عقیدہ ختم ِنبوت ﷺ کو اجاگر کرنے کیلئے بر ِصغیر
میں سب سے پہلے اعلیٰ حضرت امام احمدرضا ؒ خان بریلوی نے ایک رسالہ لکھ کر
اس فتنے کا چہرہ بے نقاب کیا پھرپیر مہرؒعلی شاہ آف گولڑہ شریف نے مرزا
غلام احمدقاویانی اور اس کے حامی قادیانیوں کوللکارا اور مناظرہ اورمباہلہ
کا چیلنج دیا لیکن وہ اس سے بھی بھاگ کھڑے ہوئے پھر جب قادیانیوں کی ریشہ
دیوانیاں حد سے گذر گئیں تو 1952ء میں تحریک ِ ختم نبوت ﷺ شروع ہوئی اس کے
لئے مسلمانوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے سینکڑوں گرفتار کرلئے گئے
اسی اثناء میں مولانا ابوالاعلی مودودیؒ نے فتنہ ٔقادیانیت پر ایک کتاب لکھ
کر داد ِ تحسین حاصل کی مجاہد ِ ملت مولانا عبدالستارؒ خان نیازی اورجماعت
اسلامی کے بانی مولانا ابوالاعلی مودودیؒ کو گرفتا رکرلیا گیا بعدازاں
انہیں اس کیس میں سزائے موت سنادی گئی لیکن ان شخصیات کے پایہ ٔ استقلال
میں جنبش تک نہیں آئی پھر عوامی رد ِ عمل کے پیش ِ نظر حکومت نے یہ سزا ختم
کردی گئی کمال ہے کچھ لوگ مسلمانوں کے بنیادی عقیدہ ختم ِ نبوت کو مسلمانوں
اور قادیانیوں کے درمیان معمولی سا اختلاف قراردے رہے ہیں حیف صد حیف۔
ذوالفقار علی بھٹو دور میں ایک بار پھر تحریک ِ ختم نبوت ﷺ شروع ہوئی اس
وقت قومی اسمبلی کے قائد ِ حز ب اختلاف مولانا شاہ احمد نورانیؒ، مولانا
مفتی محمودؒ، مجاہد ِ ملت مولانا عبدالستارؒ خان نیازی اور دیگرعلماء کرام
اور ارکان ِ اسمبلی کی کوششوں سے عقیدہ ختم نبوت پر یقین نہ رکھنے والوں
اور مرزا غلام احمدقادیانی کو نبی ماننے والوں کو غیر مسلم قراردے دیا گیا
جس پر امت ِ مسلمہ نے اﷲ کے حضور سجدہ ٔ شکر ادا کیا لیکن آج بھی مرزائی
ذہن رکھنے والے اسے معمولی اختلاف کہہ کر اﷲ کے غضب کو دعوت دے رہے ہیں
انہیں چاہیے کہ وہ سچے دل سے توبہ کریں اور احمدیوں‘ لاہوریوں اور
قادیانیوں سے کسی قسم کی ہمدردی نہ کریں‘‘(منقول) ۔ امیرالمؤمیین سیدنا
صدیقؓ اکبر عقیدہ ختم نبو ت کے سب سے بڑے محا فظ تھے اس عقیدے کی بنیا دیں
مضبوط کرنے کیلئے اصحاب رسول اور شمع رسالت ﷺکے پروانوں نے اپنی جانوں کی
قربانیاں دی ہیں۔ پاکستان کی بنیاد اسلام پر قائم ہے قانو ن تحفظ ختم نبوت
کے خلا ف ہونے والی تمام سازشو ں کا بھر پور مقابلہ کر یں گے قادیانی گروہ
اس قانون کو ختم کرنے اور غیر مؤثر کرنے کیلئے گمراہ کن پروپیگنڈاکر ر ہے
ہیں۔ قادیانی گروہ کی اسلام کے خلا ف کی جا نے والی سازشوں سے عوام کو ہو
شیا ر کر نے کی شدت سے ضرورت ہے اس وقت یہو د و نصا ریٰ کے آلہ ٔ کار
