یہ پرویز مشرف کا دور تھا ۔ملک کے منتخب وزیراعظم اور فوج
کے درمیان جاری محاذ آرائی اپنے منطقی انجام کو پہنچ چکی تھی ۔حکومت اور
فوج کے درمیان بڑھتی ہوئی بد اعتمادی کی خلیج کو بالاخر مارشل لاءنے پر کر
دیا ۔نواز شریف اب وزیر اعظم نہیں رہے بلکہ غداری کے سنگین مقدمے میں قید
کر لیے گئے ۔ نواز شریف کے خلاف بنائے گئے مقدمات میں سب سے اہم کیس طیارہ
سازش کیس تھا جس میں تختہ الٹنے والے جرنیل نے نواز شریف پر دہشت گردی، قتل
کی سازش، ہائی جیکنگ اور اغوا کرنے کے الزامات عائد کرتے ہوئے اٹک جیل میں
بند کر دیا ۔جنوری 2000 ءمیں کراچی میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے اس
کیس کی سماعت شروع کی اور اپریل 2000 ءمیں جج رحمت حسین جعفری نے نواز شریف
کو چار میں سے دو الزامات، ہائی جیکنگ اور دہشت گردی کا مجرم قرار دیتے
ہوئے عمر قید کی سزا سنادی۔
قومی احتساب بیورو (نیب) نے 1999 ءاور 2000 ءکے اوائل میں نواز شریف کے
خلاف کل 28 مقدمات بنائے گئے جن میں سے 15 ناکافی شواہد کی وجہ سے اگلے چار
برسوں میں خارج ہو گئے جبکہ نو مقدمات 18 سال گزر جانے کے بعدبھی زیرتفتیش
رہے۔نیب کی جانب سے چار ریفرنسزاحتساب عدالت کو بھیجے گئے ۔یہ چاروں
ریفرنسز انتہائی اہم نوعیت کے تھے ۔مارچ 2000ءمیں حدیبیہ پیپر ملز ریفرنس
دائر کرنے کی منظوری اس وقت کے نیب چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل سید محمد امجد نے
دی ۔اس ریفرنس میں میاں نواز شریف کا نام شامل نہیں تھا تاہم جب نیب کے
اگلے سربراہ خالد مقبول نے حتمی ریفرنس کی منظوری دی تو ملزمان میں میاں
نواز شریف کے علاوہ ان کی والدہ شمیم اختر، دو بھائیوں شہباز اور عباس
شریف، بیٹے حسین نواز، بیٹی مریم نواز، بھتیجے حمزہ شہباز اور عباس شریف کی
اہلیہ صبیحہ عباس کے نام بھی شامل کر لیے گئے ۔یہ ریفرنس مسلم لیگ(ن) کی
حکومت کے وزیرِخزانہ اسحاق ڈار سے 25 اپریل 2000 ءکو لیے گئے اس بیان کی
بنیاد پر دائر کیا گیا جس میں انھوں نے جعلی اکاونٹس کے ذریعے شریف خاندان
کے لیے ایک کروڑ 48 لاکھ ڈالر کے لگ بھگ رقم کی مبینہ منی لانڈرنگ کا
اعتراف کیا تھا۔اسحاق ڈار بعدازاں اپنے اس بیان سے منحرف ہو گئے تھے اور ان
کا موقف تھا کہ یہ بیان انھوں نے دباومیں آ کر دیا تھا۔
ان چار ریفرنسز میں سے ایک سب سے اہم ریفرنس ہیلی کاپٹر کیس کے نام سے
مشہور ہوا جو اٹک قلعے میں قائم احتساب عدالت میں سنا گیا اور جج فرخ لطیف
نے 1993ءمیں خریدے جانے والے چھ لاکھ پاونڈ مالیت کے ہیلی کاپٹر پر ٹیکس نہ
دینے اور اثاثے ظاہر نہ کرنے کی پاداش میں نواز شریف کو 14 سال قید کی سزا
اور دو کروڑ روپے جرمانہ عائدکر دیا۔احتساب عدالت کی طرف سے کرپشن کے
الزامات میں یہ واحد کیس تھا جس میں نواز شریف کو سزا ملی ۔یہ وہ معاملہ ہے
