آج روزنامہ جنگ میں ایک انتہائی
حیرت انگیز خبر پڑھنے کو ملی تو سوچا آپ کے سامنے پیش کر دوں۔ اس خبر پر
پہلے میرا تبصرہ اور اس کے بعد جن لوگوں نے خبر نہیں پڑھی ان کے لئے خبر
بھی پیش خدمت ہے۔
اس خبر میں پہلی حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جب سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا تھا
تو بظاہر اس میں سب سے زیادہ متاثر فریق ایم کیو ایم نظر آتی تھی مگر ایم
کیو ایم نے نہ صر ف اس فیصلے کے خلاف کوئی بیان یا احتجاج نہیں کیا بلکہ
اپنے خلاف غنڈہ گردی اور متوازی حکومت کے متواتر پروپیگنڈے کے برخلاف کسی
قسم کی کوئی مزاحمت نہیں کی اور عدالت عالیہ کے فیصلے کا بھرپور احترام کیا۔
میرے نزدیک یہ کراچی کے لئے نیک فال کے مترادف ہے۔
اس خبر میں دوسری حیرت انگیز بات اس فیصلے کے دوسرے یا شاید بڑے متاثرہ
فریق کی نشاندہی ہے۔ خبر کے مطابق تجاوزات میں کئی مساجد اور مدارس بھی
شامل ہیں اور تجاوزات کے خلاف آپریشن کرنے والی ٹیم کے مطابق انہیں ناجائز
مساجد یا مدارس منہدم کرنے میں مزاحمت کا خطرہ ہے۔ مجھے ہمیشہ مذہبی
جماعتوں سے نیک امید رہی ہے اور اب بھی ان سے توقع ہے کہ وہ خود آگے بڑھ کر
ان مساجد اور مدارس کو منہدم کرنے میں پہل کریں گے۔ ہمیں یاد ہے کہ ہمارے
پیارے نبی پاک صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے زمین کی قیمت ادا کئے بغیر مسجد
نبوی کی تعمیر سے انکار کر دیا تھا حالانکہ زمین کے مالک بچے زمین تحفے میں
دینے کی پیشکش کر رہے تھے۔
یہاں ایک بہت تکلیف دہ بات سامنے آئی کہ لسانی جماعت کے آفسز سے چندے (بھتہ)
کی فہرستیں اور مدارس میں ناجائز مالی منفعت حاصل کرنے کے الزامات سامنے
آئے۔ افسوس کہ دو بالکل مختلف سوچ رکھنے والے گروہوں (جماعتوں) میں قدر
مشترک ناجائز آمدنی کا حصول نکلا۔ دیکھیں یہ دونوں گروہ اپنے آپ کو اس تہمت
سے کیسے محفوظ رکھتے ہیں۔
آخر میں نعمت اللہ صاحب کا شکریہ کہ آپ کی اس پیٹیشن کی وجہ سے لسانی
ٹھیکیداروں اور مذہبی ٹھیکیداروں کی حقیقت کھل کر ہمارے سامنے آ گئی۔ ہماری
آپ سے گزارش ہے کہ ان دونوں کو انجام تک پہنچانے سے پہلے ان دونوں کا پیچھا
نہ چھوڑئیے گا۔
اور اب حاضر ہے جنگ اخبار میں شامل خبر کا متن
159 پارکس، کھیلوں کے گراؤنڈ اور رفاہی پلاٹوں پر یونٹ اور سیکٹر دفاتر
سمیت متعدد تجاوزات کو مسمار کرنے کی مہم صرف12 روز جاری رہ سکی اور اس
دوران سپریم کورٹ کے احکامات میں نشاندہی کئے جانے والے چھ پارکس پر مکمل
طور پر اور ایک گراؤنڈ میں جزوی طور پر آپریشن کیا گیا۔ جب کہ حکومت کی
جانب سے سپریم کورٹ کو گمراہ کرنے کے لئے جمع کرائی جانے والی رپورٹ میں یہ
دعویٰ کیا گیا ہے کہ عدالت عظمیٰ کے احکامات پر 80 فیصد عمل ہو چکا ہے۔
کراچی کی سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ، کے ڈی اے لینڈ ڈپارٹمنٹ کی نگرانی میں شروع
کئے جانے والے تجاوزات کے خلاف آپریشن میں ان اداروں کو شدید مشکلات کا
سامنا کرنا پڑا ہے اور مسلسل دباؤ کی وجہ سے ہی امکان ہے کہ آپریشن روک دیا
گیا ہے۔ آپریشن کرنے والی اتھارٹیز کے ہمراہ ایک حساس ادارے کی نگراں ٹیم
کی تیار کردہ رپورٹ کے مطابق سیکٹر اور یونٹ آفسز توڑے جانے کے موقع پر ان
