ریاست مدینہ اور فلاحی اسلامی مملکت کا تصور

 (تعلیمات نبویﷺ کی روشنی میں)
حضور ﷺ کو اللہ تعالی نے انسانیت کے لئے آخری ہدایت کا سر چشمہ بنا کر بھیجا ۔ حضورﷺ کی ولادت اور بعث ایک نئے دور کا آغاز اور تا ریخ کی ایک نئی جہت کا تعین تھا ۔یہی وجہ ہے کہ آپﷺ کی تشر یف آوری کے بعد انسانیت کلیتاً ایک نئے دور میں داخل ہو گئی۔ ایک ایسا دور جس میں شعور، آگہی، تہذیب، کلچر اور اعلی انسانی قدار کے فروغ ، قیام اور استحکام کے وہ نظائر ملتے ہیں جن کا نہ صرف آپ کی آمد سے قبل وجود نہ تھا بلکہ ان کا تصور بھی مفقود تھا ۔ جب حضور اکرم ﷺ خانہ کعبہ میں حج کے موقع پر باہر سے آنے والے حجاج کرام سے ملتے تھے اور ان تک اپنی دعوت پہنچاتے تھے۔ ان میں مدینہ سے آنے والے حجاج کرام بھی شامل تھے دو سال کے اس تبلیغ کا فائدہ یہ ہوا کہ اہم قبائل کے سرداروں نے اسلام قبول کیا اور آپ ﷺ کے ہا تھ پربعیت کی اور واپس مدینہ جا کر آپ ﷺ کے پیغا م کو دوسروں تک پہنچایا یہاں تک کہ مدینہ کی اکثریت مسلمان ہو گئے مکہ میں کفار مکہ نے آپ ﷺ کا جینا محال کیا تو اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کا حکم دیا اور آپ ﷺ نے مدینہ منورہ تشریف لا نے کے بعد جن امور کو اپنی ترجیحات مین رکھا ان میں سر فہرست آئینی ریا ست کی تشکیل اور اسکا دستور متفقہ طور پر منظور کروانا تھا ۔ نئی ریا ست کے دستور کی تیاری آپ نے قیام مدینہ کے ابتدائی دنوں میں ہی شروع کر دی تھی اسلئے کے مدینہ طیبہ مین آپ سے پہلے ہو نے والی جنگوں خصوصاً جنگ بعاث نے اہل مدینہ کو اس سوچ بچار پر مجبور کر دیا تھا کی وہ مدینہ مین مستقل خون ریزی اور قتل وغارت کے خا تمے کیلئے کچھ اقدامات کریں ۔
حضورﷺ کے مدینہ طیبہ تشریف لا نے کے بعد اس بات کے امکانات بہت روشن ہو گئے کہ مدینہ طیبہ لا قانونیت کی کیفیت سے نکل کر ایک منظم معاشرے میں ڈھل جا ئے۔ حضور ﷺ نے اپنی پیغمبرانہ اور خدادصلا حیتوں کے ذریعے شروع ہی سے ایسے اقدامات کیے جن سے آگے چل کر ایک متفقہ دستور کی منظوری کی راہ ہموار ہو ئی۔حضورﷺ کی مو ثر حکمت عملی مین سب نما یا ں اور دور رس نتا ئج کے حا مل وہ معا ہدات تھے جوآپ نے یہودونصاری سمیت کفار مکہ اور دیگر عرب قبا ئل کے سا تھ فر ما ئے ان میں سب سے زیا دہ اسلام دشمن سیکو لر اکا ئیاں تھی جن کے ساتھ اپ نے مختلف اوقات میں مختلف نو عیت کے اتحا د Alliance کئے لیکن آپ کے دو اتحا د بطور خا ص نتا ئج کے اعتبار سے تا ریخی اور فیصلہ کن ثا بت ہو ئے ۔ ان میں سے ’’ میثاق مدینہ‘‘ اور دوسرا’’معا ہدہ حدیبیہ‘‘ کے نا م سے موسوم ہیں۔ یہا ں صراحت ضروری ہے کہ یہ اتحادی مذہبی بنیا دوں پر نہیں بلکہ سما جی بنیا دوں پر قائم ہو ا تھا ۔حضور ﷺ نے اہل کتاب کو نفسیاتی طور پر قریب کر نے اور انہیں اعتماد میں لینے کے لئے مذہبی قدر مشترک کو پیش کیا یعنی اللہ تعا لی ٰ پر ایمان۔ قرآن نے حضور ﷺ کے اس مدعا کو یو ن بیا ن فرما یا :
قُل يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْاْ إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ ) البقرہ،۲:۶۴(

آپ فرما دیں: اے اہلِ کتاب! تم اس بات کی طرف آجاؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے،
حضور اکرم ﷺنے اپنی بعثت کے بعد عمر بھر جس لگن اور ذمے داری کے ساتھ اپنے فرض کو پورا کرکے انسانیت کو پستی سے نکال کر رفعت تک پہنچانے کا فریضہ انجام دیا، اس کی مثال تاریخ عالم پیش کرنے سے قاصر ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مثالی طرز حکمرانی، جس نے داخلی و خارجی سطح پر بکھرے یثرب کو دنیا کی بہترین اسلامی فلاحی ریاست مدینہ میں تبدیل کر دیا،
نبی اکرم ﷺکی مدینہ منورہ میں تشریف آوری کے بعد فوری طور پر مسجد نبوی کی بنیاد رکھی گئی، دوسرے لفظوں میں ریاست کے لیے سیکرٹریٹ قائم کر دیا گیا۔ اس کے ساتھ معاشرے کے معاشی مسائل کے حل کو اولیت دی گئی۔ ایک طرف ریاست میں ہنگامی حالت تھی تو دوسری طرف انصار مدینہ تھے جن میں متوسط بھی تھے اور کافی مالدار بھی، یعنی عملی طور پر جو شکل آج پاکستان کی ہے کچھ ایسی ہی شکل مدینہ منورہ کی تھی۔ ہمارے ہاں بھی ایک طبقہ معاشی ظلم کی وجہ سے بدحالی کا شکار ہے اور دوسرا طبقہ کافی متمول ہے۔ ایسی حالت میں محسن انسانیت ﷺنے یہ طریقہ اختیار فرمایا کہ تمام مسلمانوں کو بھائی بھائی بنا دیا۔ ایک ٹیم موجود تھی جو اسلامی فلاحی نظام پر پختہ یقین رکھتی تھی۔ اس ٹیم میں شامل لوگوں نے ایک دوسرے کے لیے قربانیاں دیں اور اس طرح دو طبقوں میں جو غیر معقول معاشی فرق تھا وہ ختم ہوگیا۔
معروف مغربی مفکر واٹ منٹگمری واٹ ریاست مدینہ کے دستور کی آئینی اہمیت کا اعتراف ان الفاظ میں کر تے ہیں
