سندھ بجٹ 2019 کی خاص باتیں

آغا شعیب عباس
موجودہ دور میں کسی بھی حکومت کو کئی طرح کی خدمات انجام دینی پڑتی ہیں۔ اسے عوام کی فلاح وبہبود کے لیئے کام کرنا پڑتا ہے، انفرااسٹرکچر کی تعمیر کرنی ہوتی ہے۔ منڈی یا کاروبار کے مسئلے مسائل کیا ہیں اور ان کو کس طرح قابو کیا جائے، امن وامان وغیرہ۔ یعنی اسے معاشی اور معاشرتی استحکام کے لیے کام کرنا پڑتا ہے۔ ان تمام کاموں کو کرنے کے لئے حکومت کو باقاعدہ منصوبہ بندی کرنی پڑتی ہے۔ اسے یہ دیکھنا پڑتا ہے کہ اسے کن اخراجات کا سامنا ہے ان اخراجات کے لئے کتنی آمدنی کی ضرورت ہوگی۔ یہ آمدنی کیسے اکٹھا کرے گی۔ اس کے لئے کون کون سی پالیسی مرتب کرنی ہوں گی۔یعنی ’’بجٹ ایک مالیاتی دستاویز ہوتی ہے جس میں ان اخراجات اور ریونیو کا تخمینہ پیش کیا جاتا ہے جو کہ کسی حکومت کو ایک مالی سال کے عرصے کے دوران حاصل ہوسکتے ہیں۔ نیز بجٹ میں ریونیو اور اخراجات کے ان حقیقی اعداوشمار کو بھی ظاہر کیا جاتا ہے جو سال ابھی ختم ہوا ہوتا ہے۔‘‘

پاکستان میں عموماً پہلے وفاقی بجٹ پیش کیا جاتا ہے پھر تمام صوبائی حکومتیں اپنا اپنا بجٹ پیش کرتی ہیں۔صوبہ سندھ کا بجٹ 14 جون کو پیش کیا گیا جو کہ خسارے کا بجٹ تھا۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں عموماً خسارے کا بجٹ ہی پیش کیا جاتا ہے جس کے تحت حکومت اپنے اخراجات میں کئی گناہ اضافہ کردیتی ہے جو اس کی آمدنیوں سے بھی بڑھ جاتا ہے ۔ یعنی حکومتی اخراجات ، حکومتی آمدنی سے بڑھ جاتے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت ترقیاتی پروگراموں میں اضافہ کررہی ہے جس سے صوبے میں معاشی ترقی کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ظاہر ہے کہ جب ترقیاتی اخراجات بڑھتے ہیں تو لوگوں کو روزگار ملتا ہے ۔روزگار ملتا ہے تو لوگ پیسہ خرچ کرتے ہیں جس سے مجموعی معیشت مستحکم ہوتی ہے۔اس سال حکومتِ سندھ نے دیگر شعبوں کی ساتھ ساتھ سب سے زیادہ تعلیم، صحت اور امن وامان پر فوکس کیا ہے۔

