جنوبی ایشیا میں تیزی کے ساتھ تذویراتی تبدیلیاں رونما
ہونے جا رہی ہیں ۔ چند دنوں میں افغانستان امن عمل تنازع کے حوالے سے یک
بعد دیگر کئی اہم پیش رفت سامنے آئی ہیں ۔ گو کہ خطے میں ایران ، پاکستان
اور افغانستان کئی اہم مسائل سے دوچار ہیں اس کے باوجود قیام امن کے لئے
پاکستان کا مثبت کردار پوری قوت کے ساتھ ابھر کر سامنے آیا ہے۔ افغانستان
امن عمل میں ماسکو فارمیٹ سے جرمنی کی سہولت کاری کے سبب کابل انتظامیہ کے
بغیر افغان امن عمل کے دو اہم مذاکراتی دور ہوچکے ہیں۔ جب کہ دوحہ میں
امریکا کے ساتھ ساتواں مذاکراتی دور 29جون کو ہونے جارہا ہے ۔ قبل ازیں 22
جون کو بھوربن کانفرنس میں منعقد ہوئی جس میں افغانستان کی 18 ممتازشخصیات
سمیت 57 مندوبین نے شرکت کی،ان میں بیشتر غیرپشتون تھے جو افغانستان میں
پاکستان کے کردار کے حوالے سے ہمیشہ شک وشبہات کا اظہارکرتے آئے ہیں ۔اس
کانفرنس میں گلبدین حکمت یار،کریم خلیلی،عطا نورمحمد،فوزیہ کوفی، محمد
محقق،محمد یونس قانونی،اسماعیل خان اور حنیف اتمار نمایاں تھے۔ کانفرنس کے
روح رواں سابق سیکریٹری خارجہ ششماد احمد جن کے بعض افغان لیڈروں سے ذاتی
تعلقات ہیں، نے بتایا کہ’’ کانفرنس کا مقصدانٹرافغان ڈائیلاگ شروع کرانا
تھا۔اس کیلیے بیشترکام خفیہ انداز میں کیا گیا تاکہ زیادہ سے زیادہ افغان
لیڈروں کی شرکت کو یقینی بنایا جاسکے۔سابق افغان صدر حامد کرزئی بھی آنے کو
تیار تھے لیکن انہوں نے کچھ مطالبات پیش کیے تھے جنھیں پورا کرنا مختصر وقت
میں ممکن نہیں تھا۔ امید ہے کہ وہ مستقبل میں ایسی کسی میٹنگ میں ضرور شریک
ہوں گے‘‘۔
25جون کو امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کابل کا دورہ کیا جہاں امریکی
سفیر جان بوس اور نیٹو کے کمانڈر، جنرل آسٹن اسکوٹ مِلر کے علاوہ، افغان
صدر اشرف غنی اور چیف اگزیکٹو، عبداﷲ عبداﷲ سے ملاقاتیں کیں۔ افغان صدر سے
ملاقات کے دوران، سفیر جان بوس کے علاوہ ایلچی برائے افغانستان زلمے خلیل
زاد کے علاوہ جنرل مِلر بھی شریک تھے۔ اس توقع کا اظہار کیا ہے کہ ’’یکم
ستمبر تک افغان امن سمجھوتہ طے پا جائے گا، جو ان کے بقول ’یقینی طور پر
ہمارا مشن ہے‘۔''کابل میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے، اُنھوں نے کہا کہ اس
سلسلے میں پاکستان کا کردار اہم ہے، جس ضمن میں پیش رفت ہوئی ہے۔26 جون کو
امریکی وزیر خارجہ مائیک پومیو نے نئی دہلی گئے جہاں وزیر اعظم نریندر
مودی، وزیر خارجہ ایس جے شنکر اور قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول سے ملاقات
اور تبادلہ خیال کیا۔ جے شنکر اور پومپیو کے درمیان وسیع تر مذاکرات میں
باہمی دلچسپی کے امور کے علاوہ انڈوپیسفک، ایران اور افغانستان جیسے عالمی
امور پر بھی تبادلہ خیال ہوا۔ جاپان میں گروپ 20سربراہ اجلاس میں امریکی
صدر ٹرمپ اور بھارتی وزیر اعظم کے درمیان ملاقات بھی ہوگی ۔ یہ ملاقات بھی