“In the main early soueces capart from the quran for the career of Muhammad there is found a document which may conveniently be called the constitution of Medina “
)Watt Montgomery watt. Islamic Political Thought The Basic Concept,P.4 (
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ان دنوں مدینہ منورہ کی معیشت کا سارا انحصار یہودیوں کے سودی کاروبار پر تھا مگر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مہاجرین سے یہ نہیں فرمایا کہ تم بھی یہودیوں سے سود پر قرض لے کر اپنا کاروبار شروع کر دو، کیوں کہ اس طرح معاشی انصاف پر مبنی معاشرے کی تشکیل ناممکن تھی بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انصار مدینہ سے فرمایا کہ اپنے بھائیوں کی مدد کرو اور پھر قرض حسنہ کا نظام رائج فرمایا اور جب معاشرے کے افراد عملاً باہمی تعاون کے ذریعے بلا سود قرضوں پر معیشت کو قائم کرنے میں لگ گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سود کو مکمل طور پر حرام قرار دے کر اس لعنت کو ختم کر دیا۔
ریاست مدینہ کے اہم خدوخال
حکمت کا مر حلہ باہمی اخوت:۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدنی زندگی بہت ذیا دہ مصروف رہنے کا نقشہ پیش کرتی ہے۔ انتہائی مشکل اوقات میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی خداداد بصیرت سے سلامتی کی راہیں نکالیں۔ مدینہ طیبہ میں تشریف لانے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیثیت مکے سے مختلف ہو گئی تھی، کیوں کہ مکہ میں مسلمان ایک مختصر اقلیت کے طور پر رہ رہے تھے جب کہ یہاں انہیں اکثریت حاصل تھی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شہریت کی اسلامی تنظیم کا آغاز کیا جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو منتظم ریاست کا درجہ حاصل ہو گیا۔ اس میں شک نہیں کہ مکی زندگی کے مقابلے میں یہ بڑی کام یابی تھی، لیکن پر سکون معاشرے کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا باقی تھا۔
اسلامی ریاست کا تصور:۔
یہ معاہدہ اسلامی ریاست کی بنیاد تھا، یہاں سے حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی نیا رخ اختیار کرتی ہے۔ اب تک آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تدبر و فراست کے تمام پہلو ایک ایسے مرکز کے قیام کے لیے تھے جہاں سے دعوت اسلام موثر طریق سے دی جا سکے۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سابقہ کوششیں ایک مدبر کی تھیں لیکن اب آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم منتظم ریاست کے طور پر سامنے آ رہے ہیں، لہٰذا آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تدبر کا مطالعہ اسی زاویے سے کرنا ہو گا۔
یہ بات ذہن نشین رہے کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیش نظر ایک اہم مقصد ’’مثالی اسلامی فلاحی معاشرے‘‘ کا قیام تھا اور اس کے لیے قوتِ نافذہ کا ہونا ناگزیر تھا۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اکثر دعا فرمایا کرتے تھے کہ
اے اللہ اقتدار کے ذریعے اسلام کی مدد فرما۔
آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ دعا قبول ہوئی اور ریاست مدینہ کی شکل میں پہلی اسلامی فلاحی مملکت کا قیام عمل میں آیا۔ قرآن مجید نے اسلامی ریاست کا جو مقصد متعین کیا کہ
اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّکَّنّٰهُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوةَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْکَرِوَ ِﷲِ عَاقِبَةُ الْاُمُوْر ) الحج،۲۲: 41(
’’یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخش دیں تو یہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، معروف کا حکم دیں گے اور منکر سے روکیں گے اور سب کاموں کا اختیار اللہ کے حکم میں ہے‘‘۔
اس آیت مبارکہ کے مطابق آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ریاست مدینہ اور اس کے رہنے والوں نے اپنے فرائض کو سرانجام دیا۔ ریاست مدینہ کے قیام سے آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقصود رضائے الہٰی کا حصول اور عوامی بہبود تھا۔ اس حکومت کی بنیاد خاندانی عصبیت اور نسلی شعور کی جگہ دینی وحدت پر قائم تھی۔ اس انوکھی اور اپنی نوعیت کی منفرد ریاست کے منتظم کا انداز بھی عام حکمرانوں سے یکسر مختلف تھا۔ منتظم ریاست کی حیثیت سے آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تدبر کی بے شمار مثالیں آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حقیقی عظمت کا پتا دیتی ہیں۔
قانو نی مساوات:۔
