ایران امریکہ تنازع اور پاکستان

ایران اور امریکہ عرصہ دراز سے ایک دوسرے کے ساتھ کشیدہ ماحول کی لپیٹ میں ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس کشیدگی میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ امریکہ ایران کو اپنے جوہری پروگرام کو محدود کرنے پر زور دے رہا ہے اور ایران اس کے جواب میں اپنے اس مؤقف پر قائم ہے کہ وہ اپنا جوہری پروگرام نہ صرف جاری رکھے گا ، اسے کسی صورت محدود نہیں کرے گا بلکہ اس کی حد میں اضافہ کرے گا، جوہری پروگرام ہی دونوں کے مابین وجہ کشیدگی بنا ہوا ہے۔ ایران جوہری قوت بننے کی کوشش میں ہے، ممکن ہے کہ اس نے یہ صلاحیت حاصل بھی کر لی ہو، جس طرح پاکستان اور ہندوستان نے خاموش حکمت عملی سے جوہری قوت بننے سے پہلے واویلا نہیں کیا بلکہ دھماکہ کر کے دھماکہ کردیا۔
 

image


اب امریکہ بادشاہ کچھ کر ہی نہیں کرسکتا تھا، اگر پاکستان یا بھارت ایران کی طرح پہلے سے اعلان کردیتے تو امریکہ نے دونوں کے ساتھ یہی کچھ کرنا تھا جو وہ ایران کے ساتھ کررہا ہے۔ ایران بھی خاموش حکمت عملی کے تحت یہ کام جاری رکھتا اور بھارت و پاکستان کی طرح دھماکے کر دیتا تو امریکہ کچھ نہیں کرسکتا تھا۔ ایران نے امریکہ کے ساتھ 2015میں جوہری پروگرام کو محدود کرنے کا معاہدہ کیا ۔ اب اس معاہدہ پر ایران نے عمل کیا یا نہیں لیکن موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے ساتھ ہونے والے معاہدہ کو یک طرفہ طور پر منسوخ کردیا ۔ اس معاہدہ کی منسوخی کی وجوہات سامنے نہیں آئیں۔ حالیہ دنوں میں امریکہ اور ایران کشیدگی میں تیزی آئی، تیز و تند بیانات کا تبادلہ ہوا ، ٹرمپ نے کہا کہ وہ ایران پر مزید پابندیاں عائد کرنے جارہے ہیں، ایران پر دباؤ جاری رکھیں گے، اور ایران کو کبھی جوہری ہتھیار حاصل کرنے نہیں دیں گے۔ اصل پریشانی ایران کے جوہری قوت بننے کی ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ ایران اور سعودی عرب کے مابین بھی ایک تنازع موجود ہے، اس دوران امریکی وزیر خارجہ مانیک پومیو نے امریکہ اور ایران کے بیچ بڑھتی ہوئی کشیدگی کے حوالے سے سعودی عرب کے فرمانروں شاہ سلمان بن عبد العزیز سے ملاقات کی اور خطہ کی اسٹریٹیجک تعلقات پر تبادلہ خیال کیا۔ یہ تمام کاروائی امریکہ کی جانب سے ایران کو خوف زدہ کرنے کے لیے کی جارہی تھیں ۔ ابھی بیانات کی گولہ باری جاری ہی تھی کہ 20جون2019ء کو امریکی ڈرون نے ایران کی خلائی حدود کی خلاف ورزی کی اور ایران نے اس امریکی ڈرون کا دھڑن تختہ کردیا، یہ بات دونوں فریقین نے تسلیم کی یعنی ایران نے کہا کہ اس نے امریکی ڈرون اپنی حدود میں مار گرایا ، کیونکہ وہ جاسوسی کی غرض سے ایران کے حدود میں داخل ہوا تھا، جب کہ امریکہ نے بھی تسلیم کیا کہ ایران نے اپنے صوبے ہرمزگان میں کوہ مبارک کے نزدیک امریکی آر کیو 4 گلوبل باک جاسوس ڈرون آبنائے ہرمز کے نزدیک مار گرایا ہے۔ ایران نے دعویٰ کیا کہ یہ جاسوس امریکی ڈرون جاسوسی کی غرض سے ایران کی حدود میں جاسوسی کررہا تھا اس کے برعکس امریکہ کا کہنا ہے کہ اس بغیر پائلٹ ڈرون کو بین الا قوامی فضائی حدود میں گرایا گیا۔

