دنیا کے بیشتر ممالک میں الیکشن ہوتے ہیں لیکن کہیں ایسی بدتمیزی دیکھنے اور سننے کو نہیں ملتی جیسی مملکت خداداد پاکستان میں! آسٹریلیا جو ایک ملک ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بر اعظم بھی ہے ، اس میں ہر تین سال بعد فیڈرل الیکشن کا انعقاد ہوتا ہے لیکن election nightکے اگلے روز شاید ہی کوئی الیکشن کی بات کرتا ہے کیونکہ اسی رات یہ فیصلہ ہو جاتا ہے کہ اگلی حکومت کون بنائے گا اور اگر کسی صورت ٹائی کی کیفیت بن جائے تو ایک دو روز تک پوسٹل ووٹس کا انتظار کر لیا جاتا ہے تاہم نا تو کوئی ہلڑبازی ہوتی ہے اور نہ کوئی کسی کو گالم گلوچ کرتا ہے جیسا کہ پاکستان میں اب معمول بن چکا ہے اور تو اور خود جناب وزیراعظم دوسروں کو چور ڈاکو کہنا کوئی چیز ہی نہیں سمجھتے ۔ اللہ جانے ان کے مشیر ان بے لگام انہیں کس گلی میں لے جانا چاہتے ہیں۔ یوں لگتا ہے جو لوگ دوسری پارٹیاں چھوڑ کر اپنے مفادات کی خاطر خان صاحب کی چھتری تلے جمع ہوئے ہیں وہ ان کے لیے ایسی مشکلات پیدا کر دینا چاہتے ہیں کہ باوجود کہ ان کے خلاف کرپشن کے الزامات سچ بھی ہوں محترم وزیراعظم صاحب کی زبان گنگ ہو جائے اور وہ اپنی من مانیاں جاری رکھ سکیں۔
خیر تو بات چل رہی تھی آسٹریلیا کے الیکشن کی۔ اس ملک میں ہر رجسٹر ڈ ووٹر کے لیے ووٹ کاسٹ کرنانہ صرف لازمی ہے بلکہ ووٹ کاسٹ نہ کرنا ایک جرم ہے جس پرجرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے اور وضاحت بھی کرنی پڑتی ہے کیونکہ کسی بھی حالت میں ووٹر کو ووٹ کاسٹ کرنا ہی ہوتا ہے چنانچہ لوگوں کی سہولت کے لیے ہسپتالوں اور اولڈ ہومز نیز نرسنگ ہومز میں الیکشن کمیشن کا عملہ تعینات کیا جاتا ہے اور یوں پولنگ کا عمل smoothly مکمل کر لیا جاتا ہے۔ یہاں اس بات کا ذکر کرنا بھی مناسب ہے کہ وہ علاقے جو شہروں سے بہت دور ہیں ان کے لیے پولنگ کا عملہ دو چار روز پہلے ہی پہنچ جاتا ہے اور ان کے ووٹ پوسٹل ووٹس کے ساتھ count کر لیے جاتے ہیں۔ اس سلسلے میں میرا اپنا تجربہ ہے کہ امسال فیڈرل الیکشن کے دنوں میں اپنی محکمانہ ذمہ داریوں کے سلسلہ میں ایک ریموٹ علاقے میں تھا اور وہاں پولنگ کا انتظام الیکشن سے تین دن پہلے کیا گیا تھا چنانچہ میں نے بھی اپنا ووٹ اپنی constituency سے ایک ہزار کلو میٹر دور ہونے کے باوجود کاسٹ کر لیا۔۔۔۔ پاکستان میں الیکشن مخصوص حالات میں مخصوص طبقے کو اقتدار میں لانے کے لیے انجیئرڈ کیے جاتے ہیں۔چنانچہ جب تک ایجنسیوں کی حمایت حکومت کے ساتھ رہتی ہے تو حکومت چلتی رہتی ہے اور ان سے کسی ان بن کی صورت میں اقتدار کا خاتمہ کچھ اس طرح ہوتا ہے کہ عوام الناس یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ جو کچھ ہو رہا ہے اچھا ہی ہو رہا ہے لیکن یہ تاثر کچھ زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ پاتا کیونکہ ریٹائرمنٹ کا عنصر اس میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔۔۔پھر کیا نااہل اور نکمےلوگ بھی نہ صرف الیکشن جیت جاتے ہیں بلکہ وزیراور وزیراعظم کے عہدوں تک بھی رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔۔۔