ریاست مدینہ دنیاکی اولین ریاست تھی جس میں قانون سب کے لیے تھااور سب انسان قانون کی نظر میں برابر تھے۔ریاست مدینہ کی تشکیل وتاسیس تک تو کسی ریاست نے اس بات کا دعوی بھی نہیں کیاتھا کہ اس کے ہاں سب برابر ہیں لیکن اس کے بعد آج کی ریاستوں میں کاغذی دعوے تو کیے جاتے ہیں لیکن قانون سب کے لیے یکساں کا رواج عملاً کہیں بھی موجود نہیں ہے۔عیسائی راہبات کے لیے سکارف کی اجازت ہے جبکہ مسلمان خواتین کے لیے اس قانون میں کوئی گنجائش نہیں۔ گوروں کے لیے مالیاتی و سفارتی قوانین الگ ہیں جبکہ کالوں اور سانولوں کے لیے مطلقاََ جدا جدا ہیں۔دوسری طرف ریاست مدینہ ایسی ریاست تھی جس میں انصاف و عدل کے تقاضوں کے مطابق مسلمان قاضی کا فیصلہ یہودی کے لیے برات اورمسلمان کے لیے گردن زنی کا تھا۔ ایک دفعہ جب محسن انسانیت ﷺسے مجرم کے لیے قانون میں رعایت مانگی گئی تو فرمایامیری بیٹی بھی ایساجرم کرتی تو یہی سزا پاتی۔ آپ ﷺبذات خود عمر کے آخری ایام میں مسلمانوں کے درمیان براجمان ہوئے اور فرمایا میں نے کسی کے ساتھ زیادتی کی ہو تو بدلہ لے لے۔قانون کی نظر میں سب برابر ہیں آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درسِ مساوات نے ہی اس معاشرے کو عدل فاروقی کی منزل سے روشناس کرایا۔
نظام تعلیم
اسلامی ریاست میں نظام تعلیم کو بڑی اہمیت دی گئی ہے۔ آپ ﷺنے ہجرت سے قبل ہی حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کو معلم بنا کر مدینہ بھیج دیا تھا اور ہجرت کے بعد مسجد نبوی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو باقاعدہ درس گاہ کا درجہ حاصل ہو گیا۔ غیر مقامی طلبہ کی تدریس و رہائش کے لیے صفہ چبوترہ بنایا گیا۔ عرب میں چوںکہ لکھنے کا رواج نہیں تھا اس لیے مسجد نبوی میں ہی حضرت عبد اللہ بن سعید بن العاص اور حضرت عبادہ بن صامت کو لکھنا سکھانے پر مامور کیا گیا۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مختلف زبانیں سکھائی گئیں اور فنون جنگ کی تعلیم ہر جوان کے لیے ضروری قرار دی گئی۔ خواتین گھریلوں صنعتوں کے ساتھ علاج معالجے کا انتظام بھی کرتی تھیں، حتیٰ کہ ایک صحابیہ نے مسجد نبوی ہی میں خیمہ لگا دیا تھا جہاں زخمیوں کی مرہم پٹی کی جاتی تھی۔دنیاوی علوم سیکھنے کے لیے قیدیوں کی ڈیوٹی لگائی گئی کہ انھیں اپنی رہائی کے بدلے مسلمانوں کو پڑھانا ہو گا۔
عمل احتساب:۔
اگر چہ رسول اکرم ﷺکے عہد میں احتساب کا کوئی مستقل محکمہ قائم نہیں تھا مگر حضور اکرم صلیٰ ﷺیہ فرض خود انجام دیا کرتے تھے۔ تجارتی معاملات کی بھی نگرانی فرماتے۔ عرب میں تجارتی معاملات کی حالت نہایت قابل اصلاح تھی۔ مدینہ منورہ آنے کے بعد آپ ﷺنے اصلاحات جاری کیں۔ آپﷺ تمام لوگوں سے اصلاحات پر عمل کراتے، جو باز نہ آتے انہیں سزائیں دیتے ۔ آپ ﷺکے عہد میں کوئی باقاعدہ جیل خانہ نہیں تھا اس لیے صرف اتنا خیال کیا جاتا تھا کہ مجرم کو کچھ مدت کے لیے لوگوں سے ملنے جلنے اور معاشرتی تعلقات قائم نہ رکھنے دیے جائیں۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اکرم ﷺکے عہد میں دیکھا کہ لوگ تخمیناً غلہ خریدتے تھے۔ ان کو اس بات پر سزا دی جاتی تھی کہ اپنے گھروں میں منتقل کرنے سے پہلے اس کو خود ہی وہاں بیچ ڈالیں جہاں اس کو خریدا تھا۔آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم عمال پر کڑی نگاہ رکھتے، کسی عامل کی شکایت پہنچتی تو فوراً تحقیقات کراتے کیو نکہ حکمران کی حیثیت ایک داعی کی ہے۔ اگر سلطنت عدل کی جگہ ظلم و تشدد قبول کر لے تو سلطنت کا نظام درہم برہم ہو تا ہے۔ یہ تھی مدینہ کی ریا ست جو اسلامی اصولوں کی بنیاد پر استوار ہو ئی تھی۔
نظام قانون:۔
ریاست مدینہ دنیاکی اولین ریاست تھی جس میں قانون سب کے لیے تھااور سب انسان قانون کی نظر میں برابر تھے۔ ریاست مدینہ کی تشکیل وتاسیس تک تو کسی ریاست نے اس بات کا دعوی بھی نہیں کیاتھااس کے ہاں سب برابر ہیں لیکن اس کے بعد آج کی ریاستوں میں کاغذی دعوے تو کیے جاتے ہیں لیکن قانون سب کے لیے یکساں کا رواج عملا کہیں بھی موجود نہیں ہے۔ عیسائی راہبات کے لیے سکارف کی اجازت ہے جبکہ مسلمان خواتین کے لیے اس قانون میں کوئی گنجائش نہیں، گوروں کے لیے مالیاتی و سفارتی قوانین الگ ہیں جبکہ کالوں کے لیے اور سانولوں کے لیے مطلقاََجداجداہیں جبکہ ریاست مدینہ ایسی ریاست تھی جس میں مسلمان قاضی کا فیصلہ یہودی کے لیے برات کا اورمسلمان کے لیے گردن زنی کا تھا۔ جب محسن انسانیت ﷺسے مجرم کے لیے قانون میں رعایت مانگی گئی تو فرمایامیری بیٹی بھی ایساجرم کرتی تو یہی سزا پاتی۔ بذات خود عمر کے آخری ایام میں مسلمانوں کے درمیان براجمان ہوئے اور فرمایا میں نے کسی کے ساتھ زیادتی کی ہو تو بدلہ لے لے۔ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں آپ ﷺکے درسِ مساوات نے ہی اس معاشرے کو عدل فاروقی کی منزل سے روشناس کرایا۔
ریاست مدینہ میں اقلیتوں کے حقوق:۔
