خاموشی جرم ہے

وطن عزیز میں آجکل ہر لیڈر یہاں تک کہ سیاسی بونے اور بھگوڑے بھی انقلاب کی باتیں کرتے نظر آتے ہیں۔ دن رات انقلاب انقلاب ہورہا ہے، حریف سیاسی رہنماﺅں کو انقلاب سے ڈرایا جا رہا ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ مجھے انقلابی نوجوانوں کی ضرورت ہے۔ کوئی سات سمندر پار سے فوجی انقلاب کی بات کرتا ہے، کوئی بھٹو کے انقلاب کی بڑھکیں مارتا ہے ، کوئی تیونس کی مثال دیتا ہے، کوئی لیبیا کی اور کوئی مصر کی نقل مارنے کے چکر میں ہے۔ انقلاب، لفظ قلب سے نکلا ہے، یعنی جب دل کی حالت بدل جائے، آجکل کے حالات کے مطابق ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر یہاں کے راج سگھاسن پر بیٹھے لٹیروں کے دل کی حالت بدل جائے، اگر وہ اپنے دل سے یہ محسوس کریں کہ اب بہت ہوچکا، اب صرف اپنی ذات کی بات نہیں کرنی، اب پوری قوم کی بات کرنی ہے، اب یہاں کے غریب ، لاچار، بے بس، بے کس اور محروم عوام کے حقوق کی بات کرنی ہے، نہ صرف زبانی کلامی بات کرنی ہے بلکہ اس کے لئے تن من کی قربانی دینے کی تیاری بھی کرنی ہے، صرف یہ نہیں کہ ہزاروں میل کی دوری سے انقلاب کے درشن دیدئیے یا یہ کہہ دیا کہ اگر تعلیم کے لئے مجھے اپنا کوٹ بھی نیلام کرنا پڑا تو ایسا کر گزروں گا۔ صرف زبانی جمع و خرچ کافی نہیں کہ ہم بھٹو کے ”وژن“ کے مطابق انقلاب لائیں گے، تین چار مرتبہ روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگا کر برسراقتدار آنے والے اب اور کیا انقلاب لائیں گے کہ ان کی تجوریاں اتنا بھر چکی ہیں کہ ان میں مزید جگہ بھی نہیں رہی لیکن ہوس اور حرص اتنی زیادہ ہے کہ دن رات کرپشن کی جارہی ہے، دونوں ہاتھوں سے اس ملک کا خزانہ لوٹا جارہا ہے، اپنی شاہ خرچیوں کو ختم کرنے کی بجائے عوام پر بم چلائے جارہے ہیں، کہیں لوٹوں کا جمعہ بازار لگا کر ”اصولی“ سیاست کو فروغ دیا جارہا ہے، یہ ”سیاسی“ اور ”عوامی “ رہنما آخر کونسا انقلاب لائیں گے؟ کیا کبھی انہوں نے خود بھی سوچا ہے؟ کبھی غور کیا ہے کہ وہ عوام کو مزید کتنا بیوقوف بنائیں گے؟ ہر بات کی یقیناً کوئی نہ کوئی حد ہوتی ہے، کیا ہمارا طبقہ اشرافیہ اس ملک کی جڑیں کھوکھلی کرنے کی ہر حد پھلانگ نہیں چکا؟ اب کیا کسر باقی رہ گئی ہے؟

کیا پاکستان میں انقلاب آسکتا ہے؟ اگر آسکتا ہے تو کیسا اور کیسے؟ ہم نے 1947 ءسے آج تک جتنے فوجی آمروں کو دیکھا ہے، سبھی نے انقلاب کی بات کی، شروع شروع میں لوگوں کو یہ محسوس بھی ہوا کہ شائد اب یہاں کے عوام کی حالت میں کوئی بہتری آہی جائے لیکن ان انقلابوں کا کیا حال ہوا؟ کچھ ہی عرصہ بعد پھر لوگوں نے محسوس کیا کہ یہ تو ہماری منزل نہیں بلکہ ہم تو اپنے راستے سے ہی کوسوں دور جاچکے ہیں چنانچہ فوجی حکمرانی کے چند سال گزرنے کے بعد پھر سیاستدانوں کا تماشہ شروع ہوتا ہے اور وہ جمہوریت کے لئے عوام سے قربانی طلب کرنا شروع کردیتے ہیں، عوام قربانی کے لئے کمر کستے ہیں، حقیقت میں قربانیاں دیتے بھی ہیں لیکن نتیجہ کیا نکلتا ہے، سیاستدان ایسے ایسے کارنامے سرانجام دیتے ہیں کہ لوگ دوبارہ فوج سے امیدیں باندھ لیتے ہیں ”تمہی نے درد دیا ہے تمہی دوا دینا“ جیسے نعرے بلند ہوتے ہیں اور فوجی بھائی انقلاب کی راہ ہموار ہوتے دیکھ کر اپنی پتلونیں کسنا شروع کردیتے ہیں، ایسے حالات میں کہاں کے عوام اور کیسے عوامی حقوق؟ ہر کوئی تو اپنے پیٹ کی خاطر ڈگڈگی پر ناچ رہا ہوتا ہے۔

