سلامتی کونسل میں رکنیت کیلئے پاکستان کی جانب سے ہندوستان کی تائید

پڑوسی سے رواداری ۰۰۰

بھائی بھائی کے درمیان اور پڑوسی پڑوسی کے درمیان اختلافات تو ہوتے ہی رہتے ہیں لیکن جب دوسروں کے ساتھ کسی مسئلہ میں اختلاف ہوجاتا ہے یا متحد ہونے کی بات آتی ہے تو یہی دونوں بھائی یا پڑوسی آپس میں ایک ہوجاتے ہیں ۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق ایسی ہی ایک مثال 26؍ جون کو اقوام متحدہ میں دیکھنے میں آئی۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں دو سالہ رکنیت کیلئے پاکستان کی حمایت نے کروڑوں لوگوں کو حیرت زدہ کردیا۔ پاکستان سمیت ایشیاء پیسفک کے 55ممالک نے متحدہ طور پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ہندوستان کی دو سالہ رکنیت 2021-22کی حمایت کی ہے ۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق ہندوستان کے اقوام متحدہ میں مستقل نمائندے سید اکبر الدین نے ایک ٹویٹ کے ذریعہ ان تمام ممالک کی جانب سے ہندوستان کی تائید کرنے پر انکا شکریہ ادا کیا۔ بتایا جاتا ہے کہ جن ممالک نے ہندوستان کی تائید کی ہے ان میں پاکستان، افغانستان، بنگلہ دیش، بھوٹان ، چین، انڈونیشیا، ایران، جاپان، کرغزستان، ملائشیاء ، مالدیپ میانمار، نیپال، سعودی عرب، کویت، قطر، متحدہ عرب امارات، ترکی، شام،سری لنکا، ویتنام وغیرہ شامل ہیں۔ان دنوں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان حالات کشیدہ ہیں ۔ اس کے باوجود ہندوستان کی پاکستان کی جانب سے تائید اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ پڑوسیوں کے درمیان چاہے تعلقات کتنے ہی خراب کیوں نہ ہوں لیکن جب اپنے ایک پڑوسی کے فائدے کی بات آتی ہے تو دوسرا پڑوسی اس کا ساتھ دیتا ہے اور یہی انسانیت ہے ۔ کاش دہشت گردی سے نمٹنے اور دونوں ممالک کے درمیان معاشی ترقی اور خوشحالی کیلئے ہندو پاک کے حکمراں آپس میں پھر سے ایک مرتبہ مذاکرات کے لئے متحد ہوتے ۔