خطے کے مسائل کے حوالے سے بڑی اہمیت کی حامل ہے۔
27جون کو افغان صدر پاکستان کا ساڑھے چار برس بعد دو روزہ دورے پر آئے ۔ اس
قبل نومبر2014اور دسمبر2015کو ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں شرکت کے لئے
پاکستان آئے تھے۔ افغان صدر اشرف غنی کا پاکستان کا یہ تیسرادورہ ایسے وقت
ہواجب کابل سے بھارت جانے والے امریکی وزیر خارجہ نے بھارت ، امریکا تجارتی
تنازع کے علاوہ افغانستان کے امور پر بھی بات کی ۔اس سے قبل کئی بار
پاکستان ، افغان صدر کو پاکستان دورے کی دعوت دے چکا تھا لیکن اشرف غنی نے
پاکستان دورے کو موخر رکھا اور پاکستان کے خلاف الزام تراشیوں سمیت
پاکستانی کے اندرونی معاملات خاص طور پی ٹی ایم کی حمایت کی جس سے سفارتی
تعلقات متاثر ہوتے چلے گئے ۔ صدر اشرف غنی کی مدت صدارت جولائی میں ختم
ہونے کے بعد افغان سپریم کورٹ کی جانب سے بڑھا دی گئی تھی ۔ افغانستان میں
متعدد بار صدارتی انتخابات موخر کئے جانے کے بعد ایک بار ستمبر2019کو
صدارتی انتخابات کرائے جانے کی بازگشت ہے اور اشرف غنی مضبوط امیدوار تصور
کئے جاتے ہیں ، تاہم افغانستان کے صدارتی انتخابات میں گلبدین حکمت یار،
ڈاکٹر عبداﷲ عبداﷲ سمیت کئی اہم شخصیات حصہ لے رہی ہیں ۔ لیکن دوسری جانب
امریکا کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو و افغانستان کے لئے امریکی صدر کے خصوصی
معاون زلمے خلیل زاد نے افغانستان سے20ہزار سے زاید غیر ملکی فوجیوں کے
انخلا کی حتمی تاریخ کا اعلان کردیا ہے کہ ستمبر تک افغان طالبان سے
سیکورٹی معاہدہ طے پا جائے گا ۔ واضح رہے کہ 20ہزار غیر ملکی فوجیوں میں
14ہزار امریکی فوجی ہیں ۔ 29 جون کو دوحہ میں افغان طالبان کے ساتھ امریکی
کا ساتواں دور منعقد ہونے جا رہا ہے اور امریکی حکام اس بات کی تصدیق کرچکے
ہیں کہ افغان طالبان سے نئے سیکورٹی معاہدے کی دستاویزات تیار ہوچکے ہیں ۔
ذرائع کے مطابق دوحہ کے پانچویں مذاکراتی دور کے دوران دونوں فریقین کی
جانب سے ایک مشترکہ کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جو افغانستان سے غیر ملکی افواج
کے انخلا اور انتقال اقتدار کے فارمولے پر کام کررہی تھی ۔ گزشتہ دنوں دوحہ
قطر کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے جب ایک ٹویٹ میں بتایا کہ
امریکا فوجی افواج کے انخلا پر رضا مند ہوگیا ہے تو زلمے خلیل زاد کا مبہم
بیان سامنے آیا کہ ابھی کچھ طے نہیں ہوا ۔ جبکہ کابل میں امریکی جنگی
ترجمان ڈیوڈ بٹلر نے امارت اسلامی کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین کے
اس بیان پر تبصرہ میں کہا تھا کہ’’ امریکا کے ساتھ مذاکرات میں اتنی پیش
رفت ہوئی ہے کہ امریکا نے افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات میں اپنے تمام
فوجیوں کے انخلاء کا وعدہ کیا ہے۔ ڈیوڈ بٹلر کہا کہ’’ انخلاء کے بارے میں
طالبان کی بات درست نہیں ہے۔ان کا کہنا تھا کہ طالبان کے رہنما افغانستان