اسلام سے پہلے اقلیتوں کے حقوق کا کو ئی تصور مو جود نہ تھا ۔ حضورﷺ نے اقلیتوں کومعاشرئے میں وہی مقام عطاکیا جو معاشرے کے بنیادی شہریوں کو حاصل تھے۔آپ ﷺ نے اقلیتوں کی جان و مال ، عزت وآبرو،ناموس حتی کہ ان کے مذہبی حقوق کے تحفظ کو آئین کا حصہ بنایا۔کیونکہ اسلامی ریاست کے تنا ظر میں اس دور کا ایک اہم سوال بن گیا ہے ۔اسلئے حضورﷺ کے فرمان مبارک میں بھی اس امر کی توضیح کرتے ہیں کے ریاست اسلامی میں اقلیتوں کو کون کون سے حقوق حا صل ہیں ۔
قال ﷺ لاھل الذمہ:ما اسلمو علیہ من ذرایھم و اموالھم و اراضیھم وعبیدھم و مواشیھم، ولیس علیھم الا الصدقہ
)احمد بن حنبل،المسند،۵:۳۵۷ (
’’ حضور ﷺ نے فرمایا : ذمی کے لئے وہ کچھ ہے جس کے لئے اس نے اطاعت کی۔ذمی کی اولاد اموال، اراضی ، غلام اور ان کے مواشی کا خیا ل رکھو۔ ان پر صدقہ کے سوا کچھ نہیں ‘‘
آپ ﷺ نے اقلیتوں کی مذہبی آزادی کے بارے میں فرمایا :
و ان یھود بنی عوف امۃ مع المومنین، للیہود دینھم، و للمسلمین دینھم، مولیھم و انفسھم الا من ظلم و اثم ، فانہ لا یو قع الا نفسہ و اھل بیتہ
’’ اور عوف کے یہودی مو منین کے ساتھ ایک سیاسی وحدت تسلیم کیے جا تے ہیں ۔ یہودیوں کے لئے ان کا دین ہے اور مسلمانوں کے لئے اپنا دین ہے خواہ ان کے موالی ہو ن یا وہ بذات خود ہو ں ، ہا ں جو ظلم یا عہد شکنی کا ارتکاب کرے تو اس کی ذات یا گھرانے کے سوا کو ئی مصیبت میں مبتلا نہیں کیا جا ئے گا ‘‘۔
امیر اور غریب میں حقیقی مساوات :۔
ریا ست مدینہ میں قران مجید اور قرآن و سنت کے قوا نین کا نفاذانسانیت کے لیے بہت بڑی رحمت تھی یہ مثالی ریاست قیامت تک انسانیت کے دکھوں کا مداوا کرنے کے لیے رول ماڈل ہے مدینہ کی اسلامی ریاست میں ہر ایک پر قانون نافذ ہوتا ہےامیر اور غریب، بڑے اور چھوٹے، سب کے لیے منصفانہ قانون نے انسانیت کا احترام بحال کیا ۔
سیرت صحابہ پر معروف مورخ ابن الاثیر الجزری نے ایک دلچسپ واقعہ لکھا ہے جنگ بدر میں انحضورﷺ نے صحابہ کرام کی صف بندی فرمائی صف بندی کے بعد حضورﷺ نے صفوں کا م معائنہ کیا آپ کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی آپ نے دیکھا کہ سواد بن غزیہ صف سے با ہر نکلے ہو ئے ہیں ، آپ ﷺ نے انھیں صف میں سیدھے کھڑے ہو نے کا بھی حکم دیا اور لکڑی سے ان کے پیٹ پر ٹھو نکا بھی لگا یا ۔ سواد نے عرض کیا :’’یا رسول اللہ ﷺ خدا تعا لی نے آپ کو حقو عدل کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے، آپ نے مجھے تکلیف دی ہے مجھے آپ کا بدلہ ( ْقصاص ) دیں ‘‘ آنحضورﷺ نے وہ لکڑی سواد کی طرف بڑ ھا دی اور فرمایا :’’ لو بدلہ لو‘‘۔ انھو ں نے عرض کیا ’’ میرا پیٹ تو ننگا تھا اور آپ کے پیٹ مبا رک پر آپ کا کرتہ ہے تو حضورﷺ نے اپنا کر تہ مبارک اپنے بطن سے اٹھا دیا ۔ سواد اگے بڑھے لکڑی ایک جا نب پھینکی اور حضور ﷺ کے بطن مبارک کو بو سہ دیا اور پھر آپ سے لپٹ گئے۔تو آپ ﷺ نے پو چھا ’’ سواد تم نے کیا کیا ہے ؟ ‘‘ انھو ں نے جواب میں عرض کیا ’’ یا رسول اللہ ﷺ جیسا کہ آپ دیکھ ر ہے ہیں کو چ کا وقت آیا چا ہتا ہے۔ میں نے چا ہا کہ جا نے سے پہلے آخری عمل آپ کو بو سہ دینا اور آخری لمس جسد مطہر سے چھو نا نصیب ہو جا ئے، سو میں نے یہ تمنا پوری کر لی ہے‘‘ حضور ﷺ نے ان کے اس جذبہ صادق اور خلو ص عمل کو دیکھ کر ان کے حق میں دعا ئے خیر فرما ئی۔
معا شی پا لیسی :۔
اسلام نے ہر شعبہ زندگی کی طرح معیشت کی پا لیسی بھی بہت وا ضح انداز میں بیان کی ہے، اللہ تعا لی نے
مَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَى فَلِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ كَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنكُمْ وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ )سورہ الحشر۵۹: ۷(
جو (اَموالِ فَے) اللہ نے (قُرَیظہ، نَضِیر، فِدَک، خَیبر، عُرَینہ سمیت دیگر بغیر جنگ کے مفتوحہ) بستیوں والوں سے (نکال کر) اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر لوٹائے ہیں وہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے ہیں اور (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے) قرابت داروں (یعنی بنو ہاشم اور بنو المطّلب) کے لئے اور (معاشرے کے عام) یتیموں اور محتاجوں اور مسافروں کے لئے ہیں، (یہ نظامِ تقسیم اس لئے ہے) تاکہ (سارا مال صرف) تمہارے مال داروں کے درمیان ہی نہ گردش کرتا رہے (بلکہ معاشرے کے تمام طبقات میں گردش کرے)۔ اور جو کچھ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہیں عطا فرمائیں سو اُسے لے لیا کرو اور جس سے تمہیں منع فرمائیں سو (اُس سے) رُک جایا کرو، اور اللہ سے ڈرتے رہو (یعنی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تقسیم و عطا پر کبھی زبانِ طعن نہ کھولو)، بیشک اللہ سخت عذاب دینے والا ہے