عرب ممالک کے درمیان اتحاد ’صدی کی ڈیل ‘ کو ناکام بناسکتی ہے
فلسطین جو ارض مقدس ہے جہاں پرکئی انبیاء کرام مبعوث ہوئے ہیں اور یہ مسلمانوں کا قبلہ اول بھی ہے۔ اس ارض مقدس پر یہودیوں کی مقبوضہ آبادیوں میں آئے دن اضافہ ہوتا ہی جارہا ہے۔ اسرائیلی حکومت فلسطینیوں پر ظلم و زیادتی کرکے انکی املاک پر قبضہ کرتے ہوئے یہودیوں کو آباد کررہی ہے۔ عالمِ عرب کی صرف بیان بازی سے اسرائیل پر کوئی اثر نہیں پڑرہاہے بلکہ دشمنانِ اسلام اسرائیل کا ساتھ دیتے ہوئے مسلم حکمرانوں کوبھی اپنے ہمنوا بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔ مصری صدر عبدالفتاح السیسی اور بعض دوسرے عرب ممالک کے حکمرانوں کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات بہتر ہوتے دکھائی رہے ہیں۔ فلسطینی عوام بشمول معصوم بچے اور خواتین بھی اسرائیل فوج جو ہتھیاروں کے لیس ہے انکی ظالمانہ کارروائیوں کا مقابلہ صرف پتھروں کے ذریعہ کررہے ہیں۔اسرائیل کو امریکہ کی جانب سے بھرپور تائید و حمایت حاصل ہے اور وہ فلسطینی عوام کو خوش دیکھنا بھی نہیں چاہتا۔ اس کی ایک وجہ عالم اسلام خصوصاً عرب ممالک کے درمیان عدم اتحاد بھی ہے۔ فلسطین کے حل کے سلسلہ میں جمہوریہ لبنان کے مفتی اعظم الشیخ عبداللطیف دریان نے کہا ہے کہ تمام عرب ممالک کے درمیان اتحاد اور یگانگت’صدی کی ڈیل‘ کی سازش کو ناکام بنانے کے لیے موثر رکاوٹ بن سکتی ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق ان کا کہنا ہے کہ فلسطین کوئی سامان نہیں کہ اس کی خریدو فروخت کے لئے اس کی قیمت لگائی جائے۔ بلکہ یہ ایک قوم کی بقاء اور ان کے حق خود ارادیت کا معاملہ ہے۔ مسئلہ فلسطین کا صرف ایک ہی حل ہے کہ مقبوضہ فلسطین کو اس کے اصل وارثوں کے حوالے کر دیا جائے۔25؍ جون کو اپنے ایک بیان میں لبنان کے مفتی اعظم کا کہنا تھا کہ ہمارے بعض عرب ممالک کو اربوں ڈالر کے عوض ورغلانے کی کوشش کرنے والے یہ جان لیں کہ سرزمین فلسطین کوئی مال تجارت نہیں کہ اس کی قیمت لگائی جائے۔ہماری میراث، اخلاق، دین اور حسب ونسب ہمیں متحد ہونے اور اپنے اندر طاقت پیدا کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ آج فلسطینی قوم اس لیے اپنے حقوق سے محروم ہے کہ اس کا مقابلہ مادی اعتبار سے سے غاصب اور طاقتور جابر ریاست کے ساتھ ہے مگر فلسطینی قوم کے ساتھ عرب ممالک بالخصوص لبنانی قوم ایسا کوئی فارمولہ یا امن عمل قبول نہیں کرے گی جس میں آزاد فلسطینی ریاست اور بیت المقدس کو اس کا دارالحکومت بنائے جانے سے کم کوئی بات کی گئی ہو۔گذشتہ دنوں فلسطینی وزیر خزانہ شکری بشارا نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ فلسطینیوں کو آزادی چاہیے، اربوں ڈالرز کے منصوبوں پر بات چیت کی ضرورت نہیں ہے۔وزیرخزانہ نے کہا کہ فلسطینی ملک کی تعمیر و ترقی کیلئے خطے میں امن چاہتے ہیں، پہلے ترقی اور پھر امن غیر حقیقی خواب و خیال ہے، سب سے پہلے فلسطینیوں کو ان کی زمین اور آزادی واپس کی جائے۔اگر مسلم حکمراں دشمنانِ اسلام کی پالیسیوں کو سمجھتے ہوئے فلسطین کی آزادی کے لئے متحدہ جدوجہد کریں تو شاید فلسطین کو آزادی بھی ملے گی اور اسرائیل اپنی سازشوں میں ناکام بھی ہوگا۔

ترکی کی جانب سے روسی میزائل نظام خریدنے کو ترجیح
ترکی کی جانب سے روسی میزائل نظام S400کی خریدی پر امریکہ چراغ پا ہے اور وہ نہیں چاہتا کہ امریکہ کےF35 لڑاکا طیاروں کے ساتھ روس کا میزائل نظام ترکی خریدے۔ امریکہ نے روس سے میزائیل نظام خرنے کی وجہ سے ترکی کے پائلٹوں کو F35لڑاکا طیاروں کی تربیت دینے سے روک دیا ہے اور اس نے ایف 35لڑاکا طیارے بھی ترکی کو دینے سے انکار کردیا ہے۔ اس کے باوجود ترکی نے ایس 400میزائل نظام روس سے حاصل کررہا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق ترک وزیرخارجہ مولود چاؤش اولو نے کہا ہے کہ ترکی روس سے S400 میزائل نظام خرید چکا ہے اور اب ان کی حوالگی کی تاریخ طے کی جا رہی ہے۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق انہوں نے کہا کہ اس معاملہ پر امریکہ تنہائی کا شکار ہے۔ انقرہ میں ایک پریس کانفرنس میں ترک وزیرخارجہ نے کہا کہ ایف35 لڑاکا طیارے بنانے میں شامل دیگر ممالک امریکہ کی جانب سے ترک پائلٹوں کی تربیت کا عمل روکنے کے مخالف ہیں۔ امریکہ کا موقف ہے کہ روس کا ایس 400 میزائل نظام نیٹو کے دفاعی نیٹ ورک سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اب دیکھنا ہے کہ ترکی کے صدر رجب طیب اردغان کی حکومت امریکہ کے فیصلہ کے خلاف کیا کرتی ہے۔

