مقبوضہ جموں کشمیر برصغیر پاک وہند کی تقسیم سے ہی مسلسل
بھارتی حکومت، فوج اور ایجنسیوں کے رحم و کرم پر ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں
روزانہ جنازے اٹھنا معمول کی بات ہے۔ جب دنیا کے نام نہاد جمہوریت کے دعوے
داروں کا دل چاہتا ہے اس جنت نظیر وادی میں انسانوں کا قتل و غارتگری،
املاک کی تباہی ، وسائل کی لوٹ مار اور کشمیریوں کے خون پسینے کی کمائی لوٹ
کر بھارت لے جاتے ہیں۔قدرتی طور پر بھی وادی لہو رنگ بھارت کے ساتھ کسی
صورت نہیں ملتی۔ مقبوضہ کشمیر کے تمام دریا پاکستان کی جانب بہتے ہیں،ایک
ساتھ عید، ایک جیسا موسم، زبان، تہذیب و ثقافت پاکستان کے ساتھ ملتی ہے، ہر
کشمیری کا دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتا ہے، کشمیری عوام بھارتی ظلم و ستم کے
باوجود پاکستان کے ساتھ اپنی والہانہ محبت کا اظہار کرتی آ رہی ہے۔ مودی
حکومت نے برسراقتدار آتے ہی کشمیریوں کا جینا دوبھر کردیا ہے۔ گذشتہ پانچ
سال میں ظلم وبربریت کے تمام ریکارڈ توڑ دیے، تاریخ سوز مظالم اتنے شدید
کیے گئے کہ بھارت کے اندر سے شدید احتجاج کیا گیا۔ اقوام متحدہ کے شعبہ
انسانی حقوق کی جانب سے مختصر وقت میں بھارتی مظالم پر دو رپورٹس جاری کی
جا چکی ہیں لیکن دنیا کے بدترین دہشتگردوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔
مودی حکومت نے دوبارہ اقتدار سنبھالنے کے بعد سے ہی مقبوضہ وادی میں تحریک
آزادی کو کچلنے کے لیے منصوبہ بندی کر لی، جس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے
مشیر برائے قومی سلامتی اجیت ڈول نے گزشتہ ماہ آخر پر مقبوضہ کشمیر کا تین
روزہ دورہ کیا۔ اجیت ڈول کے بھارت پہنچتے ہی مزید 50 ہزار فوجی جموں کشمیر
میں تعینات کرنے کا فیصلہ کرنے کے فوری بعد سے ہی فوج مقبوضہ وادی انتہائی
تیز رفتاری سے پہنچائی جا رہی ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ آج تک بھارت
نے مقبوضہ کشمیر میں موجود اپنی فوج کی درست تعداد نہیں بتائی، بھارت کی
جانب سے ہمیشہ اقوام متحدہ سمیت کسی بھی عالمی ادارے کے وفد کو مقبوضہ وادی
کا دورہ نہیں کروایا گیا عین ممکن ہے کہ 50 ہزار کی بجائے لاکھوں مزید فوجی
وادی کشمیر میں تعینات کیے جا چکے ہیں۔ ایک جائزہ رپورٹ کے مطابق مقبوضہ
کشمیر میں 8 لاکھ سے زائد بھارتی فوجی پہلے سے تعینات ہیں جن کی تعداد میں
وقفے وقفے اضافے کے اب تک یہ تعداد 10 لاکھ کے لگ بھگ پہنچ چکی ہے۔ عالمی
برداری کی جانب اچانک بغیر کسی وجہ بھاری تعداد میں فوج کی تعیناتی پر شدید
تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ بھارتی اپوزیشن جماعت کانگریس کے جموں و
کشمیر پالیسی پلاننگ گروپ نے نریندر مودی سرکار کی جانب سے مقبوضہ کشمیر
میں خوف و ہراس کا ماحول پیدا کرنے کی کوششوں پر گہری تشویش کا اظہار کیا
ہے۔کانگریس کے جموں و کشمیر پالیسی پلاننگ گروپ کا اجلاس سابق وزیراعظم من
موہن سنگھ کی صدارت میں ہوا۔ اجلاس میں کہا گیا کہ وزارت داخلہ اور مقبوضہ
کشمیر حکومت کے اقدامات کے بارے میں رپورٹس انتہائی تشویش ناک ہیں جو حکومت
کے ارادوں سے متعلق بےچینی و خدشات پیدا کررہی ہیں۔اجلاس میں کہا گیا کہ
مقبوضہ وادی میں بڑی تعداد میں سیکورٹی فورسز کی تعیناتی، سری امرناتھ
یاترا کے لیے جانے والوں کی تعداد میں کمی اور سیاحوں، یاتریوں اور دیگر
شہریوں کے لیے غیر ضروری ہدایات کی وجہ سے انتہائی عدم تحفظ اور خوف کا
ماحول پیدا ہورہا ہے۔جموں و کشمیر پالیسی پلاننگ گروپ نے حکومت پر زور دیا
کہ وہ کوئی ایسا فیصلہ نہ کرے جس سے بحران پیچیدہ ہوجائے۔ گذشتہ کئی ہفتوں
سے مقبوضہ کشمیر میں کسی بڑی کارروائی کی اطلاعات ہیں اور یہی وجہ ہے کہ
کشمیری خوف و ہراس کی گرفت میں ہیں۔ اگرچہ کٹھ پُتلی حکومت کا کہنا ہے کہ
سب ٹھیک ٹھاک ہے لیکن حکومتی سطح پر بعض اعلانات اور فوجی نقل و حمل مزید
افواہوں کا باعث بن رہی ہیں۔ گزشتہ روز مقبوضہکشمیر میں تعینات بھارتی فوج
