حج اسلامی وحدت کا عظیم مظاہرہ

اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے اور اپنے ماننے والوں کو افتراق و انتشار کو چھوڑ کر اتحاد و اتفاق اور وحدت و اخوت کا درس دیتا ہے۔ کلمہ توحید تمام معبودان باطلہ کا انکار کر کے توحید ورسالت کی چھتری کے نیچے باہم متحد و متفق ہونے کا نظریہ عطا کرتا ہے۔اورتمام عبادات اس آفاقی نظریے کوعملیجامہ پہنانے کے لیے پلیٹ فارم کا کردار ادا کرتی ہیں۔ چنانچہ نماز پنجگانہ کو باجماعت ادا کرنے پر زور دیا گیا ہے تاکہ سب مل کر اللہ کی بارگاہ میں سر بسجود ہوں اور ایک دوسرے کے حال احوال جان سکیں اور باہمی اتحاد و اتفاق کی عملی تصویر سامنے آئے ۔ اور اخوت و محبت کے رشتے کو مزید پروان چڑھانے اور اتحاد و یگانگت کے اظہار کے لیےہفتے میں ایک دفعہ شہر اور محلہ کی سطح پر جامع مسجد میں ایک امام کے پیچھے مل کراللہ کے حضور سجدہ ریز ہونے کا حکم ہے۔پھر اس پیغام کو بڑے پیمانے پر عام کرنے کے لیے سال میں دو دفعہ عیدین کے موقع پر عید گاہ میں اکٹھے ہو کر باجماعت نماز پڑھنے پر زور دیا گیا ہے۔

عالم اسلام کی عالمی سطح پر وحدت کے اظہار کے لیے دنیا بھر کے مسلمان ہر سال ایک دفعہ بیت اللہ میں جمع ہو کر ایکہی وقت، ایک ہی جگہ، ایک ہی لباس اور ایک ہی امام کی قیادت میں حجادا کرتے ہیں۔"حج "کے لغوی معنی ہیں" زیارت کا ارادہ کرنا"۔شریعت میں اسے حج اس لیے کہا گیا ہے کہ اس میں ایک مسلمان بیت اللہ شریف کی زیارت کا ارادہ کرتا ہے۔مشہور قول کے مطابق یہ 9 ہجری کو فرض ہوا۔یہ ہر صاحب حیثیت پر زندگی میں ایک دفعہ فرض ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔ولله على الناس حج البيت من استطاع إليه سبيلا ومن كفر فان الله غني عن العلمين۔(آل عمران: 97)یعنی اور اللہ کے لیے لوگوں پر اس گھر کا حج کرناہے جو اس تک چل سکے اور جو کوئی کفر کرے تو اللہ تعالی تمام دنیا سے بے پرواہ ہے۔
حج ابتدا سے لے کر اختتام تک وحدت امت کا حسین اور عظیم مظہر ہے۔دنیا کے کسی اور مذہب میں اتحاد و وحدت کی ایسی مثال دکھائی نہیں دیتی۔حج میں وحدت کے پہلوؤں کو ہم درج ذیل مقاصد کے تحت سمجھ سکتے ہیں۔

1.وحدت زمان و مکان:
حج ایسا عظیم رکن ہے جو زمان و مکان کے اعتبار سے پوری امت مسلمہ کو ایک لڑی میں پرو دیتا ہے۔زمان کے اعتبار سے مناسک حج کے لیے سب کے لیے ایک ہی وقت مقرر ہے۔تمام فرزندان اسلام اللہ تعالیٰ کے حکم "الحج أشهر معلومات" یعنیحج کے مہینے معلوم ہیں، کے مطابق شوال، ذیقعد اور ذوالحج میں حرمین شریفین کی جانب رواں دواں نظر آتے ہیں۔مکان کے اعتبار سے تمام فرزندان اسلام احرام کے لیے مقرر کردہ جگہوں (جنہیں میقات کہا جاتا ہے) سے اپنے اپنے قومی و علاقائی لباس ترک کرکے کر ایک خاص لباس (جسے احرام کہتے ہیں) پہن کر سوئے حرم رواں دواں نظر آتے ہیں۔اور پھر مقرر شدہ جگہوں پر ارکان حج کو بجا لاتے ہیں۔ سب ایک ہی وقت میں، ایک ہی جگہ منٰی میں کیمپ لگاتے ہیں، سب ایک ہی وقت میں، ایک ہی میدان میں جمع ہوکر ایک امام کا خطبہ سنتے ہیں، سب ایک ہی وقت میں، ایک ہی میدان جسے (مزدلفہ کہتے ہیں) میں رات گزارتے ہیں۔سب ایک ہی جگہ پر واقع جمرات پر کنکریاں مار کر باطل کے خلاف متحد ہونے کا پیغام دیتے ہیں سب ایک ہی دن طواف زیارت کرتے ہیں اور پھر سب ایک ہی دن قربانیاں کرکے وحدت زمان و مکان کا عظیم نمونہ پیش کرتے ہیں۔

