راہل گاندھی پر تنقید کرنے والوں کو یہ نہیں بھولنا چاہیے
کہ تین مرتبہ بی جے پی کے صدر نشین لال کرشن اڈوانی بھی دو مرتبہ استعفیٰ
دےچکے ہیں۔ ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ جو تلخی، ناراضگی اور مایوسی اڈوانی
جی کے یہاں پائی جاتی تھی اس کا شائبہ تک راہل کے استعفیٰ میں موجود نہیں
ہے۔ ایک زمانہ ایسا بھی تھا جب سونیا گاندھی اپنی پارٹی کو کامیاب کرنے کے
باوجود وزیراعظم نہیں بن سکی تھیں لیکن اب حالات بد گئے ہیں ۔ راہل گاندھی
کو پتہ ہے کہ اگر مستقبل میں کانگریس کو اکثریت مل جائے تو بالاتفاق وزیر
اعظم وہی بنیں گےچاہےکا صدر جو بھی ہو ۔وزیراعظم نریندر مودی میں اس طرح کی
خود اعتمادی کا فقدان پایا جاتا ہے۔ اسی لیے ۲۰۱۴ کے بعد لال کرشن اڈوانی
کو مارگ درشک منڈل کا راستہ دکھایا گیا اور ۲۰۱۹ کے بعد راجناتھ سنگھ کو
ان کا درجہ گھٹا نے کے لیے وزارت داخلہ سے محروم کرکے وزیر دفاع بنایا گیا
۔راہل گاندھی کے ساتھ جس عقیدت اور یکجہتی کا اظہار کانگریس پارٹی نے کیا
ہے اس پر بھی بی جے پی کے رہنماوں کو رشک آرہا ہوگا ۔ زعفرانی جماعت کے
اندر ایسا نہیں ہوتا۔ بی جے پی کے قیام کے وقت اٹل بہاری واجپائی کو پارٹی
کا صدر بنایا گیا تھا اور گاندھیائی سوشلزم کی بنیاد پر پارٹی کی تعمیر
کرنا چاہتے تھے ۔ اندرا گاندھی کی موت کے بعد جب بی جے پی دو نشستوں پر سمٹ
گئی اور اٹل و اڈوانی دونوں ہار گئے تو اس صورتحال کا بھرپور فائدہ اٹھا کر
اٹل بہاری واجپائی کو پارٹی کے اندر حاشیے پر لگا دیا گیا۔
اس وقت کے نریندر مودی یعنی لال کرشن اڈوانی نے اپنے یار غار کو پارٹی میں
بے وقعت تو کردیا لیکن قدرت کا کرنا یہ ہوا کہ۱۹۹۶ میں بی جے پی کو واضح
اکثریت نہیں مل سکی اور بابری مسجد کے خلاف اڈوانی کی شدت پسندی نے انہیں
دیگر حامی جماعتوں کے ناقابلِ قبول بنادیا ورنہ اٹل جی کو بھی مارگ درشک
منڈل کا راستہ دکھانے کام اڈوانی جی کے ذریعہ کیا جاتا اور بعید نہیں کہ
حسب ِ روایت امیت شاہ بھی مودی جی کے ساتھ یہی معاملہ فرمائیں ۔ اٹل جی کو
وزیر اعظم بننے سے روکنے میں ناکامی کے بعد اڈوانی جی چین سے نہیں بیٹھے
بلکہ پارٹی کے اندر واجپائی کےاثررسوخ ختم کرنے کی جدوجہد میں لگے رہے۔ اٹل
جی کے منظور نظر صدر نشین بنگارولکشمن کو تہلکہ کے ذریعہ پھنسانے کی سازش
میں شک کی سوئی اڈوانی کی جانب گھومتی ہے۔ ویسے اگر یہ الزام درست نہ ہو تب
انہوں اس کا بھرپور فائدہ تو اٹھا ہی لیا۔
لال کرشن اڈوانی کےچکرویوہ سے اس وقت کے وزیر دفاع جارج فرناڈیس بھی نہیں
بچ پائے۔ جارج کی رسوائی کے لیے اڈوانی کو ذمہ دار سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس
کا براہِ راست فائدہ انہیں ملا اور نائب وزیر اعظم بن گئے۔ جارج کا کانٹا
نکالنے کے بعد بھی انہیں حلف لینے کے لیے ایک سال سے زیادہ جدو جہد کرنی
پڑی لیکن بالآخر کامیاب ہوگئے۔ وہ ایسا زمانہ تھا کہ مودی کی مانند ان کا
ہر داوں چل جاتا تھا اب ایسا وقت آگیا ہے کہ راہل کی طرح ہر وار خالی جاتا