اداروں کو بظاہر مزاحمت کا کوئی سامنا نہیں کرنا پڑا مگر26 پارکس اور
گراؤنڈز پر ناجائز طور پر تعمیر کی گئی مساجد اور مدارس کو مسمار کرنا ان
اداروں کے لئے ایک چیلنج بن گیا ہے اور اس سلسلے میں حساس ادارے کی تیار
کردہ رپورٹ کے مطابق دو مذہبی فرقوں نے ان 26 پارکس اور گراؤنڈز پر مساجد
اور مدارس تعمیر کئے ہیں جب کہ اہل تشیع فرقہ کی طرف سے کسی بھی پارک یا
گراؤنڈ میں امام بارگاہ قائم کرنے کے کوئی شواہد نہیں ملے۔ دو فرقوں کی
جانب سے تعمیر کردہ مساجد اور مدارس کو مسمار کرنے کے مواقع پر بڑی خونریزی
اور شدید مزاحمت کے امکانات کی حکومت کو وارننگ دی گئی ہے۔ اس رپورٹ میں
ایک پارک کی نشاندہی کی گئی ہے جس میں ایک مسجد کے ساتھ مدرسہ بھی تعمیر
کیا گیا ہے اور اس کی آڑ میں مدرسہ کے ممتہم مولوی نے اپنا جدید طرز کا گھر
بھی تعمیر کیا ہے اور ممتہم نے اپنے گھر کے ساتھ ایک کمرے کے3 مزید گھر بنا
کر کرائے پر دیئے ہوئے ہیں۔ جب کہ 12 روز آپریشن کے دوران نگرانی کرنے والی
ٹیم نے اپنے دلچسپ مشاہدات تحریر کئے ہیں جس کے مطابق ایک دفتر کی توڑ پھوڑ
کے موقع پر اس میں سے بھتہ یا چندہ جمع کرنے کی بک بھی ملی ہے جس میں
ماہانہ بنیادوں پر چندہ یا بھتہ دینے والوں کی فہرست بھی موجود ہے اور ان
سے وصول کی گئی رقم کا بھی ماہانہ کے حساب سے اندراج کیا گیا ہے۔ اس بک میں
جس کے ٹائٹل پر شفیق ڈائنگ (امتیاز بھائی)، الحبیب ڈائنگ (شبیر بھائی، عاشق)
ان کا ٹیلیفون نمبر، امیر علی بھائی (3 فیکٹری) ٹیلیفون نمبر، ساجد بھائی (گودام)
ٹیلیفون نمبر اور اس کے علاوہ فہرست میں سمیع ٹیلر، حطیم بیٹری، حطیم آٹوز،
گولڈن ڈیکوریشن، راجو ہیئر ڈریسر، آئل چینجر، علی آٹوز، زبیر آٹوز کے نام
پہلے صفحہ کی فہرست میں ہیں جب کہ ایسے چار مزید صفحات بھی چندہ یا بھتہ
دینے والوں سے بھرے پڑے ہیں اور اس طویل فہرست میں چندہ یا بھتہ دینے والوں
کے بھتہ یا چندہ کا اندراج بھی موجود ہے۔ ایک اور مقام پر جب یونٹ آفس
توڑنے ٹیم پہنچی تو اس کے ہمراہ پولیس کی بڑی تعداد اور بھاری بھرکم مشینری
دیکھ کر نوجوانوں کا ایک ٹولہ دفتر سے نکل کر بھاگا تو عملے نے اندر جا کر
دیکھا تو اسے شدید حیرت کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ وہاں تازہ لنچ بکس اور
بریانی کے ڈبے پڑے تھے جن میں سے آدھا کھانا ابھی کھایا گیا تھا اور آدھا
کھانا چھوڑ کر وہ نوجوان ٹیم کو آتا دیکھ کر فرار ہو گئے تھے۔ ایک پارک
میں40 سال پرانی لائبریری قائم تھی اور اسے توڑنے کے بعد پارک سے تجاوزات
ختم کرنے والی ٹیم پر مختلف پراسرار اخباری بیانات میں تنقید بھی کی گئی جب
کہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ لائبریری میں چند بوسیدہ اور دھول سے اٹی ہوئی
کتابیں پڑی تھیں جنہیں دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہ تھا کہ انہیں عرصہ
دراز سے کسی نے کھول کر نہیں پڑھا اور نہ ہی ان کتابوں کی جھاڑ پونچھ کی
گئی ہے البتہ یہ لائبریری ماضی میں موجود اس پارک میں علاقے کو پانی سپلائی
کرنے والے ٹینک پر قائم کی گئی تھی جو بعدازاں پرانا اور بوسیدہ ہو جانے کی
