پاکستان کے شمال مغرب میں واقع قبائلی علاقہ جات اپنی ایک
مخصوص شناخت رکھتے ہیں۔انگریز نے جہاں پورے برصغیرکے او پر قبضہ کیاوہیں اس
علاقے کو کبھی بھی پوری طرح اپنے قبضے میں نہیں لے سکا۔اُسے ہمیشہ یہاں
مشکلات کا سامنا رہا اور یہ علاقہ میدانِ جنگ ہی بنا رہا۔اُسے اس علاقے کو
اپنے قابو میں رکھنا اس لیے بھی ضروری تھا کہ روس وسطی ایشیا سے ہوتا ہوا
ہندوستان تک نہ پہنچ جائے اور اسی لیے وہ یہاں پیسے کے ذریعے بھی حالات
کنٹرول کرتا رہا لیکن اُسے کبھی بھی مکمل کامیابی نہیں ہوئی۔ اُس نے علاقے
کے مشران پر مشتمل جرگہ سسٹم بھی بنایا لیکن جب یو ں بھی کام نہ چلا تو
پورے بر صغیر سے مختلف تعزیراتی قوانین لا گو کرتے ہوئے اُس نے فرنٹیر
کرائمز ریگولیشن یعنی ایف سی آر کے نام سے ایک قانون بنایا۔ یہ قوانین اس
نے 1871 سے1876کے درمیا ن لاگو کیے لیکن خاص کامیابی نہ ہونے کی وجہ سے
1901میں ایک نئی ایف سی آر بنائی گئی اور علاقہ مشران کے ساتھ ساتھ وسیع
اختیارات کے ساتھ ہر ایجنسی میں پولیٹیکل ایجنٹ کی تعیناتی بھی کی گئی جو
علاقے کے بے تاج بادشاہ تھے جو کسی بھی شخص کو کوئی بھی سزا دے سکتے
تھے۔اسی دوران ایک الگ صوبہ یعنی شمال مغربی سرحدی صوبے کا قیام بھی عمل
میں لایا گیا جس میں کوہاٹ، بنوں،ڈیرہ اسما عیل خان، ہزارہ اور پشاور کے
پانچ اضلاع کے ساتھ پانچ ایجنسیاں یعنی دیر، سوات، کرم، چترال اور شمالی
وزیرستان بھی شامل کیے گئے تاہم انگریز ان تمام بندوبستی، انتظامی اور سخت
حاکمانہ کاروائیوں کے باوجود علاقے کو مکمل طور پر قابو نہ کر سکا اور اسی
اثناء میں بر صغیر کو آزادی دے کر چلا گیا۔1947 میں آزادی کے بعد بھی یہاں
یہی قوانین رائج رہے تاہم اس دوران قبائلیوں نے تو آزاد مملکت کے ساتھ
تعاون کا مظاہرہ کیا لیکن پاکستان کے کسی آئین کو یہاں لا گو نہیں کیا
گیایہاں تک کہ 1973 کے آئین میں بھی ان علاقوں کے بارے میں کوئی تبدیلی
نہیں آئی نہ تو یہاں فکری ترقی ہوئی نہ مادی اگرچہ یہاں سے بے شمار
ڈاکٹر،انجینئر اور دوسرے اعلیٰ عہدہ دار بھی نکلتے رہے یہاں کے لوگوں کے
لیے پیشہ ورانہ اداروں میں نشستیں بھی مخصوص کی گئیں کچھ دیگر سہولتیں بھی
دی گئیں لیکن بنیادی سطح پر جو تبدیلیاں درکار تھیں وہ نہ ہو سکیں اس میں
یہاں کے سخت جغرافیائی حالات کا بھی عمل دخل رہا اورلوگوں کے مزاج کا حصہ
بھی لیکن سیاسی اور حکومتی سطح پر جو لاپرواہی برتی گئی اس نے یہاں کے
حالات میں اہم کردار ادا کیا اور یہی وجوہات تھیں کہ اِن علاقوں میں حالات
وہاں تک پہنچے جس کو درست کرتے کرتے قوم نے بڑی قیمت ادا کی ہے۔ ان علاقوں
میں جانا کبھی بھی بہت آسان نہیں تھا،دہشت گردی کی حالیہ لہر سے پہلے بھی
اگر کوئی سیاح بھی وہاں جاتا تھا تو اسے ہدایت کی جاتی تھی کہ وہ ہوشیار
رہے اور سڑک کے ساتھ ساتھ رہے کیونکہ علاقے میں پاکستانی قوانین کا اطلاق
