مرغی معیشت

سڑک پر ایک بڑا ہجوم دیکھ کر میں رک گیا۔ اس لئے کہ ہجوم کا کیا اعتبار ، کسی لمحے بے قابو ہو کر توڑ پھوڑ شروع کر دے ۔گاڑی تو اب بہت مہنگی چیز ہو گئی، ایک آدھ شیشہ بھی ٹوٹ جائے تو مرمت سارے کس بل نکال دیتی ہے۔ گاڑی ایک طرف کھڑی کرکے میں صورت حال کا جائزہ لینے لگا۔ بڑی عجیب بات تھی کہ ہجوم ہونے کے باوجود ہلہ گلہ تو تھا مگر توڑ پھوڑ یا کوئی بدمزگی نہ تھی بلکہ لوگ ہنس ہنس کر باتیں کر رہے تھے۔ کچھ لوگ جھولی میں کچھ بھر کر بھاگے جا رہے تھے۔ کسی خطرے کا احساس نہ پا کر میں نے گاڑی وہیں چھوڑی اور ہجوم میں گھس گیا کہ دیکھوں سڑک کیوں بند کی ہوئی ہے۔ واہ عجیب عالم تھا، سڑک بندوں نے نہیں مرغی کے چوزوں نے بند کی ہوئی تھی۔ چھوٹے چھوٹے کوئی ایک ڈیڑھ ہفتے کی عمر کے بے شمار چوزے سڑک پر بھاگے پھر رہے تھے۔ ارد گرد کے دیہات کے نوجوان ، بوڑھے اور بچے اپنی جھولیوں میں زیادہ سے زیادہ چوزے سمیت کر گھروں کو واپس جا رہے تھے۔ سڑک کے کنارے دو گاڑیاں کھڑی تھیں وہ دو گاڑیاں جو مرغیوں کی نقل حمل کے لئے استعمال ہوتی ہیں۔ان گاڑیوں میں چوزے بھرے تھے اور دو آدمی وہ چوزے نکال نکال کر نیچے کھیت میں پھینک رہے تھے۔ کھیت چوزوں سے بھرا ہوا تھا۔ کچھ چوزے اچھل کر سڑک پر آ رہے تھے اور وہی ٹریفک بند کرنے کا موجب تھے۔شام کا وقت تھا اور میں لاہور واپس آتے ہوئے مین جی ٹی روڈ پر گوجرانوالا کے نزدیک ایمن آباد کا علاقے سے گزر رہا تھا ۔

میں خوش ہو گیا۔ مجھے لگا کہ موجودہ حکومت جو مرغی معیشت کی حامی ہے شاید خواب خرگوش سے جاگ گئی ہے یا اقتدار میں مدہوش کسی ذمہ دار کواپنی ذمہ داری یاد آ گئی ہے کہ مرغی معیشت کی ترقی کے لئے صرف باتوں ہی کی نہیں بلکہ مرغیوں کی فراہمی جیسے عملی اقدامات کی بھی بہت ضرورت ہے اور مرغی سکیم کے تحت لوگو ں پر یہ چوزوں کی بارش شاید اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔میں نے آگے بڑھ کر گاڑی سے چوزے باہر پھینکنے والے اشخاص سے پوچھا کہ بھائی سرکاری ملازم ہو۔ان میں سے ایک نے سر سے پاؤں تک پہلے مجھے غور سے دیکھا اور پھر کہا ، ’’کیا مطلب، آپ کیا پوچھنا چاہتے ہیں‘‘۔میں نے کہا بھائی مفت چوزے فراہم کرنا حکومت کا منشور تھا۔مجھے لگتا ہے کہ آپ اس پر عملدرآمد کر رہے ہیں۔بڑے تلخ انداز میں وہ مسکرایااور بولا، حکومتی منشور تو لوگوں کے کام بند کر دینا ہے، لوگوں کو بے روزگار کرناہے۔خاں صاحب نے خود تو سوچنا نہیں ہوتا۔جو مشورہ دینے والے حضرات ارد گرد جمع ہیں۔ ان کے باپوں نے کمایا ہواہے اور وہ سبھی منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوئے ہیں۔ انہیں، بھوک کیا ہوتی ہے اور مہنگائی لوگوں کو کیسے تنگ کرتی ہے اورگھر کے مکینوں کو کس قدر رلاتی اور کس مرحلے پر لے آتی ہے کا کیا احساس۔ ہم لوگ ان چوزوں کو جو فیڈ ڈالتے تھے اس کی قیمت دو ہزارفی بوری سے بڑھ کر تین ہزار ہو گئی ہے۔ مرغی کا ریٹ تو وہیں ہے۔ لوگوں کی قوت خرید ختم ہوتی جا رہی ہے۔اب ہمارے پاس دو ہی راستے تھے یا توان بارہ ہزارچوزوں کو فیڈ کھلائیں اور خود بھوکے مریں اور یا ان سے نجات حاصل کرکے جو کچھ پاس ہے اس سے یہ مشکل دن گزاریں۔ سو ہم نے اپنا پولٹری فارم بند کرکے بارہ ہزارچوزوں کو آزاد کر دیا ہے کہ وقتی طور پر خود زندہ رہ سکیں۔

