امریکی بہانہ سازی بہت پرانی ہو چکی ہے اب کوئی بھی ذی
شعور امریکہ کے کسی بھی بہانے پر یقین کرنے کو تیار نہیں۔ کیوبا۔ اسپین،
ہیٹی، ویتنام، عراق افغانستان، لیبیاء وہ کونسا ملک ہے جو امریکی بدمعاشی
کا شکار نہ رہا ہو اور وہاں پر لاکھوں بے گنا ہ انسانوں کو نہ مارا گیا ہو
اور انکی املاک کو کھنڈرات میں تبدیل نہ کیا گیا ہو۔ اس جنگی جنون کی اصل
کہانی اقتصادی اور معاشی اجارہ داری کو قائم کرنا ہے تاکہ پوری دنیا امریکہ
کے زیر نگیں ہو اور وہ اپنی پالیسیوں کو لاگو کرنے میں ا ٓزاد ہو۔پوری دنیا
کی اکانومی ڈالر اور تیل پر انحصار کرتی ہے۔ امریکہ جان بوجھ کر اپنی معیشت
کو مضبوط کرنے اور اپنے اسلحے کی فروخت کیلئے مختلف ممالک میں غیر یقینی کی
صورتحال پیدا کرنے اور ہیجان پیدا کرنے کیلئے خود خطے کے حالات کو خراب کر
تا ہے اور پھر وہاں پر اپنے مقاصد حاصلکرنے کیلئے وہاں جنگ مسلط کر دیتا
ہے۔امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب ایک پلاننگ کے تحت طالبان، القاعدہ اور
داعش کی صورت میں ایران پر حملہ کرکے ہمارے خطے کے حالات کو خراب کرنے کے
درپے ہیں۔ جو انتہائی خطرناک کھیل ہوگا اس کھیل میں پاکستان اور خطے کے
ممالک بھی مبتلا ہو جائینگے جو خطے کیلئے خطرناک ہوگا۔ امریکی بحری بیڑے کی
خلیج فارس میں موجودگی انتہائی خطرے کا باعث ہو سکتی ہے اور کسی بھی وقت
امریکہ بہانہ بنا کر اس خطے کو جنگ میک دھکیل سکتا ہے۔ اس خطے کے ممالک کو
ہوشیا ر رہنے کی ضرورت ہے۔سعودی عرب امریکہ کے اشاروں پر چلتا ہے۔ اسی طرح
سعودی عرب اندرون خانہ اسرائیل سے گٹھ جوڑ کئے ہوئے ہے۔ امریکہ شام، یمن،
لیبیاء اور دوسرے ممالک میں خانہ جنگی کرواتا ہے انکے علاقوں پر ائر سٹرائک
کر کے وہاں کے ہسپتالوں اسکولوں اور گھروں کو تباہ و برباد کرتا ہے اور
معصوم بچوں او ر بے گناہ لوگوں کو مارتا ہے مگر عالمی برادری اس ظلم پر
خاموش ہے انکے خلاف گھیرہ تنگ کر کے وہاں پر اقتصادی پابیندیاں عائد کرتا
ہے۔ جس سے انکی معاشی او ر اقتصادی حالت ابتر ہے اور وہ لوگ بیماریوں ،
بھوک ننگ کاشکار ہو کر مر رہے ہیںَ ۔ صرف وینز ویلا اور ایران ایسے ممالک
ہیں جو امریکہ ، اسرائیل اور سعودی عرب کے مقابلے میں خم ٹھونک کر کھڑے ہیںَ
۔ خلیج فارس میں ایسے حالات پید کئے جا رہے ہیں کہ ٓج کل میں کچھ ہونے والا
ہے۔ امریکہ او ر سعودی عرب میں اربوں کا اسلحہ فروخت کرنے کا معاہدہ اس با
ت کا ثبو ت ہے کہ امریکہ ایران کو جنگ میں دھکیلنا چاہتا ہے۔
ایران پر دوبارہ امریکی معاشی پابندیاں ایران کی معیشت کو بری طرح متاثر کر
رہی ہیں۔ ایران نے عالمی طاقتوں کے ساتھ طے پانے والیجوہری معاہدے کے دوسرے
فریقین کو خبردار کیا ہے کہ اگر ایران پر معاشی پابندیاں جاری رہیں تو وہ
بھی جوہری معاہدے پر عمل درآمد ختم کرتے ہوئے یورینیم کی دوبارہ افزودگی
شروع کر سکتا ہے۔ ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ کے فریقین میں امریکہ، روس،
چین، برطانیہ، فرانس، اور جرمنی ہیں۔ امریکہ ایک سال پہلے یکطرفہ طور پر اس
معاہدے سے نکل چکا ہے۔پاکستان میں پناہ گزینوں کی ایک نئی لہر کی آمد کے
خدشے کے ساتھ ساتھ ماہرین کو یہ بھی تشویش ہے کہ ایسا کوئی بھی تنازعہ
پاکستان کی داخلی سلامتی کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔
پاکستان میں خاصی تعداد میں شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والی آبادی ہے اور
پاکستان کے لیے یہ بہت مشکل ہو گا کہ وہ امریکہ کے حملے کی صورت میں ایران
کی اخلاقی یا سیاسی حمایت نہ کرے۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے لیے
دوسری بڑی مشکل یہ ہے کہ پاکستان کے سعودی عرب سمیت خلیجی ریاستوں کے ساتھ
بھی اچھے تعلقات ہیں تو ایسے میں اگر ملک میں ایران یا سعودی عرب کی حمایت
میں کوئی مظاہرے ہوتے ہیں تو ملک میں داخلی کشیدگی بڑھے گی اور پاکستان کو
نقصان پہنچنے کا سو فیصد امکان ہوگا کیونکہ پاکستان میں شیعہ کمیونٹی خاص
فرقے کے نشانے پر ہے اور آئے دن شعیوں کا قتل عام جاری ہے۔ پاکستان سعودی
عرب کے مفادات کوتحفط فراہم کرتا ہے۔ پاکستان امریکہ کو اپنے اڈے فراہم
کرنے میں کس پالیسی پر عملپیرا ہوگا یہ وقت آنے پر معلوم ہوگا۔ امریکہ اپنے
مفادات کے سامنے کسی کا دوست نہیں ہے وہ اپنے مفادات کیلئے کچھ بھی کر سکتا
ہے۔ ہم خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں اور تا حال خاموش ہیں۔ ہمیں معلوم
نہیں کہ اگر خطے میں امریکی اور ایرنی جنگ کے چھائے ہوئے بادل برس پڑے تو
ہمیں ایک خطرناک تباہی سے دوچار ہونا پڑیگا۔ |