میں موجود نہیں ہیں وہ دوسرے ممالک سے ٹویٹ کرتے ہیں۔ ہم افغان فورسز کی
تربیت کے لیے یہاں موجودرہیں یہاں تک کہ افغانستان میں امن آئے‘‘۔امریکا
چار نکات پر مذاکرات کی بات کرتا ہے لیکن افغان طالبان دو نکات کو مذاکرات
کا محور قرار دیتے آئے ہیں۔
افغان طالبان نے ڈیوڈ بٹلر کے بیان کو حقیقت کے منافی قرار دیتے ہوئے
کہا’’امریکی وفد نے جن نکات پر اتفاق کیا تھا وہ افغانستان سے غیرملکی
فوجیوں کا انخلاء اور افغانستان کی سرزمین ان کے خلاف استعمال نہ کرنے کی
ضمانت ہے ۔ افغان طالبان کے مطابق گزشتہ مذاکرات کے چھ میٹنگز میں انہیں دو
نکات پر زیادہ گفتگو ہوتی رہی۔جس پر دونو ں فریق متفق تھے۔البتہ فوجیوں کے
انخلاء کے طریقہ کار اور مدت انخلاء جیسے مسائل پر اتفاق نہیں ہوسکا تھا۔اس
بات کی وضاحت نہ صرف امارت اسلامی بلکہ خلیل زاد بھی کر چکے ہیں۔ فوجیوں کے
انخلاء کے علاوہ دوسرے مسائل پر خلیل زاد نے درجنوں مرتبہ افغان میڈیا کو
بتایا کہ دوسرے مسائل افغان قوم کے اندرونی مسائل ہیں اور وہ خود آپس میں
بیٹھ کر کوئی حل نکال لیں۔اس پورے مذاکراتی سلسلے کا لب لباب یہ ہے کہ
امریکا نے اصولی طور پر اپنے فوجیوں کے انخلاء اور طالبان نے افغانستان کی
سرزمین ان کے خلاف استعمال نہ کرنے کی ضمانت دی ہے۔ البتہ میکنیزم پر اتفاق
نہیں ہوسکا ہے‘‘۔
ڈیوڈ بٹلر کے شدید ردِ عمل سے واضح ہوتا ہے کہ امریکا اور افغان طالبان
مذاکرات میں طے معاملات پر وائٹ ہاؤس و پینٹاگون ایک صفحے پر نہیں
ہیں۔افغانستان میں امریکی انخلا کے حوالے سے کئی بار متضاد بیانات اور کابل
انتظامیہ کی جانب سے رخنہ ان تحفظات کو تقویت دے رہا ہے کہ کچھ عناصر
افغانستان میں امن نہیں چاہتے ۔ نیٹو ترجمان نے سہیل شاہین کے ٹویٹ کے جواب
میں ڈیوڈ بٹلرکا مزید کہنا تھا کہ’’ افغان طالبان کے رہنما افغانستان میں
موجود نہیں صرف’’ چند افراد‘‘ کو یہاں لڑنے کے لیے رکھا ہے اور خود باہر سے
ٹویٹ کرتے ہیں‘‘۔ جس پر افغان طالبان نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ’’ اگر ان
کی بات کو درست مان لیا جائے کہ طالبان کے کمانڈرز ملک سے باہر ہیں تو آئے
روز چھاپے اور بمباریاں کس مقصد اور کن پر ہوتی ہیں جہاں بعد میں ہر روز
میڈیا پر یہ بیان داغ دیا جاتا ہے کہ فلاں آپریشن میں اتنے طالبان کمانڈر
ماردیے اور اتنے گرفتار کر لیے گئے، ان کے مراکز تباہ کر لیے گئے۔اگرا ن سے
پوچھا جائے کہ امارت اسلامی کے کئی صوبوں ہلمند، بغلان، قندوز اور قندہار
کے گورنرز افغانستان میں شہید ہوئے یا ملک سے باہر تو ان کا جواب کیا
ہوگا۔کیا اس قسم کے متضاد بیانات امن مذاکرات کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہیں؟،
نیٹو کے اس جنگجو نے کہا کہ امریکا افغانستان میں قیام امن تک افغان فورسز
کی تربیت اور مدد کے لیے موجود رہے گا۔حالانکہ اس سے قبل بٹلر نے خود ایک
بیان دیا تھا کہ افغان قوم کی اکثریت غیر ملکی افواج کی موجودگی کے خلاف