کی 15ویں کور کے کمانڈر لیفٹنٹ جنرل جے ایس ڈھلون، کشمیر پولیس کے ڈائریکٹر
جنرل دلباغ سنگھ اور سی آر پی ایف کے اے ڈی جی ذوالفقار حسن نے مشترکہ پریس
کانفرنس میں ان اطلاعات کی تردید کی ہے لیکن اس پریس کانفرنس کے فوراً بعد
داخلہ کے پرنسپل سیکرٹری شیلین کابرا نے ایک حکم نامہ جاری کیا جس میں
امرناتھ یاترا کے لیے آئے یاتریوں اور سیاحوں کو فوراً وادی چھوڑنے کے لئے
کہا گیا ہے۔حکم نامے میں کہا گیا ہے ’موجودہ سکیورٹی صورتحال کو دیکھتے
ہوئے یاتریوں اور سیاحوں سے کہا جاتا ہے کہ وہ وادی میں اپنا قیام مختصر کر
کے فوراً واپس لوٹ جائیں۔‘ حالانکہ ڈی جی پولیس دلباغ سنگھ نے بتایا کہ
اضافی فورسز کی تعیناتی ایک معمول کا عمل ہے جسے میڈیا میں مبالغہ آمیز
اعداد و شمار کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے تاہم اصرار کے باوجود انھوں نے یہ
نہیں بتایا کہ کتنی اضافی فورسز کو تعینات کیا جا رہا ہے۔ گذشتہ ہفتے سوشل
میڈیا پر چلنے والی اطلاعات کے مطابق مقبوضہ کشمیر کی بھارتی آئین میں
خصوصی پوزیشن کو ختم کیا جائے گا اور ممکنہ عوامی ردعمل کو روکنے کے لئے
فورسز کو تعینات کیا گیا ہے۔ تاہم بعد میں مقبوضہ جموں کشمیر کے گور نر نے
کہا کہ آئین کی دفعہ 35-کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہیں ہو گی۔دوسری جانب یہ بھی
اطلاعات ہیں کہ بھارتی حکومت نے مقبوضہ جموں کشمیر میں ہندو اکثریت والے
علاقوں کو علیحدہ ریاست جبکہ کشمیر اور لداخ کو مرکز کے زیرِ انتظام خطے
قرار دینے کا فیصلہ کیا ہے اور اس فیصلے کے ردعمل کو روکنے کے لئے ہفتے کے
روز سے کرفیو نافذ ہو گا لیکن ڈی جی جموں کشمیر پولیس دلباغ سنگھ نے ان
خبروں کی بھی تردید کی۔ اس حوالے سے قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت کے
آئین کے مطابق حکومت کسی بھی ریاست کی جغرافیائی حدود یا نام مقامی قانون
سازوں کی رضامندی کے بغیر تبدیل نہیں کر سکتی۔ واضح رہے بھارت نواز سیاسی
جماعتیں، حریت قیادت اور سول سوسائٹی بھی طویل عرصے سے کہتے آ رہے ہیں کہ
ایسا کچھ بھی ہوا تو کشمیر میں حالات خراب ہو جائیں گے۔ ضرورت اس امر کی ہے
کہ اقوام متحدہ بھارتی فوج کو فوری مقبوضہ علاقوں سے نکلنے کا حکم جاری
کرکے اپنی امن فوج تعینات کرئے ورنہ بھارت کشمیریوں کی نسل کشی تو سالوں سے
کرتا آ رہا ہے اور اب کشمیری نسل کو ہی ختم کرنے کے گھناؤنے منصوے بنا کر
عمل کرنے کے لیے تیار ہے۔ بھارتی حکومت کسی صورت امن کی لیے تیار نظر نہیں
آ رہی، امریکی صدر کی جانب سے دو دفعہ ثالثی کی پیشکش ٹھکرانا واضح اعلان
ہے کہ مودی حکومت جنگی جنون میں مبتلا ہو کر خطے میں کسی صورت امن قائم
نہیں ہونے دے گی۔ بھارتی فوج بھی مقبوضہ وادی میں رہنے کے لیے تیار نہیں۔
دنیا بھر کی آسائشوں کے باوجود کشمیریوں پر مظالم کر کر کے بھارتی فوجی
نفسیاتی طور پر ختم ہو چکے ہیں۔ سال 2018 کے دوران 80 بھارتی فوجی اہلکاروں
نے خود کشی کی جبکہ بھارتی فضائیہ میں 16 اہلکاروں اور نیوی میں 8 اہلکاروں
نے خود کشی کی۔ جنوری 2007 سے اب تک مقبوضہ کشمیر میں خود کشی کرنے والے
بھارتی اہلکاروں کی تعداد 428 ہوگئی ہے. آنے والے دنوں کے دوران خطے میں
بڑی کشیدگی کا خدشہ ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی کہہ چکے ہیں کہ
بھارت مذاکرات کی طرف نہیں آئے گا تو حالات بگڑتے جائیں گے، کشمیر پر ہٹ
دھرمی بھارت کو مہنگی پڑ سکتی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں معاملات بگڑتے جا رہے
ہیں، آج اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کو مراسلہ ارسال کر رہا ہوں۔ ان کا
کہنا ہے بھارت کہتا ہے کہ مسئلہ کشمیر دو طرفہ معاملہ ہے لیکن بھارت مسئلہ
کشمیر پر دوطرفہ نشست کے لیے بھی تیار نہیں ہے۔ شاہ محمود قریشی کی جانب سے
دو ٹوک بیان کے بعد بھی بھارتی جنگی جنون خطے میں نئی جنگ چھیڑ دے گا۔
|