2.وحدت مرکز:
سب ایک مرکز و قبلہ کی طرف منہ کیے دیوانہ وار چکر لگا رہے ہوتے ہیں یوں لگتا ہے جیسے ایک ہی بادشاہ کی فوج، ایک خاص مقصد کے تحت میدان عمل میں متحرک ہے۔ان میں بادشاہ بھی ہیں اور غلام بھی، وزراء بھی ہیں اور جاگیر دار بھی، گورے بھی ہیں اور کالے بھی، عربی بھی ہیں اور عجمی بھی، مشرقی بھی ہیں اور مغربی بھی، شمالی بھی ہیں اور جنوبی بھی، لیکن سب رنگ و نسل، علاقہ و ذات پات کے تفرقوں کو بھلا کر ایک اللہ کی جماعت کی تصویر پیش کر رہے ہیں۔اتحاد و اتفاق اور مساوات کی ایسی عظیم مثال مذاہب عالم پیش کرنے سے قاصر ہیں۔

اسلام کی یہی مرکزیت ہےجو دشمنان اسلام کو بے چین کیے رکھتی ہے اور اسی مرکزیت کو توڑنے اور مسلمانوں کی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کے لیے وہ ظہور اسلام کے وقت سے امروز مصروف عمل ہیں لیکن مسلمان جب تک اپنے مرکز سے وابستہ ہیں کوئی انکو مات نہیں دے سکتا۔

3.وحدت جہت:
جونہی موسم حج شروع ہوتا ہے عالم اسلام میں ایک عجیب قسم کی روحانی و جذباتی کیفیت پیدا ہو جاتیہے۔اطراف عالم سے فرزندان اسلام ایک مرکز کی طرف کھنچے چلے آ رہے ہوتے ہیں۔سب کا قبلہ ایک، مقصد ایک اور پھر سب نے ایک جیسی مخصوص شکل و صورت اختیار کی ہوتی ہے۔

مشرق و مغرب اور شمال و جنوب سے آنے والے سب فرزندان اسلام کی جہت صرف اور صرفاللہ کے گھر کی طرف ہوتی ہے۔

کعبہ (مسجد حرام)وہ عبادت گاہ ہے جسکے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا:والمسجد الحرام الذي جعلناه للناس سواء العاكف فيه والباد"یعنی وہ مسجد حرام جسے ہم نے انسانوں کے لیے بنایا ہے اور مقامی و غیر مقامی کو اس میں برابری حاصل ہے۔

اور بیت اللہ شریف دراصل حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس یادگار تعمیر کا نام ہے جسے آپ علیہ السلام نے وحدت انسانیت کے درمیان حائل اصنام کو پاش پاش کر کے طبقاتی امتیازات میں جکڑی ہوئی انسانیت کو اس گمراہی سے نجات دلا کر ایک معبود حقیقی کی طرف متوجہ کرنے کے لیے باذن الٰہی تعمیر کیا تھا۔پھر وحدت کے اس آفاقی پیغام کو روئے زمین پر عام کرنے کے لیے تمام انسانوں کو یہاں جمع ہونے کی دعوت دی گئی۔ارشاد ہوا:" وَأَذِّنْ فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالًا وَعَلَى كُلِّ ضَامِرٍ يَأْتِينَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ" (الحج: 27) یعنی آپ لوگوں میں حج کی منادی کر دیجیئے لوگ تیرے پاس پا پیادہ بھی آئیں گے اور دبلے پتلے اونٹوں پر بھی دور دراز کی تمام راہوں سے آئیں گے۔

4.وحدت مظہر:
حج امت مسلمہ کے ہر فرد کو ایک جیسیشکل و صورت عطا کرتا ہے۔دنیا بھر کے مسلمان اپنے اپنے قومی اور علاقائی لباس کو چھوڑ کر ایک رنگ اور ایک ہی ہیئت کا لباس پہنتے ہیں جو دو چادروں پر مشتمل ہوتا ہے۔سب کا لباس ایک جیسا ہوتا ہے یوں لگتا ہے جیسے ایک ہی بادشاہ کی فوج متحد ہو کر میدان جنگ میں اتر آئی ہے۔

عرب عالم دین احمد الحبابی اپنی کتاب "مرونة الاسلام" میں لکھتے ہیں: مکہ میں کعبہ کے گرد طواف کے دوران ،صفا اور مروہ کے درمیان سعی کے دوران، عرفہ، مزدلفہ، مشعر الحرام، منٰی اور رمی جمرات میں دنیا بھر سے مسلمان ایک منظم انداز میں، ایک جیسے لباس میں اور ایک ہی نعرہ لگاتے ہوئے میدان واحد میں جمع ہو کر وحدت امت کا اظہار کرتے ہیں۔ (مرونة الاسلام، ص83)

5.وحدت نعرہ:
تمام فرزندان اسلام اپنے اپنے قومی و علاقائی نعرے اور ترانے چھوڑ کر بیک زبان ہو کر ایک ہی نعرہ الاپ رہے ہوتے ہیں۔لبیک اللهم لبیک، لا شریک لک لبیک، ان الحمد والنعمة لك والملك، لا شريك لك.