دولت کی گردش اور عوام تک پہنچنا معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت ر کھتا ہے حضورﷺ نے ارشاد فرمایا تھا کہ اسلامی ریا ست کی معا شی پا لیسی یہ ہے کہ امرا سے پیسہ لیا جا ئے اور غربا کو دیا جا ئے، اسی طر ح سو د ، رشوت، جوا ، چور با زاری ، ذخیرہ اندوزی اور اور دیگر غیر اخلا قی ذرا ئع آمدن مکمل طور پر ممنو ع قرار دے دیے گئےتھے۔ اسلامی معیشت میں ان چیزوں کی گنجا ئش نہیں ۔ حکو متی کا رندے اپنے منصب پر رہتے ہو ئے تحفے بھی و صول نہیں کر سکتے تھے۔ یہ تحفے بیت المال میں جمع ہو تے تھے آنحضورﷺ نے اغنیا ء اور فقرا کے درمیا ن دولت کی تقسیم کے حوالے سے جواصول متعارف کرایا اسی کی بنیا د پر مدینہ میں فلا حی ریا ست کا تصور پروان چڑھا ۔
اسلامی ثقافت اور عزت کی حفا طت:۔
مدینہ کی اسلامی ریا ست کی ثقافت اور اسکا کلچر، بے حیا ئی، عریا نی اور رقصو سرور سے مکمل پا ک تھا۔ مردو زن کی مخلو ط محفلیں اور راگ رنگ، شراب نو شی اور نشے کی ہر صورت حرام اور قابل تعزیر جرم تھی۔ چراب پینا ہی جرم نہیں تھا بلکہ شراب بنانا ، اس کا فروخت کرنا ، اسے لاد کر لے جا نا اور اسے بطور تحفہ کسی غیر مسلم کو دینا سبھی پر حرام تھا ۔ زنا اور بدکاری کے جرم پر قرآن و سنت کے مطابق غیر شادی شدہ زانی اور زانیہ کو سو کو ڑے ما رے جاتے اور شادی شدہ بدکاری کے مرتکب مرد و عورت کو سنگسار کر نے کی حدود جا ری ہو تی تھیں ۔ خواتین کو پردے کا حکم دیا گیا اور مرد و عورت کو غص بصر ( نظریں جھکانے)کا پا بند بنایا گیا ۔ یہ احکا م قران میں نازل ہو ئے ہیں
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ ذَلِكَ أَدْنَى أَن يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا ) سورہ الاحزاب ۳۳:۵۹(
’’اے نبی! اپنی بیویوں اور اپنی صاحبزادیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے فرما دیں کہ (باہر نکلتے وقت) اپنی چادریں اپنے اوپر اوڑھ لیا کریں، یہ اس بات کے قریب تر ہے کہ وہ پہچان لی جائیں (کہ یہ پاک دامن آزاد عورتیں ہیں) پھر انہیں (آوارہ باندیاں سمجھ کر غلطی سے) ایذاء نہ دی جائے، اور اللہ بڑا بخشنے والا بڑا رحم فرمانے والا ہے‘‘
وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُوْلِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَى عَوْرَاتِ النِّسَاءِ وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِن زِينَتِهِنَّ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَا الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ )النور،۱۲:۲۴(
’’اور آپ مومن عورتوں سے فرما دیں کہ وہ (بھی) اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں اور اپنی آرائش و زیبائش کو ظاہر نہ کیا کریں سوائے (اسی حصہ) کے جو اس میں سے خود ظاہر ہوتا ہے اور وہ اپنے سروں پر اوڑھے ہوئے دوپٹے (اور چادریں) اپنے گریبانوں اور سینوں پر (بھی) ڈالے رہا کریں اور وہ اپنے بناؤ سنگھار کو (کسی پر) ظاہر نہ کیا کریں سوائے اپنے شوہروں کے یا اپنے باپ دادا یا اپنے شوہروں کے باپ دادا کے یا اپنے بیٹوں یا اپنے شوہروں کے بیٹوں کے یا اپنے بھائیوں یا اپنے بھتیجوں یا اپنے بھانجوں کے یا اپنی (ہم مذہب، مسلمان) عورتوں یا اپنی مملوکہ باندیوں کے یا مردوں میں سے وہ خدمت گار جو خواہش و شہوت سے خالی ہوں یا وہ بچے جو (کم سِنی کے باعث ابھی) عورتوں کی پردہ والی چیزوں سے آگاہ نہیں ہوئے (یہ بھی مستثنٰی ہیں) اور نہ (چلتے ہوئے) اپنے پاؤں (زمین پر اس طرح) مارا کریں کہ (پیروں کی جھنکار سے) ان کا وہ سنگھار معلوم ہو جائے جسے وہ (حکمِ شریعت سے) پوشیدہ کئے ہوئے ہیں، اور تم سب کے سب اللہ کے حضور توبہ کرو اے مومنو! تاکہ تم (ان احکام پر عمل پیرا ہو کر) فلاح پا جاؤ‘‘
جا نوروں کے حقو ق کا خیا ل:۔
انسان تو انسان ہیں ،اشرف المخلوقات ان کا اعزاز ہے ، نبی پاک ؐ نے توانسانوں کے علاوہ جانوروں کے بھی حقوق بیان فرمائے۔ انھی تعلیمات کا یہ اثر تھا کہ حضرت عمر ؓ فرمایا کرتے تھے : ’’اگر دجلہ کے کنارے کوئی کتا بھی بھوکا مر گیا تو مجھ سے اس کا حساب لیاجائے گا۔ ‘‘ اسی طرح آپ ؓ کا یہ قول بھی معروف ہے:’’اگر کسی راستے کے غیر ہموار ہونے کی وجہ سے باربرداری کا کوئی خچر ٹھوکر کھا کر گرا اور زخمی ہوگیا تو عمر ؓ سے اس کا بھی حساب لیاجائے گا۔ ‘‘یہ تھا احساس ذمہ داری جس نے مدینہ کی ریاست کو اسلامی اور فلاحی ہونے کے ساتھ جدید ترین ریاست ہونے کا شرف بھی بخشا ۔ راستے بنانے اور ان کو ٹھیک رکھنے کا باقاعدہ شعبہ قائم کردیا گیا۔
اسلامی فلا حی ریا ست کا تصور:۔
اسلامی ریاست کیا ہو تی ہے ؟