جس کا ذکر پاناما کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ اور پھر مشترکہ
تحقیقاتی ٹیم کی دو ماہ کی تحقیقات کے دوران بھی سنائی دیتا رہا۔نواز شریف
نے اس سزا کی پاداش میں چھ ماہ جیل میں گزارے تاہم دسمبر 2000 ءمیں سعودی
بادشاہ اور لبنان کے وزیر اعظم رفیق حریری کی درخواست پر اس وقت کے کے فوجی
حکمران پرویز مشرف نے نواز شریف اور ان کے خاندان کو دس سالہ جلاوطنی کی
شرط پر معافی دے دی۔اس معافی کے بعد نواز شریف سمیت شریف خاندان کے بیشتر
ارکان نومبر 2007 تک سعودی عرب میں قیام پذیر رہے۔
رائیونڈ سٹیٹ کیس کا تعلق جاتی امرا میں 401 کنال زمین پر 1992 سے 1999 کے
درمیان شریف خاندان کی رہائش گاہ اور دیگر عمارات کی تعمیر کے حوالے سے تھا
اور اس میں میاں نواز شریف اور ان کی والدہ شمیم اختر ملزمان تھے۔ریفرنس
میں نواز شریف پر الزام تھا کہ انھوں نے ان تعمیراتی سرگرمیوں کے لیے جو
رقم ادا کی وہ ان کے ظاہر کردہ اثاثوں سے مطابقت نہیں رکھتی تھی۔ان دونوں
ریفرنسز کی سماعت نواز شریف کی ملک بدری کے بعد روک دی گئی اور جب 2013 میں
نواز شریف تیسری مرتبہ برسرِاقتدار آئے تو ان کے اس دور میں لاہور ہائی
کورٹ نے مارچ 2014 میں یہ دونوں مقدمات خارج کر دیے۔
حیران کن طور پر مضبوط شواہد ہونے کے باوجود نیب کی جانب سے اس اخراج پر
سپریم کورٹ میں کوئی اپیل دائر نہیں کی گئی۔اتفاق فاونڈری قرضہ کیس میں نیب
نے شریف خاندان پر بینکوں کے تین ارب 80 کروڑ روپے کے قرضوں کی عدم ادائیگی
کاالزام لگایا ۔اتفاق فاونڈری کی فروخت سے حاصل شدہ رقم کی بینکوں کو
ادائیگی کے بعد یہ مقدمہ بھی فروری 2015 میں لاہور ہائی کورٹ نے ختم کر
دیا۔
اسی طرح 1994ءمیں جب بے نظیرتخت نشین تھیں تو نواز شریف کے خلاف رمضان شوگر
ملز کے حوالے سے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی گئی۔نواز شریف کے
خلاف یہ پہلی عدالتی کارروائی تھی جس میںشریف خاندان پر رقم کی خوردبرد اور
غیر مجاز استعمال کا الزام عائد ہوااور اس کی تفتیش سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج
کمیشن آف پاکستان نے کی تاہم 20 سال بعد یعنی سنہ 2014 میں نواز شریف ہی کے
دورحکومت میں رمضان شوگر ملز کا کیس ختم کر دیا گیا۔1994 میں ہی نومبر کے
مہینے میں وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے نے حدیبیہ پیپر ملز اور حدیبیہ
انجینئرنگ کمپنی کے خلاف خصوصی عدالت میں چالان جمع کرایا جس میں نواز شریف
پر دھوکہ دہی اور رقم خورد برد کرنے کے الزامات لگائے گئے لیکن تین سال بعد
جون 1997 میں جب نواز شریف ایک دفعہ پھر مسند اقتدار پر آئے تولاہور ہائی
کورٹ میں ایف آئی اے کے جمع کروائے گئے چالان خارج کرنے کی استدعا کی گئی
