سیاست میں مذہب کا استعمال درست ہے یا غلط ،اس پر مختلف
آرا ہیں ، لیکن اس بات پر سب متفق ہیں کہ سیاست اور مذہب میں منفی رجحان
نہیں ہونا چاہیے۔ تاہم پاکستان میں اس وقت جس قسم کے حالات ہیں،وہاں
بلاتفریق فریقین اپنے مخالفین کو چت کرنے کے لئے ہر قسم کا ہتھیار استعمال
کرنا جائز سمجھاجا رہا ہے ۔ جواز یہی دیا جاتا ہے کہ ماضی میں’ فلاں ‘نے
اپنے دور میں ایسا کیا تھا ، اب اگر ہم ایسا کر رہے ہیں تو کیا ’غلط‘ کررہے
ہیں ، حالاں کہ رائے یہ قائم ہوئی تھی کہ ماضی میں اگر کچھ غلط ہوا تھا تو
اُسے درست کرنے کی ضرورت ہے ۔ لیکن درستگی کے اس عمل میں بھی کج روئی تلاش
کی جاتی ہے اور مثبت عمل بھی منفی تاثر کا اشارہ دے جاتا ہے۔اصلاح کے اس
تمام تر عمل میں ایک بات مقفود نظر آتی ہے وہ ہے برداشت کا مادہ۔ عدم
برداشت کی روش نے سیاست سمیت معاشرے کے کئی معاملات میں بگاڑ پیدا کردیا ہے۔
ایک روش نے تیزی سے جڑیں پکڑنا شروع کردی ہیں کہ اگر کسی نے لاقانونیت کی
تھی تو اس کے ساتھ بھی لاقانونی طرز عمل اختیار کرنا غلط عمل نہیں ہے۔ یعنی
لاقانونیت کو لاقانونیت سے ہی ختم کیا جانا منفی عمل نہیں قرار دیا جائے
بلکہ مورد ِ الزام کے ساتھ غیر قانونی عمل کو جائز ہی سمجھا جائے۔
عدم برداشت کا عنصر تیزی سے ہمارے معاشرتی و سیاسی اقدار کو کھوکھلا کرتا
جارہا ہے ۔ وزیر اعظم کی جانب سے یہ کہنا کہ ’’ اسلام کے نام پر دکانیں
کھلی ہوئی ہیں ‘‘ ۔ اخبارات میں شہ سرخی بنا۔ وزیر اعظم نے جبراََ مذہب کی
تبدیلی،اقلیتوں اور ان کی عبادت گاہوں( پرستش گاہوں) کے تحفظ دینے کا واضح
پیغام دوہرایا ۔وزیر اعظم لاعلم نہیں ہونگے کہ مملکت کے قیام فوری بعد قائد
اعظم محمد علی جناح ؒ نے اپنی تاریخ ساز تقریر میں بڑی صراحت کے ساتھ قیام
پاکستان کے مقاصدکو اجاگر کردیا تھا ۔ پاکستان بننے کے بعد بحیثیت گورنر
جنرل، فروری ۱۹۴۸ء میں اہل امریکہ کے نام براڈ کاسٹ پیغام میں فرمایا
تھاکہ’’پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے ابھی پاکستان کاآئین مرتب کرنا ہے۔
میں نہیں جانتا کہ اس آئین کی آخری شکل کیا ہوگی۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ وہ
اسلام کے بنیادی اصولوں کا آئینہ دار جمہوری انداز کا ہوگا۔ اسلام کے یہ
اصول آج بھی اسی طرح عملی زندگی پر منطبق ہوسکتے ہیں جس طرح تیرہ سو سال
پہلے ہوسکتے تھے۔ اسلام نے ہمیں وحدت ِانسانیت اور ہر ایک کے ساتھ عدل و
دیانت کی تعلیم دی ہے۔ آئین پاکستان کے مرتب کرنے کے سلسلہ میں جو ذمہ
داریاں اور فرائض ہم پر عائد ہوتے ہیں ان کا ہم پورا پورا احساس رکھتے ہیں،
کچھ بھی ہو، یہ امر مسلمہ ہے کہ پاکستان میں کسی بھی صورت میں بھی تھیا
کریسی رائج نہیں ہوگی جس میں حکومت مذہبی پیشواؤں کے ہاتھ میں دے جاتی ہے
