وادیٔ کشمیر میں جاری ظلم وستم نے شکارے توپہلے ہی ویران
کردیئے ہیں اوراب نئی ممکنہ افتادسےریڑھی ٹھیلے والے بھی پیٹ پرپتھرباندھ
کرمیدان کارزارمیں کودنے کیلئے کمربستہ ہوگئے ہیں کہ اب فیصلے کی گھڑی ہے
اوروہ جان گئے ہیں گھرمیں چپکے سے دبک کربیٹھ جانے سے کیاموت ٹل جائے
گی؟گزشتہ سات دہائیوں میں ان کی تیسری نسل جوان ہوگئی ہے لیکن ان کے عزم و
استقلال میں دن بدن اضافہ ہوتاجارہاہے۔ برہانی شہیدکے بعدہرنوجوان اللہ کی
برہان بن گیاہے۔ پاکستان اب بھی ان کی آنکھوں اوردل میں بسا ہوا ہے۔
کوہساروں،جنگلوں،شہروں اورگلی کوچوں میں پاکستان کے بقاء کی جنگ لڑرہے ہیں
۔سیدعلی گیلانی نے بھی امت مسلمہ کے نام ایک "ایس اوایس"جاری کرکے متنبہ
کردیاہے کہ انہیں خبرہوکہ ان کے پہلومیں کیاقیامت ڈھائی جارہی ہے اورمقبوضہ
کشمیر کے مجبورومقہورباسیوں کے دلوں میں ایسے آتش فشاں پھوٹ پڑے ہیں جوسب
کچھ جلاکرخاکسترکردیں گے۔امت مسلمہ کی کشمیرکی موجودہ تحریک آزادی سے
لاتعلقی اورغفلت کی مہر نے
ان کے دلوں کی حرارت سلب کررکھی ہے۔
ہماری بدنصیبی یہ ہے کہ حکمران ٹولے کوتویہ فکرکھائے جارہی ہے کہ کس طرح
اپنے حریفوں کوٹھکانے لگایاجائے۔انہیں اس بات کی کوئی فکرنہیں کہ کشمیرجل
رہاہے اوراس کے چنار اپنی سلامتی کی دہائی دے رہے ہیں،خوبصورت کوہساروں نے
آگ اگلناشروع کردی ہے اوراس سے اٹھنے والے شعلے آسمان سے باتیں کررہے
ہیں۔مکارہندونے جس ڈرامائی اندازمیں اپنی تازہ دم افواج کوکشمیرمیں
اتارناشروع کردیاہے اورتمام غیرملکی سیاحوں اورامرناتھ یاترکے لاکھوں
ہندویاتریوں کوفوری کشمیرسے نکل جانے کاکہاہے،وہ کسی نئی قیامت کی خبردے
رہے ہیں۔ ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش پرہی اپنی فتح کے شادیانے بجائے جارہے ہیں
جبکہ انہیں معلوم ہوناچاہئے کہ قصرسفیدافغانستان میں اپنی ہزیمت ورسوائی سے
بچنے کیلئے کشمیرکے نام پرایک نئی لالی پاپ کی پیشکش سے اپناکام
چلارہاہے۔ہم نے تابعداری کااظہارکرتے ہوئے پھرآٹھویں مرتبہ افغان طالبان
کومذاکرات کی میزپربٹھادیاہے ۔ ادھرمکاربرہمن نے اب سرحدوں پرکلسٹربموں کی
بارش شروع کررکھی ہے جس کواقوام عالم نے ایک بہیمانہ جرم قراردے رکھاہے۔
عالمی پریس بھلا کیونکران مظلوم کشمیریوں پرہونے والے مظالم سے دنیاکوآگاہ
کرے گا؟وہ توامن کا ڈھول پیٹ رہے ہیں اورمقبوضہ کشمیرکی انتہائی کشیدہ
اوردھماکہ خیز صورتحال میں بھی ان کی امن کی سواری بگٹٹ بھاگی جارہی ہے!