ہے‘‘۔
افغان طالبان اور امریکا کے درمیان افغان امن عمل کا نتیجہ خیز دور ہورہا
ہے ۔ امریکی وزیر خارجہ نے ستمبر2019 تک صدارتی انتخابات سے قبل غیر ملکی
افواج کے انخلا کی حتمی تاریخ کا بھی اعلان کیا تاہم اس پر اُس وقت تک یقین
نہیں کیا جاسکتا جب تک غیر ملکی افواج کے افغانستان سے انخلا کا باقاعدہ
معاہدہ منظر عام پر نہیں آ جاتا ۔ ذرائع کے مطابق یہ معاہدہ اپریل2019میں
طے پاچکا ہے تاہم کابل انتظامیہ کے متوقع شدید ردعمل کے سبب سامنے نہیں
لایا گیا ۔ تاہم مذاکرات کو کامیاب بنانے اور اعتماد کی فضا برقرار رکھنے
کے لئے افغانستان کی جیلوں میں سینکڑوں اسیروں کی رہائی بھی عمل لائی گئی
تاکہ افغان طالبان کے ساتھ مزاکرات کا عمل سرد مہری کا شکار نہ ہوجائے۔
افغان طالبان کی جانب سے جنگ بندی اُس وقت ہی ممکن ہے جب غیر ملکی افواج کا
افغانستان سے انخلا نہیں ہوتا ۔ یہی وجہ ہے کہ امارات اسلامیہ افغانستان کے
سیاسی مینڈیٹ کو جہاں کئی اہم یورپی ممالک نے تسلیم کیاہے تو پاکستان کی
جانب سے حتی امکان امن کوششوں کو سراہا گیا ہے۔ خاص طور پر پاکستان نے واضح
طور پر اعلان کیا ہے کہ ’’افغانستان میں پاکستان کا کوئی فیورٹ دھڑا نہیں
ہے‘‘۔ان خیالات کا اظہار وزیر خارجہ نے بھوربھن میں 'لاہور پراسیس' کے نام
سے منعقدہ افغان امن کانفرنس سے خطاب کے دوران کیا تھا۔افغان صدر اشرف غنی
کے دورہ پاکستان میں بھی ریاست نے واضح کیا ہے کہ پاکستان افغانستان سمیت
تمام ہمسایوں اچھے تعلقات چاہتا ہے ۔ افغانستان میں اقتدار افغان عوام کا
داخلی معاملہ ہے ۔ جس میں افغان عوام کی منشا اور مینڈیٹ کو پاکستان تسلیم
کرے گا ۔ پاکستان کا بنیادی مقصد و کاوشیں امن کے لئے ماحول کو سازگار
بنانا رہا ہے۔
پاکستان کی جانب سے افغانستان میں قیام امن کے لئے کوششوں کو عالمی سطح پر
سراہا جاتا ہے اور فریقین کی جانب سے بھی پاکستان کے مثبت کردار پر اطمینان
کا اظہار کئی مرتبہ کیا جاچکا ہے۔گو کہ کابل انتظامیہ اور بھارتی گٹھ جوڑ
کے سبب افغانستان میں قیام امن کے لئے مذاکرات کو کئی بار سبوتاژ کرنے کی
کوشش کی گئی ، خاص طور کابل انتظامیہ نے پاکستان پر کئی بے بنیاد الزامات
بھی لگائے لیکن پاکستان نے ہمیشہ اس بات کی کوشش کی افغانستان کا مسئلہ
افغان عوام کی خواہشات کے مطابق حل ہو ۔ ماضی میں افغانستان میں روسی
مداخلت کے بعد پاکستان بیرونی جنگ کا حصہ بنا ۔ جس کے مضمرات سے آج تک
پاکستان باہر نہیں نکل سکتا ، ہزاروں جانوں کی قربانی اور اربوں ڈالرز کے
مالی نقصان کے علاوہ ملکی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ چکا ہے۔ امریکی
صدر ٹرمپ کی جانب سے جنوبی ایشیائی ممالک کے لئے جب نئی پالیسی کا اعلان
کیا گیا اور اس پر عمل درآمد شروع کیا گیا تو امریکا کی جانب سے پاکستانی
کی عسکری امداد کم کرتے کرتے بند کردی گئی یہاں تک امریکا نے اپنے ذمے
کولیشن فنڈ بھی روک دیا جو آج بھی امریکا کے ذمے واجب الادا ہیں۔ پاکستان
