دن بھر رضائی تمہاری دسترس میں ہو گی مگر رات کو میں
استعمال کروں گا ،دوچارپائیوں میں سے ایک پرتم سویا کرنا اور دوسری پرمیں
آرام کیاکروں گا ۔ ہمارے پاس واحد گائے آگے سے تمہاری ہوگی جبکہ پیچھے
کاحصہ میراہوگاتاہم روزانہ گائے کوچارہ دینااورپانی پلاناتمہاری ڈیوٹی
ہوگی۔بڑے بھائی نے مرحوم ماں باپ سے ورثہ میں ملے مختصر سامان کابٹوارہ
اوراپنی طرف سے مصنوعی رحمدلی کامظاہرہ کرتے ہوئے چھوٹے بھائی کواپنافیصلہ
سنادیا،معصوم بھائی خوش ہوگیا ۔بچپن سے پچپن تک کاسفر طے ہوگیا لیکن اس
کہانی کامفہوم ،پیغام اور انجام آج بھی یادہے۔ یہ کہانی ہمارے پولیس کلچر
پرصادق آتی ہے جہاں ''پی ایس پی'' بڑے بھائی کی حیثیت سے اپنے چھوٹے
بھائی'' رینکرز'' کااستعمال اوربدترین استحصال کرتے ہیں۔فیلڈڈیوٹی
رینکرزجبکہ اجلاسوں کی صدارت پی ایس پی کرتے ہیں،ان میں سے زیادہ ترکو
قانون کی ا بجد کاعلم نہیں ہوتا۔متعدد پی ایس پی محکمانہ معاملات اورمقدمات
بارے اپنے ماتحت رینکرز سے مشاورت کرنے پرمجبور ہوتے ہیں۔ڈگریاں ڈھیربرابر
کیوں نہ ہوں مگر تجربے اورجذبے کاکوئی متبادل نہیں ۔پولیس
اہلکار''اشتہاریوں'' کو گرفتار کرنے کیلئے اپنی زندگیاں تک داؤپرلگادیتے
ہیں مگر ''اشتہار ''پی ایس پی کے نام کاچھپتایعنی کریڈٹ ٹھنڈے دفاتر میں
بیٹھے آفیسرزکوملتا ہے،پچھلے دنوں فیصل آبادمیں اشتہاریوں کی گرفتاری کیلئے
جانیوالے چارپولیس اہلکاروں نے لاہورواپس آتے ہوئے شیخوپورہ کے نزدیک جام
شہادت نوش کیااورچندزخمی بھی ہوئے ۔لاہور کی ایک خوش شکل خاتون ایس پی
انوسٹی گیشن کوخوامخواہ ''کرائم فائٹر ''کے خطاب سے نوازاگیامگر ان
اہلکاروں کو شاباش تک نہیں ملی جواشتہاریوں کوگرفتارکرنے میں پیش پیش رہے
۔دفاتر میں بیٹھے آفیسر نہیں بلکہ شرپسندعناصر کی سرکوبی کیلئے سردھڑ کی
بازی لگانے والے اہلکار کرائم فائٹرہیں۔ پیراشوٹرزخودتو اپنے ماتحت
اہلکاروں کی'' آمدنی'' سے ایک بڑا حصہ وصول کرتے ہیں مگر عزت،اختیارات،طاقت
اورشہرت میں سے ان سرفروش اورفرض شناس اہلکاروں کو ان کاجائز شیئر نہیں
دیتے ، جوادارے کی رٹ منواتے ہیں۔پولیس کانظام ان اہلکاروں کے دم سے چل رہا
ہے مگرالٹاانہیں سزاؤں سمیت گولیاں اورگالیاں ملتی ہیں۔ایک طرف شرپسندعناصر
کی گولیاں تودوسری طرف پی ایس پی پیراشوٹرز کی گالیاں ،یقینا اس ماحو ل میں
اہلکاروں کومورال گر نایقینی ہے۔سبھی پیراشوٹرظالم اور گالم گلوچ والے نہیں