کہ وہ (بزعم خویش) خدائی مشن کو پوارا کریں۔ (تقاریر بحیثیت گورنر جنرل
صفحہ ۶۵)‘‘۔اس سے قبل بھی قائد اعظم ؒ نے اپنی لاتعداد تقاریر میں قیام
پاکستان کے لئے اپنے نظریات( دو قومی نظریہ) بیان فرما چکے تھے ۔
قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے عملی طور پر ثابت کیا کہ وہ تھیا کریسی نظام
کو رائج نہیں ہونے دیں گے۔ ا س سے پہلے ۵ ِ فروری ۱۹۳۸ ء کو مسلم یونیورسٹی
علی گڑھ کی یونین سے خطاب کرتے ہوئے نوجوان طالب علموں سے کہا تھا‘‘اس میں
کوئی شک و شبہ نہیں کہ مسلم لیگ نے تمہیں اس ناپسندیدہ عنصر(علماء سو) کی
جکڑ بندیوں سے آزاد کردیا ہے (تقاریر ِ قائد اعظم حصہ اول صفحہ ۴۸)۔’’یہ
ناپسندیدہ عنصر کی جکڑ بندیاں فرقہ واریت تھی جو تھیاکریسی کی بنیاد ہے۔ ۱۱
اپریل ۱۹۴۶ کو دہلی میں مسلم لیجسلیٹر کنونشن کے آخری اجلاس سے خطاب کرتے
ہوئے محمد علی جناح نے وضاحت کی’’اِسے اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ ہم کس مقصد
کیلئے یہ جنگ کر رہے ہیں۔ ہمارا نصب العین تھیا کریسی نہیں۔ ہم تھیا کریٹک
سٹیٹ نہیں بنانا چاہتے‘‘۔ (تقاریر جناح، شائع کردہ شیخ محمد اشرف، جلد دوم
صفحہ ۳۸۶)’’ْ۔محمد علی جناح سے اپریل ۱۹۴۳ ء میں صوبہ سرحد کی مسلم سٹوڈنٹس
فیڈریشن نے ایک پیغام کیلئے درخواست کی۔ آپ نے جواب میں فرمایاـ’’تم نے مجھ
سے کہا ہے کہ میں تمہیں کوئی پیغام دوں، میں تمہیں کیا پیغام دوں جبکہ
ہمارے پاس پہلے ہی ایک عظیم پیغام موجود ہے جو ہماری راہنمائی اور بصیرت
افروزی کیلئے کافی ہے، وہ پیغام ہے خدا کی کتاب عظیم، قرآن کریم۔‘‘(تقاریر،
جلد اول صفحہ ۵۱۶)۔
وزیر اعظم کا یہ کہنا کہ وہ پاکستان کو ریاست مدینہ جیسا بنا کر دیں گے ۔
خوشنما نعرہ ہے ۔ تاہم عملی طور پر ہمیں ایسے کوئی ابتدائی اقدامات نظر
نہیں آرہے جو ریاست مدینہ جیسا بنانے کے لئے اٹھائے گئے ہوں۔ دنیا بھر میں
جہاں بھی انقلاب آئے ہیں اس کے برپا ہونے میں،جلسے جلسوں میں لگائے جانے
والے کھوکھلے نعرے نہیں بلکہ جانی و مالی قربانیاں ہیں ۔ ریاست مدینہ بھی
کئی غزوات کے بعد قائم ہوئی اور پھر خلافت راشدہ سے لے کر خلافت عثمانیہ تک
مسلمانوں کی تاریخ ثابت کرتی ہے کہ قوم و ملت بننے کے لئے بہت کچھ قربان
کرنا پڑتا ہے۔ یہاں تک کہ خود ہمارے سامنے مثال پاکستان کی شکل میں موجود
ہے کہ لاکھوں انسانوں کی جانی و مالی قربانیوں کے بعد پاکستان کا قیام عمل
میں آیا ۔ یہ دنیا کی دوسری مملکت ہے جو اسلام کے نام پر قائم ہوئی ۔ لیکن
ہماری بدقسمتی ہے کہ اشرافیہ اور کھوٹے سکوں کی وجہ سے تعمیر پاکستان کا
خواب ابھی تک ادھورا ہے ، جاگیرداروں، وڈیروں ، سرداروں ، سرمایہ داروں اور
خوانین نے آج بھی پاکستان کو یرغمال بنا یا ہوا ہے اور پاکستان تجارب کا
گڑھ بنا ہوا ہے ۔ آج اگر تحریک انصاف ریاست مدینہ اور اسلام کے نام پر
