بجٹ2019-20 قومی اسمبلی سے منظور

آخر کار بجٹ منظور ہوگیا ۔ یہ تو ہونا ہی تھا، بھلا یہ کیسے ممکن تھا کہ حزب اختلاف کی خواہش کے مطابق بجٹ پاس نا ہوتا ، یعنی حکومتی اراکین اسمبلی حزب اختلاف کے ساتھ مل جاتے اور بجٹ کے خلاف ووٹ دیتے ، یہ کسیے ممکن تھا، دنیا میں کبھی کہیں ایسا ہواہے، اس طرح اور اسی انداز سے نون لیگ نے نہ معلوم کتنے بجٹ منظور کرائے، پیپلز پارٹی نے کئی بجٹ منظور کرائے ،پیپلز پارٹی ابھی سندھ میں اپنا بجٹ اسی طرح کے شور شرابے میں سندھ کا بجٹ منظور کرائے گی، کیا سندھ میں ایسا ہوسکتا ہے کہ بجٹ منظور نا ہو، بجٹ کی منظوری کے بغیر ملک یا صوبہ ایک دن نہیں چل سکتا ۔ بجٹ کیسا ہے اور کیسا ہونا چاہیے یہ الگ بحث ہے، حزب اختلاف کا کام بجٹ کے لیے ہونے والے بحث و مباحثہ میں بھر پور حصہ لینا ہوتا ہے، تنقید کرے ساتھ ہی بہتر ی کی تجاویز بھی دے ۔ جو تجاویز مناسب ہوں انہیں بجٹ میں شامل کیا جانا چائیے باقی رہا سوال بجٹ منظور ہونے کا ، اگر حکومت وقت کے پاس حزب اختلاف سے زیادہ اراکین ہیں تو ہرصورت میں بجٹ پاس ہوہی جائے گا، ہونا بھی چاہیے ۔ موجودہ بجٹ پر حزب اختلاف نے اسمبلی میں بھر پور بحث کی، وہ بحث بجٹ کی مختلف شقوں پر کم اس حکومت کے خلاف باتیں زیادہ ہوتی تھیں ، جیل میں موجود اراکین کے پروڈکشن آڈر پر پورا پواسمبلی کا سیشن ختم ہوجاتا تھا، زرداری صاحب کے پرودکشن آڈر جاری کرنے میں حزب اختلاف نے کس قدر وقت اور انرجی لگائی، حاصل کیا اہوا صفر، وہی وقت بجٹ پر لگادیتے تو بہتر تھا ۔ اراکین تیاری سے نہیں ہواکرتے تھے، وہ ادھر ادھر باتیں ، حکومت مخالفت باتیں زیادہ کیا کرتے تھے، اس کی بنیادی وجہ یہ کہ ہر رکن تو معاشیات کے ہیر پھیر سے واقف نہیں ہوتا ، ان کے پاس اتنا وقت ہی نہیں ہوتا کہ وہ بجٹ جیسی دستاویز کا مطالعہ کرتے ۔ ایسی کوششیں زیادہ کی گئیں جن سے ایسا تاثر پیدا ہو کہ حکومت نا اہل ہے، ملک ڈیفالٹ ہونے جارہا ہے، غیر ضروری باتوں پر زیادہ وقت صرف کیا گیا ، سلیکٹڈ سلیکٹڈ کی رٹ لگائی جاتی رہی، اسے گالی بنادیا گیا، لوگ سب بھول جاتے ہیں کیا ذوالفقارعلی بھٹو ایوب خان کے سلیکٹڈ نہیں تھے، نواز شریف ضیاء الحق کے سلیکٹڈ نہیں تھے،ق لیگ پرویز مشرف کی سلیکٹڈ نہیں تھی، عمران خان کے لیے یہ لفظ استعمال کیا جاتا ہے ہمت نہیں کہ یہ کہیں کہ یہ کس کے سلیکٹڈ ہیں ۔ وقت ضائع کرنے کے علاوہ کچھ نہیں ،فضول، بے مقصد کوششوں میں لگے رہے،جنہیں عدالتوں نے سزا دے دی، نیب کی حراست میں ہیں انہیں باہر نکلوانے کے لیے تمام تر جدوجہد کرتے رہے،آخری کوشش اے پی سی تھی جس کا ایجنڈا اور وقت کسی بھی اعتبار سے مناسب نہیں تھا، یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اے پی سی اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہی، یہ اے پی سی ایک سیاسی جماعت نے بلائی تھی جس کا بانی اپنی آبائی سیٹ سے بھی ہاتھ دھو بیٹا، یہ اگر تمام حزب اختلاف کی جماعتوں کی جانب سے بلائی جاتی تو اس کا تاثر کچھ اور ہوتا، اسٹیج پر جو بینر آویزاں تھا اس پر ایک جماعت کا نام لکھا تھا، گویا باقی سب تو مہمان اداکار تھے، میز بان نے اپنا نقطہ نظر پیش کیا، مہمانوں نے اسے سن لیا، بات ختم ہوگئی ۔