ہوتے ۔ پنجاب پولیس کے سنجیدہ اور سلجھے ہوئے پی ایس پی آفیسرز نے اپنے
عمدہ کام سے اپنانام بنایا، ان میں سے سابق آئی جی پنجاب حاجی حبیب الرحمن
کو اپنے ماتحت اہلکاروں سے جومحبت ملی اورانہیں ریٹائرمنٹ پرجس عزت
اورعقیدت کے ساتھ رخصت کیا گیاوہ ہرکسی کونصیب نہیں ہوتی۔سابق آئی جی پنجاب
طارق سلیم ڈوگر ،شوکت جاوید،آفتاب سلطان،میجر(ر)ضیاء الحسن خان اورناصرخان
درانی پولیس کی نیک نامی کاسبب بنے۔ پنجاب پولیس میں محمدطاہر سے نفیس،شریف
النفس اوردوسروں کی عزت نفس کاخیال رکھنے والے بھی ہوتے ہیں ،جوایک ماہ آئی
جی پنجاب رہے کیونکہ ان کی طرح کے بااصول آفیسر بے اصولی اوروصولی
پرسمجھوتہ نہیں کرتے۔محمدطاہرآئی جی نہ ہوتے ہوئے بھی آج شاندار اندازسے
پنجاب پولیس کی آبیاری کررہے ہیں۔لاہورکے سابقہ سی سی پی او،ایڈیشنل آئی جی
کیپٹن (ر)محمدامین وینس جو پریشان حال شہریوں سمیت اپنے ماتحت
آفیسرزاوراہلکاورں میں آسانیاں بانٹا کرتے تھے ،لاہورکی سطح پرتھانہ کلچر
کی تبدیلی کیلئے کیپٹن (ر)محمدامین وینس کی خدمات اور دوررس اصلاحات
کوفراموش نہیں کیاجاسکتا۔پنجاب پولیس کیلئے پروفیشنل ایڈیشنل آئی جی طارق
مسعود یٰسین کادم غنیمت ہے۔ زیرک آفیسرسلطان احمدچوہدری،پرجوش افضال
احمدکوثر،پرعزم طارق عباس قریشی،ڈی آئی جی آپریشن لاہوراشفاق احمدخان ،
سلجھے ہوئے راناشہزاد اکبر،پراعتماد وقاص نذیر ،نیک نام محمدعلی نیکوکارا،
خرم علی شاہ ،شہزادہ سلطان ،جواداحمدڈوگر،اسرارعباسی،حسن اسدعلوی ، طیب
حفیظ چیمہ ،قلم اورقرطاس سے وابستہ کیپٹن (ر)لیاقت علی ملک ،کامران
یوسف،عبادت نثار،باقررضا،اطہراسماعیل ،منتظرمہدی ،رانافیصل ، سیّدندیم
عباس،عمارہ اطہر،اسماعیل کھاڑک اورشہبازالٰہی نمایاں ہیں۔تجربہ کاراورفعال
رینکرز میں اختر عمرحیات لالیکا ،چوہدری ذوالفقار ،چوہدری عاطف
حیات،مستنصرعطاء باجوہ،صفدررضاکاظمی،عاصم افتخار کمبوہ، قدآوراورسمارٹ ملک
یعقوب اعوان ،انورسعیدکنگرا،ذوالفقار بٹ،جاویدورک ،سیّدمختارشاہ ،ریاض
شاہ،اقبال شاہ ،رانازاہد،عاطف معراج اورسلیم بٹ کی کمٹمنٹ اورپیشہ ورانہ
قابلیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔پنجاب پولیس کے''بٹوارے''نے اس
کا''بیڑاغرق'' کردیاہے۔ پنجاب پولیس کے دوطبقات کئی دہائیوں سے مدمقابل
ہیں۔پی ایس پی اوران کے ماتحت رینکرز میں سردجنگ جاری ہے،رینکرزکواچھوت