نے امریکا کو اپنی فضائی و زمینی راہداری کے استعمال کے لئے بغیر کسی
معاوضے کے خدمات فراہم کیں ، اور اب بھی امریکا و نیٹو افواج کو لاجسٹک
امداد کی مفت فراہمی جاری ہے۔ لیکن اس کے باوجود امریکی صدر ٹرمپ نے
پاکستان پر بے بنیاد الزامات عاید کرتے ہوئے دباؤ ڈالنے کی کوشش کی ۔
پاکستان نے امریکی صدر کو پاکستان کی قربانیوں اور نقصانات سے آگاہ کیا ۔
بعد ازاں جب امریکی صدر زلمے خلیل زاد کو افغانستان میں قیام امن کے لئے
خصوصی ٹاسک دیا گیا تو پاکستان نے خصوصی مشیر کے ساتھ بھرپور تعاون کیا جس
کے نتیجے میں امریکا اورافغان طالبان کے درمیان براہ راست مذاکرات کا سلسلہ
شروع ہوگیا اور آج افغانستان میں قیام امن کا سورج ابھرتا واضح دیکھا
جاسکتا ہے کہ جلد ہی افغانستان میں امن کی صبح طلوع ہوگی اور افغان عوام
چار عشروں سے جاری جنگ کو ختم ہوتے دیکھ سکیں گے ۔
اس امر کا ادارک افغانستان کی سیاسی جماعتوں کو بھی ہوچکا ہے اس لئے انہوں
امارات اسلامی کے ساتھ رابطوں کا سلسلہ شروع کیا اور ماسکو فارمیٹ پرافغان
طالبان کے ساتھ باہمی گفت و شنید اور نئے افغانستان کے خدوخال پر باہمی
خیالات کا اظہار کیا گیا ۔ کیونکہ ماسکو کانفرنس میں کابل انتظامیہ و
امریکی حکام کا اثر نفوذ نہیں تھا اس لئے جرمنی و روس نے سیاسی امور کے لئے
ماسکو فارمیٹ کا طریق کار وضع کیا جو اب تک کی اطلاعات کے مطابق کامیاب رہا
ہے ۔ پاکستان میں بھی ماسکو فارمیٹ کی طرز پر افغانستان کی اُن سیاسی
جماعتوں کو ایک ایسا پلیٹ فارم فراہم کرنے کے لئے پہلی مرتبہ بھوربن
کانفرنس کا انعقاد ایک تھنک ٹینک کے ذریعے منعقد ہواجس میں افغانستان کا وہ
وفد شریک ہوا جس میں زیادہ تر تعداد پاکستان مخالف رہی تھی۔ گلبدین حکمت
یار سمیت افغانستان کے اراکین اسمبلی کی شرکت اور ڈیورنڈ لائن کے حوالے سے
پاکستانی موقف کو تسلیم کئے جانے اور مثبت بیانات کے بعد کابل انتظامیہ نے
بیرون ملک کانفرنسوں میں ایسے بیانات دینے پر پابندی عاید کردی ۔ تاہم
ساڑھے چار برس بعد افغان صدر اشرف غنی کی آمد سے قبل بھوربن کانفرنس نے
عالمی سطح پر توجہ حاصل کرچکی تھی اور اب صدر اشرف غنی کی آمد کو اہمیت دی
جا رہی ہے کیونکہ دوحہ میں امریکا اور افغان طالبان کے درمیان فیصلہ کن
مرحلے اور ستمبر تک نئے سیکورٹی معاہدے طے پائے جانے کی متوقع اطلاعات کی
وجہ سے اشرف غنی نے پاکستان سے تعلقات بہتر بنانے کا فیصلہ کیا ہے جس کا
اظہار ان کے وفد میں شریک کاروباری شخصیات سے ہوتا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان
سے ٹیلی فونک رابطے کے بعد ان کی دعوت پر افغان صدر اشرف غنی روزہ دورے پر
پاکستان آئے ۔ اسلام آباد کے نور خان ایئربیس پر مشیر تجارت عبدالرزاق داؤد
اور دیگر حکام نے افغان صدر کا استقبال کیا،اس موقع پر افغان سفیر عاطف
مشال اور دفتر خارجہ کے اعلی افسران بھی موجود تھے۔ آنے والے مہمان کو 21