نہیں ہوتا اور پچھلے چالیس سال سے تو یہ سارا علاقہ مختلف جنگجوئں کا مسکن
بنا رہا، پہلے روس افغان جنگ نے اسے بے تحاشہ متاثر کیا اور اس کے بعد
امریکہ افغان جنگ نے تو اسے ممنوعہ علاقہ ہی بنا دیا۔یہاں دشمن طاقتوں نے
دہشت گردی کے اڈے اور تربیت گاہیں تیار کرنے میں اپنا اپنا حصہ خوب ڈالا
اور یوں ادھر تیار ہونے والے دہشت گردآگ اور خون کا کھیل کھیلتے رہے جس کی
وجہ سے نہ صرف یہاں کے لوگ متاثر ہوتے رہے انہیں کبھی اپنے گھروں میں موت
کا سامنا کرنا پڑا اور کبھی اپنے گھروں سے دربدر ہو کر محفوظ علاقوں میں
خیمہ بستیوں میں وقت گزارنا پڑالیکن اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے دوسرے شہر
بالعموم اور خیبر پختونخواہ کے شہر بالخصوص دھماکوں سے لرزتے رہے۔پشاور
جیسے خوبصورت شہر کو تو خوف کا شہربنا دیا گیا تھا۔ یہاں کاروبار شدید
متاثر ہوا،بازاروں، مسجدوں، جنازوں، دفتروں،پارکوں، جلسوں حتیٰ کہ گھروں تک
پر حملے کیے گئے یو ں کوئی گوشہ محفوظ نہ تھا۔خود اِن علاقوں میں کئی سکول
دھماکوں سے اڑا ئے گئے اور حد تو یہ کہ دن کے وقت بچوں سے بھرے ہوئے پشاور
کے آرمی پبلک سکول پر حملہ کر کے ان کا بے رحمانہ قتل کیا گیا اور یہی وہ
لمحہ تھا جب قوم نے متحد ہو کر اس دہشت گردی کو ختم کرنے کے کئی سارے فیصلے
کئے، نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا اور دہشت گردوں پر ہر طرف سے زمین تنگ کر
دی گئی اور ایک فیصلہ کن جنگ لڑی گئی جس میں پاک فوج نے اپنے بے شمار
افسروں اور جوانوں کی قربانیاں دیں۔یہاں اسلحے اور بارود کے کارخانے تباہ
کئے،خود کش جیکٹوں کی فیکٹریاں اڑا دی گئیں اوربارودی سرنگیں صاف کرتے ہوئے
کئی فوجیوں نے اپنی جانوں کی قربانی دی یوں ایک ایسی سخت ترین جنگ لڑی گئی
جس میں دشمن کو تو معلوم تھا کہ یونیفارم پہنے یہ فوجی یا ایف سی کا اہلکار
اس کے ظلم کو ختم کرنے آیا ہے لیکن اس طرف کی فوج نہیں جانتی تھی کہ عام
لباس کے اِن لوگوں میں پُر امن اور دہشت گرد ہ کون ہے لہٰذا وہ تو کھلے
نشانے پر تھا اور اسے نشانہ باندھنے سے پہلے ہزار احتیاطیں کرنا پڑتی تھیں
لیکن آخر کا ر یہ جنگ پاکستان کی افواج اور سیکیورٹی اداروں نے جیت لی اور
تاریخ میں پہلی بار ان علاقوں میں پاکستان کے عام شہروں سے زیادہ ترقیاتی
کا م کیے گئے۔ یہاں آٹھ سو کلومیڑ طویل سڑکوں کا جال بچھایا گیا، سکول اور
کالج قائم کیے گئے، کیڈٹ کالجوں کا قیام عمل میں لا یا گیا، تباہ شدہ
سکولوں کو بحال کیا گیا اور ترقی کی پہلی سڑھی پر پہلا قدم رکھا گیا۔یہاں
کھیل کے میدان بنائے گئے تا کہ نوجوانوں کو صحتمندانہ سرگرمیوں میں مشغول
کیا جائے۔یہاں بنیادی سطح پر کام شروع کیا گیا اور ذہنی سطح پر یہاں کے
لوگوں کو تبدیلی کے لیے تیار کیا گیا۔ دوسری طرف سیاسی سطح پر بھی کام شروع
