لیبیا اس وقت سرکاری فورسز اور
باغیوں کے مابین پانی پت کا میدان بنا ہوا ہے اور وہاں گھمسان کی لڑائی
جاری ہے۔ روزنامہ گارڈین کی رپورٹ کے مطابق لیبیا کی فورسز ناتجربہ کار اور
جنگی مہارتوں سے نابلد ہیں۔سرکاری فوج کی تعداد40 ہزار ہے۔ سرکاری افواج
میں بھگدڑ مچی ہوئی ہے اور فوجیوں کے کئی دھڑے باغیوں کے ساتھ مل چکے ہیں۔
قذافی نے اپنی ذاتی بٹالین اور فوجی لشکر بنا رکھا ہے۔ قذافی کے وفادار
جنگجوؤں میں جنوبی افریقہ سے لائے گئے کرائے کے فوجی بھی شامل ہیں۔ قذافی
کی ذاتی سیکیورٹی میں سوڈان صومالیہ چاڈ اور ساحل ا عاج سے تعلق رکھنے والے
افریقی جنگجو ایک دوسرے کا گلا کاٹ رہے ہیں۔۔ انقلابیوں کا کہنا ہے کہ
کرائے کے فوجی قتل و غارت بدامنی اور دادا گیری کررہے ہیں۔ قذافی کے ذاتی
لشکر میں شامل افریقی جوانوں کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ لیبیا لیبریا
رونڈا اور سیر الیون میں باغیانہ سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔لیبیا کی کل آبادی
60 لاکھ ہے۔اسرائیلی اخبار حارث کی شائع شدہ ڈائری کے مطابق قذافی کے لشکر
میں افریقن جنگجوؤں کی تعداد10000ہے انکا تعلق افریقی ساحلی پٹی سے ہے جو
قرون افریقہ سے سینیگال تک محیط ہے۔ زمبابوے اور چاڈ قذافی کے تخت کو
کاندھا فراہم کئے ہوئے ہیں۔ وہ لیبیا تک اسلحہ تو نہیں بھیج سکے تاہم قذافی
کے پڑوسی عرب افریقی ممالک نے فوجی جوانوں کو تریپولی بھیج دیا۔ قذافی کسی
دور میں بھٹو شاہ فیصل اور یاسر عرفات کے معتمد رہنما کی شکل میں عالم
اسلام کے اتحاد کا داعی تھا مگر بعد میں انکی سیاسی اور نظریاتی آئیڈیالوجی
میں تبدیلی واقع ہوئی اور اس نے ایک طرف متحدہ عرب کا نظریہ دفن کردیا تو
دوسری طرف قذافی نے علاقائی آتحاد کا فلسفہ ایجاد کیا جسکا نامthird
international idealogy مگر اسے افریقی خطے میں پذیرائی نہ مل سکی کیونکہ
افریقیوں کا خیال تھا کہ کہیں متحدہ ہائے افریقہ کے نام پر انکے ساتھ کوئی
دو دو ہاتھ نہ کرجائے۔ کرائے کے فوجیوں کو یومیہ دو ہزار ڈالر فراہم کئے
جارہے ہیں تاکہ وہ سر اٹھا کر چلنے والے انقلابیوں کو روندتے اور کچلتے
رہیں۔ لیبیا کی مخدوش صورتحال کا تجزیہ کرنے کے بعد ایک سوال مسلسل ذہن پر
غور و فکر کے کچوکے مار رہا ہے کہ قذافی کے بعد لیبیا کا انتظام اور انصرام
کا ذمہ کون نبھائے گا؟ مصر اور تیونس میں حاکموں کو عوامی قوت کے سامنے سر
خم تسلیم کرنا پڑا۔ وہاں جو خلا پیدا ہوا تو افواج نے سب کچھ سنبھال لیا۔
مغرب کے مقبول ترین دانشور گیری تھامس اپنے آرٹیکل قذافی کے بعد لیبیا کا
ممکنہ حل کیا ہوگا میں انٹیلی جینس سے جڑی ہوئی تنظیم سٹارٹا فار کے حوالے
سے لکھتے ہیں کہ قذافی نے جان بوجھ کر فوج کو کمزور رکھا تاکہ اسکی کرسی کو
کوئی خدشہ اور خطرہ لا حق نہ ہو۔ اسی تناظر میں لبیا کی فورسز کو طاقتور
بنانے اور فوجی اداروں کو مستحکم ہونے کا موقع نہ مل سکا۔ لیبیائی امور پر
دسترس رکھنے والے ڈونلڈ بریوس جان نے بتایا کہ قذافی کے جانے کے بعد کچھ حد
تک ہنگامہ آرائی ہوگی مگر خانہ جنگی کا امکان نہیں۔ لیبیا چونکہ قبائلی
معاشرہ ہے اسی لئے قبائل کی بابصیرت قیادت آگے آئے گی تاہم ابھی کچھ کہنا
قبل از وقت ہوگا۔ سیاسی مشاورت کرنے والے برطانوی تھنک ٹینکزMENAS کے سرخیل
چار لس گرڈون نے رائے زنی کی ہے کہ قذافی نے تیل کی دولت کو ریاست کے مغربی
اور وسطی علاقوں میں ترقیاتی کا موں کا جال بچھا دیا مگر مشرقی علاقوں کو
نظر انداز کردیا وہاں تو دونوں علاقوں کے مابین رنجش کدورت کی خلیج پیدا
ہوگئی۔چارلس گڈون تجزیہ کرتے ہیں کہ قزافی اقتدار سے الگ ہوجائیں۔ قذافی
اقتدار چھوڑ دیں تو لیبیا کا مستقبل کیا ہو گا یہی سوال کئی ابہام میں گھرا
ہوا ہے۔ اگر لیبیا تقسیم ہونے سے بچ گیا تو ایک لیبیا کے سامنے آنے تک
قذافی کا بچنا مشکل ہوگا اور کوئی اسے قبول کرنے پر رضامند نہ ہوگا۔یوں
لیبیا میں اقتدار کی کشمکش شروع ہوگی۔ لیبیا کے ان شہروں جہاں باغیوں کا
قبضہ ہوچکا ہے وہاں انقلابی سب سے پہلا کام یہی کریں گے کہ وہ لوگوں کو
قذافی دور کی تمام بلاؤں سے بچا لیں۔ قذافی کے درآمد کردہ افریقی فوجی راہ
فرار اختیار کرے گی۔ جبران کا قول ہے کہ جو قومیں اور افراد درست وقت پر
درست فیصلے نہیں کرتے انکی شناخت ہمیشہ کے لئے معدوم ہوجاتی ہے ۔ قذافی اور
عالمی طاقتوں کو ضد اور ہٹ دھرمی چھوڑ کر جبران کے جملے کی روشنی میں بصیرت
افروز اقدامات کرنے چاہئیں۔ ایک طرف قذافی فوری طور پر مستعفی ہوجائیں تو
دوسری طرف عالمی برادری لیبیا میں فوجی ایکشن کی بجائے لیبیا میں جمہوریت
کو روشناس کروائیں اور فوری طور پر الیکشن منعقد کروا کر حکومتی امور منتخب
حکمرانوں کے سپرد کریں کیونکہ یہی وہ درست وقت ہے جو درست فیصلوں کا تقاضہ
کر رہا ہے- |