دیباچہ
عارف جمیل صاحب کی قلم کاریوں سے میں بخوبی شناسا ہوں ، ان کا قلم متعدد
موضوعات پر پھول جھڑیاں بکھیرتا، سنجیدہ موضوعات کی تہہ بہ تہہ تاباں و
درخشندہ کرتا دکھائی دیتا ہے ۔ وہ سوشل میڈیا پر عرصہ دراز سے لکھ رہے ہیں
۔ ان کی تحریریں مختلف ویب سائیٹس خاص طور پر ہماری ویب اور اخبارات میں
شاءع ہوتی رہتی ہیں ۔ میرا تعلق ہماری ویب سے بہت قربت کا ہے، گزشتہ کئی
سال سے ’ہماری ویب رائیٹرز کلب‘ کا صدرہوں ۔ عارف صاحب سے فون پر گفتگو بھی
رہی، ان کا تعلق لاہور سے ہے اور میں رہتا کراچی میں ہوں لیکن کئی سال سے
لاہور کے پھیر ے لگارہا ہوں ۔ اس کی وجہ میری منہاج یونیورسٹی لاہور سے
بحیثیت پروفیسر وابستگی ہے ۔ عارف صاحب نے اپنی کتاب ’ بیسویں صدی سے
اکیسویں صدی تک کا سفر‘ کا پیش لفظ مجھ سے لکھوانے کی فرمائش کی ، مجھے
نہیں معلوم کیا وجہ رہی ، میں اپنے آپ کو اس کا اہل نہیں سمجھتا لیکن ان
کا اصرار تھا چنانچہ حکم کی تعمیل کی ۔ عارف جمیل کی یہ تصنیف دنیا کی سو
سالہ تاریخ کا اختصار سے احاطہ کر تی ہے ۔ موضوع بہت وسیع ہے لیکن یہ خوبی
عارف صاحب کی ہے کہ انہوں نے وسیع موضوع کو تیس ابواب وہ بھی مختصر میں
خوبصورتی اور مہارت سے سمیٹا ہے ۔ یہ عمل عارف صاحب کی تاریخ و سیاست کے
موضوع سے دلچسپی ظاہر کرتی ہے ۔ دنیا کی تاریخ اور سیاست پر ان کا مطالعہ
وسیع اور نظر گہری ہے یہی و جہ ہے کہ ان کا قلم تاریخ اور سیاست کے رازوں
کو احسن طریقے سے افشاں کرتا دکھائی دیتا ہے ۔ مَیں پیش نظر کتاب کی ایک
ایک سطر اور ایک ایک لفظ کا بہ نظر غائر مطالعہ کیا ہے ۔ انہو ں نے جس
موضوع پر قلم اٹھایا ہے، اسے انتہائی معلوماتی اور قابل مطالعہ بنایا ہے
اور قارئین کو اس کی حلاوت و شیرینی سے مکمل طور پر سیراب کیا ہے،تاریخ اور
سیاست جیسے موضوع کے کسی پہلو کو نہ تو مصلحتاً پوشیدہ رکھا ہے اور نہ ہی
کسی پہلو سے تشنہ کام لوٹایا ہے ۔ یہ ان کی تحریر کی فنی خصوصیت ہے کہ
بلاگی لپٹی رکھے انہوں نے بے لاگ تجزیہ پیش کیا ہے ۔ کتاب کا مسودہ سافٹ
کاپی کے طور پر مجھے دیا گیا تھا ، باوجود اس کے کہ کمپیوٹر اسکرین پر
پڑھنا قدرِ مشکل امر ہوتا ہے ۔ مجھے کمپیوٹر پر لکھنے اور اسکرین پر پڑھنے
کی عادت بھی ہے دوسرے سیاسیات کے ساتھ تاریخ میرا بھی موضوع رہا ہے،کتب
خانوں کی تاریخ پر میں نے ایک مختصر سی کتاب1977 ء میں لکھی تھی ۔ پھر عارف
جمیل صاحب کی خواہش کی تکمیل نے مجھے مجبور کردیا ۔ ابتدا میں تو مجھے
