ق لیگ، کنگز سے کنگال پارٹی تک

چودھری شجاعت کی باجماعت ایوان صدر یاترا اگرچہ اچھنبے کی بات نہیں لیکن عین اس وقت جب پنجاب میں سیاسی ہاہا کاری عروج پر تھی اصحاب قاف کی صدر زرداری سے ملاقات نے بہت سے سوالات پیدا کردیئے ہیں۔ملکی سیاسی صورت حال پر تو ان کا شاید اتنا اثر نہیں پڑے گا لیکن خود قا ف لیگ کے مستقبل کے حوالے سے البتہ دگرگوں حالات ضرور پیدا ہونگے اور یہ بھی ممکن ہے کہ اپنی مسلسل سیاسی غلطیوں کے سبب وہ آئندہ عام انتخابات میں الگ حیثیت سے حصہ لینے کی اہل بھی نہ رہے۔ہم خدانخواستہ نہ تو چودھری برادران کے مخالف ہیں اور نہ ہی قاف لیگ سے ہماری کوئی سیاسی دشمنی ہے لیکن کیا جائے کہ اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی مارنے کی روش اپنائے قاف لیگی قیادت خود ہی سب کچھ تباہ کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ اب یہ تو معلوم نہیں کہ چودھری برادران کی صدر زرداری سے ملاقات چودھری مونس الٰہی کو این آئی سی ایل کیس سے بچانے کی کوشش تھی یا پھر پنجاب میں مسلم لیگ ن کی جانب سے قاف لیگ کی کوکھ سے جنم لینے والے یونیفیکیشن بلاک کو گود لینے کا رد عمل ؟ لیکن اتنے اشارے ضرور ملے ہیں کہ قاف لیگ نے ”ہر مشکل“ میں ساتھ دینے کے عہدو پیمان ضرور کئے ہیں۔

یہ تفصیلات بھی ابھی تک سامنے نہیں آسکیں کہ یہ عہدوپیمان کن شرائط پر ہوئے ہیں یا پھر ”کچھ دو کچھ لو“ کے اصول کی نسبت کیا ہوگی لیکن مبصرین کل کے بد ترین سیاسی مخالفین کے پاس از خود چل کر جانے کے اقدام کو کچھ اور ہی رنگ میں لے رہے ہیں اور بہتے تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ ہیرو سے زیرو بنتی قاف لیگ اپنے منطقی انجام کے قریب ہے اور جلد ہی یہ مرحوم فاروق لغاری کی ملت پارٹی کی طرح کسی نہ کسی جماعت میں ضم ہوجائے گی۔یہ جماعت کون سی ہوگی اس کا تو فی الحال اندازہ نہیں البتہ قاف لیگ کے پہلے ہیرو سے زیرو بننے اور اب تیزی سے اپنے منطقی انجام کی طرف گامزن ہونے کی بات البتہ خاصی وزن دار ہے اور سیاسی مجبوریوں کے تحت معرض وجود میں آنے والی اس سیاسی جماعت کی تاریخ بھی کچھ ایسے ہی اشارے دے رہی ہے۔ سابق صدر پرویز مشرف کے اقتدار کو سہارا دینے کی خاطر بنائی گئی مسلم لیگ قاف اپنے قیام کے بعد آٹھ سال تک تو مزے میں رہی لیکن مشرف کی اقتدار سے علیحدگی اور پھر چھ ستمبر 2008ءکے صدارتی انتخابات کے بعد اس کا ستارہ زوال پذیر ہوا جبکہ بعد ازاں اس زوال پذیر ستارے کی گردش تیز سے تیز تر ہی ہوتی گئی۔چھ ستمبر 2008ء کے صدارتی انتخابات جہاں پیپلزپارٹی اور اس کی اتحادی جماعتوں کے لئے خوشی اور فتح کا پیغام ثابت ہوئے وہیں مسلم لیگ (ق)، گورنر پنجاب سلمان تاثیر اور وزیراعظم کے مشیر میاں منظور وٹو کیلئے عبرتناک شکست کا باعث بھی بنی ہیں۔ ان انتخابات نے یہ ثابت کردیا کہ مسلم لیگ (ق) کوئی سیاسی جماعت نہیں بلکہ ایک آمر کی پشت پناہی کے نتیجہ میں قائم ہونے والا ابن الوقت سیاستدانوں کا ایک ٹولہ ہی تھا۔

