حکومت خود کی دشمن بن چکی ہے․․!!

ملک کی 72سالہ تاریخ میں جتنی حکومتوں نے اقتدار سنبھالا،وہ چاہے سول ہو یا فوجی قیادت ، عوام کویہی بتایا ہے کہ ملک انتہائی بحران کا شکار ہے ۔سول حکومت پر فوج نے شب خون مارا تو یہی کہا گیا کہ سیاسی قائدین چور،ڈاکو ،لٹیرے ملک دشمن اورغدارہیں ۔بار بارکئی برسوں تک فوجی حکومتوں نے ملک کی باگ ڈور سنبھالے رکھی اور عوام کو باور کروایا کہ صرف فوج ہی ملک کو چلانے کی اہلیت رکھتی ہے۔سیاسی ہو یا فوجی قیادت ہر کسی نے اپنے آپ کو پارسا اور دوسروں کو ملک دشمن ثابت کیا ہے ۔ہمارے ملک کی اسٹیبلشمنٹ ہمیشہ سے طاقتور رہی ہے ۔عدالتوں نے بھی ہمیشہ ان کا ساتھ دیتے ہوئے قانونی جواز مہیا کیے ہیں۔ہمارا سیاسی طبقہ ہوس اقتدار کی وجہ سے غیر سیاسی قوتوں کے دست و بازو بن کر اپنا حصہ سمیٹتے رہے ہیں۔آج بھی کوئی سیاسی پارٹی یا سول قیادت اسٹیبلشمنٹ کی خواہش کے بغیر اقتدار میں نہیں آ سکتی ۔یہ قوتیں وقت کے مطابق قیادتوں کو استعمال کر کے عبرت کا نشان بناتی رہی ہیں ۔ذوالفقار علی بھٹو شہیدکو استعمال کیا ،مگر جب وہ قائد عوام بن کر عوام کے دلوں پر راج کرنے لگے تو انہیں نشانِ عبرت بنا دیا۔پھر میاں نواز شریف منظور نظر ہوئے ۔تین بار ملک کے وزیر اعظم بنے،مگر جیسے ہی وزیراعظم بننے کی کوشش کی ، انہیں انجام کو پہنچا دیا۔آج کے بیشتر وزراء جنرل (ر)پرویز مشرف کی گود میں پلنے والے لوگ ہیں ۔آج یہی لوگ جمہوریت کی اعلیٰ اقدار کے پاسبان ہیں ۔ان میں پیپلز پارٹی کے پیٹریاٹ والے بھی شامل ہیں ۔آج یہی لوگ عمران خان کے ساتھ مل کر ملک کی قسمت سنوار رہے ہیں ۔یہ وہ طبقہ ہے جو ہر حکومت کا حصہ ہوتے ہیں اور کسی بھی حکومت کے آخری دنوں میں الگ ہو کر اپنی پاک دامنی ظاہر کرتے ہیں ۔جماعت اسلامی کی مثال سامنے ہے ۔کے پی کے میں پانچ سال عمران خان کے ساتھ حکومت میں رہے۔عمران خان کے قصیدے پڑھتے رہے ،حکومت کے آخری دنوں میں عمران خان خراب ہو گیا ۔میاں نواز شریف کو سزا دلوانے تک سراج الحق نے پیچھا نہیں چھوڑا۔اُن کا بیان تھا کہ پانامہ کے چار سو پنتیس لوگوں کو کیفرِ کردار تک پہنچا کر دم لوں گا،مگر جب میاں نواز شریف کو سزا ہو گئی،تو سراج الحق کہیں نظر نہیں آئے ۔آج مہنگائی ،بیروزگاری ،معیشت کی بدحالی اور عوامی مسائل کو دوسری جماعتوں کے ساتھ مل کر حل کرنے کی جدوجہد نہیں کرنی بلکہ اکیلے ایک اینٹ کی مسجد بنالی ہے۔

تحریک انصاف کو اقتدار کے ایوانوں میں پہنچایا گیا۔عمران خان 22سالوں سے ملک وقوم کا درد سینے میں لئے ملک کی فلاح وبہبود اور ترقی کے لئے ایک مربوط پروگرام بناتے رہے ۔عوام کو جلسوں میں کئی کئی گھنٹے لیکچر دیتے رہے ،عوام کو امید دلائی کہ میں اقتدار میں آیا تو ہفتوں اور مہینوں میں بہتری آ جائے گی،مگر ان کے اقتدار کے دس ماہ کی کارکردگی نے سارا پول کھول دیا کہ ان کے پاس کوئی پروگرام ،سوچ یا لائحہ عمل نہیں تھا۔تحریک انصاف کی ٹیم لوٹے ،چمچے اور کڑچھوں سے بنائی گئی ہے ۔