دکانیں کھلی ہوئی ہیں کا بیانیہ جاری کرتی ہے تو اس میں کوئی دو رائے نہیں
کہ سیاست میں مذہب کا استعمال کیا جارہا ہے۔ کیا ہم اسے مذہب کا استعمال
نہیں کہیں گے ۔ وزیر اعظم کی تقاریر اٹھا کر دیکھ لیں ۔ جب وہ اسلام کا ذکر
کرتے ہیں تو اپوزیشن کو تنقید بناتے ہوئے ریاست مدینہ کی مثال کے ساتھ
مذہبی پیشوائیت کو بھی نشانہ بناتے ہیں۔ لہذا اپوزیشن کی جانب سے بھی
حکومتی کوتاہیوں میں جب اسلام مخالف مبینہ اقدامات سامنے نظر آتے ہیں تو وہ
بھی موقع کو ضایع نہیں کرتے اور سیاست میں مذہبی جذبات کو ابھارتے ہیں۔
فتنہ قادیانیت و ختم نبوت ﷺ ، توہین اسلام ، توہین رسالت ﷺ کے حوالے سے
گذشتہ حکومت بھی تنازعات کا شکار رہی اور اُس وقت کی بیشتر اپوزیشن جماعتوں
نے کھل کر حکومت کو دباؤ میں لانے کے لئے جلسے جلوس و دھرنے دیئے ، فتوت
جاری کرائے ۔ خود موجودہ وزیر اعظم بھی احتجاجی مظاہروں میں شریک ہوئے۔
صورتحال تبدیل نہیں ہوئی لیکن چہرے بدل گئے ہیں ۔ فتنہ قادیانیت کے خلاف
اٹھنے والی آوازوں و احتجاج کوپہلے درست اور اب سیاسی پوائنٹ اسکورنگ قرار
دی جارہی ہے۔حالاں کہ موجودہ حکومت کی ’’ خوش قسمتی ‘‘ ہے کہ ان کے خلاف
ماضی کے طرح متشدد مظاہرے ، دھرنے اور احتجاج نہیں کیا گیا ، گو کہ قادیانی
عاطف میاں کی تقرری سے لے کر پنجاب و خیبر پختونخوا میں نصابوں میں کی جانے
والی دانستہ تبدیلیوں پر حکومت وقت کے خلاف احتجاج ایمان کا تقاضا بنتا
ہے۔پاکستان میں جبراََ تبدیلی مذہب کے واقعات آٹے میں نمک کے برابر بھی
نہیں ہیں۔ ورنہ بھارت میں دیکھا جائے تو مذہبی اقلیتوں کے ساتھ جس طرح کا
ناروا سلوک کیا جارہا ہے اس پر تو خود اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی سنگین
خلاف ورزی کی رپورٹیں گواہ ہیں۔ جس وقت وزیر اعظم یہ بیان دے رہے تھے اُسی
دن بھارت اتر پردیش کے علاقے چند ولی ضلع کے سید راجا کے رہائشی ایک16برس
کے نوجوان مسلمان خالد انصاری کو ’’ جی شرم رام ‘‘ کا نعرہ نہ لگانے پر مٹی
کا تیل ڈال کر زندہ جلایا جارہا تھا۔
مدارس و اسکول و کالجز میں اصلاحات کے لئے دونوں جانب سے سنجیدہ کوشش کی
جائیں۔ مدارس ہوں یا جامعات ہوں ۔ملک کے تعلیمی نظام میں تبدیلی کی ضرورت
ہے لیکن صرف ترازو کے ایک پلڑے میں وزن ڈالنے سے توازن بگڑے گا ۔سیکولر ازم
، لبرل ازم ، قدامت پسندی ، شدت پسندی اور ترقی پسند جیسے مفروضات کو ایک
نگاہ سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔تمام طبقات کے تحفظات کو دور کرنے کے لئے
اسلامی نظام سے بہتر کوئی دین نہیں ہے۔ لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ مثل
ریاست مدینہ کی پہلی اینٹ تو رکھ دی جائے۔ کہنے سے کیا ہوتا ہے۔بلکہ کہنے
میں کیا جاتا ہے سے گریز کرنا ضروری ہے۔
|