تبدیلی سرکار کی آمد سے عوم الناس نے جو امیدیں وابستہ کی
تھیں کاش کہ چند ایک ہی ان میں سے پوری ہو جاتیں تو شاید کام چلتا رہتا مگر
اب یہ کمپنی چلتی نظر آ نہیں رہی،جہاں دیگر اور بہت سی وجوہات ہیں وہاں سب
سے بڑی وجہ مخالفین کی تضحیک آمیز انداز میں کی گئی کردار کشی اور عوام
الناس کی روزمرہ اشیا ئے ضروریہ کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ آہستہ آہستہ دن
بدن پھیلتی مایوسی میں اضافہ کر رہا ہے،عوام نے عمران خان کو نجات دہندہ
سمجھ کر ایک موقع تو ان کو ملنا ہی چاہیئے کے تحت ان کو ووٹ دیا اور امید
باندھ لی کہ اب ست خیراں ہو جائیں گی،مگر سب کچھ اس کے الٹ ہونا شروع ہو
گیا اور ڈھلان کا سفر ابھی جاری ہے نہ کہیں پینتالیس روپے لٹر کا پٹرول
دکھائی دے رہا ہے نہ پچاس لاکھ گھروں کا تعمیراتی میٹریل آتا جاتا کہیں
دکھائی دے رہا ہے اور نہ ہی کہیں ایک کروڑ نوکریوں کی کوئی خبر ہے ، جو
حالات چل رہے ہیں لاکھوں لوگ بیروز گار ی طرف گامزن ہیں حال ہی میں چکوال
شہر میں چھ ٹیکسٹائل ملز نے اپنا کام بند کر دیا ہے کہ بے جا ٹیکسز اور
بجلی گیس کی قیمتیں ہماری بساط سے باہر ہو چکی ہیں جس وجہ سے ہم مزید کام
جاری نہیں رکھ سکتے ان ملوں کی بندش کی وجہ سے ملک کے دور دراز علاقوں سے
آئے لگ بھگ چار ہزار مزدور بیروز گار ہو گئے ہیں،دوسری طرف احتساب ہو رہا
ہے مگر حیرت کی بات ہے کہ نہ تو کی پی کے میں کوئی مجرم نظر آ رہا ہے نہ
بلوچستان میں سارا زور پنجاب میں ن لیگ اور سندھ میں آصف علی زرداری تک
محدود ہو کر رہ گیا ہے،کمال کی بات تو یہ ہے کہ دو سو پچاس لوگ کراچی کی
ایک فیکٹری میں جلے مشہور زمانہ نیٹو کنٹینر اور بابر غوری کی طرف نہ کوئی
احتساب والا جاتا ہے نہ ایم کیوایم کی طرف اور ق لیگ کی طرف تو ویسے ہی پر
جلنے لگتے ہیں،حال ہی میں اختر مینگل صاحب کے بارے میں کہا جا رہا ہے جو
کچھ بچا کچھا تھا حکومت نے بجٹ پاس کروانے کے لیے انکے قدموں میں نچھاور کر
دیا دیا ،رہی عوام تو وہ استاد دامن کے شعر کے مصداق کی کری جانا ں ایں
،پہلے کی طرح اب بھی حیران و پریشان ہے،عوام نے پی ٹی آئی کو نہ صرف بھرپور
مینڈیٹ دیا بلکہ ان کو کھل کر کھیلنے کا موقع دیا مخالف سیاستدانوں کو چور
اور لٹیرا سمجھا اور ان کی ایک نہیں سنی اور،عمران نیازی کو ہی اپنا نجات
دہندہ سمجھ لیا،اور تو اور نواز شریف صاحب اپنے ہی شہر لاہور کی کوٹ لکھپت
جیل میں قید ہیں مگر لاہور پرسکون ہے ادھر آصف علی زرداری بھی جیل میں ہیں
مگر جیالے کوئی بڑا تماشہ لگانے مین ابھی تک ناکام ہیں کیوں کہ عام آدمی اب
کسی کی باتوں میں آنے والا نہیں،چو ر چور کا چورن اس زور سے بیچا گیا کہ