ریاست کا سلامی تصور کیا ہے اسلام نے ریا ست کے لئے کون سا لفظ استعمال کیا ہے ۔ اسلام نے اپنے اصولوں پر قائم شدہ سیا سی تنظیم کے لئے سیا ست یا ریا ست یو حکو مت کی اصطلا حیں استعما ل نہیں کی ہیں بلکہ خلافت یا اما مت کی اصطلا ح اختیا ر کی ہے اس لئے اسلامی ریا ست کو اسلامی تصور واضح کرنے کے لئے ان اصطلا حا ت کا جا ننا بہت ضروری ہے۔
خلا فت کی اصطلا ح اسلامی اصولوں پر قائم چدہ ایک ریا ست کے لئے استعمال ہو ئی ہے اور امامت سئ مراد وہ گورنمنٹ ہو تی ہے جو خلافت کے ارادوں کی تنقیذ کرتی اور اس کے منصوبوں کو عملی جا مہ پہنا تی ہے۔ دوسرے الفا ط میں ان میں فرق یو ں ہو گا جو فرقstate اور Governmentکے درمیا ن ہے وہ ہی فرق امامت اور خلا فت کے درمیا ن ہے ۔ اس سے معلوم ہو تا ہے کہ اسلام میں ریاست محض ایک ریا ست نہیں ہے بلکہ وہ خلا فت ہے ۔
اسلامی حکو مت کا مقصد صرف یہ نہیں ہے کہ ملک کے تما م شہریو ں کو ایک نطم و نسق کے مطا بق چلا یا جائے ، عوام کے لئے معاشی وسائل فراہم کئے، امن و امان قا ئم کیا جائے اور ملک کی سر حدوں کی حفاطت کی جا ئے ، بلکہ اسلامی ر یا ست کا بنیا دی مقصد بھلا ئیو ں کی ترویج اور برا ئیوں کا سدباب ہے:
جیسے فرمان الہی ہے:
الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنكَرِ وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ ( الحج،۲۲:۴۱)
(یہ اہلِ حق) وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار دے دیں (تو) وہ نماز (کا نظام) قائم کریں اور زکوٰۃ کی ادائیگی (کا انتظام) کریں اور (پورے معاشرے میں نیکی اور) بھلائی کا حکم کریں اور (لوگوں کو) برائی سے روک دیں، اور سب کاموں کا انجام اﷲ ہی کے اختیار میں ہے
اس آیت مبارکہ کے مطابق اللہ تعالیٰ نے وضاحت فرمادی ہے کہ اسلامی ریاست نہ تو سیکولر ہوتی ہے اور نہ ہی محدود مذہبی تصور یا پاپائیت (Theocracy) پر مبنی ہوتی ہے۔ اس کا اللہ پر محکم ایمان ہوتا ہے ۔ نظام عبادت کی پابندی اور نفاذ کے ساتھ اس کا سب سے اہم کام معاشرے میں نیکی کا فروغ اور برائی کا خاتمہ ہے۔ اسلامی حکومت ایک ایسا ماحول فراہم کرتی ہے جس میں ہر شخص کے لیے حلال طریقوں کے مطابق زندگی گزارنا آسان اور حرام طریقوں کو اختیار کرنا مشکل تر ہوتا ہے۔ کوئی شہری برائی کو قوت اور ہتھیاروں کے ساتھ ختم نہیں کرسکتا، یہ ریاست کے دائرۂ اختیار اور فرائض منصبی میں شامل ہے۔ خود ریاست بھی قانون کی قوت سے برائی کو ختم کرتی ہےاگر حکومت یہ کام چھوڑ دے تو پھر پوری امت کی ذمہ داری ہے کہ وہ نیکی کے فروغ اور برائی کے خاتمے کے لیے اجتماعی جدوجہد کرے۔ امت مسلمہ کو اللہ تعالیٰ نے خیرامت قرار دیا ہے۔ اس کا فریضہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے۔ امربالمعروف یعنی نیکی کا حکم دینا اور نہی عن المنکریعنی برائی سے روکنا، امت مسلمہ کی شناخت اور امتیاز ہے
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
کُنْتُمْ خَیْرَ أُمَّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُوْنََ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنََ بِاللّٰہ ِ آلِ عمران،۳:۱۱۰

’’اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت واصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘
پوری امت اگر غفلت کا شکار ہوجائے، جیسا کہ دورِ انحطاط میں ہوا ہے تو اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اس کے کچھ مخلص بندے تو ایسے ہونے چاہییں جو اس کام کا بیڑہ اٹھائیں۔
ارشاد باری ہے:
وَلْتَکُنْ مِّنکُمْ أُمَّۃٌ یَّدْعُوْنََ إِلَی الْخَیْرِ وَیَأْمُرُوْنََ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ واُُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنََ ) آلِ عمران۳:۱۰۴ (
’’تم میں سے کچھ لوگ ایسے ضرور ہونے چاہییںجو نیکی کی طرف بلائیں، بھلائی کا حکم دیں اور برائیوں سے روکتے رہیں۔ جو لوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے۔‘‘
مدینہ کی اسلامی ریاست نے وجود میں آنے کے بعد قرآنی حکم کے عین مطابق نظام صلوٰۃ وزکوٰۃ کے ساتھ اپنے پورے قانونی نظام کے تحت امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا بھی اہتمام کیا۔ جس معاشرے میں ہر جانب برائی اور ظلم وزیادتی، فحاشی وعریانی اور بدکاری، شراب نوشی اور قمار، سودخوری اور لوٹ مار کا دور دورہ تھا وہ معاشرہ یکسر تبدیل ہوگیا۔ اب وہاں ہر کارِ خیر فروغ پارہا تھا اور ہر برائی دم توڑ چکی تھی۔نہ سود اور ڈاکہ ،نہ شراب نوشی اور فحاشی،ہر جانب عفت وعصمت اور نیکی و خیر کا فروغ۔ مدنی سرکار ﷺ کے ساتھ ایک بندۂ مومن کی عقیدت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ وہ زندگی کے تمام شعبوں کو آپؐ کے لائے ہوئے نظام کے مطابق ڈھال دے۔ سب سے زیادہ ذمہ داری مقتدر طبقات اور ذمہ داران حکومت پر ہے۔