تعلیم کسی بھی معاشرے اور ریاست کی مجموعی ترقی کا جانچا جاتا ہے یہ وہ بنیادی چیز ہے جس پر خوشحالی اور انسانی ترقی کی عمارت کھڑی ہوتی ہے تعلیم انسانوں کو اعلی ظرف بناتی ہے اور برداشت، رواداری، سماجی انصاف اور جمہوری رویوں کو فروغ دیتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس بجٹ میں تعلیم کو ترجیع دی گئی ہے اس حوالے سے وزیر اعلی سندھ نے کہا کہ ہم نے 10کھرب سے زائد کے بجٹ میں 20فیصد سے زیادہ بجٹ تعلیم کے لیے رکھا ہے۔ تعلیم کے لئے 30 ارب مختص ہیں۔اس دفعہ سندھ کے اسکولز اور کالجز کے لیے 240ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔جبکہ جامعات کے لیے تین ارب کا ترقیاتی بجٹ مختص کیاگیا ہے۔ پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ پر چلنے والے سندھ کے اسکولوں کے لیے سندھ ایجوکیشن فاؤنڈیشن کا بجٹ9.57بلین روپے رکھا گیا ہے۔حکومت نے اس بار طلبہ کے لیے کلاس روم ، بیت الخلاء کے علاوہ ان کے لیے ٹرانسپورٹ کا بندوبست بھی کرے گی۔جو خوش آئند بات ہے۔ اس طرح پانچ سے سولہ سال کے وہ بچے جو اسکول نہیں جاتے ان کے لیے ڈائریکٹوریٹ آف لٹریسی اینڈ نان فارمل ایجوکیشن کے لیے بھی رقم مختص کی گئی ہے۔حکومت اس سال صوبے میں سترہ نئے کالج قائم کرے گی۔ جبکہ 8ارب روپے سندھ ایجوکیشن فاؤنڈیشن کو دیے ہیں۔ اب ون گریڈ لینے والے طلبہ کو ایک لاکھ روپے دیے جائیں گے جس سے غریب اور ذہین طالب ِ علموں کو فائدہ ہوگا کیونکہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ غریب طالب علموں کا ٹیلنٹ پیسہ نہ ہونے کہ وجہ سے ختم ہوجاتا ہے ۔ دوسرے یہ کہ کو حکومتِ سندھ نے امتحانی فیسوں کا مسئلہ بھی حل کردیا اب سندھ بھر کے بورڈ کو میٹرک اور انٹر کے بچوں کی امتحانی فیس حکومت سندھ ادا کرے گی جس کے لیے ایک ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ نویں جماعت کے بورڈ کے امتحان کے لیے طالب علم کے پاس ’ب‘ فارم ہونا ضروری ہے مگر یہاں طالب علموں اور ان کے والدین کے پاس شناختی کارڈ نہیں ہے تو ان کے پاس ب فارم بھی نہیں ہے۔ لہذا دیہی اسکولوں میں طلباء کا’’ ڈراپ آف‘‘ کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے۔دوسری اہم بات یہ کہ لڑکیوں کی تعلیم کو خاص اہمیت دی گئی ہے لڑکیوں کو ٹرانسپورٹیشن کی سہولیات کی فراہمی کے لئے مناسب فنڈ کی تجویز ہے تاکہ دیہی علاقوں کے اسکولوں میں طالبات کی کمی کے مسئلے سے نمٹا جس سکے۔ امید کی جاسکتی ہے کہ حکومت سندھ نے تعلیم کے شعبہ میں جو رقم مختص کی ہے اس سے صوبے میں تعلیم کے معیار میں بہتری آئے گی۔

شعبہ صحت میں دواؤں کی مد میں 7ارب 90کروڑ روپے کا بجٹ مختص کیا گیا ہے۔ جبکہ ٹی بی کنٹرول پروگرام کو وسعت دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ لاڑکانہ میں مینٹل ہیلتھ سروسز اور چائلڈ ہیلتھ کے لیے بھی رقم مختص کی گئی ہے۔ قومی ادارہ امراض قلب انجیوپلاسٹی کرنیوالا دنیا کا سب سے بڑا ادارہ ہے اس بجٹ میں اس ادارہ کے لیے خاص فنڈ رکھا گیا ہے۔محکمہ صحت اور پرائیوٹ سیکٹر ملکر پولیو مہم کو کامیاب بنائینگے۔صوبے میں مزید چیسٹ پین یونٹ بھی قائم کیے جائیں گے ایچ آئی وی اور خون کے امراض کی تحقیقات کے علاوہ ایڈز کنٹرول پروگرام ، ہیپاٹائٹس ، ٹی بی ار ملیریا کنٹرول کے لیے بھی رقم مختص کی گئی ہے، وزیرِ اعلی سندھ کا کہنا تھا کہ تمام تر مشکلات کے باوجود ’امن فاؤنڈیشن، انڈس اسپتال اورSIUTکی گرانٹس میں کمی نہیں کی ہے۔