مسلم لیگ (ق) کی بنیاد 12 اکتوبر 1999ءکو ہی پڑی تھی جب پرویز مشرف نے میاں نواز شریف کی حکومت کو چلتا کر کے عنان اقتدار سنبھالی ۔ ابتداء میں چند لیگیوں نے ہم خیال گروپ کے نام سے ایک گروپ تشکیل دیا جبکہ پرویز مشرف نے بھی ضرورت ہی کے تحت اس گروپ کے سر پر دست شفقت رکھ دیا ۔ اس گروہ کی قیادت سابق گورنر پنجاب میاں اظہر کر رہے تھے بعدازاں اس گروہ کو مسلم لیگ (قائداعظم) کا نام دیا گیا اور اسی پلیٹ فارم سے 2002ءکے انتخابات میں بھی حصہ لیا گیا ۔ پرویز مشرف کی حمایت کے باوجود اگرچہ قاف لیگ کو پورے ملک میں واضح کامیابی نہ ملی تاہم اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے مرکز،پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں اس کی حکومت ضرور قائم ہوگئی ۔تاہم اس وقت کے جماعتی صدر میاں اظہر کو عبرتناک شکست کا سامنا کرنا پڑا جس کے بعد ان کو قیادت کے عہدے سے ہٹاکر چودھری شجاعت حسین کو صدر بنایا گیا اور12اکتوبر1999ئ17اگست2008ءکو پرویز مشرف کے استعفے تک مسلم لیگ (ق) کنگز پارٹی کی طور پر کام کرتی رہی ۔ پرویزمشرف نے اس جماعت کو مزید مضبوط کرنے کی لیے نئی حکمت عملی اختیار کی جس کے تحت اعجاز الحق کی ضیاءلیگ، میاں منظور وٹو کی جونیجو لیگ، سردار فاروق لغاری کی ملت پارٹی، پیرپگارا کی (ف) لیگ، ایس ڈی اے امتیاز گروپ اور ایس ڈی اے ارباب گروپ کو ملا کر ایک نئی شکل دی گئی اور اس کا نام ایک مرتبہ پھر تبدیل کر کے صرف پاکستان مسلم لیگ رکھا گیا مگر (ق) کا سابقہ ختم نہ ہوسکا۔

مسلم لیگ (ق) کے 5سالہ دور میں اس ملک میں جو کچھ ہوا اس کے تصور سے آج بھی رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ملک کی بربادی، لال مسجد اور جامعہ حفصہ پر فاسفورس کی بمباری،اکبر بگٹی کی ہلاکت، ملک کے نوجوانوں کو چند ڈالروں کے عوض فروخت،ڈاکٹر عافیہ کا اغوا اور امریکہ کو حوالگی کی علاوہ دیگر کئی خوفناک واقعات ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پرویز مشرف کی ضرورت رہنے والی اس جماعت نے پرویز مشرف ہی کو اپنی ضرورت بنا لیا یہاں تک کہ 18 فروری 2008ءکے عام انتخابات کے نتیجے میں قاف لیگ عبرتناک شکست سے دوچار ہوئی ۔ مرکز اور صوبوں میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور عوامی نیشنل پارٹی کی حکومتیں قائم ہوئیں جس کے بعد شدید عوامی دباؤ کی وجہ سے مشرف کو بھی اقتدار چھوڑنا پڑا۔ 18 فروری 2008ءکے عام انتخابات میں مسلم لیگ (ق) کے 172 ارکان کامیاب ہوئے جن میں قومی اسمبلی میں 54، پنجاب میں 84، سندھ میں 9، صوبہ سرحد میں 6 اور بلوچستان میں 19 ارکان جبکہ سینیٹ میں پہلی سے ہی 38ارکان موجود تھے۔ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے (ق) لیگ کے ارکان نے نئی پناہ گاہ کی تلاش شروع کردی، ابتداء بلوچستان سے ہوئی جہاں 19 میں سے 13 ارکان نے فاروڈ بلاک بنایا پھر نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا۔چھ ستمبر2008ء کا دن تو مسلم لیگ (ق) کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا، پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کو دیکھتے ہوئے مسلم لیگ (ق) نے بھی صدارتی انتخابات میں قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا جس کی لیے پارٹی کے مرکزی سیکریٹری جنرل مشاہد حسین سید کو قربانی کا بکرا بنایا گیا۔ 6 ستمبر کے صدارتی الیکشن کے نتائج کا اعلان ہوا تو پتا چلا کہ مسلم لیگ (ق) کی پٹاری میں جمع اکثر پرندے ہارس ٹریڈنگ( بقول چودھری شجاعت کی کھوتا ٹریڈنگ )کا شکار ہوچکے ہیں ۔ دراصل 6ستمبر 2008ءکو سابق فوجی آمر کی آخری نشانیوں میں سے اہم نشانی (ق) لیگ کے خاتمے کا اعلان ہوا۔ جس طرح ایک فوجی آمر ایوب خان کے استعفیٰ کے بعد جو انجام کنونشن لیگ کا ہوا تھا وہی انجام مسلم لیگ (ق) کا بھی ہوا۔ اب باقی بچنے والے 75ارکان بھی پناہ کی تلاش میں ہیں۔

اور اب چودھری برادران کی ایوان صدر یاترا کو بھی اسی تلاش ہی کی ایک کڑی قرار دیا جارہا ہے ۔ چودھری برادران اور ان کے حواری جس طور از خود چل کر اپنے بد ترین سیاسی مخالف کے پاس پہنچے ہیں اور پیپلز پارٹی کو مکمل”تعاون“ کی یقین دہانیاں کروائی گئی ہیں ان کو دیکھتے ہوئے قوی امکان ہے کہ آئندہ چند ماہ میں مسلم لیگ (ق) کی پٹاری میں چودھری برادران ہی ہوں گے اور یوں یہ جماعت کنگزپارٹی سے کنگال پارٹی میں تبدیل ہوجائے گی۔
RiazJaved
About the Author: RiazJaved Read More Articles by RiazJaved: 69 Articles with 60433 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.