يَا دَاوُودُ إِنَّا جَعَلْنَاكَ خَلِيفَةً فِي الْأَرْضِ فَاحْكُم بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ )المائدہ،۵:۴۲(
اے داؤد! بے شک ہم نے آپ کو زمین میں (اپنا) نائب بنایا سو تم لوگوں کے درمیان حق و انصاف کے ساتھ فیصلے (یا حکومت) کیا کرو ۔
ر سول ﷺ نے اس عملی نمو نہ پیش فرمایا ، عرب کی ایک معزز خا تون کے خلاف آپﷺ نے چوری کے جرم میں ہا تھ کا ٹنے کا فیصلہ دیا ، بعض ر فقاء نے ایک معزز قبیلہ سے تعلق رکھنے کی بنا پر سزا کی تبدیلی کے لئے سفارش کی تو آپﷺ نے نا راضگی کا اظہار کرتے ہو ئے فرما یا :خدو کی قسم !اگر با لفرض فا طمہ بنت محمدﷺ نے بھی چوری کی ہو تی تو اس پر بھی یہی سزا نا فذ کی جا تی:’’ واللہ لو ان فا طمۃ بنت محمد سرقت لقطعت یدھا
غرض یہ اسلام کے نطام سیا ست میں حکو مت کا بینادی مقصد احکام ٖخدووندی کی تنقیذ، عدل قائم کر نا ، ظلم کو روکنا ، بھلا ئیوں کو رواج دینا اور برو ئیوں کو مٹانا ہے۔ چنا نچہ خودرسولﷺ سے اللہ رب العزت نے خطا ب کر تے ہو ئے فرمایا :
َْاِن حَكَمْتَ فَاحْكُم بَيْنَهُمْ بِالْقِسْطِ إِنَّ اللّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ
إِآپ فیصلہ فرمائیں تو ان کے درمیان (بھی) عدل سے (ہی) فیصلہ فرمائیں (یعنی ان کی دشمنی عادلانہ فیصلے میں رکاوٹ نہ بنے)، بیشک اﷲ عدل کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے
معاشی زندگی کے بارے مین اسلام نے یہ اصول ہدایت دی ہے کہ اسلامی معا شرے اور حکومت کا فرض ہے کہ وہ افلا س اور غربت کو مٹا نے میں اس طر ح سر گرم رہیں ۔ اسلام ہر فرد مین معا شی جدو جہد کا جذبہ پیدا کر تا ہے اور اسے دعوت دیتا ہے کہ اپنی محنت سے روزی حا صل کر ئے ۔ اسلامی ریا ست کی ذمہ داری ہے کہ ان تمام افراد کی کفا لت کا بندو بست کرے جو مجبور ہو ں اپا یج ہو ن ، لا چار ہو ن ، یا رزق سے محروم رہ گئے ہو ں ۔ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا ہے :
من مات و علیہ دین و لم یترک و فا ء فعل قضا ئہ و من ترک ما لا فلو را ئتہ
(صحیح مسلم، مسلم بن حجاج قشیری ،ج۳ص۱۲۳۷،رقم۱۲۱۹(
’’جو شخص مر جا ئے اور اس کےذمہ قرض ہو اور وہ اسے ادا کرنے کے قابل ما ل نہ چھو ڑے رو اس کا ادا کرنا میرے ( اسلامی ریا ست ) کی ذمہ داری ہے ۔ اور جو مال چھو ڑے اس کے وارثوں کا حق ہے ‘‘
مگر افسوس کہ حقیقت ہے کہ اگر قرآن و حدیث اور خلفاء راشدین کے طرز عمل میں ایک عادل حکومت کے لئے واضح اصول اور بہترین معیارات کر دی گئی ہے۔ لیکن اسلام کا معیاری نظام خلافت رسول اللہ ﷺ کے بعد ۳۰ سال کے مختصر عرصہ سے ذیادہ نہیں رہ سکا۔

پا کستان نظریاتی اسلامی فلا حی مملکت
ریاست مدینہ کے بعد پاکستان وہ پہلی ریاست ہے جو اسلامی نظریے کی بنیا د پر معرض وجود میں آئی۔قیام پاکستان کی تحریک کے دوران جب قائد اعظم سے پاکستان کی قانون سازی کے حوالے سے پوچھا گیا تو انھوں نے جواب دیا کہ پاکستان کی قانون سازی آج سے چودہ سو سال قبل ہو چکی ہے۔ قائد کی اس بات کا مطلب یہ تھا کہ مسلمانوں کے لیے وجود میں آنے والی یہ نظریاتی ریاست اب ریاست مدینہ کی عملی تصویر ہوگی۔ لیکن افسوس آج اسلامی جمہوریہ پاکستان پر جاگیرداروں، سرمایہ داروں، چوروں اور بد معاشوں کا قبضہ ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ریاست پاکستان کو بھی ریاست مدینہ کی طرز پر اسلامی فلاحی مملکت بنایا جائے تاکہ قیام پاکستان کا مقصد پورا ہوسکے۔ مگر لمحہ فکریہ یہ ہے کہ اگر اس مملکت خداداد کو اسی طرز پر ڈھالنے کے لئے کوئی سنجیدہ کوشش کی جائے تو مفاد پرست طبقات ایک ہوکر اس منزل کے حصول میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔
قائد اعظم نے فرمایا تھا پاک سرزمین میں قدرت کے بیش بہا خزانے پوشیدہ ہیں لیکن پاکستان کے عام آدمی کیلئے ان خزانوں سے ایک وقت کی روٹی یا سردرد کی ایک گولی تک نہیں ہے سترسالوں میں ہمارے حکمران ان خزانوں کی تلاش کی بجائے اپنے سامان تعیش کو دوام دیتے رہے وگرنہ آج عوام آسودہ ہوتے ۔ہم نے ہمیشہ غیروں کے آگے دست طلب دراز کیا ہے کبھی خود انحصار ی کے رستے پر نہیں چلے ہم جس قدر مقروض ہوچکے ہیں لگتا جیسے ہم اب معذور ہوچکے ہیں ہمیں ان قرضوں کی مد میں اربوں ڈالر ادا کرنا پڑرہے ہیں جبکہ اصل رقم اپنی جگہ موجود ہے کسی بھی معاشرے میں بنیادی انسانی حقوق انتہائی اہمیت کے حامل ہوتے مگر افسوس 21 ویں صدی میں بھی ہم بنیادی حقوق سے محروم ہیں اسلام تو یہی درس دیتا ہے کہ اسلام کے حلقہ اطاعت میں داخل حکمران اپنی رعایا کو ایثار کے لافانی جذبہ کے تحت ہر ممکن سہولیات فراہم کریں نہ کہ ان سے زندہ رہنے کا حق بھی چھین لیا جائے ۔ہسپتالوں میں علاج معالجہ کی حقیقت یہ ہے کہ ہر حکومتی پالیسی کے مطابق سرکاری ہسپتالوں میں وہ دوا خریدی جاتی جو سب سے کم ریٹ پر ہو اس میں اثر چاہے نہ ہو اب مجبور ہو کر مریضوں کو باہر سے دوائی خریدنی پڑتی ہے جو انکی قوت خرید سے باہر ہوتی ہے ۔امیر تو کسی معمولی علاج کے لئے بھی اڑان بھرتا ہے اور امریکہ برطانیہ کے مہنگے معالجوں سے علاج کراتا ہے عام آدمی کے لئے زندگی بہت دشوار ہو چکی ہے اسے یہاں جیسے جینے کا کوئی حق نہیں۔