محسوس ہواکہ اس موضوع پر میرے لیے لکھنا مشکل ہوگا لیکن جیسے جیسے میں آگے
بڑھتا گیا میری دلچسپی میں اضافہ ہوتا گیا،مجھے پڑھنے میں لطف آتا رہا،
میرے علم میں بہت سے ایسی باتوں کا اضافہ ہواجن کا اس سے پہلے مجھے علم
نہیں تھا ۔ مطالعہ کے دوران میں دنیا کی پرانی تاریخ میں کھوجاتا ۔ اقوام
متحدہ کا قیام، ہٹلر کا ذکر، اس کی خود کشی ، ایٹمی دھماکے، امریکہ کا
جاپان پر ایٹم بم گرانا، اسرئیل امریکہ گٹھ جوڑ، بھارت کے ایٹمی دھماکہ کے
جواب میں پاکستان کے ایٹمی دھماکے، نائن الیون، امریکہ سپر پاور بننے کی
خواہش اور دنیا پر چھا جانے کی عملی کوشش، چین کا سامنے آنا، پاکستان کی
سیاست کے اتارچڑھاوَ جیسے موضوعات نے مجھے اس کتاب کے ایک ایک لفظ کو پڑھنے
پر مجبور کردیا ۔ تاریخ اور سیاست سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے یہ کتاب
اپنے موضوع پرمعلومات کا انسائیکلو پیڈیا ہے ۔
کتاب کے مطالعہ کے ساتھ ہی تجسس ہوا کہ اس تحریر کے مصنف کے بارے میں کچھ
معلوم کروں کہ وہ ان موضوعات پر اتنی گہری سوچ اور معلومات کیسے رکھتے ہیں
۔ ان کا مختصر بائیوڈیٹا پڑھا تو معلوم ہوا کہ موصوف نے گریجویشن میں
نفسیات پڑھی، پنجاب یونیورسٹی سے معاشیات اور اسلامیات میں ماسٹرکیا ،
امریکن ہسٹری میں ڈپلومہ بھی کیا اور تعلیمی سرگرمیوں سے بھی وابسطہ رہے ۔
سیاسی، تاریخی، سماجی کھیلوں پر لکھنا ان کا خاص ذوق ہے اور یہ بھی کہ وہ
کسی بھی موضوع پر لکھنے کے لیے اول تحقیق کو بنیاد بناتے ہیں پھر اپنی سوچ
و خیالات کو قلم کی نوک سے قرطاس پر منتقل کرتے ہیں ۔ امریکن ہسٹری میں
ڈپلومہ ایک وجہ ہے کہ وہ امریکہ کے حوالے سے امریکی تاریخ و سیاست کے اتار
چڑھاوَ ، امریکہ کے حالات اور دنیا میں امریکہ کے کردار پر اتھاریٹی رکھتے
ہیں ۔
کتاب تیس (30) ابواب پر مشتمل ہے، ہرباب مختصر ضرور ہے لیکن موضوع پر اہم
اور بنیادی معلومات فراہم کرتا ہے ۔ ہر باب کا عنوان اُس کے موضوع سے
مناسبت رکھتا ہے اور بنیادی موضوع سے اس کی کڑی ٹوٹنے نہیں پاتی ۔ کتاب کا
اساسی موضوع ;34; بیسویں صدی سے اکیسویں صدی تک کا سفر ;34; ہے، جیسے جیسے
بات بیسویں صدی کے موضوعات سے اکیسویں صدی کی جانب بڑھتی ہے ، دنیا کی
تاریخ ایک مربوط انداز سے مرتب ہوتی دکھائی دیتی ہے ۔ بات شروع ہوئی ہے
اقوام متحدہ کے قیام یعنی 1945ء سے، اس کے فوری بعد دو عالمی مالیاتی ادروں
