آہ !..قوم کے لئے اِنصاف ،برداشت اور صَبروتحمل کی تلاش ہے

برداشت اور صَبروتحمل کسی کو ملیں تو قومی اسمبلی یا ایوانِ صدر میں پہنچا دے....!!!
کراچی کو اِنسانی خُون سے نہلانے والے کون ہیں....؟؟

آہ ! یہ کتنے اَفسوس کا مقام ہے کہ اپنی اپنی دال دلیہ چلانے کے لئے آج ہمارے حکمرانوں سے لے کر ساری پاکستانی قوم ہاتھوں میں کشکول اُٹھائے جہاں اغیار سے ڈالروں کی بھیک مانگتی پھر رہی ہے تو کیا اِس نے کبھی یہ بھی سوچا ہے ...؟کہ اِس کے علاوہ بھی اِسے زندہ رہنے اور دنیا میں ترقی اور کامرانی کا لوہا منوانے کے لئے اور کن چیزوں کی اشد ضرورت ہے ....؟نہیں شائد کبھی اِس کا اِس جانب خیال بھی نہ گیا ہو....کیوں کہ گزشتہ 63سالوں میں ہماری قوم اور حکمرانوں کو دال دلیہ کے چکروں میں اُلجھانے اور پھنسانے والے اِن ہی اغیار نے ہمارے ذہنوں کو ایسا مفلوج اور بے حِس کر کے رکھ دیا ہے کہ ہماری قوم کے حکمران اور ہم دال دلیہ کے چکرسے باہر نکل ہی نہیں پائے ہیں کہ یہ بھی سوچ سکیں کہ ہمیں زندگی گزرانے اور دنیا کے دیگر معاملات کو چلانے کے لئے اِنصاف، صُبروبرداشت اور تحمل مزاجی کی بھی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی کہ اور دوسری چیزوں کی اہمیت ہے مگر مجھے یہاں یہ کہنے دیجئے کہ آج بدقسمتی سے ہمارے یہاں حکمرانو، سیاستدانوں(اور اپوزیشن کی جماعتوں سمیت) عوام تک میں اِنصاف، رواداری، صَبروبرداشت اور تحمل مزاجی کا عنصر کہیں سے بھی نظر نہیں آتا ہے اِس کی صرف ایک وجہ یہ واضح طور پر نظر آتی ہے کہ ہم سب نے اِن کے حُصول کے خاطر کبھی کوششیں ہی نہیں کیں ہیں اگر کرتے تو اِن کی کیا مجال تھی... ؟کہ یہ ساری چیزیں(اِنصاف، رواداری،صبروبرداشت اور تحمل مزاجی اور بہت سی اِن جیسی اچھی خُوبیاں ) ہم میں پوری طرح سے پنہاں نہ ہوجاتیں...مگر اِس کے باوجود بھی میں اَب بھی نااُمید نہیں ہوا ہوں بلکہ پوری طرح سے پُر اُمید ہوں کہ ہماری قوم کو پھر بھی اپنے لئے اِنصاف، رواداری ، صَبروبرداشت اور تحمل مزاجی کی تلاش ہے یہاں میرا اپنی قوم کے ایک ایک فرد سے یہ کہنا ہے کہ ا گر کسی کے پاس یہ تمام خُوبیاں موجود ہوں تو براہِ کرم ! وہ جلدازجلد اِنہیں قومی سمبلی یا ایوانِ صدر میں پہنچاکر ملک و قوم کو تباہ و برباد ہونے سے بچانے میں اپنا قومی فریضہ ادا کرے کیوں کہ یہاں مجھے اَفسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے آج اِن خُوبیوں سے عاری ہماری قوم کا اُوپر سے نیچے تک یہ عالم ہے کہ یہ اِن کے بغیر بوکھلاہٹ اور پاگل پن کا شکار ہوکر رہ گئی ہے کوئی کسی کو برداشت کرنے اور کسی بھی معاملے میں تحمل مزاجی کا مظاہرہ کرنے کو تیار نہیں ہے یوں تو سب بظاہر اچھے بھلے نظر آتے ہیں مگر ہماری سوچیں اور ہمارے فعل کسی آدم خُور درندے جیسی فطرت پر آکر رُک گئے ہیں اوراَب ہم نہ صرف اپنے ہی لئے نہیں بلکہ کسی دوسرے کے لئے بھی اِس سے آگے کچھ اچھا کرنے کو تیار ہی نہیں ہیں۔