میں سوچنے لگا کہ واقعی اس حکومت نے غریب آدمی کا جینا بہت تلخ کر دیا ہے۔بوڑھے آدمیوں میں ایک عجیب عادت ہوتی ہے ان کے ذہن میں کوئی بات آ جائے تو وہ اس بات کو پکڑ لیتے ہیں تو باقی سب باتیں بھول جاتے ہیں۔ کچھ کہتے رہو وہ اسی بات پر پھنسے رہتے ہیں۔ موجودہ حکومت بھی اسی عادت کا شکار لگتی ہے اور احتساب کے اندھے کنوئیں میں گری ہوئی ہے۔ احتساب اس شاندار اور بھونڈے طریقے سے ہو رہا ہے کہ گونگے مجرم بھی بولنے لگے ہیں۔ جنہیں تبدیلی لانی ہو وہ ایک سال میں بہت کچھ کر جاتے ہیں۔ ان تلوں میں تیل ہی نہیں اس لئے کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔حکومت کی پہلی ترجیح مہنگائی پر قابو پانا ہونا چائیے تھی مگر اس طرف کسی کی توجہ ہی نہیں۔مہنگائی حکومت کی ترجیح ہے ہی نہیں وہ تو مہنگائی میں اضافے کے لئے پوری طرح کوشاں ہے۔وہ صرف احتساب احتساب کھیل رہے ہیں وہ بھی کسی انتہائی اناڑی کھلاڑی کی طرح۔وہ شخص جو بارہ ہزار چوزے جن کی قیمت تقریباًڈھائی تین لاکھ ہو گی اس طرح پھینک جائے ،میں اس کی انتہائی ذہنی پریشانی کا سوچ رہا تھا۔سڑک اور ملحقہ کھیت چوزوں سے بھرے تھے اور بہت سے دیہاتی اپنا اپنا حصہ سمیت رہے تھے۔ یہی مرغی معیشت ہے۔

تھوڑی دیر میں چوزوں کی پکڑ ڈھکڑسڑک سے کھیت میں منتقل ہو چکی تھی اور سڑک پر ٹریفک کچھ سست روی سے چلنے لگی تھی۔ جانے کے لئے میں مڑا تو چوزوں والے پولٹری فارم کے مالک یا مینجر۔ وہ جو بھی تھا ، کہنے لگا،جناب ہمارے ساتھ تو اس گاؤں والوں جیسا سلوک ہوا ہے کہ جو اپنے قبرستان کے گور کن سے بہت تنگ تھے کہ کفن اتار کر بیچ دیتا ہے۔ جب بڑی مشکل سے ایک نئے گورکن کا انتظام کیا گیا کہ حالات میں بہتری آئے گی ۔ مگر نیا گورکن اس سے بھی سوا نکلا۔ وہ کفن بھی بیچتا اور لاش کی بے حرمتی بھی کرتا۔ میرے گاؤں والوں نے بہت دباؤ کے باوجود بہت ڈٹ کے تبدیلی کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ ارد گرد سب مخالف تھے مگر ہمارے گاؤں میں کسی دوسری جماعت کا کوئی امید وار ایک ووٹ بھی حاصل نہیں کر سکا تھا۔ سب تبدیلی کے حق میں تھے ۔لوگ دن رات ا ن کے آنے کی دعائیں مانگتے تھے۔ آج فقط ایک سال بعد ہم لوگ اس قدر پریشان اور بے بس ہیں کہ ان کے جانے کی دعائیں مانگنے پر مجبور ہیں۔مہنگائی ہے، بے روزگاری ہے، کاروبار بند ہیں اور حکمرانوں کی فقط باتیں ہیں، نعرے ہیں، وعدے ہیں اور یہ چیزیں تو کسی کا پیٹ نہیں بھر سکتیں۔
 

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 575 Articles with 458833 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More