وجہ سے استعمال میں نہ رہا تھا اور یار لوگوں نے اس پانی کے ٹینک کے اندر
کمرے بنا کر یونٹ آفس قائم کر لیا تھا اور اسی لئے اس لائبریری کو مسمار
کئے جانے کے خلاف خاصا پروپیگنڈا کیا گیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ماضی کی
طرح کسی بھی یونٹ یا سیکٹر آفس سے ٹارچر سیلوں کا کوئی سامان برآمد نہیں
ہوا۔ ایک اور پارک میں جب کے ڈی اے کی ڈیمالیشن ٹیم پہنچی تو اس میں دیگر
تعمیرات کے ساتھ ایک دو منزلہ خوبصورت مسجد بھی موجود تھی اور مسجد کو
مسمار کرنے کی افواہ پھیلنے کی وجہ سے ایک گھنٹے کے اندر مخصوص رنگ کی
پگڑیوں والے ڈیڑھ سے دو سو افراد جمع ہو گئے جنہیں آپریشن کرنے والی
اتھارٹی نے بار بار یہ یقین دہانی کرائی کہ وہ بھی مسلمان ہیں، وہ مسجد کو
نقصان نہیں پہنچائیں گے مگر وہ لوگ ٹس سے مس نہ ہوئے اور آپریشن کے اختتام
تک وہاں موجود رہے، ان کا نظم و ضبط اور مذہبی جذبات دیکھ کر آپریشن کرنے
والی ٹیم بھی خاصی مرعوب ہوئی۔ ایک اور مقام پر جہاں ایک سیاسی جماعت کے
دفاتر موجود تھے انہیں مسمار کرنے کے لئے بھاری مشینری پہنچی تو اہل محلہ
کی بڑی تعداد جمع ہو گئی اور وہ آپریشن کرنے والی ٹیم کے ہمراہ خود بھی توڑ
پھوڑ میں مدد کرنے لگے اور بعض مشتعل نوجوانوں نے عمارت کے شیشوں پر پتھر
مارنے شروع کر دیئے جب ان سے اس کی وجہ دریافت کی گئی اور انہیں بتایا گیا
کہ بھاری مشینری چند گھنٹوں میں یہ پوری عمارت مسمار کر دے گی تو وہ پتھراؤ
کر کے شیشے کیوں توڑ رہے ہیں تو ان مشتعل نوجوانوں نے جواب دیا کہ ایسا کر
کے وہ اپنا غصہ نکال رہے ہیں۔ ان سے آپریشن کرنے والی ٹیم نے پوچھا کہ
انہیں اتنا غصہ کیوں ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ آپ کو نہیں معلوم یہاں رات
کو کیا ہوتا تھا۔ یہاں لوگوں کی بڑی تعداد نے سابق ناظم نعمت اللہ خان کی
پٹیشن اور سپریم کورٹ کے فیصلے کو سراہا اور اس کاروائی کی حمایت کی۔ رپورٹ
میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ کراچی کے159 پارکس اور گراؤنڈز میں قائم تجاوزات
مسمار کرنے میں کم از کم 4 سے 6 ماہ لگ سکتے ہیں کیونکہ اگلے دن کے آپریشن
کی منصوبہ بندی متعلقہ ٹاؤن اور یوسی کی انتظامیہ مل کر کرتی ہے اور سٹی
ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کی انتظامیہ اس پر عملدرآمد کی نگرانی کے لئے خود بھی موجود
ہوتی ہے اورپولیس کی اضافی نفری بھی طلب کرتی ہے اور بھاری مشینری کے ہمراہ
یہ آپریشن کیا جاتا ہے جب کہ بعض علاقوں میں چھوٹی چھوٹی گلیوں سے اس بھاری
مشینری کا گزر کر پارک یا گراؤنڈ تک پہنچنا دشوار ہوتا ہے اسی لئے رپورٹ
میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ اس آپریشن کو چار سے چھ ماہ لگ سکتے ہیں۔ بعض
علاقوں میں قائم پارکوں اور گراؤنڈز میں باڈی بلڈنگ کے کلب اور لائبریریاں
بھی تعمیر کی گئی ہیں اور یہ تعمیرات30 سے40 سال پرانی ہیں ایسی عمارتوں کے
متعلق بھی سپریم کورٹ کے فیصلے میں واضح نشاندہی نہ ہونے کی وجہ سے ٹیم کو
مشکلات کا سامنا ہے اور وہ تذبذب کا شکار ہیں کہ ان عمارتوں کو مسمار کریں
یا نہیں جب کہ بعض علاقوں میں لوگوں نے ایسی عمارتوں کو گرانے پر ہلکی
نوعیت کا احتجاج بھی کیا۔ |