ہم زیادہ دور کیوں جائیں اَب اِسی کو ہی دیکھ لیں کہ گزشتہ چار دنوں کے دوران شہر کراچی میں اِنسانی جانوں کی خون کی ہولی کچھ اِس طرح سے کھیلی گئی کے اِس عرصے میں رونما ہونے والے پُرتشددواقعات میں کئی معصوم اِنسان اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے اور لاکھوں کی سرکاری اور نجی املاک کو علیحدہ نذرِ آتش کردیا گیا اِن واقعات کے پیچھے کن لوگوں کا ہاتھ تھا اور کن عناصر نے کراچی کی سڑکوں کو اِنسانی خُون سے نہلایا....؟؟اِن عناصر کو ممکن ہے کہ ہمارے حکمران جانتے ہوں مگر شائد وہ مصالحت پسندی کی وجہ سے خاموش ہوں بہرکیف! چلیں یہ بھی اِن کے نزدیک کسی کو راہِ راست پر لانے اور نیک اِنسان بنانے کا کوئی بہتر ہوں ۔(جبکہ اِن واقعات میں شروع کے دو دن وہ بھی شامل کرلیں جن میں صدر اور وزیراعظم دونوں ہی شہر کراچی میں خود بھی موجود تھے) مگر یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک کی اِن دونوں اہم ترین شخصیات کی شہر کراچی میں موجودگی کے دوران بھی اِنسانوں کو یوں قتل کیا جانا کیا تاثر دیتا ہے ....؟؟یقیناً اِس کی کوئی مناسب وجہ بتانا....اور اِس کا کوئی بہتر حال تلاش کرنا اربات اختیار اور اقتدار دنوں کی جہاں ذمہ داری ہے تو وہیں اِن شخصیات کے لئے بھی اتنی بڑی تعداد میں اِنسانی جانوں کی ہلاکت ایک سوالیہ نشان ہے تو ساتھ ہی ایسے واقعات کا ہونا اِن کی بدنامی کا بھی باعث ہے کہ صدر اور وزیراعظم کی موجودگی کے دوران دنیا کے بارہویں انٹرنیشنل شہر اور پاکستان کے سب سے بڑے مرکزی صنعتی وتجارتی حب شہر کراچی میں یوں اِنسانی جانوں کی خون کی ہولی کھیلے جانے کا کیا مطلب تھا....؟؟اور بغیر کسی وجہ کے معصوم اور بے گناہ اِنسانوں کے خُون سے اپنے ہاتھ رنگنے والے عناصر پُرتشدد واقعات سے کیا بتانا چاہتے تھے ....؟کہیں یہ تو نہیں وہ یہ بتانا چاہ رہے ہوں کہ ہم میں اِنصاف، رواداری، صبروبرداشت اور تحمل مزاجی نام کی بھی نہیں رہ گئی ۔اور اِس کے ساتھ ہی شہر میں اپنی قوت اور سفاکیت کا بیدریغ استعمال کرنے اور اِس کا امن و سکون تباہ و بربادکرنے والے کہیں یہ بھی تو نہیں جتانا چاہ رہے ہوں کہ کوئی ہم سے نہ ٹکرائے ہم وہ سب کچھ کرنے کی طاقت اور ہمت رکھتے ہیں جو کوئی نہیں رکھتا .... جیسا کہ بقولِ شاعر :-
یہ کہہ رہا ہے آج کراچی میں ہر لہو جلاد کر رہے ہیں یہ پیروجواں کا خُون
کچھ اِس میں اپنے راہنماؤں کا ہاتھ ہے سفاک کررہے ہیں کچھ امن و امان کا خون

اوراِس کے ساتھ ہی شاعر نے یہ بھی عرض کیا ہے کہ :-

اچھا نہیں ہے درد کے ماروں کو چھیڑنا کہہ دے کوئی یہ حاکمِ عالی مقام سے
آجائے اِس کی زدمیں نہ”ایوانِ خاص“ بھی طوفان اُٹھ رہا ہے جو”دِیوان عام “سے

