پاکستان کی عوام کی جہاں اور بہت سی خصوصیات ہیں وہاں ایک
یہ بھی ہے کہ یہ کلر بلائنڈ ہیں۔پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس کے عوام بہت ہی
زیادہ مخلص اور بھولے بھالے ہیں۔ نہ صرف پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد ان
میں یہ جذبہ پیدا ہوا ہے بلکہ صدیوں سے موجود ہے۔ جو بھی حملہ آور باہر سے
آیا وہ ہی یہاںسمایا۔ اور نہ صرف سمایا بلکہ اس نے ایک نیا کام دکھایا ۔ ہر
ایک بیرونی حملہ آور نے یہ باور کرایا کہ وہ ہی اصل میں ان کا ہمدرد اور
غمگسار ہے۔ وہ ہی ان پر حکمرانی کے قابل ہے اور یہ بھولے بادشاہ اسی کے ہو
لیئے۔ اسی کو اپنا مسیحا سمجھ کر اسی کے گن گانے لگے۔
وہ بیوقوف بنانے والا یا تو تھک جاتا انہیں بے وقوف بنا بنا کر اور تخت آگے
منتقل کر دیتا یا پھر کوئی نیا آ جاتا جو پہلے والے سے بھی زیادہ دلربا
ادائیں اور سہانے خواب دکھانے کی صلاحیت رکھتا۔ اکثریت اس کے بول بچن مین
پھنس جاتی اور اس کو اپنے دکھ درد کا مداوا مان لیتی۔ پہلے حکمران کے
فالوررز مکمل طور پر ختم نہ ہوتے بلکہ وہ اسے ہی اپنا سب کچھ سمجھ بیٹھے
ہوتے تھے۔ انہیں اس کے علاوہ کسی اور کی اچھائی نظر ہی نہ آتی تھی۔
نئے محسن کے ماننے اور چاہنے والے اس سابقہ حکمران کے پیروکاروں کو جاہل
بیوقوف سمجھتے تھے اور ان کا ہر قدم پر مذاق اڑاتے تھے۔ گرچہ اس وقت اپنی
رائے کا اظہار مودب اور شائستہ انداز سے کیا جاتا تھا۔ کیونکہ وہ غار کے
دور کے لوگ تھے۔ ادب آداب اور اخلاقیات کا لحاظ رکھتے تھے۔ انہیں نہ
کمپیوٹر کا پتہ تھا اور نہ ہی ان کے پاس ٹویٹر فیس بک اینسٹاگرام واٹس ایپ
وغیرہ جیسی ایپس تھیں ۔ پھر بھی وہ اپنے جذبات کا اظہار کر لیتے تھے۔ تنقید
کرنے کی یہ وراثتی صلاحیت کبھی بھی ختم نہ ہو سکی بلکہ اس کی شدت میں ایسے
اضافہ ہوا جیسے پاکستان پر آئی ایم ایف کے قرضے میں اضافہ ہوتا ہے۔
ان فالوورز کے نہ صرف اذہان متاثر ہوئے بلکہ آنکھیں بھی جیسے سچ دیکھنے کی
صلاحیت سے محروم ہو گئی ہیں۔ جیسے جیسے ابلاغ نے ترقی کی یہ بھولے بھالے
لوگ اپنے جذبات میں شدید تر ہوتے گئے۔ میڈیا نے انہیں مسحور کر لیا اور
میڈیا چلانے والوں کی دھڑے بندی اور پارٹی بازی نے انہیں بھی ایسے ہی دھڑوں
میں تقسیم کر دیا۔ اب ایک پوری کڑی بن چکی ہے عام آدمی سے لے کر نیوز چینل
اور سوشل میڈیا تک اور ان کے لیڈر اور پارٹی تک۔ سچ کیا ہے؟ کچھ پتہ نہیں
جھوٹ کیا ہے کوئی پتہ نہیں۔ بس اپنی پارٹی اپنا لیڈر اور اپنا چینل ہی سچے
ہیں۔ وہی درست ہیں۔ ان کے خلاف جو بھی بولے اسے گالیاں دو اسے اتنا خجل کرو
کہ وہ دوبارہ مخالفت کی ہمت نہ کر پائے۔ یہ کلر بلائنڈ ہو چکے ہیں۔ انہیں
صرف اپنی خواہش کے مطابق سچ سچ لگتا ہے اور جو ان کی خواہش اور مرضی کے
خلاف ہو وہ جھوٹ ہی ہے۔ ان کا اپنا رنگ ہی ان پر چڑھتا ہے اور نظر بھی آتا
ہے باقی سارے رنگ پھیکے اور جھوٹے ہیں۔ مخالفت میں اٹھنے والی ہر آواز
جھوٹی لگتی ہے۔ دن دیہاڑے ان کے لیڈر سے فاش غلطی ہو جائے اس کا بھی دفاع
ہی کریں گے اسے غلطی ہی نہیں مانتے۔ ہر پارٹی کا فالوور کلر بلائنڈ ہو چکا
ہے۔ وہ اپنے ہی لیڈر کے جھانسے میں رہنا چاہتا ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی
ہے کہ ہر بادشاہ نے اپنی مدح و ستائش کے لئے ااپنے قصیدہ خواں خرید بھی
رکھے ہیں۔ جو ہر روز اس کی تعریف اور مدح سرائی کے لئے ایک نیا ٹرینڈ شروع
کرتے ہیں اور بلائنڈ فالوورز پھر اس پر ایسی ایسی دور کی کوڑی لاتے ہیں کہ
جہاں پناہ خود پریشان ہو جاتے ہیں کہ یہ صلاحیت تو ان میں موجود ہی نہ تھی۔
لیکن جب وہ خوبی زبان زد عام ہو جائے تو عزت ماب اسی کا اعتراف برملا فرما
بھی دیتے ہیں۔ حقیقت پسندی اور غیر جذباتی انداز مکمل ختم ہو چکا ہے۔ وہ
جنہیں ہم بہت بڑا صحافی سمجھتے ہیں بہت بڑا دانا ،دانشور اور مدبر مانتے
ہیں وہ بھی ان کے خلاف بات کر دے تو اسے دنیا کا پاگل ترین اور گھٹیا ترین
انسان بنا دینے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں چھوڑتے۔ ایسے حالات میں کوئی
کیا رہنمائی کرے اور کون خضر بننے کا بیڑہ اٹھائے؟ |