غیرملکی میڈیا نےبھارتی وزیرِ خارجہ سے جب کشمیر کی اس سلگتی صورتحال کے
بارے میں پوچھا تو انہوں نے انتہائی ناپسندیدگی سے اس کواپنا داخلی معاملہ
قراردیتے ہوئے کہا کہ مسئلہ کشمیر اب فریز ہوچکاتاہم مناسب وقت پرباہمی
تجارت کے حوالے سے بات ہوسکتی ہے۔قابض بھارتی فوج کے خلاف مزاحمت کرنے والے
مجاہدین کودہشتگردقراردیتے ہوئے پاکستان کی دہشتگردی کاروناشروع کردیاجبکہ
چندہفتے قبل پاکستان نے توانہیں اقوام عالم کے ادارے میں ممبر بننے میں ووٹ
دیکراپنی غیرمشروط حمائت کااظہاربھی کردیاہے جبکہ کوہساروں کی اگلتی آگ
اورجلتے چناروں نے اب ایک مرتبہ پھرساری دنیاکومتوجہ کیاہے کہ کشمیر کاآتش
فشاں دنیاکے امن کوراکھ کاڈھیر بناسکتاہے۔
پہلی دفعہ نہتے کشمیری بغیرکسی قائد کے اپنی اس عوامی تحریک کی قیادت کررہے
ہیں۔وہ جانتے ہیں کہ ان کاقائدنہ کبھی جھکاہے اورنہ ہی کوئی اسے خرید
سکاہے۔وہ ہرحال میں اپنے قائدکے فرمان کی تعمیل میں کشمیر کی آزادی کیلئے
میدانِ کارزارمیں اپنی جانوں کانذرانہ لئے حاضرہو گئے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ نہ
تو کرفیوان کاکچھ بگاڑسکاہے اورنہ ہی گولیوں کی بوچھاڑان کوخوفزدہ کرسکی
ہے۔اس صورتحال نے بھارتی سورماؤں کوخوفزدہ کردیاہے اوربھارتی ایوانوں میں
ایک دفعہ پھرایک زلزلہ طاری ہے۔اپنے مادرِوطن کی آزادی کیلئے مسلح مزاحمت
کرنے والوں نے اس سیاسی تحریک کی مکمل حمائت کرتے ہوئے خودکو عارضی طور پر
غیرفعال کردیاتھا۔مجاہدین نے ہتھیارتونہیں رکھے اورنہ ہی مسلح مزاحمت ترک
کرنے کااعلان کیاتھالیکن سیدعلی گیلانی کی قیادت کو تسلیم کرتے ہوئے اس
سیاسی تحریک کواپنی جانب سے مکمل اخلاقی تائیدفراہم کی تھی لیکن بدلتے
حالات ان کوفیصلہ تبدیل کرنے کی ترغیب دے رہے ہیں۔
مجاہدین ِ آزادی کا یہ بہت ہی دانشمندانہ اوربروقت فیصلہ تھاکیونکہ وہ
سمجھتے تھے کہ مجاہدین کی مسلح جدوجہدکی بجائے اب پورے مقبوضہ کشمیر میں
عوام کی اس سیاسی تحریک کوغلبہ حاصل ہوگیا ہے جس کی وجہ سے بھارتی
استعمارنے یادرہے کہ آج سے چندبرس قبل گھبرا کربرطانیہ اورامریکا کو اپنی
مدد کیلئے بلایا تھاکہ وہ کسی طرح اس تحریک کوسرد کرنے میں ان کا ہاتھ
بٹائیں جس کے بعدان دونوں ملکوں کے سفیر حریت کانفرنس کے قائدین سے ملاقات
کرکے ان کو بھارتی حکومت کے ساتھ بات چیت پر آمادہ کرنےکی کوشش بھی کی
تھی۔ان کی خواہش تھی کہ کسی نہ کسی طریقے سے حریت کانفرنس کے قائدین
کوبھارت کے ساتھ مذاکرات کی میزپربٹھا کربات چیت میں الجھا دیاجائے اوراسی
دوران کشمیری عوامی تحریک کا"ٹمپو"ختم کرکے اس تحریک کوناکام بنا دیاجائے
تاکہ بھارت کو ایک دفعہ پھر تازہ دم ہو کر کشمیر پر اپنا جبری قبضہ مزید
مضبوط کرنے کاموقع مل جائے اورکشمیریوں کوایک دفعہ پھرآزادی سے کوسوں
دورکردیا جائے!مزیدپڑھنے کیلئے لنک پرکلک کریں:
یاد رہے اس پہلے بھی 1948ء میں برطانوی وزیراعظم کلیمنٹ اٹیلی(26جولائی