قادیانی گروہ اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لئے سر گرم عمل ہیں جس کاتدارک
انتہائی ضروری ہے یہ اس لئے ناگزیرہوگیا ہے کہ ملک کے تعلیمی نصاب میں ختم
نبو ت سے متعلق مضامین شامل کئے جائیں کیونکہ حضرت محمدﷺ کے بعدکسی بھی
انداز میں کسی اور نبی ماننا ناموس ِ رسالت پر حملہ ہے جسے کوئی مسلمان
برداشت نہیں کرسکتا۔ پاکستان میں تحریک ختم نبوت کا آغاز تو1953 ء تو ہوگیا
تھا لیکن اس میں شدت اس وہ آئی جب ربوہ میں مسلمان طلباء پر حملہ کیا گیاجس
کے نتیجہ میں گاؤں گاؤں شہرشہر شمع ٔ مصطفےٰ ﷺ کے پروانے سراپا احتجاج بن
گئے اس احتجاجی تحریک میں درجنوں افراد شہادت کے عظیم رتبہ پرفائز ہوئے-
یہ نصف صدی کا قصہ ہے جوچاربرس کی بات نہیں7 ستمبر 1974 پاکستان کی
پارلیمانی تاریخ کا وہ یادگار دن تھا جب 1953 اور 74 ء کے شہیدانِ ختم نبوت
کا خون رنگ لایاوہ دن جب پاکستان نے عالم اسلام کو عظیم فتنے سے بچالیا۔ اس
سے پہلے قومی اسمبلی میں فیصلہ ہوا کہ قادیانیت کو موقع دیا جائے کہ وہ
اپنا موقف اور دلائل دینے قومی اسمبلی میں آئیں تو !!
مرزا ناصر قادیانی سفید شلوار کرتے میں ملبوس طرے دار پگڑی باندھ کر
آیا۔متشرع سفید داڑھی۔قرآن کی آیتیں بھی پڑھ رہے تھے۔ اور آپ صلی اﷲ علیہ و
سلم کا اسم مبارک زبان پر لاتے تو پورے ادب کے ساتھ درودشریف بھی
پڑھتے.۔ایسے میں ارکان اسمبلی کہ ذہنوں کو تبدیل کرنا کوئی آسان کام نہیں
تھا۔یہ مسئلہ بہت بڑا اور مشکل تھااﷲ کی شان کہ پورے ایوان کی طرف سے
مولانا شاہ احمد نورانی کو ایوان کی ترجمانی کا شرف ملا اور نورانی صاحب نے
راتوں کو جاگ جاگ کر مرزا غلام قادیانی کی کتابوں کا مطالعہ کیا۔حوالے نوٹ
کیئے۔سوالات ترتیب دیئے۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ مرزا طاہرقادیانی کے طویل
بیان کے بعد جرح کا جب آغاز ہوا اب سوالات نورانی صاحب کی طرف سے اور
جوابات مرزا طاہر قادیانی کی طرف سے آئے وہ ملاحظہ فرمائیں مولانا شاہ احمد
نورانی نے پہلا سوال کیا
سوال۔مرزا غلام احمد کے بارے میں آپ کا کیا عقیدہ ہے؟
جواب۔وہ امتی نبی تھے۔امتی نبی کا معنی یہ ہے کہ امت محمدیہ کا فرد جو آپ
کے کامل اتباع کی وجہ سے نبوت کا مقام حاصل کر لے۔
سوال۔اس پر وحی آتی تھی؟
جواب۔آتی تھی۔
سوال۔ (اس میں) خطا کا کوئی احتمال؟
جواب۔بالکل نہیں۔
سوال۔مرزا قادیانی نے لکھا ہے جو شخص مجھ پر ایمان نہیں لاتا‘‘ خواہ اس کو
میرا نام نہ پہنچا ہو (وہ) کافر ہے۔پکا کافر۔دائرہ اسلام سے خارج ہے۔اس
