں کے بھی ضمیرجاگ اٹھے ہیں اب انہوں نے بھارتی تعصب اور
مسلمانوں کے خون کی ہولی کھیلنے والوں کی خون سامی پر مہر ثبت کردی ہے ۔
اسی لئے بھارتی درندگی نے انسانیت سوزمظالم کے تمام ریکارڈتوڑدئیے ہیں اس
کی بدترین مثال مضبوصہ کشمیرہے جس میں گذشتہ پون صدی سے بھارتی سرکارنے قتل
و غارت گری کابازار گرم کررکھاہے گذشتہ دنوں بھی مقبوضہ کشمیر میں بھارتی
قابض فوج کی دہشت گرد کارروائیاں جاری رہیں۔ بھارتی فوج نے سرچ آپریشن کے
نام پر ضلع شوپیاں میں کیگام کے علاقے درمدورا میں گھر گھر تلاشی کا سلسلہ
شروع کیا اور اس دوران 4 کشمیری نوجوانوں کو شہید کردیا۔مقبوضہ وادی کی کٹھ
پتلی پولیس کے حکام نے ماورائے قانون قتل عام کی اس تازہ مثال کو چھپانے کے
لیے دعویٰ کیا ہے کہ چاروں افراد پولیس مقابلے میں مارے گئے۔ عوام میں
بڑھتے اشتعال اور علاقے کی صورت حال کو دنیا بھر میں ظاہر ہونے کے خوف سے
حکام نے ضلع بھر میں انٹر نیٹ سروس بند کردی ہے۔ ایک روز بیشتر بارہ مولا
میں اسی طرح کی ایک کارروائی میں ایک نوجوان کو شہید کیا گیا تھا۔ لیکن
چالاک بھارتی حکومت نے امریکی محکمہ داخلہ کی جاری کردہ مذہبی رپورٹ مسترد
کر تے کہا ہے کہ یہ رپورٹ قابل اعتماد نہیں ہے ، بھارت میں شہریوں کے حقوق
کو آئینی تحفظ حاصل ہے ،بھارتی آئین تمام شہریوں بالخصوص اقلیتوں کو بنیادی
حقوق کی ضمانت دیتا ہے اور بھارت کو اپنے سیکولر ہونے پر فخر ہے بھارتی
وزارت خارجہ کے ترجمان رویش کمار نے نے کہا ہے کہ یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ
بھارت ایک جمہوریہ ہے جہاں ملک کا آئین مذہبی آزادی کو تحفظ دیتا ہے اور
جہاں جمہوری حکومت کام کرتی ہے، قانون کی حکمرانی اور بنیادی حقوق کا تحفظ
کیا جاتا ہے۔ بھارتی وزیر خارجہ نے بھی رپورٹ مسترد کرتے ہوئے کہا کہ کسی
ملک کو ہمارے شہریوں کے بارے میں رائے قائم کرنے کا حق نہیں جہاں انہیں
آئینی تحفظ حاصل ہے۔یہ بات قابل ِ ذکرہے کہ رپورٹ کے مطابق بھار ت میں ایک
تہائی ریاستی حکومتوں نے گائے کے ذبح پر پابندی عائد کر رکھی ہے، گائے ذبح
کرنے کی جھوٹی اطلاع پر بھی مسلمانوں کو سرِعام تشدد کر کے قتل کیا گیا،
دودھ، دہی، چمڑے اور گوشت کے کاروبار سے وابستہ افراد پر تشدد ہوا، غیر
ہندوؤں کو 'گھر واپسی' نامی تقاریب منعقد کر کے زبردستی ہندو بنایا
گیا۔بھارت کی 10 ریاستوں میں اقلیتوں کیلئے حالات بدتر ہو چکے ہیں، بدترین
ریاستوں میں اتر پردیش، آندھرا پردیش، بہار، چھتیش گڑھ اور گجرات شامل ہیں
بہرحال عالمی سظح پربیداری کی جو لہر اٹھی ہے اس میں خودبھارتی شہری بھی
شامل ہوگئے ہیں بھارتی صحافی اور مصنفہ ارون دھتی رائے نے کہا ہے کہ مودی
سرکار کی نفرت آمیز پالیسیوں کے باعث بھارت میں انتہا پسندی خطرناک حد تک
بڑھ گئی ہے اور انہی متنازعہ پالیسیوں کے باعث کشمیر میں بھی حالات خراب
ہوئے۔ الجزیرہ کو انٹرویو میں کہا کہ فوجی طاقت کا استعمال مسئلہ کشمیر کا
حل ہے اور نہ ہی کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے۔ اس مسئلے کو وہاں کی عوام پر
چھوڑ دیا جائے۔ بھارت میں کسان، عدالتی نظام، تاجر اور طلباء سب پریشان
ہیں، کوئی بھی حکمران جماعت کی کارکردگی سے مطمئن نہیں۔ تاہم بھارتی
انتخابات ذات پات کی پیچیدگیوں میں جکڑے ہوئے ہیں اس لیے نتائج کچھ بھی
ہوسکتے ہیں۔ بھارت میں انتہا پسند ہندوؤں نے مسلمانوں کو کاروبار اور عبادت
کرنے کے حق سے محروم کرنے کے بعد جینے کا حق بھی چھین لیا ہے۔ امریکی اخبار
نے بھارت کی اندرونی حقیقت بتاتے ہوئے مزید لکھا کہ بھارت میں مودی حکومت
آنے کے بعد مسلمانوں کیلئے مسائل میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوا‘ گائے کے
تحفظ کے نام پر بھی انتہا پسند ہندو بے لگام ہیں۔ گوشت کا کاروبار مسلمانوں
کیلئے ناممکن بنا دیا گیا ہے۔ دکانیں زبردستی بند کرانا اور گوشت لے جانے
کے شبہ میں مسلمانوں کو وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنانا معمول بن چکا ہے ان
حالات میں نریندرمودی پھر اقتدار میں آگئے تو بھارتی مسلمانوں کا جینا
اجیرن ہوجائے گا خدا خیر کرے۔ ویسے مودی جیسے مخبوط الحواس شخص کی حرکتیں
ہی ایسی ہیں اسی لئے سیکولر بھارت کے چہرے سے نقاب سرک رہاہے ایک دن آئے گا
جب بھارتی سرکار پوری طرح بے نقاب ہوجائے گی ایک طرف مقبوضۃ کشمیر میں
جنوبی ایشیاء میں بدترین ریاستی جبرکے ذریعے وہاں کی مسلمان آبادی کے
بنیادی حقوق صلب کرلئے گئے تو دوسری جانب خود بھارت میں اقلیتوں بالخصوص
مسلمانوں اور سکھوں کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کیا جارہاہے دنیا کے باضمیر
لوگ سیکولر بھارت کا چہرہ بے نقاب کرتے رہیں گے۔
|