بڑی حد تک لوگوں نے ا س پر یقین بھی کر لیا مگر نیازی حکومت کے قائم ہوتے
ہی فورا حج کا معاملہ آن پڑا اور حکومت نے آن واحد میں حج اخراجات میں دو
لاکھ سے بھی زائد اضافہ کر کے لوگوں کو حیران و پریشان کر دیا،اس کے بعد
بجلی گیس اور پترول کی قیمتوں میں دھڑاا دھڑ اضافے نے عوام کی کمر توڑ دی
رہی سہی کسر ڈالر نے نکال دی اور وہی عوام جو چوروں سے نجات حاصل کرنے کی
دعائیں مانگتے تھے سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ چور وہ تھے یا یہ،عجب چور تھے
کہ ان کے دور میں عام افراد کی زندگی آسان تھی جب کہ فرشتوں کہ دور میں دو
وقت کی روٹی کے لالے پڑتے جا رہے ہیں ہر طرف من پسند افراد کا انتخاب اور
احتساب ، ساری کابینہ پرویزمشرف والی جو پی ٹی آئی میں آگیا دھل گیا فی
الفور گناہوں سے پاک ،یہ وہ لمحہ تھا جب بڑی اپوزیشن پارٹیا ں حالات و
معاملات ہموار ہوتا دیکھ کر میدان میں کود پڑی ہیں ،پی پی پی پنجاب میں
تاحال کوئی بڑا شو لگانے میں ناکام ہے مگر سندھ اور کے پی کے میں بلاول
بھٹو حکومت کو ٹھیک ٹھاک ٹف ٹائم دے رہے ہیں ،پنجاب میں مریم نواز نے حکومت
کی ناک میں دم کیا ہوا تھا اوپر سے شاہد خاقان عباسی کی قیادت میں احسن
اقبال ،خواجہ آصف اور مریم اورنگزیب نے بھی اچھا بھلا رش لینا شرو ع کر دیا
ہے،منڈی بہاوالدین میں مریم نواز کی آمد نے حکمرانوں کے پسینے نکال دیے اور
وہ جو احتجاج کے لیے کنٹینر دینے کی باتیں کرتے تھے انہوں نے جلسہ گاہ میں
پانی چھوڑ دیا،ادھر ن لیگ والوں نے جلسوں کی اجازت نہ ملنے اور گرمی میں
خواری سے بچنے کے لیے کنونشن منعقد کرنا شروع کر دیے آجکل ہر شہر میں
مارکیز موجود ہیں جو دو سے چار ہزار بندوں کو آرام سے اپنے اندر سما لیتی
ہیں ،ن لیگ دھڑا دھڑ کنونشن منعقد کیے جا رہی ہے او ر ن کی یہ حکمت عملی
کافی حد تک کامیاب بھی جارہی ہے کیوں کہ مہنگائی بیروزگاری اور حکومتی
کارکردگی سے مایوس عوام ان کنونشنز کا رخ کر رہی ہے ایساہی ایک کنونش گذشتہ
روز چکوال میں بھی منعقد ہوا جس میں لوگوں کی شرکت نے مخالفین سمیت ن لیگی
قیادت کو بھی حیران کر دیا کیوں کہ انہیں قطعا توقع نہیں تھی کہ اتنی بڑی
تعداد میں لوگ ا س کنونشن میں شرکت کریں گے ،انہوں نے بظاہر عام اور چھوٹا
سا اسٹیج بنایا تھا کوئی بڑی اسکرین تک نہ لگائی تھی کہ شاید ہال بھی نہ
بھر اجا سکے مگر شدید ترین گرمی،بدنظمی اور مناسب بندوبست نہ ہونے کے
باوجود لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد نے اس کنونشن میں شامل ہو کر حکومتی
نمائندوں کو سوچنے پر مجبور کر دیا کہ اگرصورتحا ل یہی رہی اور فوری عوامی
ریلیف کا بندوبست نہ کیا گیا تو خالی چور چور کے شور سے اب مزید کام چلنے