حساب سے تو ستر کروڑ مسلمان سب کافر ہیں؟
جواب۔کافر تو ہیں۔لیکن چھوٹے کافر ہیں‘‘جیسا کہ امام بخاری نے اپنے صحیح
بخاری میں ’’کفردون کفر‘‘ کی روایت درج کی ہے۔
سوال۔آگے مرزا نے لکھا ہے۔پکا کافر؟
جواب۔اس کا مطلب ہے اپنے کفر میں پکے ہیں۔
سوال۔آگے لکھا ہے دائرہ اسلام سے خارج ہے۔حالانکہ چھوٹا کفر ملت سے خارج
ہونے کا سبب نہیں بنتا ہے؟
جواب۔دراصل دائرہ اسلام کی کئی کیٹاگیریاں ہیں۔اگر بعض سے نکلا ہے تو بعض
سے نہیں نکلا ہے۔
سوال ایک جگہ اس نے لکھا ہے کہ جہنمی بھی ہیں؟
(یہاں نورانی صاحب فرماتے ہیں جب قوی اسمبلی کے ممبران نے جب یہ سنا تو سب
کے کان کھڑے ہوگئے کہ اچھا ہم جہنمی ہیں اس سے ارکان ِ اسمبلی کو دھچکا
لگا)
اسی موقعہ پر مولانا شاہ احمد نورانی نے دوسرا سوال کیا کہ مرزا قادیانی سے
پہلے کوئی نبی آیا ہے جو امتی نبی ہو؟ کیا صدیق اکبر ؓ یا حضرت عمر فاروق ؓ
امتی نبی تھے؟
جواب۔ نہیں تھے۔
اس جواب پر نورانی صاحب نے کہا پھرتو مرزا قادیانی کے مرنے کے بعد آپ کا
ہمارا عقیدہ ایک ہوگیا۔بس فرق یہ ہے کہ ہم نبی کریم صلی اﷲ علیہ و سلم کے
بعد نبوت ختم سمجھتے ہیں۔تم مرزا غلام قادیانی کے بعد نبوت ختم سمجھتے
ہو۔تو گویا تمہارا خاتم النبیین مرزا غلام قادیانی ہے۔اور ہمارے خاتم
النبیین نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم ہیں۔
جواب۔وہ فنا فی الرسول تھے۔یہ ان کا اپنا کمال تھا۔وہ عین محمد ہوگئے تھے
(معاذ اﷲ نبی کریم صلی اﷲ علیہ و سلم کی اس سے زیادہ توہین کیا ہوسکتی تھی
)
سوال۔مرزا غلام قادیانی نے اپنے کتابوں کے بارے میں لکھا ہے۔اسے ہر مسلم
محبت و مودت کی آنکھ سے دیکھ لیتا ہے۔اور ان کے معارف سے نفع اٹھاتا ہے۔
مجھے قبول کرتا ہے۔اور(میرے) دعوے کی تصدیق کرتا ہے۔مگر (ذزیتہ البغایا )
بدکار عورتوں کی اولاد وہ لوگ جن کے دلوں پر اﷲ نے مہر لگا رکھی ہے۔وہ مجھے
قبول نہیں کرتے۔؟
جواب۔بغایا کے معنی سرکشوں کے ہیں۔
سوال۔بغایا کا لفظ قرآن پاک میں آیا ہے’’ و ما کانت امک بغیا‘‘ سورہ مریم )
ترجمہ ہے تیری ماں بدکارہ نہ تھی‘‘
جواب۔قرآن میں بغیا ہے۔بغایا نہیں۔
اس جواب پر نورانی صاحب نے فرمایا کہ صرف مفرد اور جمع کا فرق ہے۔نیز جامع
ترمذی شریف میں اس مفہوم میں لفظ بغایا بھی مذکور ہے یعنی ’’البغایا للاتی
ینکحن انفسھن بغیر بینہ‘‘ )پھر جوش سے کہا) میں تمہیں چیلنج کرتا ہوں کہ تم
اس لفظ بغایا کا استعمال اس معنی (بدکارہ) کے علاوہ کسی دوسرے معنی میں ہر
گز نہیں کر کے دکھا سکتے۔!!!