آئی ایم ایف اور عالمی بنک کا ذکر کرتے ہوئے مصنف نے لکھاہے کہ ’اُس وقت
اِن کا بنیادی مقصد جنگ ِعظیم دوم میں حصہ لینے والے ممالک کی معیشتیں بحال
کرنا ، باہمی تجارت کو فروغ دینا اور آزاد ممالک کی معیشتوں کو اپنے پاءوں
پر کھڑا ہونے کیلئے رقوم فراہم کرنا تھا ۔ باب دوم کا عنوان ہے ’’باسکٹ آف
کرنسی میں ’ڈالر‘ جس میں یہ بھی بتا یا گیا ہے کہ اِن مالیاتی اداروں کے
قیام کی کیا وجہ تھی،تیسرے باب میں جرمنی بسمارک سے ہٹلر تک کے مختصر حالات
بیان ہوئے ہیں ، وہ لکھتے ہیں کہ’ ہٹلر نے بر سر اقتدار آنے کے بعد 1935ء
میں سواستیکاکو نازی تحریک کا نشان بنایا ۔ یہ ہٹلر ہی تھا کہ جس نے
میونسٹوں و سوشلسٹوں اور جمہوریت پسندوں کو قید کر دیا یا گولی مار کر ہلاک
کر دیا ۔ اس کے ساتھ ہی ہٹلرو مسولینی کا خاتمہ سٹالن کی جیت سے بحث کرتا
ہے‘، اس باب میں ہٹلر کی خود کشی کا بھی ذکر بھی ہے ۔ ’جاپان پر ایٹم بم
گرانا پھر نیٹو کا قیام ، مصنف نے لکھا ہے کہ ’امریکی صدر ٹرومین نے اگست
1945 ء میں جاپان پر دو ایٹم بم گرائے جس پر دُنیا بھر میں امریکہ کے خلاف
احتجاجی مظاہرے ہوئے ۔ دنیا میں امریکہ کی بالادستی کا یہ آغاز تھا، اس سے
پہلے بھی وہ بالا دستی کی جانب بڑھ چکا تھا لیکن ایٹم بم حملہ گویا جاپان
کو دنیا سے نیست و نابود کرنے کی سوا کچھ اور نہ تھا‘ ۔ معاہد ہِ وار سا
(وار سا پیکٹ ) کا ذکر کیا گیا ہے، کولڈوار کی اصطلاح کب اور کیسے شروع
ہوئی، مسلم ممالک میں اشتراکی نظریات کا آغاز کیسے ہوا اس کی تفصیل بیان
کی گئی ہے ۔ 4 ِ مئی 1948 ء کواسرائیلی ریاست کا قیام یہ کتاب کا باب آٹھ
ہے جس میں اسرائیل کے قیام اور محرکات بیان کی گئیں ہیں ۔
عرب لیگ جس کا قیام مارچ1945ء میں عمل میں آیا کا اولین مقصد اتحاد بین
العرب کا فروغ اور عرب ممالک کے تنازعات کو افہام و تفہیم کے ذریعے حل
کرناتھا ۔ او ۔ آئی ۔ سی (آرگنائزیشن آف دی اسلامک کانفرنس) کا ذکر ہے ۔
پہلی اسلامی سربراہی کانفرنس جو مراکش کے شہر رباط میں منعقد ہوئی کاحال
بیان کیا گیا ہے ۔ یہاں سے پاکستان کے قیام اور پھر اس کے دو لخت ہونے کی
روداد بیان ہوئی ہے ۔ مسلم ممالک اور نیو کلیئر ٹیکنالوجی کے حوالے سے
بتایا گیا ہے کہ پاکستان نے فرانس سے جوہری معاہدہ کیا، دوسری مسلم سربراہ
کانفرنس فروری جو 1974 ء میں پاکستان کے شہر لاہور میں منعقد ہوئی تھی کا
ذکر ہے ۔ بھارت کے پہلا ایٹمی دھماکہ جو پوکھران، راجستان کے مقام پر کیا