تحریک انصاف کا دعویٰ رہا ہے کہ دو کروڑ عوام نے انہیں ووٹ دیا ہے ،ان کی جماعت میں پڑھی لکھی یوتھ اور اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کی بھرمار تھی ،لیکن دوسری جانب اپنی جماعت سے وزیر اطلاعات ،وزیر خزانہ ،وزیر قانون ،وزیر واٹر اینڈ پاور اور دیگر اہم وزارتوں کے لئے اہل شخص نہیں ملا۔انہوں نے ملک اور عوام کے مسائل خاک حل کرنے ہیں ۔دوسری حکومتوں پر جن باتوں پر تنقید کرتے تھے وہی آج خود کر رہے ہیں ۔سابقہ حکومتوں کو قرض لینے کے طعنے دیتے تھکتے نہیں تھے،خود قرض لینے کے ریکارڈ توڑ دیئے ہیں ۔مہنگائی اتنی کر دی گئی ہے ،جس کا تصور کرنا بھی محال ہے ۔دس ماہ میں چینی کی قیمت بیس روپے فی کلو بڑھ گئی ۔ملک انتہائی سنگین حالات سے گزرا ہے ،جنگوں اور سیلاب کا دور بھی آیا ،مگر ایسا کبھی نہیں ہوا کہ پیٹرول کی قیمت بیتالیس روپے فی لیٹر بڑھی ہو۔یہی حال دوسری اشیاء کا ہے ۔روپے کی قیمت ریکارڈ کم ترین سطح پر پہنچ رہی ہے ۔ابھی سلسلہ رکا نہیں بلکہ یہ شروعات ہے ۔گیس کی قیمتیں دوسو فیصد بڑھائی جا رہی ہیں ۔لوگ چند دنوں میں لکڑیوں اور کوئلے پر آنے پر مجبور ہو جائیں گے ۔بجلی کی قیمت پہلے ہی اتنی بڑھا دی ہے،جو عوام کی پہنچ سے دور ہے ۔اگر کوئی اور حکومت ہوتی تو اب تک ملک میں طوفان برپا ہوا ہوتا۔

یہ پہلی حکومت ہے جس نے عوام پر ظلم و زیادتی کی انتہا کر دی ،ملک کی تاریخ کی سب سے زیادہ مہنگائی کی ،مگر مجال ہے اپوزیشن جماعتیں مہنگائی پر بولیں اور نہ ہی عوام سراپا احتجاج ہوئے ہیں ۔پنجاب اسمبلی میں بڑے آرام سے ایک گھنٹے میں 43 مطالبات زرعوام دشمن بجٹ کے منظور کر لئے گئے ،حزب اختلاف نے چوں نہیں کی ۔وفاق میں بھی عوام دشمن بجٹ ہے ،جو پاس ہو جائے گا۔ مہنگائی کی سونامی سامنے نظر آ رہی ہے ۔سب نے چپ کا روزہ رکھا ہے ۔بلا امتیاز احتساب کا بڑا نعرہ لگایا گیا ۔لیکن پھر شہباز شریف کو کئی ماہ نیب نے قید رکھا،سعد رفیق،سلیمان رفیق ،حمزہ شہباز اور علیم خان ان سب سے کیا کچھ برآمد ہوا ؟یہ احتساب نہیں کسی کی خواہش اور ذہنی تسکین کے لئے ڈرامہ رچایا گیا ہے ۔یہ ملک وقوم کے مفاد میں نہیں کیا جارہا۔

عمران خان پاکستان کے وزیر اعظم بنے ہی نہیں ۔وہ آج بھی تحریک انصاف کے چیئرمین کی حیثیت سے انتقام کی آگ ٹھنڈی کرنے میں لگے ہیں ۔اگر وہ واقعی ملک اور عوام سے مخلص ہوں تو 2002ء سے 2018ء تک کا حساب لیں ۔لیکن وہ ایسا ہر گز نہیں کر سکتے ۔کیونکہ مشرف دور کے وہ لوگ جنہوں نے قرضے معاف کروائے ہیں وہ آج عمران خان کے بازو ہیں ۔اس لئے عمران خان کے احتساب کا ڈرامہ کھل چکا۔ انہوں نے جتنا عوام کو بیوقوف بنانا تھا بنا چکے ۔

تعلیم ،صحت ،زراعت اور انڈسٹری کے شعبے برباد ہو کر رہ گئے ہیں ۔2019-20کے بجٹ میں انہیں شعبوں میں کٹوتی کی گئی ہے جو عوام کی فلاح و بہبود کے لئے ہیں ۔کوئی ترقیاتی منصوبہ نہیں رکھا گیا۔لیکن ٹیکسز کی بھرمار کر دی گئی ہے ۔جس سے کاروبار زندگی برباد ہو کر رہ جائے گی۔عوام کو کسی قسم کا ریلیف نہیں دیا گیا۔اگر ملک ایسے ہی چلایا گیا تو چند ماہ کے بعد یہ حکومت نہیں رہے گی۔اپوزیشن کی عوامی مسائل پرغفلت ، غیر سنجیدگی اور حکومت کی نا اہلی جمہوری نظام کے لئے بڑا خطرہ بن رہی ہے یا یہ سب کچھ کوئی سوچی سمجھی سازش کے تحت ہو رہا ہے ․․!
 

Irfan Mustafa Sehrai
About the Author: Irfan Mustafa Sehrai Read More Articles by Irfan Mustafa Sehrai: 153 Articles with 94846 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.