دریں حالات پاکستان ایک بار پھر اپنی تاریخ کے بد ترین دور سے گزر رہا ہے جس میں اہل اقتدار ملکی ترقی کے بجائے حزب اختلاف کو دبانے میں مصروف ہیں۔ وزیروں اور مشیروں کی ایک فوج ظفر موج ہے جو اس کام پر مامور ہے کیونکہ احتسابی ادارے کے خوف میں مبتلا افسر شاہی تو کسی فائل پر دستخط کرنے کو تیار نہیں لہذایہ نووارد وزرا خوشامد میں پیش پیش ہیں ۔
اہل اقتدار شاید یہ بھول بیٹھے ہیں کہ جن لوگوں کے ووٹ کے بل بوتے پر وہ اقتدار میں آئے ہیں ان کے بھی کچھ تقاضے ہیں ۔اور جہاں تک عام آدمی کا تعلق ہے اس بے چارے کی تو ہر آنے والی حکومت سےامیدیں وابستہ ہو جاتی ہیں کیونکہ وہ تو ریلیف چاہتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اس کا چولہا جلتا رہے، وہ چاہتا ہے کہ اس کا روز گار چلتا رہے، وہ چاہتا ہے کہ اس کے بچے زیور تعلیم سے آراستہ ہوتے رہیں، وہ چاہتا ہے کہ اس کا کاروبار زندگی چلتا رہے، وہ چاہتا ہے کہ اسے بھی ذہنی سکون میسر آتا رہے، لیکن افسوس صد افسوس کہ برسر اقتدار آنے کے لیے عام آدمی کو جو سہانے خواب دکھائے جاتے ہیں وہ خواب ہی رہ جاتے ہیں اور ان سے کیے گئے وعدے کبھی ایفا نہیں ہوتے، شاید وہ یہ سمجھتے ہیں کہ: ع۔ وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو گیا
گزشتہ سال ہونے والے الیکشن اور اس کے نتیجے میں بننے والی حکومت نے تو بہت ریکارڈ قائم کیے ہیں مثلاً دوسروں کی تذلیل اور وزارتوں کی تقسیم تو اس حکومت کا روز اوّل سے طرہ امتیاز رہا ہے۔ منتخب نمائندوں کے ہوتے ہوئے غیر منتخب افراد کا حکومتی صفوں میں بجائے خود ایک بڑا سوال ہے؟۔۔۔
بہرحال پاکستان کے لیے بحیثیت پاکستانی ہی سوچنا پڑے اگر آپ کا قول اور فعل ایک نہیں تو سب محنت رائیگاں اور مثبت نتیجہ کوئی نہیں نکلے گا۔بس اتنا جان لینا کافی ہے کہ جب کوئی جماعت برسر اقتدار آجاتی ہے تو اس کا لیڈر ملک کا وزیراعظم بن جاتا ہے۔ اور اس منصب پر فائز ہو جانے کے بعد وہ محض اپنی جماعت کا لیڈر نہیں رہتا بلکہ پوری قوم کا نمائندہ بن جاتا ہے۔ افسوس صد افسوس کہ قوم کے ایک طبقے کو موجودہ وزیراعظم سے بڑی توقعات تھیں لیکن وہ ان کی توقعات پر ایک سال کےعرصے میں تو پورا نہیں اتر سکے آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔۔۔
حال ہی میں وزیراعظم پاکستان امریکہ یاترا پر تشریف لے گئے اور ایک celebrity ہونے کے ناطے پرتپاک استقبال کے حقدار بھی ٹھہرے۔ آپ کو وہاں کے اہل اقتدار نے welcome کیا اچھا ہے ؛لیکن کیا عوامی اجتماع میں بیرون ملک پاکستانی سیاسی کشتی وزیراعظم پاکستان کے شایان شان تھی؟ اور جو اعلان وہاں کیا گیا اور جس کی باز گشت نہ صرف پاکستان کے الیکٹرانک میڈیا، پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا پر سنی گئی بلکہ بیرونی دنیا میں جگ ہنسائی کا مؤجب بھی بنی۔ کیا اس کی ضرورت تھی ؟ایک محب وطن پاکستانی ہونے کے ناطے میرا دل و دماغ کہہ رہا ہے کہ آخر یہ ماجرا کیا ہے ؟اور ہم پاکستان کو کہاں لے جارہے ہیں؟، آخر پاکستان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟ ۔۔۔
|