ہے۔ اس زمانے میں سنگھ سے درآمد شدہ پارٹی کے طاقتور جنرل سکریٹری
گوونداچاریہ نے اڈوانی جی کے آشیرواد سےاپنے وقت کے وزیراعظم کو مکھوٹا
کہنے کی جرأت کر ڈالی تھی ۔ یہ اور بات ہے کہ اس کی بہت قیمت گوونداچاریہ
کو چکانی پڑی اور ان کا سورج ایسا ڈوبا کہ پھر ابھر نہ سکا۔
اٹل اور اڈوانی کی باہمی چپقلش کا سب سے بڑافائدہ اس وقت گجرات کے وزیر
اعلیٰ نریندر مودی کو ملا۔ ایل کے اڈوانی نے خود اپنی تحریر میں اس کا
اعتراف اس طرح کیا ہے کہ ‘‘فروری 2002 میں جب گجرات فرقہ وارانہ فساد کی آگ
میں جل رہا تھا تب مخالف پارٹیوں کے ساتھ ساتھ بی جے پی کی معاون جماعتیں
بھی اس وقت کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کا استعفیٰ نامہ طلب کر رہی تھیں۔ اس
دباو کی وجہ سے بی جے پی اور برسراقتدار این ڈی اے کے کئی رہنماوں کا خیال
تھا کہ مودی کو عہدہ چھوڑ دینا چاہیے۔ گجرات میں جاری فسادات کے متعلق اٹل
جی کے ذہن پر بھی کافی بوجھ تھا اور مودی کے استعفیٰ کے لیے ان پر لگاتار
دباو ڈالا جانے لگا تھامگر اس معاملے پر میرا نظریہ بالکل الگ تھا۔ میری
رائے میں مودی مجرم نہیں تھے۔ ایک سال سے بھی کم وقت پہلے وزیر اعلیٰ کا
عہدہ سنبھالنے والے نریندر مودی کوریاست میں پیدا ہونے والے مشکل فرقہ
وارانہ ماحول کا شکار بنانا ناانصافی تھا۔"
اپنے مضمون میں اڈوانی نے آگےلکھا کہ اسی دوران گوا میں بی جے پی کی قومی
مجلس عاملہ کی نشست میں جسونت سنگھ کے پوچھنے پراٹل جی نے کہا کہ مودی کو
کم از کم استعفیٰ کی تجویز تو دینی ہی چاہیے۔ اس پر اڈوانی نے کہا کہ اگر
مودی کے عہدہ چھوڑنے سے حالات میں بہتری ہوتی ہو تو میں چاہوں گا کہ انھیں
استعفیٰ دینے کو کہا جائے لیکن مجھے نہیں لگتا کہ اس سے کوئی فائدہ ہوگا۔
اس بابت انھوں نے مودی سے بات کر کے کہا کہ وہ استعفیٰ کی تجویز رکھیں اور
وہ مان گئے۔ لیکن جب مودی نے استعفیٰ کی بات کہی تب اس کی مخالفت کی گئی
اور اس طرح اس مسئلہ پر پارٹی کے اندر بحث کا خاتمہ ہو گیا۔ وقت پہیہ
گھومتے گھومتے۱۱ سال بعد پھرسے گوا میں پہنچ گیا جہاں نریندر مودی کو
تشہیری کمیٹی کا سربراہ بناکر بلا واسطہ اگلا وزیر اعظم کا امیدوار
نامزدکردیا گیا ۔ لال کرشن اڈوانی کی شاگردہ سشما سوراج نے(جنہیں وہ پارٹی
صدر بنانے چاہتے تھے) اس کی سخت مخالفت کی لیکن ان کی ایک نہ چلی اس لیے کہ
پارٹی کے صدر راجناتھ سنگھ نے مودی کی حمایت کردی تھی۔
اڈوانی جی نے اس فیصلے سے بددل ہوکر جون ۲۰۱۳ میں پارٹی کے سارے عہدوں سے
استعفیٰ دے دیا ۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان کے راضی نامہ پر ایک نظر ڈال
لی جائے ۔اپنی پارٹی کے صدر کو مخاطب کرکے اڈوانی نے لکھا ‘‘ڈیئر شری
راجناتھ سنگھ جی ، میں نے اپنی تمام زندگی جن سنگھ اور بھارتیہ جنتا پارٹی
کے لیے کام کرتے ہوئے نہایت فخر اور بے شمار سکون حاصل کیا ہے۔ کچھ عرصے سے
پارٹی کے موجودہ طریقۂ کار یااس کے غالب رحجان سے مصالحت کرنا میرے لیے
مشکل ہوگیا ہے۔ مجھے احساس ہوتا ہے کہ اب یہ وہ مثالی جماعت نہیں رہی جس کی