جسے لاہور ہائی کورٹ نے منظور کر لیا اور ایف آئی نے اس فیصلے کے خلاف کوئی
اپیل دائر نہ کی ۔
مشرف آمریت کے خاتمے کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی کی چیئر پرسن محترمہ بے
نظیر بھٹو اور نواز شریف کے درمیان 14مئی 2006ءکو لندن میں میثا ق جمہوریت
سائن ہوا اور ملک میں جمہوریت کی بحالی کے لیے دونوں بڑی سیاسی جماعت کے
سربراہوں نے مشترکہ جدو جہد کرنے کا عہد کیا ۔یوں سات سال جلا وطن رہنے کے
بعد نواز شریف ایک دفعہ پھر پاکستان کی سیاست میں کو د پڑے ۔2008ءمیں وفاق
میں حزب اختلاف کے بنچوں پر بیٹھے جبکہ پنجاب میں ان ہی کی جماعت کی حکومت
رہی۔2013ءمیں وفاق اور پنجاب میں حکومت بنائی ۔ 2016 ءمیں پانامہ لیکس کے
پنڈورا باکس میں نواز شریف کے نام کا قرعہ نکلا ۔ نواز شریف ایک دفعہ پھر
عدالتی کاروائیوں کے زیر تاب آگئے لیکن اس دفعہ ماضی کے برعکس ایسا پہلی
بار ہوا کہ ان کے خلاف عدالتی کارروائی ان کے اپنے ہی دورِ حکومت میں شروع
ہوئی ۔ 28جولائی2017 کو سپریم کورٹ نے پاناما کیس کے مقدمے میں نواز شریف
کو نااہل قرار دیتے ہوئے نیب کونواز شریف کے خلاف لندن میں واقع ایون فیلڈ
پراپرٹیز کی ملکیت اور اس کی خریداری میں ناجائز ذرائع کے استعمال کے حوالے
سے ریفرنسز دائر کرتے ہوئے چھ ماہ میں کارروائی مکمل کرنے کا حکم دیا۔ایون
فیلڈ ریفرنس اسلام آباد کی احتساب عدالت میں دس ماہ تک زیر سماعت رہا اور
جج محمد بشیر نے جرم ثابت ہونے پرمیاں نواز شریف کو دس سال قید بامشقت ،ان
کی صاحبزادی مریم نواز کو سات سال جبکہ داماد کیپٹن (ر) صفدر کو ایک سال کی
قید کی سزا سنائی گئی۔19 ستمبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف، مریم
نواز اور محمد صفدر کے خلاف سزا معطل کرتے ہوئے ضمانت پر رہا کر دیا۔ نیب
نے ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیلیں دائر کردیں لیکن
سپریم کورٹ نے مسترد کردیں۔ایون فیلڈ سے تو جان چھوٹ گئی لیکن العزیزیہ اور
فلیگ شپ ریفرنس کی تلوار سر پر لٹکتی رہی۔ 25 دسمبر 2018ءکو العزیزیہ
ریفرنس میں بھی سات سال قید اور ڈھائی کروڑ جرمانے کی سزا سنا دی گئی ۔اس
سزا کی معطلی کے لیے بھی اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست زیر سماعت ہے اور
جج ارشد ملک کی ویڈیو اور انکی احتساب عدالت سے برطرفی کے بعد یہ کیس بھی
ڈرامائی رخ اختیار کر گیا ہے اور سپریم کورٹ نے اس متنازعہ ویڈیو کی جامع
تحقیقات کے لیے جو ڈیشل کمیشن بنانے کی تجاویز بھی طلب کر لی ہیں ۔ماضی میں
نواز شریف احتساب کی لہروں سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوتے رہے لیکن اب دیکھنا
اب یہ ہے کہ احتساب کی موجودہ سونامی سے بحفاظت نکل پاتے ہیں یا نہیں۔
|