اس کی تفصیل بیان کی گئی ہے ۔ اس کے بعد شمالی ویت نام و برما، روس کی
افغانستان میں جارحیت،نیو ورلڈ آرڈر، مشرقی بلاک میں امریکہ و نیٹو کے اثر
و رسوخ‘ کو موضوع بنایا گیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ مغربی و مشرقی جرمنی
کے درمیان برلن وال کے نام سے بننے والی دیوار نومبر 1989 ء کے آخر میں
گرائی جا چکی تھی ۔ جس سے جرمنی دوبارہ متحد ہو گیا تھا ۔ لکھا ہے کہ 90 ء
کی دہائی میں امریکہ واحد سُپر پاورتھا ’ امریکہ ’نیو ورلڈ آرڈر ‘ کی
اصطلاح اور ’ گلوبل ویلج‘ اور گلیمر ورلڈ ;34;کے تصور کے ساتھ 90 ء کی
دہائی میں داخل ہوا تو فی الوقت اُس کے سامنے کوئی دُنیاوی طاقت ایسی نظر
نہیں آ رہی تھی جو اُسکے واحد سُپر پاور ہونے کے مقابل ہو ۔ مصنف نے بتایا
کہ اس کے بعد ’چین دُنیا کے سامنے دیوہیکل صورت میں ‘ آیا ۔
بھارت کے دودوسرے ایٹمی دھماکے کے جواب میں پاکستان کا28 ِ مئی 1998 ء کو
پہلا ایٹمی دھماکہ کر دینا ۔ جس کے نتیجے میں پاکستان ایٹمی صلاحیت حاصل
کرنے والا پہلا اسلامی ملک بھی بن گیا ۔ اس کے بعد کے موضوعات میں اسلامی
مماملک کا پاکستان سے تعاون، ’کارگل‘ تنازعہ،’تحریک طالبان‘، (9;47;11) کا
واقعہ اور امریکہ اور القائدہ، عراق پر حملہ اور صدام حسین کو پھانسی ،
’پتھروں کے دور‘ میں بھیج دینے کی امریکی دھمکی جیسے موضوعات دلچسپی رکھتے
ہیں ۔ اب مصنف پاکستان کی سیاست کے حوالے سے پی پی پی (ن) لیگ حکومتی اتحاد
اور 2008ء کے انتخابات کا تذکرہ کرتا ہے ، اسرئیل بھارت گٹھ جوڑ، اُسامہ بن
لادن کی ہلاکت، نیٹو سپلائی پر امریکہ کی طرف سے ڈو مور، مصر میں ;34;
اخوان المسلمین، جمہوری حکومت کا خاتمہ کے بعد پھر پاکستان میں آپریشن ضرب
ِعضب کے بارے میں اظہار خیال کیا گیا ہے، ایران،تُرکی،عراق اور شام، ہیلری
کلنٹن اور ڈونلڈ ٹرمپ کا مقابلہ اور جس میں ہیلری انتخابی نشان گدھا اور
ٹرمپ کا جماعتی نشان ہاتھی تھاکی تفصیل بیان کی گئی ہے ۔
کتاب کے باب 22 میں سی پیک;34; پاک چین میگا پروجیکٹ کے حوالے سے معلومات
فراہم کی گئی ہے ،مصنف نے لکھا کہ
’ پاکستان کے7ویں وزیر ِاعظم فیروز خان نون نے اپنے عہد میں ;34;سلطانِ
مسقط;34; سے مذاکرات کے نتیجے میں گوادر کی بندر گاہ کا علاقہ چالیس لاکھ
پونڈ کے عوض حاصل کیا تھا‘ ۔ عام طور پر یہ بات لوگوں کے علم میں نہیں ۔
امریکہ کا ’نیو ورلڈ آرڈر‘کے مقابل’ گیم چیلنجر کی اصطلاح، ایران گیس و
تاپی پاءپ لائن ، امریکہ بھارت گٹھ جوڑ ، ایران،عراق و شام ، غیر مسلمانوں