(اور یہاں مرزا طاہر لاجواب ہو گیا )13 دن کے سوال جواب کے بعد جب فیصلہ کی
گھڑی آئی تو 22 اگست1974 کو اپوزیشن کی طرف سے 6 افراد پرمشتمل ایک کمیٹی
بنائی گئی۔جن میں مفتی محمود ‘‘ مولانا شاہ احمدنورانی ‘‘پروفیسر غفور احمد
‘‘چودہری ظہور الہی ‘‘مسٹر غلام فاروق ‘‘سردار مولا بخش سومرو اور حکومت کی
طرف سے وزیر قانون عبدالحفیظ پیرزادہ تھے۔ان کے ذمہ یہ کام لگایا گیا کہ یہ
آئینی و قانون طور پر اس کا حل نکالیں۔تاکہ آئین پاکستان میں ہمیشہ ہمیشہ
کے لئے ان کے کفر کو درج کردیا جائے۔لیکن اس موقع پر ایک اور مناظرہ منتظر
تھا۔۔کفرِ قادیانیت و لاہوری گروپ پر قومی اسمبلی میں جرح تیرہ روز تک جاری
رہی۔گیارہ دن ربوہ گروپ پر اور دو دن لاہوری گروپ پر۔ہرروز آٹھ گھنٹے جرح
ہوئی۔اس طویل جرح و تنقید نے قادیانیت کے بھیانک چہرے کو بے نقاب کر کے رکھ
دیا۔ اس کے بعد ایک اور مناظرہ ذولفقار علی بھٹو کی حکومت سے شروع ہوا کہ
آئین پاکستان میں اس مقدمہ کا ’’حاصل مغز ‘‘کیسے لکھا جائے۔؟مسلسل بحث
مباحثہ کے بعد۔۔۔۔۔۔22 اگست سے 5 ستمبر 1974 کی شام تک اس کمیٹی کے بہت سے
اجلاس ہوئے۔مگر متفقہ حل کی صورت گری ممکن نہ ہوسکی۔سب سے زیادہ جھگڑا دفعہ
106 میں ترمیم کے مسئلہ پر ہوا۔حکومت چاہتی تھی اس میں ترمیم نہ ہو۔اس دفعہ
106 کے تحت صوبائی اسمبلیوں میں غیر مسلم اقلیتوں کو نمائندگی دی گئی تھی۔
ایک بلوچستان میں۔ایک سرحد میں۔ایک دو سندھ میں اور پنجاب میں تین سیٹیں
اور کچھ 6 اقلیتوں کے نام بھی لکھے ہیں۔عیسائی۔ہندو پارسی۔بدھ اور شیڈول
کاسٹ یعنی اچھوت۔
نورانی صاحب اور دیگر کمیٹی کے ارکان یہ چاہتے تھے کہ ان 6 کی قطار میں
قادیانیوں کو بھی شامل کیا جائے۔تاکہ کوئی "شبہ" باقی نہ رہے۔اس کیلئے بھٹو
حکومت میں شامل کچھ بوگ تیار نہ تھے۔وزیر قانون عبدالحفیظ پیرزادہ نے کہا
اس بات کو رہنے دو۔نورانی صاحب نے کہا جب اور اقلیتوں اور فرقوں کے نام
فہرست میں شامل ہیں تو ان کا نام بھی لکھ دیں۔
پیرزادہ نے جواب دیا کہ ان اقلیتوں کا خود کا مطالبہ تھا کہ ہمارا نام لکھا
جائے۔ جب کہ مرزائیوں کی یہ ڈیمانڈ نہیں ہے۔
نورانی صاحب نے کہا کہ یہ تو تمہاری تنگ نظری اور ہماری فراخ دلی کا ثبوت
ہے کہ ہم ان مرزائیوں کو بغیر ان کی ڈیمانڈ کے انہیں دے رہے ہیں (کمال کا
جواب )
اس بحث مباحثہ کا 5 ستمبر کی شام تک کمیٹی کوئی فیصلہ ہی نہ کرسکی۔چنانچہ 6
