کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان اس وقت معاشی لحاظ سے
انتہائی بدترین دور سے گزر رہا ہے۔ ماضی کی حکومتیں ہوں یا موجودہ، معاشی
بحران میں سب نے حصہ ڈالا۔ اس حوالے سے اگر صرف ماضی کی حکمران جماعتوں کو
مورد الزام ٹھہرایا جائے تو یہ ناانصافی ہوگی، کیونکہ کل جو جماعتیں
اپوزیشن میں تھیں، آج اقتدار میں ہیں، اگر اپوزیشن میں ہوتے ہوئے اپنا مثبت
کردار پارلیمنٹ میں رہ کر ادا کرتیں اور حکومتی اقدامات کو زیر بحث لاتیں
تو آج جن مشکلات کا ذکر کرتے ہیں، شاید اس کا موقع نہیں آتا۔ پارلیمنٹ میں
فرینڈلی اپوزیشن کے تصور نے کئی خرابیوں کو جنم دیا، جس کے مضر اثرات سے
پوری معیشت متاثر ہوئی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کو اقتدار جیسے تیسے ملا،
اُس وقت بھی یہی مشورہ دیا گیا تھا کہ پی ٹی آئی ماضی کی جارحانہ سیاست
چھوڑ کر اپوزیشن کے ساتھ مساوی و قابل برداشت رویہ اختیار کرے اور انہیں
اعتماد میں لے، لیکن وہ پہلی بار الیکٹیبلز کی مدد سے برسراقتدار آئی تھی،
اپنے منشور کے برخلاف معاشی گرداب میں دھنستی چلی گئی، اگر یوں کہا جائے تو
غلط نہ ہوگا کہ اب حکومت کو لوہے کے چنے چبانے پڑرہے ہیں۔ بڑے بڑے دعووں کے
غباروں سے ’’ہوا‘‘ تو 100روزہ ہنی مون پیریڈ میں ہی نکل چکی تھی۔ حکومت
چلانے کے لیے برداشت، تدبر اور حکمت عملی کی ضرورت ضد سے زیادہ ہوتی ہے۔
حکومت نے ضد کی راہ اختیار کی، شاید اس کے کئی اراکین کی خام خیالی ہو کہ
ان کو ’’کوئی‘‘ کچھ نہیں کہہ سکتا تو ایسا کبھی ملکی تاریخ نہیں ہوا، مضبوط
سے مضبوط یہاں تک کہ دو تہائی سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے والی حکومتیں بھی
ریت کی دیوار ثابت ہوتی رہی ہیں، اس لیے سب سے پہلے اس خوش فہمی کو نکال
دینا چاہیے کہ موجودہ حکومت جو ریلوکٹوں کے دَم پر قائم ہے، اُسے کچھ
’’نہ‘‘ ہوگا۔
انہی صفحات پر بارہا مشورہ دیا جاچکا کہ حکومت اپوزیشن کے ساتھ محاذ آرائی
کے بجائے پارلیمانی رویہ اختیار کرے۔ سیاست میں کوئی چیز حرف آخر نہیں
ہوتی، یہ بات خود وزیراعظم عمران خان اپنے مشہور زمانہ کئی ’یوٹرنز‘ سے
ثابت بھی کرچکے۔ ہم نے اسے پسپائی کے بجائے حسن ظن کا مظاہرہ کرتے ہوئے
’’رجوع‘‘ سمجھا کہ جذبات میں دیے گئے بیانات سے اگر وزیراعظم نے رجوع
(یوٹرن) کرلیا تو اچھی بات ہے۔ اس میں کوئی برائی نہیں، لیکن اپنی غلطی پر
ڈٹ جانا تمسخر کا سبب بنتا ہے۔ یہ مشورہ بھی دیا گیا تھا کہ وزیراعظم زبانی
تقریر کے بجائے لکھی ہوئی تقریر پڑھا کریں، لیکن وزیراعظم نے اپنے مشیر و
وزراء کی تجاویز کو بھی نہ جانے کیوں مسترد کردیا اور پھر وہی ہوا، جس کا
خدشہ تھا اور ’’زبان پھسلنے‘‘ کے کئی واقعات جگ ہنسائی کا سبب بنے۔ یہاں تک
کہ اسلامی تاریخ کے حوالے سے کم علمی یا درست الفاظ کے چناؤ میں بے احتیاطی
سے کروڑوں مسلمانوں کی دل آزاری بھی ہوئی۔ وزیراعظم کی قسمت اچھی ہے کہ
مذہب کے نام پر سیاست میں ان کے خلاف ماضی والا رویہ اختیار نہیں ہوا، ورنہ
عمران خان بخوبی جانتے ہیں کہ مذہب کے نام پر اٹھنے والی احتجاجی لہر کو
کوئی سیاسی جماعت نہیں روک سکتی۔
پارلیمنٹ میں عوامی ووٹ کی بے توقیری کا تسلسل تواتر کے ساتھ جاری ہے اور
حکومت کی جانب سے سنجیدگی کا عنصر کم نظر آیا، بلکہ ایسا محسوس ہوتا رہتا
ہے کہ اپوزیشن دراصل، حکومتی ڈیسک پر بیٹھی ہے اور حکومتی اراکین اپوزیشن