مَیں نے اپنے گزشتہ دنوں لکھے گئے کالم ’’ملک میں سیاسی دنگل ‘‘ میں لکھا تھا کہ ’’ یہ شور شرابا ہوتا رہے گا، یہ وقت بتائے گا کہ بجٹ بہت آرام سے اسی شور شرابے اور اپوزیشن کی ہنگامہ آرائی میں پاس ہو جا ئے گا‘‘ ۔ اس کے بعد اپنے دوسرے کالم ’’میثاق معیشت ۔ وقت کی ضرورت‘‘ میں لکھ کہ ’’ اب بجٹ تو پاس ہونا ہی ہے، اگر بجٹ پاس نہ ہوگا تو تصور کریں کہ ملک میں کس خطر ناک قسم کا معاشی بحران جنم لے گا ۔ ملک کا پہیہ جام ہوجائے گا ۔ اپوزیشن کو سوچنا چاہیے، تیسری قوت کے لیے راستہ ہموار نہ کریں ، افہام و تفہیم سے، معاملات کو حل کریں ، جہاں احتجاج کی ضرورت ہے وہاں احتجاج کریں ، جہاں قانونی راستہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے وہاں قانونی راستہ ہی اختیار کریں ، حکومت گرا نا اتنا آسان نہیں ‘‘ ۔ بجٹ اسی صورت حال میں پاس ہوا یعنی شور شرابا ہوتا رہا، نا منظور نامنظور کے نعرہ لگتے رہے، ادھر اسپیکر نے پہلے فنائس بل پھرآئندہ مالی سال 2019-20ء کا 7036ارب روپے عجم کا وفاقی بجٹ منظور کے لیے پیش کیا ، فنانس بل پر حکومتی ترامیم کثرت رائے سے منظور جب کہ اپوزیشن کی تمام34ترامیم کثرت رائے مسترد کردی گئیں ۔ فنانس بل کو شق وار منظوری کے لیے زیر غور لانے کی تحریک کی حمایت میں 176حکومی و اتحادی ارکان اور مخالفت میں اپوزیشن نے146ووٹ دئے گئے ۔ گویا 30کا فرق ، بجٹ تو پاس ہونا ہی تھا، اپوزیشن کے سامنے یہ اعدادو شمار نہیں تھے، وہ کیا سمجھ رہے تھے کہ ان کے واویلا کرنے سے حکومتی اراکین ان کا ساتھ دیں گے ۔ کوئی اتحادی ٹوٹ جائے گا، ایسا نہیں ، حکومت میں بہت چمک ہوتی ہے، کوئی اتحادی کیوں ٹوٹے گا، بلکہ اپوزیشن کے اراکین تو حکومت کے ساتھ مل سکتے ہیں ، اور سابقہ حکومت کے بے شمار لوگ اس وقت تحریک انصاف کا حصہ ہیں ، بلکہ اہم امور ان کے سپرد ہیں ۔