ستمبر کو وزیراعظم بھٹو نے نورانی صاحب سمیت پوری کمیٹی کے ارکان کو پرائم
منسٹر ہاوس بلایا۔لیکن یہاں بھی بحث و مباحثہ کا نتیجہ صفر نکلا۔حکومت کی
کوشش تھی کہ دفعہ 106 میں ترمیم کا مسلہ رہنے دیا جائے۔جبکہ نورانی صاحب
اور دیگر کمیٹی کے ارکان سمجھتے تھے کہ اس کے بغیر حل ادھورا رہے گا۔
بڑے بحث و مباحثہ کے بعد بھٹو صاحب نے کہا کہ میں سوچنے کا موقعہ دیا جائے
اگلے روزعصر کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا۔وزیر قانون عبدالحفیظ
پیرزادہ نے نورانی صاحب اور دیگر کمیٹی ارکان کو اسپیکر کے کمرے میں بلایا۔
نورانی صاحب اور کمیٹی نے وہاں بھی اپنے اسی موقف کو دھرایا کہ دفعہ 106
میں دیگر اقلیتوں کے ساتھ مرزائیوں کا نام لکھا اور اس کی تصریح کی
جائے۔اور بریکٹ میں قادیانی اور لاہوری گروپ لکھا جائے۔پیرزادہ صاحب نے کہا
کہ وہ اپنے آپ کو مرزائی نہیں کہتے، احمدی کہتے ہیں۔نورانی صاحب نے کہا کہ
احمدی تو ہم ہیں۔ہم ان کو احمدی تسلیم نہیں کرتے۔پھر کہا کہ چلو مرزا غلام
احمد کے پیرو کار لکھ دو۔وزیرقانون نے نکتہ اٹھایا کہ آئین میں کسی شخص کا
نام نہیں ہوتا (حالانکہ محمد علی جناح کا نام آئین میں موجود ہے ) اور پھر
سوچ کر بولے کہ نورانی صاحب مرزا کا نام ڈال کر کیوں آئین کو پلید کرتے
ہو؟۔وزیر قانون کا خیال تھا شاید نورانی صاحب اس حیلے سے ٹل جائیں گے۔
(لیکن نورانی تو پھر نورانی صاحب تھے )نورانی صاحب نے جواب دیا کہ
شیطان۔ابلیس۔خنزیر اور فرعون کے نام تو قرآن پاک میں موجود ہیں۔کیا ان
ناموں سے نعوذ باﷲ قرآن پاک کی صداقت و تقدس پر کوئی اثر پڑا ہے۔؟ اس موقع
پر وزیر قانون پیرزادہ صاحب لاجواب ہو کر کہنے لگے۔چلو ایسا لکھ دو جو اپنے
آپ کو احمدی کہلاتے ہیں۔نورانی صاحب نے کہا بریکٹ بند ثانوی درجہ کی حیثیت
رکھتا ہے۔صرف وضاحت کے لیے ہوتا ہے۔لہذا یوں لکھ دو قادیانی گروپ۔لاہوری
گروپ جو اپنے کو احمدی کہلاتے ہیں۔اور پھر الحمدﷲ اس پر فیصلہ ہوگیا۔ایک
ناقابل ِ فراموش تاریخی فیصلہ۔
7 ستمبر 1974 ہمارے ملک پاکستان کی پارلیمانی تاریخ کا وہ یادگار دن تھا جب
1953 اور 74 کے شہیدانِ ختم نبوت کا خون رنگ لایا۔اور ہماری قومی اسمبلی نے
ملی امنگوں کی ترجمانی کی اور عقیدہ ختم نبوت کو آئینی تحفظ دے کر
قادیانیوں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دے دیا۔دستور کی دفعہ 260 میں اس
تاریخی شق کا اضافہ یوں ہوا ہے۔