ہوا اور کچھ سیاسی جماعتوں کی مخالفت کے باوجود 31مئی2018کو قومی اسمبلی
میں آئین میں پچیسویں ترمیم کے ذریعے فاٹا کو صوبہ خیبر پختونخواہ میں ضم
کر دیا گیا اور سوا سو سال پُرانے کالے قانون کا خاتمہ ہو گیااور قبائلی
علاقہ جات یعنی فاٹا کو پاکستان کے دوسرے شہروں کی طرح آئین پاکستان کے تحت
لایا گیااور یہاں کے لوگوں کو پاکستان کے ہر شہری کی طرح دوسرے حقوق کے
ساتھ ساتھ ووٹ کا حق بھی مل گیا جس کے تحت تاریخ میں پہلی بار 20
جولائی2019 کو یہاں کے باشندوں نے عام انتخابات میں اپنے نمائندوں کے
انتخاب کے لیے ووٹ ڈالا۔فاٹا کے سات اضلاع میں قومی اسمبلی کی سولہ اور
صوبائی اسمبلی کی اکیس نشستوں جن میں پانچ مخصوص نشستیں بھی شامل ہیں پر
انتخاب لڑاگیا، مخصو ص نشستوں میں چار خواتین اور ایک اقلیتوں کے لیے
ہے۔فوج نے سخت حفاظتی انتظامات میں انتہائی پُر امن طریقے سے یہ سارا عمل
مکمل کروایا جس میں انتہائی حساس قرار دیے گئے 461پولنگ سٹیشن بھی اللہ
تعالیٰ کے فضل سے پُر امن رہے۔ دوسری خوش آئند بات یہ تھی کہ یہاں کی
خواتین بھی گھروں سے نکلیں اور اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ یہ انتخابات
انتہائی اہمیت کے حامل اس لیے ہیں کہ ان کے ذریعے ایک صدی سے زیادہ پُرانے
اُس کالے قانون کا خاتمہ ہوا جس نے ان علاقوں کو ملک کے اندر ہی ایک ایسا
خطہ بنائے رکھا تھا جہاں کئی مواقع پر ریاست بے بس تھی اور صرف فوجی
کاروائی ہی مسائل کا واحد حل تھی۔یہ وہ علاقہ تھا جہاں پورے ملک کے جرائم
پیشہ پناہ لے کر محفوظ ہو جاتے تھے،جہاں سمگلنگ عام پیشہ تھا،افغانستان کے
تمام جرائم پیشہ بھی یہی آکر پناہ لیتے تھے اور اسی راستے پاکستان کے جرائم
پیشہ افغانستان میں جا چھپتے تھے۔اسی سرحدی دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے
یہاں سرحد پر باڑ لگا کر اسے بھی کافی حد تک محفوظ کرنے کی ابتدا کردی گئی
ہے ان تمام اقدامات سے یہ اُمید کی جاتی ہے کہ فاٹا کے عوام خود کو پہلے سے
بہت بہتر محسوس کریں گے۔ پاک فوج تو اپنا کام پہلے ہی شروع کر چکی تھی اب
قانون سازی میں یہاں کی نمائندگی اس احساس کو مزید آگے بڑھائے گی اور ترقی
کا یہ عمل مزید اور مزید آگے بڑھتا جائے گا اور ماضی کے ان تمام بُرے
احساسات کا خاتمہ کرے گا جس سے یہاں کے عوام گزرے ہیں اور اُس تاثر کا بھی
خاتمہ ہو گا جو پچھلی کئی دہائیوں کی دہشت گردی کی وجہ سے ان علاقوں کے
بارے میں پیدا کیا گیا۔ اس بات سے قطع نظر کی کون سی سیاسی جماعت یہاں
کامیاب ہوئی ایک خوش آئند مستقبل کی ابتداء ہو چکی ہے جو اس بات ثبوت ہے کہ
پاکستان ایک امن پسند اور پُرامن ملک ہے جس نے دور حاضر میں کئی دشمنوں کی
ملی بھگت سے پیدا کردہ بدترین بدامنی اور دہشت گردی کوبڑی کامیابی سے شکست
دے دی ہے۔
|