کہا جارہا ہے کہ جوں ہی ایران نے امریکی ڈرون گرایا، امریکی فوج کو ایران کو سبق سکھانے کا حکم دے دیا گیا تھا ، ٹی وی چینل این بی سی کے مطابق امریکی ڈرون گرائے جانے کے بعد امریکی فوج ایران کے خلاف جوابی کاروئی کے لیے تیار تھی ، صدر ٹرمپ کے مطابق انہوں نے صرف دس منٹ پہلے اپنا ارادہ بدل دیا ، بادشاہ سلامت اگر اپنا ارادہ بہ بدلتے تو اس وقت ایران اور امریکہ حالتِ جنگ میں ہوتے، امریکی حملوں کے جواب میں ایران نے خاموش تو نہیں رہنا تھا، ایران نے فوری بیان داغا کہ ’ایران پر گولی چلتے ہی مشرق وسطیٰ میں امریکی مفادات کو آگ لگا دیں گے، دشمن کی ایک گولی کے جواب میں دس گولیاں چلائیں گے۔ امریکہ نے کہا کہ ایران جوہری ہتھیار چھوڑ دے تو ہمارا بہترین دوست ہوگا اور ہم اسے مالا مال کر دیں گے،کس کس کو آپ نے مالا مال کیا ٹرمپ صاحب۔ ساتھ ہی ٹرمپ نے فوری طور پر سعودی عرب سے بھی رابطہ کیا ، سعودی ولی عہد سے بھی ایران کے معاملے پر گفتگو کی ۔ امریکہ نے ایران کے مسئلے پر غور کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کا اجلاس بھی طلب کروایا ، اس اجلاس میں کہا گیا کہ ایران اور امریکہ مذاکرات کے ذریعے کشیدگی کم کریں اور خطہ میں کشیدگی ختم کرنے کے لیے اقدامات کریں، اجلاس میں آئل ٹینکرز پر ہونے والے حالیہ حملوں کی مذمت کی ، ان حملوں کو دنیا کو توانائی کی سپلائی اور عالمی سیکورٹی و سلامتی کے لیے خطرہ قراردیا، واضح رہے کہ امریکہ نے خطے میں تیل کے ٹینکروں پر حملے کا الزام ایران پر عائد کیا تھا ۔

ہمارے لیے لمحہ فکر یہ بات ہے کہ پاکستان پر ایران امریکی تنازع کے کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں، پاکستان ایک جانب ایران کا ہمسایہ مسلم ملک ، برس ہا برس سے دوست ہے ، اس سے پاکستان اور پاکستانی عوام کا جو جذباتی تعلق ہے ،وہ بھی واضح ہے، پاکستان کسی صورت ایران پر امریکہ کے حملے کی حمایت نہیں کرسکتا ، دوسری جانب امریکہ سے بھی دشمنی مول لینا اس کے حق میں نہیں ہوگا۔
 

image


پاکستان کے لیے ایک جانب ایران ہے تو دوسری جانب سعودی عرب ہے، ایران اور سعودی عرب کے مابین بھی کشیدگی موجود ہے، پاکستان یمن کے خلاف قائم ہونے والے اتحاد کاحصہ ہے، ایران کے لیے یہ بات اچھی نہیں، قطر سے پاکستان کے تعلقات عرصہ دراز سے دوستانہ ہیں، قطر کے سربراہ کا حالیہ دورہ پاکستان اور پاکستان کو مالی امداد اپنی جگہ اہمیت رکھتی ہے، قطر بھی ایران امریکی کشیدگی کے حوالے سے بیان دے چکا ہے۔ایران کے خلاف اور امریکہ کی حمایت کھل کر بات کرنے والوں میں اسرائیل سرِ فہرست ہے اس نے موجودہ کشیدگی میں سب سے پہلے ایران کے خلاف بیان دیا اور اس کے وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو نے کہا کہ اسرئیل اس معاملے میں امریکہ کے ساتھ کھڑا ہے، انہوں نے عالمی برادری سے اس کشیدگی پر امریکہ کا ساتھ دینے کی اپیل بھی کی۔ اسرائیل تو ہے ہی امریکہ کا پالا ہوا اس نے تو ایسا ہی بیان دینا تھا۔