اگر پاکستان میں صحیح معنوں میں انقلاب لانا ہے تو اس کے لئے نہ فوج کی ضرورت ہے، نہ کسی خونی کھیل کھیلنے کی اور نہ ڈرنے اور سہمنے کی، اگر ضرورت ہے تو عوام کو اپنے حقوق کے ساتھ ساتھ فرائض سے آگاہی کی، اگر ہم اپنے فرائض کو کماحقہ ادا کرنا شروع کردیں، اگر ہم لوٹوں اور لٹیروں کو اسمبلیوں میں جانے سے روک دیں، اگر ہم آرٹیکل 62 اور 63 کے مطابق اپنے نمائندوں کا چناﺅ کرنا شروع کردیں، اگر ہم خود اپنا احتساب شروع کردیں، اگر ہم اپنے گریبانوں میں جھانکنا شروع کردیں، اگر ہم سیاسی مسخروں، لٹیروں، لوٹوں اور مداریوں سے اظہار نفرت شروع کردیں اور اگر ہم عوام حق بات کہنا شروع کردیں، حق کا ساتھ دینے اور باطل کو روکنے کے لئے اپنا کردار ادا کرنے کی ٹھان لیں تو یقین رکھیں یہاں جمہوری طریقہ سے بھی انقلاب برپا ہوسکتا ہے۔ کتنے نوجوان ہیں جو بیروزگاری کی زندگی جی رہے ہیں اور سارا سارا دن مارے مارے پھرتے ہیں اور راتوں کو موبائل فون کمپنیوں کے ”بے غیرتی“ پروگرام سے اپنی دنیا اور آخرت تباہ کرتے رہتے ہیں، کتنے محب وطن لوگ ایسے ہیں جو اپنے کاروبار اور نوکری کے بعد کا وقت ٹی وی دیکھنے میں گزار دیتے ہیں، کتنے بزرگ ایسے ہیں جو ریٹائرمنٹ کے بعد صرف وقت گزارنے کے لئے مختلف مشاغل میں مصروف ہوتے ہیں، اگر سب لوگ اپنے وقت کا تھوڑا تھوڑا حصہ کمیونٹی کو اکٹھا کرنے پر لگا دیں، اگر ریٹائر بزرگ اپنے اپنے محلوں کے آوارہ پھرتے نوجوانوں کی ٹیمیں تشکیل دے دیں، اگر ہر روز نہ صحیح ہر ہفتے سب محلے والوں کی ایک میٹنگ ہوجائے جس میں وہ اپنے مشترکہ معاشرتی مسائل ایک دوسرے کے ساتھ شیئر کرنے کے ساتھ، ان کا حل تلاش کرنے کے ساتھ پکا ارادہ کرلیں کہ اپنے محلے سے کسی ایسے امیدوار کو ووٹ نہیں دیں گے جس کا کردار ٹھیک نہ ہوگا اور جس کی پارٹی کا کوئی منشور نہ ہوگا اور جو یہ یقین دہانی نہ کرا دے کہ وہ اپنی پارٹی کے منشور کے مطابق اسمبلی میں اپنا کردار ادا کرے گا اور کسی قسم کی کرپشن میں ملوث نہیں ہوگا، اس سے قرآن پاک پر حلف لیا جائے اور اس کا محاسبہ بھی کیا جائے۔ اگر پوری قوم یہ فیصلہ کر لے کہ ہم پہلے سے آزمائے ہوئے لوگوں کو دوبارہ ہرگز نہیں آزمائیں گے، جن لوگوں کے کرتوت دیکھ چکے ہیں انہیں نہ صرف ووٹ نہ دئے جائیں بلکہ ان کا کڑا احتساب کیا جائے، ان کا ہر جگہ تعاقب کیا جائے، کرپٹ لوگوں کا سوشل بائیکاٹ کیا جائے، ان سے ہر طرح کے تعلقات منقطع کرلئے جائیں۔ ہمیں بولنا پڑے گا، حقوق کے حصول ساتھ فرائض بھی ادا کرنا ہوں گے اور سب سے بڑا فرض حکومت کے غلط اقدام کے خلاف آواز اٹھانا ہے، ہم دیکھ چکے ہیں کہ لانگ مارچ گوجرانوالہ نہیں پہنچا تھا اور عدلیہ بحال کردی گئی تھی، اس کا مطلب ہے کہ عوام اگر کچھ کرنے کی ٹھان لیں تو انہیں کوئی روک نہیں سکتا۔ امن و امان خراب کئے بغیر، توڑ پھوڑ کئے بغیر اپنا احتجاج ضرور ریکارڈ کرانا چاہئے اور حکومت کو یہ باور کروا دینا چاہئے کہ وہ ہمارے ہی نمائندے ہیں اور یہ حق حکمرانی نہیں بلکہ حق نمائندگی ہے، اگر عوام امریکہ سے چھٹکارا چاہتے ہیں تو عوام کے نمائندوں کو بھی اس کا ادراک ہونا چاہئے ، اگر عوام اپنی اور ملک کی خودداری اور خود مختاری کی حفاظت چاہتے ہیں تو ان کے نمائندے اور ان کے ٹیکسوں سے تنخواہ لینے والی فوج کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ خود داری کا مظاہرہ کریں، اگر عوام اپنے ملک کے وسائل کو استعمال میں لانا چاہتے ہیں تو عوام کے نمائندوں کو بھی ایسی ہی پالیسیاں ترتیب دینا پڑیں گی، اگر عوام دہشت گردی کی نام نہاد امریکی جنگ میں اپنے آپ کو جھونکنے کے خلاف ہیں تو ان کے نمائندوں کو اس جنگ سے جان چھڑانا ہی پڑے گی۔ اگر ہم امریکہ اور آئی ایم ایف کے چنگل سے نکل آئیں، اگر ہمارے نمائندے اپنی شاہ خرچیاں چھوڑ دیں، اگر ہم اپنے وسائل کو بہتر طریقے سے استعمال میں لانا شروع کردیں اور ان کے فوائد اس ملک کے لئے مختص کردیں، اگر ہم اپنی خودداری کے تحفظ کا ارادہ کرلیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم ناکام ہوں، کوئی وجہ نہیں کہ ہم یوں بدحال ہوں، کوئی وجہ نہیں کہ خوشحالی نہ آئے اور کوئی وجہ نہیں کہ یہاں تعلیم، روزگار، صحت اور انصاف کے مواقع ہر کسی کو مساوی طور پر دستیاب نہ ہوں۔ اگر انہی امور کو سامنے رکھ کر ہم اپنے نمائندوں کا انتخاب کریں، حق نماندگی ان لوگوں کے سپرد کریں جو اس کے اہل ہوں، اگر ایک دو الیکشن میں اس طرح کا عمل کیا جائے تو مجھے یقین ہے کہ ہم نہ صرف سیاسی شعبدہ بازوں کے چنگل سے نکل آئیں گے بلکہ آنے والی نسلوں کے لئے ایک بہتر پاکستان بھی چھوڑ جائیں گے۔ ایک صحیح جمہوری تبدیلی ہی ہمارے لئے انقلاب ثابت ہوسکتا ہے، اگر کوئی یہ سوچتا ہے کہ ہمارے مسائل کا حل کسی فوجی یا خونی انقلاب میں ہے تو وہ جان لے کہ ایسے انقلابوں سے ”گند“ صاف نہیں ہوتا بلکہ اکثر اوقات اس میں کسی قدر اضافہ ہوجاتا ہے۔ من پسند افراد کو نوازا جاتا ہے اور باقی لوگوں کے گلے کاٹ دئےے جاتے ہیں۔ ہمیں بحیثیت مجموعی، ایک قوم بن کر اپنے خاموشی کے خول کو توڑنا ہوگا، سوال کرنے ہوں گے اور ان کے جواب مانگنے ہوں گے، تلاش کرنا ہوں گے، کیونکہ اگر ہم اب بھی خاموش رہے تو کب بولیں گے؟ میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت خاموشی ایک جرم ہے، ایک اجتماعی قومی جرم، اور یاد رکھیں کہ قدرت قوموں کے اجتماعی جرائم ہرگز معاف نہیں کرتی....!
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 207420 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.