پاکستان کا نظام عدل اور تفتیش کا انتظام برطانیہ کا
بنایا ہوا ہے۔ برطانیہ کے تفتیشی ادارے اپنی مستعدی کی شہرت کے باوجود بعض
مقدمات میں پھنس جایا کرتے تھے اور تفتیش آگے نہیں بڑھ پاتی تھی۔
اٹھارویں صدی میں لندن کی پولیس نے جرائم میں ملوث گروہوں کی سر کوبی کے
لیے ادارے سے باہر کے لوگوں کو مجرموں گروہوں میں شامل کرنا شروع کیا۔ یہ
لوگ گینگ میں شامل ہو کر جرم کرتے اور ساتھ ساتھ مخبری کا فریضہ بھی
سرانجام دیتے۔ جب مجرم گینگ پکڑا جاتا تھا یہ مخبر بھی گرفتار شدگان میں
شامل ہوتے۔انھیں عدالت میں پیش کیا جاتا۔ پولیس عدالت کے سامنے مخبر سے کیا
گیا معافی کا وعدہ رکھتی اور عدالت مخبر کو رہا کر دیتی۔ اس بندوبست کا
بانی لندن کا ایک قانون دان اور جج فیرنی چارلس (متوفی 1793 تھا۔ لندن میں
اس بندوبست کی کامیابی کے بعد اس بندوبست کو انڈیا میں بھی رائج کیا گیا۔
مگر یہاں اس بندوبست میں وہ شفافیت نہیں رہی جو لندن میں تھی۔
پاکستان میں فوجداری مقدمات میں یہ بندوبست اب بھی موجود ہے البتہ سیاسی
مقدمات میں اس کا استعمال 1977میں جنرل ضیاء االحق کے دور میں کامیابی سے
ہوا۔ اس دور میں میں فیڈرل سیکورٹی فورس کے دو افسران اور ایک سپاہی وعدہ
معاف گواہ بنے۔ ان کی گواہی پر پاکستان کے سابقہ وزیر اعظم ذولفقار علی
بھٹو کو نواب محمد احمد خان کے قتل کے مقدمے میں پھانسی کی سزا ہوئی۔
اس کے بعد جو بھی سیاسی کیس بنا اس میں عام طور پر وعدہ معاف گواہوں کے
بیانات پر انحصار کیا جاتا ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ وعدہ معاف گواہ عدالت میں
اپنے گناہ کا اعتراف کرتا ہے۔اور اس مجرم کی نشان دہی کرتا ہے جس کے ایماء
پر اس نے جرم کیا ہوتا ہے۔ مقدمے کے اختتام پر تفتیشی ادارہ عدالت سے اس کی
معافی کی درخواست کرتا ہے۔ یہ اختیار عدالت کا ہوتا ہے کہ وہ وعدہ معاف
گواہ کر بری کر دے یا اسے سزا دے۔
ایم کیو ایم کے رہنماء الطاف حسین پر مقدمات بننا شروع ہوئے تو صولت مرزا
کا نام بطور وعدہ معاف گواہ سامنے آیا۔صولت مرزا کو گو پھانسی دے دے گئی
مگر اس کی وجوہات سیاسی تھیں۔
پاکستان میں سابقہ صدر آصف زرداری کے خلاف مقدمات کا سلسلہ شروع ہوا تو ان
کی بنیاد وعدہ معاف گواہوں کے بیانات پر رکھی گئی۔ لیاری گینگ کے مشہور کیس
میں زرداری صاحب کے خلاف مقدمات ایک وعدہ معاف گواہ عزیر بلوچ کے بیانات پر
رکھی گی۔جج ارشد ملک کی عدالت میں زرداری صاحب اور محترمہ فریال تالپور کے
خلاف چلنے میں مقدمے میں شیر محمد کا نام بطور وعدہ معاف گاہ سامنے آیا۔
سابق وایر اعظم راجہ پرویز اشرف کے خلاف رینٹل پاور مقدمے میں شائد رفیع
صاحب وعدہ معاف گاہ بنے۔
راجہ پرویز مشرف کے خلاف ایک وعدہ معاف گواہ رانا محمد امجد ہیں۔
اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی کے مقدمے کے وعدہ معاف گواہ گلزار احمد
ہیں جو امریکہ میں مقیم ہیں جنرل مشرف کے دور میں اسحاق ڈار کو وعدہ معاف
گواہ بنا کر نواز شریف کو سزا دی گئی تھی۔
مشرف ہی کے دور میں نواز شریف پر طیارہ اغوا کا کیس بنا تھا اس میں وعدہ
معاف گواہ امین اللہ چوہدری بنے۔
موجودہ دور چوروں اور ڈاکووں کے خلاف، سابقہ چیف جسٹس ثاقب نثار کی عدالت
سے صادق اور امین کی سند پانے والوں کا ہے۔ مگر تمام مقدمات کے ساتھ کوئی
نہ کوئی وعدہ معاف گواہ جڑا ہوا ہے مثال کے طور پر سابقہ وزیر ریلوے خواجہ
رفیق کے خلاف کرپشن کے مقدمے میں قیصر امیں بٹ، سلیمان شہباز کے خلاف مقدمے
میں مشتاق چینی،شہباز شریف کے خلاف مقدمات میں فواد حسن فواد اور احد چیمہ،
سابقہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے مقدمے میں عابد سعید وعدہ معاف گواہ
ہیں۔
پاکستان میں جتنے بھی سی ایس پی افسر وعدہ معاف گواہ بنتے ہیں وہ اپنے
اعترافی بیان کے چند دنوں بعد ہی رہا ہو کر گھر واپس آجاتے ہیں۔ البتہ
شہبازشریف کے خلاف مقدمات سے جڑے ایسے گواہوں کو رہا نہ کرنے کی وجوہات
قانونی نہیں بلکہ سیاسی اور معاشرتی ہیں۔
ٹی ٹی پی کے سابقہ ترجمان لیاقت علی عرف احسان اللہ احسان کو بھی وعدہ معاف
گواہ کہا جا سکتا ہے۔
پاکستان میں کم از کم دو نام ایسے ہیں جنھوں نے نیب کی کوششوں کے باوجود
وعدہ معاف گواہ کا پٹکا اپنے گلے میں ڈالنے سے انکار کیا ہے ایک نام کیپٹن
محمد صفدر اعوان کا ہے جنھوں نے نواز شریف کے پناما کیس میں اور دوسرا نام
عبدالجبار قدوائی کا ہے جنھوں نے آصف زرداری کے خلاف بے نامی مقدمات میں
وعدہ معاف گاہ بننے سے انکار کیا۔
وعدہ معاف گواہوں کے بارے میں پاکستان کے ماہر قانون سابقہ جسٹس ناصر الملک
صاحب نے ایک مقدمے کے فیصلے میں لکھا تھا کہ ایسے گواہوں کے بیان پر
انحصارکر کے کسی کو سزا نہیں دی جا سکتی۔
|