توپوں کی سلامی دی گئی۔افغان صدر اشرف غنی کے ہمراہ وزرا، مشیران، سینئر
حکام اور کاروباری افراد سمیت ایک اعلیٰ سطح وفد موجود تھا۔ اس دورے کے
دوران افغان صدر کی وزیر اعظم عمران خان سے وفود کی سطح پر بات چیت ہوئی
افغان صدر کو وزیر اعظم ہاؤس میں گارڈ آف آنر دیا گیا، اعلی سطحی وفود ،جس
میں دونوں فریقین سیاست، تجارت، معیشت، سیکیورٹی، امن، بحالی، تعلیم سمیت
متعدد شعبوں میں دو طرفہ تعاون کو مضبوط کرنے پر توجہ دینے پر زور دیا گیا
اور مختلف مفاہمتی یاداشتوں پر دستخط بھی ہوئے۔پاکستان آنے والے افغان صدر
اشرف غنی اپنے دورے میں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی سے ملاقات و تھنک ٹینک
سے خطاب کے بعدصدر اشرف غنی نے لاہور میں بزنس فورم میں شرکت کی جس میں
دونوں ممالک سے کاروباری نمائندگان شریک ہوئے۔ افغان صدر نے گورنر اور وزیر
اعلی پنجاب سے بھی ملاقات کی اور بادشاہی مسجد میں نماز جمعہ ادا کرنے کے
بعد لاہور سے واپس افغانستان روانہ ہوگئے۔
امریکا اور نیٹو افواج کے انخلا کے بعد ہمسایہ ممالک کے درمیان سیاسی وملکی
مفادات میں ہم آہنگی وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ پاکستان افغانستان میں قیام امن
کا سب سے بڑا طلبگار بھی ہے کیونکہ افغانستان میں امن کے قیام سے پاکستان
میں ملک دشمن عناصر کی مذموم سازشوں کو دونوں ممالک مل کر ناکام بنا سکتے
ہیں۔ نیاافغانستان کیسا ہوگا ۔ یہ آنے والا وقت ثابت کرے گا ۔ تاہم اس بات
کی توقع کی جا رہی ہے کہ جس طرح سوویت یونین نے افغانستان کو خانہ جنگیوں
کے لئے چھوڑ دیا تھا اب امریکا وعالمی برداری اس بات کا ادارک رکھتی ہیں کہ
افغانستان سے انخلا کے لئے تمام اسٹیک ہولڈرز کو ایک صفحے پر ہونا چاہے ۔
کابل انتظامیہ کے ساتھ افغان طالبان کے اختلافات ایک ٹھوس موقف کی وجہ سے
تعطل کا شکار ہیں تاہم غیر ملکی افواج کے انخلا کے نئے سیکورٹی معاہدے اور
اس پر عمل درآمد کے بعد اپوزیشن اور دیگر سیاسی جماعتوں سے پہلے ہی
مذاکراتی دور ہو رہے ہیں جو مستقبل میں افغانستان کے سیاسی ڈھانچے کو
خلفشار اور خانہ جنگی سے بچانے میں مدد فراہم کرسکتا ہے ۔ افغانستا ن میں
اس وقت داعش ایک فتنے کے صورت میں موجود ہے ۔ تاہم افغان طالبان ان کے خلاف
موثر کاروائیاں کررہی ہے ۔ اور اس عزم کا اعادہ کرچکی ہے کہ داعش کو
افغانستان میں پنپنے نہیں دیا جا ئے گا ۔ امید کی جاسکتی ہے کہ دونوں
اسلامی ممالک اپنے دوستانہ تعلقات میں وسعت دیں گے۔افغانستان میں نئے سیاسی
ڈھانچے کے بعد پڑوسی ممالک سے اچھے تعلقات رکھنا خطے میں امن کے مستحکم
قیام کے لئے اہمیت کا حامل ہے جس کا پڑوسی ممالک بھی ادارک رکھتے ہیں۔ایران
اور پاکستان کی سرحدیں افغانستان سے ملتی ہیں اور افغانستان میں قیام امن
کے لئے دونوں ممالک کا کردار اہم ہے کیونکہ دونوں ممالک چار عشروں کی جنگ
کے خاتمے و لاکھوں افغان مہاجرین کی باعزت واپسی بھی چاہتے ہیں۔
|