اس بجٹ میں سندھ کے سرکاری ملازمین اور پینشن لینے والوں کے کئے خوشخبری ہے کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہ 15فیصد اضافہ کیا گیا ہے اور پینشن میں بھی 15 فیصد کا اضافہ کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ وفاقی ملازمین کی صرف 10 فیصد تنخواہ بڑھی ہے اس لحاظ سے سندھ کے سرکاری ملازمین خوش قسمت ہیں امید کی جاتی ہے اس سے ناصرف ان ملازمین کی کارکردگی میں مزید اضافہ ہوگابلکہ ان کی مالی مشکلات میں بھی کمی آئے گی۔ علاوہ ازیں مزدوروں کی کم از کم اجرت 15ہزار رکھی گئی ہے۔کراچی کے حوالے سے وزیز اعلی سندھ کہنا تھا کہ شہر قائد کو خصوصی فنڈ ملنا چاہیے، جو نہیں ملتا۔ حکومت پر تنقید ہوتی ہے کہ کراچی پر ترقیاتی کام نہیں ہورہے اس حوالے سے لوکل باڈیز کو 71ارب دیے جائینگے، کراچی کی ترقی کیلے 70ارب روپے رکھے ہیں۔کراچی میں جاری 10ارب روپے کے 18منصوبے جون میں مکمل کیے جائیں گے۔ باقی منصوبے اگست تک مکمل کیے جائیں گے۔ کراچی میں نئے مالی سال میں مزید اسکیمیں شروع کی جارہی ہیں۔ امن وامن کے لیے بھی رقم مختص کی گئی ہے۔ کراچی کے میگا منصوبوں کے لیے 12ارب روپے، کے فور کیلے 15ارب روپے ، ایس تھری منصوبے کے لیے 3ارب روپے جبکہ اولڈ سٹی ری ہیبلیبٹیشن کا پروگرام شامل کیا گیا ہے۔پراپرٹی ٹیکس لوکل باڈیز کو جاتا تھا سندھ حکومت صرف جمع کرتی تھی اب یہ ٹیکس لوکل باڈیز کلیکٹ کریگی۔ اس کے علاوہ کراچی سرکلر ریلوے پر بھی کام شروع کیا جاچکا ہے عنقریب ان منصوبے کے ثمرات کو بھی کراچی کے عوام فائدہ اٹھائنگے۔

سوشل میڈیا پر سب سے زیادہ اعتراض حکومت پر یہ ہوتا ہے کہ پہلے حکومت اپنے اخراجات کم کرے پھر ہم سے ٹیکس لے اس لحاظ سے وزیر اعلی سندھ نے سیکریریٹ کا بجٹ کم کر کے صرف 562ملین روپے رکھا ہے۔ زراعت کے حوالے سے 6.9ارب کا بجٹ رکھا گیا ہے۔ ایریگیشن کے لیے 22ارب کی اے ڈی پی ہے 15بلین روپے کینال کی لائننگ کے لئے رکھے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک ارب روپے مائیکرو فنانسنگ کے لئے رکھے ہیں جن سے دیہی علاقوں کی خواتین مویشی خرید سکتی ہیں۔
مجموعی طور پر اس بجٹ میں ایک عام آدمی کو ملکی حالات کی نسبت سے زیادہ سے زیادہ ریلیف دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ بجٹ میں تعلیم ، صحت اور امن وامان کے شعبے کو اولیت دی گئی ہے۔ اب ضرورت اس امر کی سے کہ بجٹ پالیسیوں پر دیانتداری سنجیدگی سے عمل بھی کیا جائے تاکہ مطلوبہ نتائج حاصل ہوسکیں اور صوبہ سندھ ترقی کی منازل طے کرسکے نیز سندھ سے غربت، بے روزگاری اور ناخواندگی دور ہو۔

Muhammad Shoaib
About the Author: Muhammad Shoaib Read More Articles by Muhammad Shoaib: 7 Articles with 8579 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.