اپوزیشن نے بجٹ کی اختتامی تقریر آدھی سنی اور ہنگامہ شروع کردیا، اسپیکر کے ڈائس کے سامنے بینرز لیے کھڑے ہوگئے اور نعرے بازی کرتے رہے ۔ اپوزیشن نے نو نو کے نعرے بلند کیے ، آئی ایم ایف کا بجٹ نا منظور، بازووَں پر سیاہ پٹیاں باندھیں ، یہی نہیں بلکہ بعض اراکین اسپیکر ڈیسک کے سامنے گتھم گتھما بھی ہوگئے،پر اب کیا ہوسکتا تھا ، جب چڑیاں چک گئیں کھیت ۔ بجٹ منظور ہوگیا ۔ بعد میں اپوزیشن نے اپنی پرانی روش کو برقرار رکھتے ہوئے وہی باتیں جو وہ پہلے کہا کرتے تھے دھراتے رہے، گویا دل بھڑاس نکالی، اب آپ اس بجٹ میں جتنی بھی خامیاں نکالیں بجٹ تو قومی اسمبلی سے پاس ہوچکا ۔ بجٹ اسمبلی میں پیش کیا چکا، اس پر تقاریر ہورہی تھیں ،بجائے اس کے کہ بجٹ کو بہتر بنانے کی تجاویز پیش کریں ، سنجیدگی کا مظاہرہ کریں ، آپ سینٹ کے چیرَ مین کو نکالنے کی باتیں کررہے ہیں ۔ چیرَ مین کو کون لایا تھا، حکومت تو نہیں لائی، اس سے واضع ہوتا ہے کہ جب تک آپ کی ہاں میں ہاں ملائی جاتی رہے آپ خوش ، اگر میرٹ پر کوئی کام کرنا شروع کردے جو آپ کے خلاف ہو تو وہ آپ کو پسند نہیں ۔ زرداری صاحب نے ازراہ مزاق ہی کہا کہ وہ خود سینٹ چیرَ میں بنیں گے ۔ ۔ بجٹ کا حجم 7;46;22 کھرب روپے ہے، یہ گزشتہ سال سے 30فیصد زیادہ ہے ، وفاقی آمدنی کا تخمینہ 6,717روپے ہے، ترقیاتی کاموں کے لیے 1800 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں ، ٹیکس وصولی کا ہدف 550ارب روپے، وفاقی بجٹ کا خسارہ 3560ارب روپے ہوگا، بجٹ میں وفاقی وزراء کی تنخواہوں میں دس فیصد کمی ، گریڈ اکیس و بائیس کی تنخواہ میں کوئی اضافہ نہیں ، گریڈ ۱یک سے 16تک کے ملازمین کی تنخواہ میں دس فیصد اور اس سے اوپر کے ملازمین کی تنخواہوں میں پانچ فیصد اضافہ کیا گیا ہے ۔ پینشنرز کی پینشن میں بھی دس فیصد اضافہ کیا گیاہے ۔ چار لاکھ سالانہ آمدنی والوں کو انکم ٹیکس دینا ہوگا، بجٹ میں ظاہر کیا گیا پاکستان پر مجموعی قرضہ 31000ارب ہے ، جاری کھاتوں کا خسارہ 20ارب ڈالر اور تجارتی خسارہ 32ارب روپے ہیں ، نجلی کے نظام کا قرضہ1200ارب روپے ، آئی ایم ایف سے 6ارب ڈالر کا معاہدہ ہوچکا ہے ۔ کچھ ممالک سے جو امداد یا قرضہ ملا وہ اس کے علاوہ ہے ۔

اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ ملک معاشی طور پر تباہ حال ہوچکا، قرضے لے لے کر اسے چلایاجاتا رہا، تحریک انصاف کی حکومت نہ بھی ہوتی نواز لیگ اور پیپلز پارٹی اور مولانا صاحب کے اتحاد کی حکومت ہوتی تب بھی مہنگائی کی صورت حال یہی ہونا تھی، بجٹ ایسا ہی پیش ہونا تھا ۔ پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر باجوہ نے درست سمت رہنمائی کی کہ یہ وقت ایک قوم بننے کا ہے، مشکل حکومتی فیصلے کامیاب بنانا سب کی ذمہ داری ہے، ملک مشکل معاشی حالات سے دوچار ہے، کوئی فرد واحد قومی اتحاد کے بغیر کامیابی حاصل نہیں کرسکتا،معاشی خود مختاری کے بغیر آزادی ک کوئی تصور نہیں مشکل فیصلے نہ کرنے سے مسائل بڑھے ، ملک نہیں خطے ترقی کرتے ہیں ، یہ باتیں انہوں نے نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں قومی معیشت کے عنوان سے منعقدہ سیمنا سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ اس وقت ملک کی جو معاشی صورت حال ہے اس کا تقاضہ ہے کہ سب مل کر حکومت، اپوزیشن ، تمام ادارے ملک کو اس خطرناک صورت حال سے نکالنے میں اپنا اپنا کردار ادا کریں ۔ اسی میں ملک و قوم کی بہتری ہے ۔

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 866 Articles with 1440022 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More