کے اہم اتحاد، اسرائیل و شام کے معاملات میں پیش رفت ، دارلخلافہ تل ابیب
سے یروشلیم، تائیوان کا قیام ، چائنہ پالیسی، ماءوزے تنگ وچوائن لائی، صدر
شی چن پنگ، نئی سپر پاورز، لاطینی امریکہ و افریقہ، جاپان و جنوبی کوریا،
مادی دُنیا کا ڈیجیٹل دُنیا کی طرف سفر، سوشل نیٹ ورکنگ کے فوائد اور
ہیکرز، ڈیجیٹل دُنیا کی نئی اصطلاح ’ ڈیجیٹل وار‘شیئرنگ اکانومی;34; ،
اسلامی دہشت گردی ;34;، مشہور ِزمانہ چینی برانڈ ;34;علی بابا;34;کے بانی
;34; جیک ماہ;34; کا وہ تاریخی جملہ کہ ’ اگر تجارت رُکتی ہے تو جنگ شروع
ہو جاتی ہے‘ ۔ مصنف کے مطابق بس یہی 21ویں صدی کا نیا سبق و سفر ہو گا ۔ جس
کے پیچھے بھی تاریخ ہے جس کا سبق نئے سفر کا تعین کر سکتا ہے ۔ آخر میں
مصنف نے لکھا ہے کہ2019ء کا آغاز ہو چکا ہے اور ماضی کی صورت ِحال کا
تسلسل مد ِنظر رکھتے ہوئے مستقبل میں کچھ معاملات کا تعین اسطرح ہو تا ہوا
نظر آرہا ہے ’’ چین اور جاپان دُنیا میں امن مشن شروع کرنے کا ارادہ رکھتے
ہیں ، ہیروں اور معدنی دولت سے مالا مال علاقوں میں امن ممکن نظر نہیں
آرہا ، افغانستان، فلسطین اور کشمیر سمیت افریقی ممالک سلگتے رہیں گے، چین
کے مطابق فلسطینی مسئلے کا
حل مشرقی بیت المقدس فلسطینی ریاست کا دارلحکومت ہو گا، پاکستان کیلئے
امریکہ سے تعلقات اور بھارت کے اسرائیل کے تعلقات اہم موضوع ہونگے، اسطرح
ماضی کی طرح وقت گزرتا رہے گا اور تاریخ اپنے نشانات چھوڑتے ہوئے آگے
بڑھتی رہے گی‘‘ ۔ تاریخ دان کی خوبی ہی یہ ہوتی ہے کہ وہ صرف ماضی کے حالات
و واقعات ہی بیان نا کرے بلکہ گزرے حالات کی روشنی میں مستقبل کی صورت کا
بھی تعین اور نقشہ پیش کرے ، عارف جمیل اس خوبی کو بھی نبھایا ہے ۔ یہ کتاب
دنیا کی تاریخ و سیاست پر وسیع معلومات کا خزانہ ہے ۔ یہ دستاویز تاریخ کے
طالب علموں کے لیے، مقابلے کے امتحان میں شریک ہونے والوں کے لیے، پاکستان
کی تاریخ و سیاست سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے اور عام قاری کے لیے جو
دنیا کی تاریخ کے بارے میں معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں ایک اہم حوالہ کی
حیثیت رکھتی ہے ۔ مختصر لیکن عمدہ تصنیف منظر عام پر لانے پر دلی مبارک
باد،اسے ہر کتب خانے کی زینت ہونا چاہیے ۔
پروفیسر ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی
معلم، ادیب، شاعر، کالم نگار، خاکہ نگار
یکم جولائی 2019ء
|