10مارچ،جمعرات کا دن:منڈی بہاﺅالدین
میں مسلم لیگ ق کا ورکرز کنونشن اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز
الہی کی محضوص پنجابی لہجے میں اردو تقریر مدتوں یاد رکھی جائے گی کہ انہوں
نے پنجاب اور قومی اسمبلی میں کم نشستوں کے باوجود لوگوں کی ایک بڑی تعداد
جمع کردی اور ٹی وی کیمروں والوں کی مہربانی جس نے لہراتے پارٹی پرچم کے
ساتھ اجتماع کے شرکاء کی فوٹیج اس خوبصورتی سے بنائی کہ لوگوں کو ہزاروں ،لاکھوں
لوگوں کے مجمع کا گمان ہونے لگا،چھوٹے چوہدری صاحب جب ن لیگ کی دشمنی پر
آتے ہیں تو خوب دل کی بھڑاس نکالتے ہیں مثلاً اس دفعہ انہوں نے کہا کہ
پنجاب کے حکمران کیا تعلیم پھیلائیں گے جو60سال میں پہلی بار میٹرک کی رول
نمبر سلپس بھی بچوں کو بر وقت نہیں پہنچا سکے یہ بے دانش حکمران ڈھنڈورا
پیٹتے ہیں کہ جہاں فی بچہ16ہزار روپے فیس ادا کر رہا ہے پنجاب اب صرف فاقوں
اور ڈاکوں کا صوبہ بن چکا ہے،شریف برادران کو اب جدہ والے لیں گے نہ عوام
انہیں بھاگنے دینگے۔خیر باتیں تو پرویز الہی صاحب کی صحیح ہیں عملاً پنجاب
کی صورتحال اتنی اچھی نہیں کہ جتنی کے ہونی چاہیے لیکن 3سال قبل جب چوہدری
پرویز الہی پنجاب پر 5سال تک حکومت کا عر صہ پورا کر چکے تھے اور انہیں آمر
کی چھتری تلے خوب پھلنے پھولنے کا موقع ملا تھا جس جنرل کو وہ مسلم لیگ ق
کے اجلاسوں میں دس بار وردی میں منتخب کرنے کی باتیں کرتے تھے اس دور میں
بھی چوری اور ڈاکے معمول کے واقعات تھے اس وقت بھی آٹا اور چینی نہیں ملتی
تھی،اس وقت بھی پٹرول مہنگا ہوتا تھا اس وقت بھی پڑھا لکھا پنجاب کی باتیں
ہوتی تھیں اس دور میں سرکاری اشتہارات کو آج سے کہیں زیادہ اپنے تشہیر
کیلئے استعمال کیا جاتا تھا۔ آج ق اور پی پی جس لوٹے کی سیاست اور لوٹا
فاونڈری کی بات کرتے ہیں ۔2001اور2002میں خود چوہدری برادران نے ن لیگ کے
رہنماﺅں کو اپنے ساتھ ملا لیا اور پھر ق لیگ بنا لی ۔غرض چوہدری صاحب اپنے
دور کو بھی پیش نظر رکھیں کہ 2002سے2007تک پنجاب میں دودھ اور شہد کی نہریں
نہیں بہا کرتی تھیں، سچ کڑوا ضرور ہوتا ہے لیکن اسے تسلیم کرنا چاہیے تب ہی
قومیں آگے بڑھتی ہیں۔ہمارے پاس سیاست دانوں کی لاٹ میں جو چند ایک بولنے
والے سیاست دان ہیں ان میں چوہدری پرویز الہی بھی شامل ہیں لہٰذ انہیں اس
پیشہ سیاست کے اصولوں کا خیال رکھنا چاہیے،بیان برائے بیان نہ ہو اور نہ ہی
پیر پگارا کی طرح ہر گھنٹے بعد پیشین گوئیاں کرنی چاہیے اور نہ ہی ذوالفقار
مرزا بننا چاہیے۔سیاست دانوں کو عوام خدمت کرنی چاہیے اپنی خدمت نہیں۔سیاست
دان’ پبلک فگر ‘ہوتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اپنے حلقے میں تو
نظر نہ آئیں لیکن ٹی وی چینلز پر اس کثرت سے دکھائی دیں کہ ایک گھنٹہ ایک
سٹوڈیو میں بیٹھے ہیں تو اگلے گھنٹے دوسرے سٹوڈیو میں ریکاڈنگ کرواتے نظر
آئیں ہماری سیاست کا محور ذاتی تشہیر نہیں بلکہ عوامی مسائل کی نشاندہی اور
اس کا حل ہونا چاہیے،دوسروں پر انگلی اٹھانے سے قبل اپنی طرف رہ جانے والی
چار انگلیوں پر ضرور نظر ڈال لینی چاہیے کہ کہیں آپ کا اپنا دامن تو داغدار
نہیں؟ |