امریکہ اور ایران کے درمیان مزید کشیدگی
ایران کے خلاف امریکہ کی جانب سے سخت ترین پابندیوں کی وجہ سے ایرانی معیشت پر بڑا اثر پڑرہا ہے اور عام لوگوں کی زندگی شدید متاثر ہورہی ہے۔ذرائع ابلاغ کے مطابق گذشتہ دنوں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے رہبر اعلیٰ خامنہ ای اور کئی اشخاص پر پابندیاں عائد کردیں ہیں اور کہا کہ یہ اضافی پابندیاں ایران کے جارحانہ رویے کا جواب ہے۔ امریکہ یہ الزام عائد کرتا ہے کہ آیت اﷲ علی خامنہ ای کو دولت کے ایک بڑے ذخیرے تک رسائی حاصل ہے جس کے ذریعہ ایران کے پاسداران انقلاب کی مالی معاونت کی جاتی ہے۔ امریکی وزیر خارجہ مائل پومپیو کے مطابق یہ دولت کم از کم 95ارب ڈالر پر مشتمل ہے۔ ایرانی صدر حسن روحانی امریکی صدر ٹرمپ کی پالیسی کو جنجھلاہٹ کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے وائٹ ہاؤس کو ’’ذہنی بیمار‘‘ قرار دیا۔روحانی نے مزید کہا کہ رہبرِ اعلیٰ کے خلاف پابندیاں بے کارثابت ہونگی اور انہوں نے ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف سے متعلق کہا کہ جو لوگ ان کے وزیر خارجہ کو نشانہ بنارہے ہیں وہ سفارت کاری کا راستہ بند کررہے ہیں۔ امریکہ اور ایران کے درمیان حالات مزید کشیدہ ہوتے جارہے ہیں جس کی وجہ سے ایران کی معیشت بُری طرح متاثر ہورہی ہے۔ذرائع ابلاغ کے مطابق ایرانی شہریوں نے کہاہے کہ ان پابندیوں نے ان کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ان پابندیوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے اقتصادی بحران نے 80 ملین آبادی کے ملک ایران کے ہر شخص کو متاثر کیا ہے۔زیادہ تر ایرانی شہری اس کا الزام صدر ٹرمپ اور ان کی ایران کے خلاف سخت پالیسیوں کو قرار دیتے ہیں۔ 2015ء میں ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان طے پانے والے جوہری معاہدے کے بعد حالات رفتہ رفتہ بہتری کی طرف بڑھ رہے تھے، تاہم گزشتہ برس ڈونلڈ ٹرمپ نے اس معاہدے سے اخراج کا اعلان کر کے ایران کے خلاف دوبارہ پابندیاں نافذ کر دیں۔ ایرانی قائدین عوام کو حالات سے مقابلہ کرنے کی تلقین کررہے ہیں یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہیکہ جوہری ڈیل کے وقت ایک امریکی ڈالر 32 ہزار ایرانی ریال کے برابر تھا، تاہم اس وقت ایک ڈالر کے مقابلے میں ایرانی ریال کی قدر کم ہو کر ایک لاکھ تیس ہزار تک پہنچ چکی ہے، جب کہ افراطِ زر کی شرح 27 فیصد اور بے روزگاری کی شرح 12 فیصد تک جا پہنچی ہے۔ایران اور امریکہ کے درمیان کشیدہ تعلقات کا نقصان صرف ایران کو ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر کئی ممالک پر پڑے گا ۔