کہاجاتاہے کہ آبادیوں میں قومیں بستی ہیں اور قوموں میں آدمی پیدا ہوتے ہیں اور اِن ہی آبادیوں میں جو آدمی پیدا ہوتے ہیں وہی آدمی اپنی قوموں اور آبادیوں میں انقلاب برپا کرنے کا بھی سبب بنتے ہیں اور اِن ہی آدمیوں میں سے کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو وقت اور حالات سے گزرنے کے بعد اِنسان تہذیبی عمل سے بھی بن جاتے ہیں اِس لحاظ سے آج اگر ہم اِس بات کا موازنہ کریں کہ ہمارے ملک کے ساڑھے سترہ کروڑ آدمیوں میں سے ہم نے کتنے اِنسان تہذیبی عمل سے بنائے ہیں.....؟؟ اور کتنے اِنسان اِس عمل سے گزرنے کے بعد ملک میں کسی تہذیب کو پروان چڑھانے میں اپنا کوئی نہ کوئی مثبت کردار ادا کر رہے ہیں تو اندازہ ہوگا کہ ہم میں اِن کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے بہرحال !میں یہ سمجھتا ہوں کہ کسی بھی آدمی کو تہذیبی عمل سے گزرنے میں جو نکتہ سب سے کارآمد ثابت ہوتا ہے وہ عدل اور صَبروبرداشت اور تحمل مزاجی کا ہے یعنی آدمی کو پیدا ہونے کے بعد اِسے کسی تہذیبی سانچے میں ڈھلنا ہے تو اِس کے لئے عدل کے ساتھ ساتھ صَبروبراشت اور تحمل مزاجی کا ہونا اتنا ضروری ہے جتنا اِسے زندہ رہنے کے لئے ہوا، پانی اور خوارک جیسی زندگی کی بنیادی اشیاء ہیں یعنی اِسے آپ یوں بھی سمجھ لیجئے کہ ا گر کسی بھی آبادی سے عدل کو دیدہ و دانستہ طور پر مفقود کردیا جائے تو اُس آبادی میں باقی اچھائیاں خود بخود ختم ہوجاتی ہیں اور وہاں کے اِنسان مایوس ہوجاتے ہیں اور جب کسی بھی آبادی کے اِنسان عدل سے مایوس ہوجائیں یا کردیئے جائیں تو پھر اِن آبادیوں میں آدمی تو پیدا ہوتے ہیں مگر کوئی اِنسان تہذیبی عمل سے نہیں بن پاتا کیونکہ اُن آبادیوں میں آدمی تو رہتے ہیں مگر وہ آبادیاں فسادات سے بھر جایا کرتی ہیں یعنی مختصراََ یہ کہ جس معاشرے میں اِنصاف نہیں ہوتا اِس میں کبھی بھی اِستحکام نہیں آسکتا اور لوگوں کو گمراہی سے نہیں نکالا جاسکتا ہے اِس موقع پر یہاں مجھے یہ بھی کہنے کی اجازت دیجئے !کہ بدقسمتی سے آج ہمارا ملک بھی اُس آبادی کی طرح ہے جس میں ہر دورِ میں آدمی تو کثرت سے پیدا ہوتے رہے ہیں مگر جو اپنے اندر سے کوئی بھی ایسا انسان تہذیبی عمل سے پیدا نہیں کر پائی ہے جس پر یہ فخر کر سکے اور یہ کہہ سکے کہ یہ انسان اِس کی مکمل تہذ یبی شناخت کا حامل ہے اور آج شائد ایسا ہی کچھ ہمارے ساتھ بھی ہورہا ہے کہ ہمارے یہاں ہر دورِ میں ہر آبادی میں آدمی تو پیدا ہوئے مگر ہم کوئی بھی اِنسان تہذیبی عمل سے پیدا نہیں کرسکے ہیں کیونکہ ہر دورِحکومت میں حاکم الوقت نے عدل کو دیدہ و دانستہ طور پر مفقود رکھا اور افسوس کی بات تو یہ ہے کہ آج کے حکمرانوں کی سوچ بھی عدل کے حوالے سے اپنے پیش رو سے کوئی مختلف نہیں ہے اور یہ بھی اُسی ڈگر پر چل رہے ہیں جس پر چل کر سابقہ حکمرانوں نے عدل کا گلا گھونٹا اور اپنی مرضی سے ہر سیاہ کو سفید اور اِسی طرح ہر سفید کو سیاہ کرتے رہے۔آج جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہمارے معاشرے سے جب عدل ختم ہوا تو پھر خود بخود ہم میں برداشت اور صَبروتحمل کا فقدان پیدا ہوگیا اور آج ہم اپنی اِسی کمزریوں کو دور کرنے کی سعی بھی نہیں کر رہے ہیں اور اُلٹا عدل و اِنصاف مُہیا کرنے والے اداروں کی حُوصلہ شکنی کرنے کو اپنے لئے شان و عظمت کا باعث سمجھ رہے ہیں جس سے ہماری آبادیوں سے عدل یقینی طور پر مفقود ہوگیا ہے۔ اور اِس کے ختم ہونے سے ہماری آبادیوں میں ہر طرف قتل وغارت گری کا راج قائم ہوگیا ہے جیسا کہ کچھ دنوں سے ہمارے شہر کراچی کی گلی کوچوں میں آگ و خُون اور موت کا رقص جاری ہے اِس کی وجہ صرف اتنی سی ہے کہ ہم میں اِنصاف، محبت ، اُخوت ومساوات، ملی یکجہتی، رواداری، برداشت اور صَبروتحمل کا مزاج ختم ہوکر رہ گیا ہے جس کی وجہ سے ہم بے شمار معاشرتی بُرائیوں کے شکار ہوگئے ہیں یقین جانیئے کہ ہم اِن تمام بُرائیوں سے چھٹکارہ حاصل کرسکتے ہیں بس ہمارے حکمران ، سیاستدان (اپوزیشن کے سیاسی رہنما)اور عوام اپنے اندر اِن تمام اچھی خُوبیوں جن میں اِنصاف کا حُصول اور آپس میں محبت و اُخُوت ،مساوات ، ملی یکجہتی ، رواداری ، برادشت اور صَبروتحمل کا مزاج شامل ہیں اِنہیں پیدا کرنے کی جستجو شروع کردیں تو ہمارے ملک میں بھی بہت سی مثبت تبدیلیاں رونما ہوجائیں گی۔اور ہر طرف امن و سکون قائم ہوجائے گا۔
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 971668 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.