’’جو شخص خاتم النبیین محمد صلی اﷲ علیہ و سلم کی ختم نبوت پر مکمل اور
غیرمشروط ایمان نہ رکھتا ہو۔اور محمد صلی اﷲ علیہ و سلم کے بعد کسی بھی
معنی و مطلب یا کسی بھی تشریح کے لحاظ سے پیغمبر ہونے کا دعویٰ کرنے والے
کو پیغمبر یا مذہبی مصلح مانتا ہو۔وہ آئین یا قانون کے مقاصد کے ضمن میں
مسلمان نہیں۔اور دفعہ 106 کی نئی شکل کچھ یوں بنی۔۔۔بلوچستان پنجاب سرحد
اور سندھ کے صوبوں کی صوبائی اسمبلیوں میں ایسے افراد کے لیے مخصوص نشستیں
ہوں گی جو عیسائی۔ہندو سکھ۔بدھ اور پارسی فرقوں اور قادیانیوں گروہ یا
لاہوری افراد( جو اپنے آپ کو احمدی کہتے ہیں ) یا شیڈول کاسٹس سے تعلق
رکھتے ہیں۔ (ان کی) بلوچستان میں ایک۔سرحد میں ایک۔پنجاب میں تین۔اور سندھ
میں دو سیٹیں ہوں گی، یہ بات اسمبلی کے ریکارڈ پر ہے۔کہ اس ترمیم کے حق میں
130 ووٹ آئے اور مخالفت میں ایک بھی ووٹ نہیں آیا۔ اس موقع پر اس مقدمہ کے
قائد مولانا شاہ احمد نورانی رحمۃ اﷲ علیہ نے فرمایا۔۔۔اس فیصلے پر پوری
قوم مبارک باد کی مستحق ہے اس پر نہ صرف پاکستان بلکہ عالم اسلام میں
اطمینان کا اظہار کیا جائے گا۔میرے خیال میں مرزائیوں کو بھی اس فیصلہ کو
خوش دلی سے قبول کرنا چاہیئے۔کیونکہ اب انہیں غیر مسلم کے جائز حقوق ملیں
گے۔اور پھر فرمایا کہ سیاسی طور پر تو میں یہی کہہ سکتا ہوں (ملک کے) الجھے
ہوئے مسائل کا حل بندوق کی گولی میں نہیں۔بلکہ مذاکرات کی میز پر ملتے ہیں
بلاشبہ مرزائیوں کو اقلیت قرار دینا بھٹوحکومت کا ایک عظیم کارنامہ ہے میرے
خیال میں ذوالفقارعلی بھٹو کی بخشش کیلئے یہی ایک کارنامہ کافی ہے آج
مولانامفتی محمود ‘‘ مولانا شاہ احمدنورانی ‘‘پروفیسر غفور احمد ‘‘چودہری
ظہور الہی ‘‘مسٹر غلام فاروق ‘‘سردار مولا بخش سومرو ، عبدالحفیظ پیرزادہ
اور ذوالفقارعلی بھٹو ہم میں موجودنہیں اﷲ تبارک تعالیٰ تمام کی قبروں پر
کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے جن کی کوششوں سے نبی پاک حصرت محمد ﷺکی نبوت پر
ڈاکہ ڈالنے والے تاقیامت غیرمسلم قرار پائے۔ ختم نبوت کی اس آگاہی مہم میں
حصہ لینا ہم شب کا فرض ہے یہ ہمارے بڑوں کی جہدوجہد ہے۔جسے ہم اپنی نئی نسل
تک پہنچا دیں تو کوئی بھی ناموس ِ رسالت ﷺ کا قانون بدلنے کی جرأت نہیں کرے
گا۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک اور حقیقت کی نقاب کشائی ضروری ہے شہید بھٹو صاحب