عمران خان نے اقتدار سنبھالتے ہی ایک منفرد منشور کا اعلان کیا انہوں نے کہا کہ وہ پاکستان کو ریاست مدینہ کے طرز کی ریاست بنائیں گے۔ جو کہ پاکستان کی تا ریخ میں کسی اور وزیر اعظم نے پہلے کبھی نہ کہا ہے کیا پاکستان کو ریاست مدینہ بنانا صرف عمراں خا ن کی ذمہ داری ہے؟
نہیں ریاست مدینہ کا تعلق روح سے اور ایمان سے ہے ۔ اگر ہم حقیقی معنوں میں پاکستان کو ریاست مدینہ بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں سب کو ملکر کر اپنے آپ کو تبدیل کرنا پڑے گا ۔ ہمیں اپنی انفرادی زندگی ، روزمراہ زندگی کو قرآن سنت کے مطابق ڈھالنا پڑے گا۔
مدینہ کی ریاست میں انصاف کا بول بالا تھا اگر آج پاکستان کا ہر فرد انصاف کرے ایک دوسرے کے ساتھ ایک دوسرے کے حقوق کا احترام کرے تو مدینہ کی ریاست کی جانب ایک ہر قدم بڑھ جائے گا۔
اگر ہم واقع میں اس ملک کو ریاست مدینہ کی طرز کی ریاست بنانا چاہتے ہیں تو ہم سب کو پہلے خود کو تبدیل کرنا پڑے گا اپنی زندگی کو قرآن و سنت کے مطابق گزارنا پڑے گا۔ تب جا کہ ہم پاکستان کو ایک اسلامی ریاست بنا سکتے ہیں اسی مولانا ظفر علی خان نے کیا خوب فرمایا۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جسکو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے ک
سفارشات و تجاویز
اگر درجہ ذیل اقدامات کیے جا ئیں تو پا کستا ن حقیقی معنوں میں اسلامی فلا حی مملکت بن سکتی ہے ۔
• اگر ہم پا کستان کو اسلامی فلا حی مملکت بنا نا چا ہتے ہیں تو ہمیں سب سے پہلے اپنے ملک کو کرپشن سے پا ک کر نا ہو گا کیونکہ ریا ست مدینہ میں کسی بھی قسم کی کرپشن نہیں ہو تی تھی ہر شخص کا کڑا احتساب ہو تا تھا اگر کسی سے زائد اموال ملتا تو اس کو فوراً عہدہ سے بر طرف کر دیا جا تا تھا مگر افسو س ہم نے پا کستا ن کو اسلامی جمہو ریہ پا کستا ن کا نعرہ لگا کر ایک الگ ریا ست تو بنایا لیکن ہم اسلامی قوانین کے نفاذ میں ناکام رہے ہیں ۔
• پا کستا ن کو ظلم سے پا ک کر نا ہو گا کیو نکہ ریاست مدینہ میں ظلم نہیں ہو تے تھے لیکن آج پاکستان میں ہر طبقہ اپنے سے نیچلے طبقہ پر ظلم کر رہا ہوتا ہے ۔ اگر آپ خود سے نیچلے طبقے پرظلم چھوڑ دیں تو ریاست مدینہ کی طرف ایک قدم بڑھ جائے گا۔ ریاست مدینہ میں دو گروہ تھے مسلمان اور غیر مسلم ۔ لیکن آج پاکستان میں مسلمانوں کے مختلف فرقے بنے ہو ئے ہیں اور ہر فرقہ ایک دوسرے کو کافر ثابت کرنے میں لگا ہوا ہے آج اگر تمام فر قے کے علماء کرام آپس کے معمول اختلافات کو پس پشت ڈال اللہ کی رسی کو مضبو طی سے تھام کے متحد ہو جاہیں تومدینہ کی ریاست کا عکس نظر آئے گا ۔
• مدینہ کی ریاست میں عورتوں کو احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا لیکن آج پاکستان میں آئے روز عورتوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنا دیا جاتا ہے لڑکی پیدا کرنے پر بیوی کو مارنا، لڑکی کو زندہ دفن کر دینا آج کل پاکستان میں عام ہے اگر ہم اپنے اس رو ئیے کو تبدیل کریں عورتوں کو عزت سے دیکھیں عورتوں با پردہ ہو جائیں ۔
• ریاست مدینہ میں گناہگاروں کو فوراً سزا ملتی تھی جس کی وجہ سے کوئی اور شخص اس غلطی کو دوبارہ دہرانے کی غلطی نہیں کرتے تھے لیکن آج پاکستان میں بلکل متضاد صورت حا ل ہے غریب لوگ جو ہزار روپے چوری کرتے ہیں تووہ سلاخوں کے پیچھے سڑ رہے ہوتے ہیں۔ جبکہ امیر لوگ جنہوں نے اربوں روپے کی کرپشن کی ہے وہ آج نہ صرف آزادہے بلکہ اچھے اچھے عہدوں پربر اجماں ہے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہم واقع میں اس ملک کو ریاست مدینہ کی طرز کی ریاست بنانا چاہتے ہیں تو ہم سب کو پہلے خود کو تبدیل کرنا پڑے گا اپنی زندگی کو قرآن و سنت کے مطابق گزارنا پڑے گا۔
• دہشت گردی کے خاتمے کی قومی پالیسی بنا کر دہشت گردوں کو قرار واقعی سزا دی جائے تاکہ پاکستان اَمن کا گہوارہ ہو اور اَقوامِ عالم کی صف میں نمایاں مقام پر کھڑا ہوسکے۔
اگر ریاست مدینہ کو رول ماڈل بنایا تو پا کستان جو ریاست مدینہ کے بعد پہلی اسلامی مملکت تھی جو اسلامی جمہوریہ کے نام سے بنائی گئی تھی وہ حقیقی معنوں میں اسلامی فلاحی مملکت بن سکتی ہے ۔لیکن شرط ایک ہی ہے کہ ریاست مدینہ کو عملی رول ماڈل بنایا جائے۔

 

Maria Awaan
About the Author: Maria Awaan Read More Articles by Maria Awaan: 2 Articles with 4558 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.