اپوزیشن کی جانب سے عمران خان کی حکومت گرانے کا اعلان
پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان ملک کو ایک نئی جہت دینا چاہتے ہیں لیکن کیا وہ اس میں کامیاب ہوپائیں گے ؟ یہ سوال اس لئے پیدا ہوتا ہے کیونکہ عمران خان کے خلاف اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے متحدہ طور پر حکومت گرانے کی بات ہورہی ہے ۔ ڈیلی پاکستان آن لائن کے مطابق 26؍ جون کو اپوزیشن جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس مولانا فضل الرحمن جمعیت علماء اسلام پاکستان (ف) کی صدارت میں منعقد ہوئی جس میں حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک کا فیصلہ کیا گیا ہے ، بتایا جاتا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں پارلیمنٹ کے اندر اور باہر مشترکہ تحریک چلائیں گی جبکہ آل پارٹیز کانفرنس میں اسمبلیوں سے استعفے دینے پر اتفاق نہ ہوسکا۔احتجاجی تحریک کیلئے کمیٹی بھی بنائی گئی ہے جو حکومت کے خلاف احتجاج کا لائحہ عمل طے کرے گی ۔اس موقع پر مولانا فضل الرحمن نے آل پارٹیز سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 25؍ جولائی کو ملک بھر میں یوم سیاہ کے طور پر منانا چاہئے ، اس سلسلہ میں انکا کہنا ہے کہ 25؍ جولائی 2018کو پاکستان میں عام انتخابات ہوئے تھے جس میں بدترین دھاندلی ہوئی تھی۔اب دیکھنا ہے کہ عوامی مشکلات اور حکومت کے خاتمے کے لئے تمام اپوزیشن جماعتیں کس طرح تحریک چلاتے ہیں اور انہیں کس حد تک کامیابی حاصل ہوتی ہے۔ کیونکہ عمران خان ایک مضبوط حکمراں کی حیثیت سے اس وقت پاکستان کے وزیر اعظم دکھائی دیتے ہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان ساتھ فوج اور عدلیہ بھی ہے ۔ پاکستان کی ترقی و خوشحالی کے لئے عمران کی ایک سالہ مساعی بھی اہمیت کی حامل سمجھی جارہی ہے۔ گذشتہ دنوں قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی نے پاکستان کا دو روزہ دورہ کیا ۔ انکی واپسی کے دوسرے دن قطر کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ’’قطر نیوز ایجنسی‘‘ نے امیر قطر شیخ تمیم بن حمد الثانی کی ہدایت پر قطر کے نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ نے پاکستان میں تین ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا جو ڈپازٹ اور براہ راست سرمایہ کاری کی صورت میں بتائی گئی ہے۔ اس طرح پاکستان نے چین سے 4.6ارب ڈالر کا پیکج لیا ہے جس میں ڈپازٹ اور قرضے شامل ہیں جبکہ سعودی عرب سے تین ارب ڈالر کیش ڈپازٹ اور 3.2ارب ڈالر تیل کی تاخیر سے ادائیگیوں سے متعلق ہے۔ اس کے علاوہ مختلف اداروں سے بھی عمران خان کی حکومت نے 6ارب ڈالر کا قرض حاصل کیا ہے جس میں بینک بھی شامل ہے ۔ جبکہ بین الاقوامی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) سے بھی 6ارب ڈالر کے معاہدے کی منظوری کا امکان ہے۔ اس طرح عمران خان ملک کی معیشت کو بہتر بنانے کے لئے اربوں ڈالر قرض حاصل کرچکے ہیں ۔وزیر اعظم نے گذشتہ دنوں قوم سے خطاب کے دوران کہاکہ جن جن لوگوں کا ٹیکس واجب ادا ہے وہ 30؍ جون تک ٹیکس ادا کریں کیونکہ حکومت کے پاس تمام ٹیکس دہندگان کی تفصیلات موجود ہے اور حکومت نہیں چاہتی کہ جو ٹیکس نہیں بنے وہ شرمندہ ہوں، اسی لئے انہیں ایک موقع دیا گیا ہے ۔عمران خان کا کہنا تھاکہ اگر تمام افراد جن پر ٹیکس واجب ادا ہے انکی جانب سے یہ رقم ادا کردی گئی تو پاکستان قرضوں کے بوجھ تلے سے نکل سکتا ہے ۔ وزیر اعظم کی وارننگ کا نتیجہ ہوسکتا ہے کہ 26؍ جون کو آل پارٹیز کانفرنس منعقدکرنے پر اپوزیشن مجبور ہوئی ہو اور حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا فیصلہ کیاہے ۔اب دیکھنا ہیکہ عمران خان اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے انکے خلاف چلائی جانے والی تحریک سے کس طرح نمٹتے ہیں اور فوج و عدلیہ کے علاوہ عام لوگ انکا کس حد تک ساتھ دیتے ہیں۔
***
 

Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid
About the Author: Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid Read More Articles by Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid: 352 Articles with 207353 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.