نے جب قادیانیوں کو غیرمسلم قرار دینے والے مسودے پر دستخط کیے اس وقت چیف
آف نیول اسٹاف حسن حفیظ احمد قادیانی تھا،آرمی کا ڈپٹی چیف عبدالعلی
قادیانی تھا اور فضائیہ کا سربراہ ظفر چوہدری بھی قادیانی تھا۔ ظفر چوہدری
نے ہی اپنے ہم زلف میجر جنرل نذیر کے ساتھ مل کر بھٹو کے قتل کی سازش بھی
کی تھی۔ ظفر چوہدری کی دیدہ دلیری کا عالم یہ تھا کہ ربوہ میں مرزا ناصر
قادیانی کے جلسے پر فضائیہ کے جہاز بھیج کر گل پاشی کی اور سلامی دی تھی۔
اسی ظفر چوہدری نے کئی مسلمان افسران کو کورٹ مارشل کیا اور میرٹ سے ہٹ کر
قادیانیوں کی بھرتیاں کیں۔بھٹو صاحب کے خلاف وعدہ معاف گواہ بننے والا
مسعود محمود بھی قادیانی ہی تھا۔احمد رضا قصوری پیپلز پارٹی کے رکن
پارلیمنٹ کی حیثیت سے قادیانیوں کو غیرمسلم قرار دینے کی قراراد پر دستخط
کرتے ہیں۔ مسعود محمود قادیانی تھا جو قصوری صاحب پر حملہ کرواتا ہے۔ حملے
میں قصوری صاحب کے والد شہید ہوجاتے ہیں اور پھر یہی قادیانی مسعود محمود
وعدہ معاف گواہ بن کر کہتا ہے کہ مجھے تو قتل کا حکم بھٹو نے دیا تھا۔ یوں
ایک تیر سے دو شکار کھیلے جاتے ہیں۔ یہ سب اتفاق نہیں ہوسکتا۔ طاقتور
قادیانیوں میں گھرے بھٹو مرحوم کو اندازہ تھا کہ وہ کیا کرچکے ہیں۔ کرنل
رفیع جو جیل میں بھٹو کی نگرانی میں مامور تھے لکھتے ہیں پھانسی سے قبل
بھٹو صاحب نے کہا کہ رفیع آج تو قادیانی خوش ہوں گے ان کا دشمن مارا جارہا
ہے۔ شائد اسی لیے بھٹو صاحب نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے والے مسودے
پر دستخط کرتے ہوئے کہا تھا میں موت کے پروانے پر دستخط کر رہا ہوں بھٹو
صاحب سے آپ کو لاکھ اختلاف ہوں، مگر قادیانیوں کے خلاف جو کچھ ان کے دور
میں ہوا وہ بھی ایسے وقت میں جب قادیانی اہم ترین عہدوں پر براجمان تھے۔
انتہائی بہادری، دلیری اور بغیر کسی خوف کے دستخط کردئیے۔ اس پر وہ سیلوٹ
کے حقدار ہیں۔
ختم نبوت ﷺ کے محافظ مولانامفتی محموؒد ‘‘ مولانا شاہ ؒاحمدنورانی
‘‘پروفیسر غفور احمد ‘‘چودہری ظہور الہی مولانا عبدالستارؒخان نیازی،مولانا
ابوالامودودیؒ ‘‘مسٹر غلام فاروق ‘‘سردار مولا بخش سومرو ، عبدالحفیظ
پیرزادہ اور ذوالفقارعلی بھٹو قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے، پاکستان کو
اسلامی آئین عظیم شخصیت جناب ذوالفقار علی بھٹو شہید کو سلام ِ عقیدت(مختلف
کتب ورسائل سے استفادہ کیا گیا)
|