سمجھنامناسب نہیں۔پولیس اصلاحات کے نام پر بنائی جانیوالی کمیٹیوں میں آج
تک کسی رینکر کونمائندگی نہیں ملی ۔رینکرز کی آراء اورتجاویز سنے اوران
پرسنجیدگی سے غور کئے بغیر پولیس میں دوررس اصلاحات کاخواب شرمندہ تعبیر
نہیں ہوسکتا۔میں سمجھتا ہوں جس طرح پاک فوج میں آفیسرطبقہ کی شروعات سیکنڈ
لیفٹیننٹ سے ہوتی ہے اس طرح پولیس میں بھی اے ایس آئی یاایس آئی کے عہدہ سے
آغاز ہوناچاہئے اورجوآفیسرمختلف اہم کورس اورامتحان پاس کرے وہ ترقی کی
منازل طے کرتاجائے ۔اگر واقعی تھانہ کلچر تبدیل،پنجاب سمیت چاروں صوبوں میں
پولیس کوسیاسی مداخلت سمیت بدعنوانی اوربدانتظامی سے پاک کرناہے تو ا سے
رینجرز کی طرز پرپاک فوج کے ماتحت کرناہوگااورانہیں تنخواہوں سمیت وہ
مراعات اورسہولیات دیناہوں گی جوپاک فوج کودستیاب ہیں۔ پاک فوج اوررینجرز
کی طرح پولیس کے صوبائی اورضلعی سطح پر اپنے باوردی ڈی پی آرزاورپی
آراوزہوں تویقینا اس کاتشخص بہت بہتر ہوگا۔بھارت میں بھی پولیس کے اپنے
آفیسرز کوترجمان مقررکیاجاتا ہے ۔جس طرح باوردی پولیس آفیسر پروفیشنل
اندازمیں اپنے محکمے کی ترجمانی کاحق اداکرسکتے ہیں اس طرح ڈی جی پی آر سے
آیا کوئی ''کبوتر باز''اور''سٹے باز'' ڈی پی آرنہیں کرسکتا۔میں نے پچھلے
دنوں سی پی او کے ڈی پی آرکوبے نقاب کیا جس کی آج تک تردید نہیں آئی مگر اس
کے باوجودآئی جی پی کیپٹن (ر)عارف نوازخان نے اس کیخلاف کوئی ایکشن نہیں
لیا ۔مجھے علم نہیں نایاب زیدی کوبرقراررکھنا آئی جی پی کیپٹن (ر)عارف
نوازخان کی ضرورت ہے یامیں ان کے اس رویے کو ضدکانام دوں،ان میں قوت برداشت
کافقدان ہے کیونکہ پچھلے دنوں ان پرتنقیدکی تو انہوں نے مجھے وٹس ایپ
پربلاک کردیا ۔نایاب حیدر کئی برسوں کی جہد مسلسل اورخوشامدکے بعداس وقت ڈی
پی آر بنا جب کیپٹن (ر)عارف نوازخان پہلی بار شہبازشریف کے دورمیں آئی جی
پنجاب مقررہوئے تاہم نگران سیٹ اپ میں عام انتخابات کے سلسلہ میں کیپٹن
(ر)عارف نوازخان کوتبدیل کردیاگیا ،ان کے بعدسیّدکلیم امام آئی جی پی
مقررہوئے مگرانہوں نے نایاب حیدر کوہٹاناضروری نہیں سمجھا تاہم پنجاب میں
آئینی تبدیلی کے بعد زیرک ،پروفیشنل ،ایماندار اورسلجھے ہوئے محمدطاہر
کوپنجاب پولیس کی کمانڈ ملی توانہوں نے نایاب حیدر کواس کی مخصوص'' شہرت''
کے پیش نظرفوری ہٹادیا۔محمدطاہر کے مختصرمگر موثر دورمیں نایاب حیدر نے سی