تخلیق میں ڈاکٹر مکرجی ، دین دیال پادھیائے ، ناناجیاور واجپائی جی کا ہاتھ
رہا ہے اور جن کے پیش نظر صرف ملک اور باشندگان وطن (کی خدمت ) کا لازوال
جذبہ تھا ۔ ہمارے بیشتر موجودہ قائدین کے نزدیک اپنے ذاتی مفادات کی تکمیل
ہی واحد مقصد ہوگیا ہے۔ لہٰذا میں نے فیصلہ کیا ہے کہ پارٹی کے تین اہم
عہدوں بنام قومی مجلس عاملہ ، پارلیمانی بورڈ اور الیکشن کمیٹی سے مستعفی
ہوجاوں۔ اس خط کو میرا استعفیٰ نامہ تصور کیا جائے۔ آپ کا مخلص ایل کے
اڈوانی’’۔
پارٹی کے صدر راجناتھ سنگھ کے استعفیٰ تو مسترد کردیا لیکن اس کے ذرائع
ابلاغ میں آنے سے جو نقصان ہونا تھا سو ہوگیا۔ اس خط کی روح یہ اعتراف ہے
کہ اب بی جے پی اپنے مقصد ونصب العین سے منحرف ہوچکی ہے۔ ذاتی مفاد نے قومی
خدمت کی جگہ لے لی ہے یعنی بہ الفاظ دیگر بی جے پی اب مو جی پی بن چکی ہے۔
وقت نے یہ ثابت کردیا کہ اڈوانی جی کے اندیشے صد فیصد درست تھے۔ بی جے پی
کے اس نئے اوتار میں مودی کی حیثیت رہنما کی نہیں بلکہ دیوتا کی ہوگئی ۔
مودی کے فائدے نے قومی مفاد پر سبقت حاصل کرلی ہے ۔ اس فیصلے کے دو بڑے
مخالف سشما سوراج اور اڈوانی تھے جبکہ اہم ترین حامیوں میں راجناتھ سنگھ
اور ارون جیٹلی شامل تھے ۔ ۲۰۱۴ میں بی جے پی انتخاب جیت گئی۔راجناتھ کو
وزیرداخلہ ، ارون جیٹلی کو وزیر خزانہ اور سشما سوراج کو وزیر خارجہ بنایا
گیا مگر اڈوانی جی کو دودھ سے مکھی کی مانند نکال کر مارگ درشک منڈل میں
روانہ کردیا گیا۔ اڈوانی جی کو توقع تھی کہ پرلوک سدھارنے سے قبل کچھ نہیں
تو صدر مملکت ہی بنادیا جائے گا لیکن مودی جی نے اس خواب کو بھی چکنا چور
کردیا۔
۲۰۱۹ کے انتخاب آتے آتے پارٹی پر مودی جی نے اپنی پکڑ اتنی مضبوط کرلی
کہ سشما انتخاب کے میدان سے بھاگ کھڑی ہوئیں۔ ارون جیٹلی صحت کا بہانہ
بناکر کنارے ہوگئے ۔ گاندھی نگر سے اڈوانی کا ٹکٹ کاٹ کر امیت شاہ کو تھما
دیا گیا لیکن ابھی ترُپ کی چال پوشیدہ تھی۔ نتائج کے بعد مودی جی نے اپنے
محسنِ اعظم راجناتھ سنگھ کی پیٹھ میں چھرا گھونپ کر وزیرداخلہ کاقلمدان دست
راست امیت شاہ کے حوالے کردیا اور راجناتھ کو وزیر دفاع بنا دیا گیا۔ ان کے
پرکترنے کے لیے دو کابینائی کمیٹیوں کے علاوہ باقی تمام سے ان کا پتہ کاٹ
دیا گیا ۔ مودی جی فی الحال اپنی اس کوشش میں پوری طرح کامیاب نہیں ہوئے
کیونکہ راجناتھ سنگھ کے اندر گہار لگاکر اپنا اثر و رسوخ استعمال کیا نیز
سنا ہے استعفیٰ کی دھمکی بھی دے دی۔ اس کے بعد انہیں مزید چار کمیٹیوں میں
شامل کیا گیا مگر وہ امیت شاہ کی طرح تمام ۸ کمیٹیوں کا حصہ نہیں بن سکے ۔
بدقسمتی سے ذرائع ابلاغ کو کمل کےداغ دکھائی ہی نہیں دیتے اس لیے وہ پنجہ
جھاڑ کر پنجے کے پیچھے پڑا رہتا ہے ۔ پارٹی کی خدمت میں عمرعزیز کھپا دینے
والے ایل کے اڈوانی کے مایوس کن خط کا موازنہ اگر راہل گاندھی کے استعفیٰ
سے کیا جائے تو دونوں جماعتوں کے ظرف کا فرق واضح ہوجاتا ہے ۔ بقول شاعر؎
وہ خار تمہارا تھا ، یہ پھول ہمارا ہے
وہ ظرف تمہارا تھا، یہ ظرف ہمارا ہے
|