پاکستان ایسے موڑ پر کھڑا ہے کہ وہ نہ تو ایران کی کھل کر حمایت کرسکتا ہے اور نہ ہی وہ ایران کے خلاف بات کرسکتا ہے۔افغانستان کی مثال پاکستان کے سامنے ہے جس میں پاکستان کو کس قدر جانی ومالی نقصان اٹھانا پڑا ہے، امریکہ کا کردار سب کے سامنے ہے، وہ پاکستان کا ایک ایسا دوست ہے جس پر کبھی بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔ اس صورت حال میں پاکستان کو ایران امریکی تنازع میں خود کو بہت ہی محتاط طریقے سے اپنے آپ کو اس طرح غیر جانب دار رکھنے کی پالیسی پر کاربند ہونا ہوگا کہ ایران بھی ناراض نہ ہو ، اور امریکہ اگر ایران پر بلاوجہ حملہ کرتا ہے، اسے نقصان پہچانے کی کوشش کرتا ہے تو امریکہ کو اس عمل سے روکے، اس کی مذمت کرے۔ لیکن اگر امریکہ ایران میں وہی پالیسی اختیار کرتا ہے جو اس نے افغانستان میں اختیار کی تھی اس صورت میں پاکستان پر مشکل ہوجائے گا اپنے آپ کو کیسے غیر جانبدار رکھے، امریکہ کی پوری کوشش ہوگی کہ پاکستان ایران کے خلاف امریکہ کی حمایت کرے، ایسا کرنا پاکستان کے مفاد میں ہرگز نہیں ہوگا۔ افغانستان میں ایران کے لیے ہمدردی پائی جاتی ہے، بڑی آبادی افغانستان کی ایرانی نظریات رکھتی ہے، وہ کسی صورت یہ نہیں چاہے گی کہ امریکہ وہی کچھ ایران کے ساتھ کرے جو اس نے افغانستان میں افغانیوں کے ساتھ کیا۔ ایران کے ساتھ کشیدگی یا جنگ سے امریکہ کو افغانستان میں اس کے واضح اثرات سامنے آئیں گے، وہ افغانستان میں امریکی خواہشات کی راہ میں اور زیادہ رکاوٹ بنیں گے۔ امریکہ کو یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ ایران اندرونی اعتبار سے مستحکم ، ایرانی عوام میں پایا جانے والا امریکہ کے خلاف رد عمل بہت شدید اور مضبوط ہے ،بیرونی طور پر بھی ایران تنہا نہیں اس کے بھی کچھ دوست ممالک ہیں ان میں سے ایک پاکستان بھی ہے ، اس کے علاوہ روس ایران دوستی ، اور روس امریکہ مخالفت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ، موجودہ کشیدگی شروع ہوتے ہی روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے امریکہ کو محتاط رویہ اختیار کرنے کا مشورہ دیتے ہوا کہا ایران کے خلاف طاقت کا استعمال تباہ کن ہوگا۔ پاسداران انقلاب کے سربراہ حسین سلامی نے امریکہ کے اس عمل کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور صاف لفظوں میں کہا کہ ’ہماری سرحدیں ہمارے لیے سرخ لکیر کی مانند ہیں اور جو بھی دشمن انہیں پار کرنے کی کوشش کرے گا اسے تباہ کردیا جائے گا‘۔ ان کا یہ بیان ایران کے مقاصد ، جوش و جذبہ کا آئینہ دار ہے۔ ایران امریکی تنازع میں پاکستان کی حیثیت بہت نازک اور مشکل ہے، اس معاملے پر بہت احتیاط اور عقل و فہم سے کام لینے کی ضرورت ہے، امریکہ ایران کو ڈرانے دھمکانے سے آگے نہیں جائے گا، ہوسکتا ہے اکا دکا سرجیکل اسٹرئیک بھی کر ڈالے لیکن وہ از خود ایران کے ساتھ نیا محاذ کھولنے سے پہلے ہزار مرتبہ سوچے گا، اگر اسے ایران پر حملہ کرنا ہوتا تو موجودہ کشیدگی کافی تھی لیکن نہیں اسے معلوم ہے کہ وہ اس سے پہلے اپنے اقدامات سے کچھ حاصل نہیں کرسکا ہے، اسے ایران کے ساتھ جنگ کی صورت میں افغانستان کے مقابلے میں کہی زیادہ نقصان اٹھانا پڑے گا۔ افغانستان کی صورت حال کئی اعتبار سے مختلف تھی اس کے باوجود امریکہ وہاں کامیاب نہیں ہوا، اس کے مقابلے میں ایران میں یکجہتی ہے، جوش ہے، جذبہ ہے، امریکہ کے خلاف پورے ایران میں منفی سوچ پائی جاتی ہے۔ چنانچہ ایسی صورت حال میں امریکہ بہادر یہ غلطی ہر گز نہیں کرے گا ۔اگر اگر اگر ایسا ہوا کہ امریکہ نے ایران کو میدان جنگ بنا ڈالا تو اسے بد ترین صورت حال کا مقابلہ کرنا پڑے گا، شاید اسے اس کا اندازہ بھی نہ ہو۔ پاکستان کو دنیا میں ہر ایک کے ساتھ دوستانہ ، مساویانہ، ہمدردانہ مراسم رکھنے چاہیے۔ موجودہ دور جوہری دور ہے، روایتی جنگ کا زمانہ ہوا ہوچکا، سب کو علم ہے کہ اب جنگ کسی کے بھی مفاد میں نہیں۔

YOU MAY ALSO LIKE:

Iran maintained close relations with Pakistan during much of the Cold War. Iran was the first country to recognise Pakistan as an independent state, and the Shah of Iran was the first head of state to come on a state visit to Pakistan (in March 1950).