پی اومیں واپسی کیلئے بہت ہاتھ پاؤں مارے مگراسے کامیابی نہیں ملی
۔محمدطاہر کے بعد امجدجاویدسلیمی آئی جی پنجاب تعینات ہوئے تونایاب حیدر نے
پھر قسمت آزمائی مگر اس باربھی ناکام رہا مگر کیپٹن (ر)عارف نوازخان نے آتے
ساتھ نایاب حیدر کودوسری باراپناڈی پی آرمقررکردیا جوایک بڑاسوالیہ نشان
ہے۔جس شخص کودوزیرک آئی جی پنجاب مسترد کردیں اس میں کیپٹن (ر)عارف نوازخان
کوکیا خوبی نظرآئی۔گذشتہ دنوں آئی جی پنجاب نے میڈیا مینجمنٹ کیلئے ایک
سرکلر جاری کیا جس سے صحافی برادری میں غم وغصہ کی لہردوڑ گئی ہے،یقینا اس
متنازعہ اورعاقبت نااندیشانہ سوچ کے پیچھے نایاب حیدر کادماغ ہوگا۔پنجاب
میں پولیس کلچر برادری ازم نہیں بردباری سے تبدیل ہوگا،امجدجاویدسلیمی نے
راناشہزاداکبر کوہٹاکروقاص نذیرکوڈی آئی جی آپریشن لاہورلگایاتھا جبکہ
کیپٹن (ر)عارف نوازخان نے آتے ساتھ وقاص نذیرکوہٹاکراشفاق احمدخان
کاتقررکردیاجبکہ ضرورت کے باوجود ڈی آئی جی انوسٹی گیشن ڈاکٹرانعام وحیدخان
کاٹرانسفر نہیں کیا ۔ 22ویں گریڈ کے آئی جی پنجاب کے حکم پر پنجاب بھر کے
تھانوں کی حوالاتوں میں کیمرے نصب کر نے کے بعد گرفتار ملزمان پر تشدد نہ
ہونے کا مژداسنایا گیا، توکیا ملزمان پرتشدد صرف حوالاتوں میں ہوتا ہے
۔کیاتھانوں سے باہر بنے نجی عقوبت خانوں یاتھانوں کے دوسروں کمروں میں تشدد
نہیں ہوتا۔ زیادہ ترملزمان کوتھانوں کی حوالات بھی نصیب نہیں ہوتی کیونکہ
ان کی دوسرے مقامات پر خاطرمدارت کی جاتی ہے ۔آئی جی پنجاب کے حکم پر
کیمروں کی تنصیب کیلئے مقروض ملک کے کروڑوں روپے کاضیاع ایک بڑاسوالیہ نشان
ہے،واقعی ویژن گریڈکامحتاج نہیں ہوتا۔
تخت لاہور پربراجمان ہونیوالے ہر خادم نمامخدوم نے پولیس کلچر کی تبدیلی
کابیڑا اٹھایامگرحقیقت میں اس کابیڑہ غرق کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی
۔پولیس کے با وردی '' پیراشوٹر'' بھی تھانہ کلچر کوتختہ مشق اوراس کاکچومر
بنانے میں پیش پیش ہیں۔پیراشوٹراوپر سے نازل اورکافی حدتک زمینی حقائق سے
نابلد ہوتے ہیں۔پولیس کے'' رینکرز''کو قابلیت کے باوجودکئی دہائیوں سے پی
ایس پی کے'' اینگر ''کاسامنا ہے ۔پنجاب پولیس ہر دور کے ''خادم اعلیٰ'' کے
رحم وکرم پر ہوتی ہے اوراس کے اپنے بڑے آفیسر بھی جوتعلیم کی بنیادپرآتے
ہیں وہ بھی اپنے ماتحت اہلکاروں پررحم نہیں کرتے۔پی ایس پی ماتحت اہلکاروں