"حاضر ہوں اے اللہ میں حاضر ہوں۔تیرا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں۔یقینا تعریف سب تیرے ہی لیے ہے،نعمت سب تیری ہے،ساری بادشاہی تیری ہے، تیرا کوئی شریک نہیں۔"

سب کے دل ، سب کے ذہن، سب کے ضمیر ایک جیسی کیفیت میں سرشار ہوتے ہیں اور وہ اپنے آپکو بارگاہ الہی میں حاضر محسوس کرتے ہیں اور لبیك اللهم لبيك کی صدائیں بلند کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

6.وحدت مقصد:
قرآن مجید نے حج کا مقصد بلیغانہ انداز میں یوں بیان کیا ہے۔
لِيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَعْلُومَاتٍ.(الحج: 28) یعنی تاکہ سب اپنے منفعت بخش کاموں کے لیے جمع ہو جائیں اور ان مقرر دنوں میں اللہ کا نام یاد کریں۔
تفسیر مجاہد میں ہے۔لِيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ يَعْنِي الْأَجْرَ فِي الْآخِرَةِ، وَالتِّجَارَةَ فِي الدُّنْيَا۔(تفسير مجاهد، ج1،ص479) منافع سے مراد آخرت میں اجر کا حصول اور دنیا میں باہمی تجارت کا فروغ ہے۔ اور امام یحیی لکھتے ہیں۔کیونکہ وہ موسم حج میں خرید وفروخت کرتے تھے اور اس میں ا نکے لیے بہت سے فوائد تھے۔(تفسير يحيى بن سلام، ج1، ص365)

گویا سب اس عالمی اجتماع میں ایک مقصد کے تحت جمع ہوتے ہیں۔اور دینی ودنیاوی فوائد سمیٹتے ہیں۔اور دنیا بھر سے آئے ہوئے لوگ اپنی اپنی صلاحيتوں اور تجربات سے دوسروں کو فائدہ پہنچاتے ہیں اور وحدت امت مسلمہ کو مضبوط سے مضبوط تر کرتے ہیں۔

7.خطبہ حجۃ الوداع اور وحدت امت:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کے ذریعے کس طرح وحدت و مساوات کے پیغام کو تقویت دی ہے اس کا اندازہ خطبہ حجۃ الوداع سے لگایا جا سکتا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: يا أيها الناس إن ربكم واحد و إن أباكم واحد ألا لا فضل لعربي على عربي ولا فضل لعجمي على عربي ولا لأحمر على أسود ولا لأسود على أحمر إلا بالتقوى۔

اے لوگو! غور سے سن لو کہ تمہارا رب ایک ہے اور تم سب کا باپ ہے،یاد رکھو نہ کسی عربی کو کسی عجمی پر برتری حاصل ہے اور نہ کسی عجمی کو کسی عربی پر، نہ کسی سرخ کو کالے پر اور نہ کسی کالے کو سرخ، معیار فضیلت صرف تقوی ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانوں میں تفریق پیدا کرنے والے تمام امتیازات کو رد کر کے ہمیشہ کے لیے وحدت انسانیت کا درس دیا اور برتری و فضیلت کا معیار خوف خدا، احساس ذمہ داری اور تقوی کو قرار دیا۔
الغرض حج وحدتِ امت مسلمہ کا عظیم مظہر ہے۔دنیا میں امن و آشتی قائم کرنے، اخوت و محبت کو فروغ دینے اور امت مسلمہ کو متحد و یکجا کرنے کے لیے حج سے بہتر کوئی نسخہ نہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم حج کے آفاقی پیغام کو اپنی معاشرتی،سماجی اور انفرادی زندگی میں عملاً لانے کی کوشش کریں تاکہ اتفاق و اتحاد،امن و سلامتی اور اطاعت و فرمانبرداری کی فضاقائم ہوسکے۔
 

Mohammad Nadir Waseem
About the Author: Mohammad Nadir Waseem Read More Articles by Mohammad Nadir Waseem: 35 Articles with 115929 views I am student of MS (Hadith and its sciences). Want to become preacher of Islam and defend the allegations against Hadith and Sunnah... View More