کا کردار ادا کررہے ہیں۔ ان حالات میں جب اپوزیشن کی جانب سے میثاق معیشت
کے لیے پیش کش کی گئی تو اسپیکر قومی اسمبلی نے عمران خان سے ملاقات کرکے
حمایت بھی حاصل کرلی، لیکن بدقسمتی سے وزیراعظم کے نادان دوستوں نے ایک بار
پھر اسے ’’این آر او‘‘ سے تعبیر کرکے مثبت سیاسی ماحول کی راہ میں روڑے
اٹکادیے۔ پی پی پی کی جانب سے میثاق معیشت کی تجویز بروقت و سنجیدہ تھی،
لیکن جب نادان دوستوں نے اس کی غلط تعبیر کی یا اپنے تئیں اس کا مطلب این
آر او سمجھا تو پاکستان مسلم لیگ (ن) نے بھی موقع ملتے ہی میثاق معیشت کو
مسترد کردیا، کیونکہ اس کے بعد (ن) لیگ کی لڑکھراتی جارحانہ سیاست کو وقفہ
لگ جاتا، سیاسی تنہائی کا شکار ہوجاتی اور حکومت کی جانب سے پھر کسی بڑی
غلطی کے بعد ہی وہ متحرک ہوسکتی تھی۔
اس وقت اپوزیشن جماعتوں کے پاس سب سے بڑا ٹرمپ کارڈ حکمران جماعت کی ناکام
معاشی پالیسیاں ہی ہیں، جنہیں درست کرنے کے لیے وزیراعظم نے اپنے سابق
بیانات و دعووں سے واپسی کی راہ (یوٹرن) اختیار کی، لیکن معاشی سمت اب بھی
درست نہیں۔ ان حالات میں اپوزیشن کی جانب سے احتجاج و حکومت مخالف تحریک
معاشی پہیوں کو چلانے میں مزید مشکلات پیدا کریں گی۔ پاکستان کو اس وقت
سرمایہ کاروں اور اوورسیز پاکستانیوں کا اعتماد درکار ہے، تاکہ زرمبادلہ
میں اضافہ ہو، ڈالر کی قیمت میں کمی و روپے کی قدر میں استحکام آئے، لیکن
یہ اُس وقت ہی ممکن ہوسکتا ہے جب تک معاشی سرگرمیوں کو آکسیجن نہ ملے۔ کسی
بھی ملک میں پُرامن اور پائیدار سیاسی ماحول ہی سرمایہ کاری کے لیے سازگار
سمجھا جاتا اور سرمایہ کاروں کے اعتماد میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔ مستقبل
میں کسی غیر متوقع حالات سے خائف سرمایہ کاری کافی دشوار طلب ٹاسک ہے۔
سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر کی جانب سے اربوں ڈالرز کی سرمایہ
کاری کی مفاہمتوں پر دستخط تو ہوچکے، لیکن تاحال ان پر عملی کام شروع نہیں
ہوا۔ حکومت قرضوں اور ٹیکسوں سے امور مملکت چلارہی ہے۔ معاشی استحکام کے
دعوے ریت کی دیوار ہیں۔ اس لیے وزیراعظم اپوزیشن کے ساتھ بیٹھ کر مملکت کو
درپیش معاشی مشکلات سے اُسے باہر نکال سکتے ہیں۔ نادان دوستوں کے مشوروں کو
ضرور سنیں، لیکن زمینی حقائق کو بھی مدنظر رکھیں کہ اس وقت سیاسی مخالفت پر
ملکی بقا و سلامتی مقدم ہے۔ احتسابی نظام کی خرابیوں کو دُور کرکے اسے تمام
جماعتوں کے لیے قابل قبول بنائیں، میثاق معیشت کے لیے اگر آپ کو دو قدم
پیچھے ہٹنا ہے تو یہ سیاسی شکست نہیں بلکہ ملک کو درپیش صورت حال کے لیے
احسن اقدام ہوگا۔ کل جو کام کرنا ہے، اگر آج ’’برابری‘‘ کی سطح پر کرلیا
جائے تو یہ زیادہ مناسب ہوگا۔ راقم کا کبھی یہ مقصد نہیں رہا کہ ملکی خزانہ
لوٹنے والے کوئی بھی ہوں، انہیں ’’معاف‘‘ کردیا جائے۔ وزیراعظم نے جس کمیشن
کا اعلان کیا ہے، اس سے انہیں متوقع نتائج ملنے کی امید کم رکھنی چاہیے۔ اس
وقت میثاق جمہوریت میں شمولیت نہ سہی میثاق معیشت کے تحت وزیراعظم حالات کی
سنگینی کو سمجھیں تو کوئی بعید نہیں کہ انہیں حکومت چلانے کے لیے ’’سازگار
ماحول‘‘ مل جائے۔ جب بڑی بڑی جنگوں کا حل مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر نکل
سکتا ہے تو سیاسی محاذ آرائیوں کا حل اس کے ذریعے کیوں نہیں نکل سکتا۔
|