کو غلطیوں پرجائزسزا ضرورد یں مگران کی عزت نفس مجروح نہ کریں۔معمولی باتوں
پران کی مدت ملازمت میں کئی کئی برس کمی کرنااوران سے چھپاناجائزنہیں،
کیونکہ زیادہ ترکواس وقت معلومات ملتی ہیں جس وقت اپیل کا دورانیہ ختم
چکاہوتا ہے۔کندھوں پرزیادہ ''سٹارز'' سے انسان بڑا نہیں ہوتابلکہ بڑاوہ ہے
جس کواس کے کردار کی بنیاد پردوسروں سے''سٹار'' کاخطاب ملے ۔ بعض آفیسرز کے
افکاروکردارسے تعلیم وتربیت نہیں جھلکتی بلکہ ان کی آمرانہ طبیعت سے جہالت
چھلکتی ہے ۔تعجب ہے پولیس کلچر کی ''تبدیلی ''کے داعی وزیراعظم عمران خان
کے پاس ایک بھی'' بردبار'' نہیں جس کوتخت لاہورپر بٹھایاجاتا، عثمان بزدار
کوتخت لاہور پربٹھانے سے درحقیقت پنجاب میں کپتان کی سیاست کابھٹہ بیٹھ گیا
ہے لہٰذاء پنجاب میں آئینی تبدیلی تک کپتان کا''تبدیلی خواب'' شرمندہ تعبیر
نہیں ہوگا۔عثمان بزدار کے ہاتھوں پنجاب میں تھانہ کلچر تبدیل
ہوناتودرکنارالٹااس فورس کاشیرازہ بکھرجائے گا ۔ تھانہ کلچر کی تبدیلی
کیلئے دوسری بار وردی بدلناضروری نہیں بلکہ اسے ٹرسٹ وردی بناناہوگا ۔جہاں
تک پولیس میں اصلاحات کاتعلق ہے تواس ضمن میں آئی جی سے آرپی اوزاور ڈی پی
اوزتک ہرکسی کااپنااپنا ''و یژن ''ہے جوتھانہ کلچر کیلئے'' وزن'' یعنی بوجھ
بنتا ہے۔شرپسندعناصر کی سرکوبی کیلئے پنجاب پولیس کو''ڈنڈے ''سے زیادہ ایک
متفقہ اورمرکزی'' ایجنڈے ''کی ضرورت ہے مگر بدقسمتی سے پولیس کے
ہربااختیارآفیسر کی اپنی اپنی سوچ اورسمت ہے ۔ماتحت اہلکارو ں کی معمولی
باتوں پران کی توہین یا تبدیلی سے تھانہ کلچر تبدیل نہیں ہوگابلکہ پولیس
فورس خود تماشابن جائے گی ۔تھانوں سمیت مختلف دفاترمیں اہلکاروں کی تقرری
کادورانیہ یادوسری تیسری بارتعینات ہونا کوئی اہمیت نہیں رکھتا بلکہ
جواہلکار جہاں زیادہ موثراندازسے ڈیلیورکررہے ہیں انہیں ہٹانے کی بجائے ان
سے استفادہ کیا اورانہیں سراہا جائے ۔آئی جی پنجاب تھانہ کلچرکی تبدیلی
کیلئے ایک عام سپاہی کے مشوروں کوبھی اہمیت دیں ،دانش آفیسرز کیلئے مخصوص
یاان تک محدود نہیں بلکہ عام اہلکار بھی کوئی زبردست تجویزدے سکتا
ہے۔تھانوں میں تعینات عام اہلکار کامدعی اورملزم دونوں سے واسطہ پڑتا اوروہ
ان دونوں کی نفسیات سمجھتا ہے۔ آئی جی نہیں تھانیدار پولیس کاچہرہ ہے
،تھانیداروں کواجلے اورسلجھے بنائے بغیرتھانوں کاکلچر نہیں بدلے گا۔
|