والا نہیں،حالیہ مسلم لیگ ن کے ورکرز کنونشن نے جہاں ایک طرف پارٹی میں نئی
روح پھونک دی ہے وہیں ضلع بھرکی سیاست پر چھایا جمو د بھی توڑ دیا ہے۔ ضلع
چکوال میں اس وقت پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ق اقتدار میں ہیں، حلقہ این
اے64میں سردار ذوالفقار علی خان دلہہ اور صوبائی وزیر راجہ یاسر سرفراز پی
ٹی آئی کے پلیٹ فارم پر ہیں مگر ذہنی طور پر سیاسی راہیں دونوں کی الگ الگ
ہیں، سردار غلام عباس جن کے پاس دونوں حلقوں میں اپنا مضبوط ذاتی ووٹ بینک
موجود ہے وہ راجہ یاسر سرفراز کے ساتھ ہم خیال ہیں جبکہ دوسری طرف سردار
ذوالفقار علی خان دلہہ نے مسلم لیگ ن اورسردار گروپ کے سابقہ متعدد
چیئرمینوں کو اپنے ساتھ ملا رکھا ہے۔ سابق چیئرمین ضلع کونسل طارق اسلم
ڈھلی جن کا تعلق مسلم لیگ ن سے ہے ڈٹ کر مسلم لیگ ن میں اپنی جگہ پر کھڑے
ہیں حالیہ کامیاب کنونشن نے بہت سے باغی لوگوں کو ن لیگ کی طرف واپسی کی
سوچ میں مبتلا کر دیا ہے، حکومت کی مکمل ناکامی مہنگائی بیروزگاری اور
روزمرہ اشیا ء کی بڑھتی قیمتوں نے اس کنونشن کی کامیابی میں اہم ترین کردار
ادا کیا ہے اور جس بڑی تعداد میں لوگوں نے اس میں شرکت اس سے لگ رہا ہے کہ
معاملات اب وہ نہیں رہے جو آج سے ایک سال قبل تھے،مسلم لیگ ن کے مضبوط شو
آف پاور سے پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ق بیک پیج پر جاتی نظر آ رہی ہیں۔ تحریک
انصاف کوبھلے ق لیگ کے ساتھ مل کر ہی کیوں نہ سہی مگر پی ٹی آئی کو بھی
اپنا ورکرز کنونشن منعقد کرنا ہوگا تاہم اصل مسئلہ سردار غلام عباس، سردار
ذوالفقار دلہہ اور راجہ یاسر سرفراز اور حافظ عمار یاسر کو ایک سٹیج پر
بٹھانا ہے ۔ دوسری طرف سردار غلام عباس پر اپنے مستقبل کا سیاسی فیصلہ کرنے
کیلئے دباؤ مزید بڑھ رہا ہے۔ متحدہ اپوزیشن کی تمام جماعتیں اگر ایک پلیٹ
فارم پر آگئیں تو پھر پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ق پر مزید دباؤ بڑھے گا،حالات
نہایت تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں ،حکوت کو اگر اپنی عوامی مقبولیت برقرار
رکھنی ہے اور واقعی کسی نے نجات دہندہ کا کردار ادا کرنا ہے تو اسے فی
الفور خالی خولی دعووں کی بجائے عوام کے ریلیف پیکج کے لیے عملی طور پر کچھ
کرنا ہو گا،یاد رکھیں سدا اقتدار اور بادشاہی اﷲ کی ذات کی ہے جو کل تک ناک
پر مکھی نہیں بیٹھنے دے رہے تھے آج جیلوں میں بند گھر کے کھانے کے لقمے کو
ترس رہے ہیں،زیرو سے ہیرو اور ہیرو سے زیرو بنتے دیر نہیں لگتی ،اپنے پیش
روووں سے سبق حاصل کریں مگر تاریخ کا ایک سبق یہ بھی ہے کہ کوئی تاریخ سے
سبق حاصل نہیں کرتا ،،،،اﷲ تعالیٰ ہم سب پر رحم کرے
|