1945ء تا26اکتوبر1951ء)نے جواہر لال نہرو کی دولتِ مشترکہ سے نکلنے اور
روسی کیمپ میں جانے کی دھمکی پرفوری طورپرلارڈماؤنٹ بیٹن کویہ ذمہ داری
سونپی کہ ہرحال میں پاکستان کے کشمیرپر ممکنہ حملے کےیقینی قبضے کوختم
کرانے کیلئے فوری اقدام کئے جائیں جس کے نتیجے میں انہوں نے اس وقت کے
پاکستانی وزیرِخارجہ سرظفراللہ کوٹیلیفون پربرطانوی وزیراعظم کا کشمیرپر
حملے کی منسوخی کاذاتی پیغام پہنچایااورساتھ ہی اس بات کایقین بھی دلایا کہ
نہرونے کشمیری عوام کوحقِ رائے دہی کایقین بھی دلایاہے۔اس وقت کے پاکستانی
وزیراعظم لیاقت علی سوئے ہوئے تھے،ان کوجگاکرچوہدری ظفراللہ نے طانوی
وزیراعظم کی اس خواہش سے نہ صرف مطلع کیابلکہ اس کو قبول کرنے پراصرار بھی
کیا۔اس واقعے کی گواہی امت مسلمہ کی ایک مشہورجانی پہچانی شخصیت محمد اسدجن
کی علمی اورفکری میدان میں گراں قدرخدمات اورپاکستان کے قیام اور تعمیر میں
نمایاں خدمات سے ساری دنیاواقف ہے،اپنی کتاب میں"ہم نے کشمیرکیسے کھویا"کے
باب میں لکھاہے:
"ہندوستان کے برطانوی حکمران،تحریک احمدیت کوبڑی پسندیدگی کی نظرسے دیکھتے
تھے کیونکہ مرزاغلام احمد قادیانی نے اپنے پیرکاروں کو ہمیشہ برسرِ
اقتداراسلامی یاغیراسلامی حکومت کی اطاعت اورفرمانبرداری کی سخت
تاکیدکررکھی تھی،یہی وجہ تھی کہ برطانوی حکومت کے مقتدراصحاب،جماعتِ احمدیہ
کے اراکین کی ہرطرح سے حمائت کرتے تھے۔سرظفراللہ بھی ایک بااثر شخص
تھااورغلام احمد قادیانی سے گہری عقیدت رکھتاتھا،اس لئے وہ تمام
عمرانگریزوں سے زیادہ برطانیہ کے خدمت گزاررہا........."آگے چل کرفرماتے
ہیں"یہی سوچ کروہ پاکستانی افواج کو پونچھ سے ہٹا کر بین الاقوامی سرحد پر
بھجوانے میں کامیاب ہوگیا۔یہ خطرہ ٹلتے ہی نہرو فوری استصواب رائے کرانے کے
وعدے سے منحرف ہوگیا .......یہ اتنابڑاقومی المیہ تھاکہ جس کی تلافی نہیں
ہوسکتی تھی۔پونچھ میں ہندوستانی افواج نے خودکومحفوظ کرلیاجبکہ پاکستان نے
ایک نادرموقع کھودیاجوقوموں کی زندگی میں کبھی کبھارآتاہے۔"
"لیاقت علی خان کاحکم نامہ پونچھ کے گردونواح محاذِجنگ پرتعینات پاکستانی
فوجیوں پربم بن کرگرا۔جب انہیں علم ہواکہ حملہ منسوخ کردیا گیا ہے،تو وہاں
موجودبہت سے افسراورجوان پھوٹ پھوٹ کررونے لگے۔کشمیر کو ہندوؤں کے تسلط سے
آزاد کرانے اوراسے پاکستان کاحصہ بنانے کاانہوں نے جوخواب دیکھاتھا،وہ
چکناچورہوگیا......اس صدمے کے بعد میجرجنرل حمید نے خودکوہیڈکوارٹرمیں
بندکرلیا......اس کے بعدوہ فوج سے مستعفی ہو گئے"۔
"پھر 1962ءمیں جب بھارتی فوج چین کی سرحدوں پرالجھی ہوئی تھی اورچینی
لیڈروں نے جنرل ایوب خان کومشورہ دیاتھا کہ وہ فوجی کاروائی کرکے
کشمیرکوبھارت کے قبضے سے چھڑالیں تو اس وقت بھی امریکی وبرطانوی حکام
کاپاکستان میں تانتابندھ گیاتھا،انہوں نے جنرل ایوب خاں کوٹریپ کرلیااوروہ
کوئی فیصلہ کن قدم اٹھانے سے گریزاں رہے۔مشہورِزمانہ بھٹوسورن سنگھ مذاکرات
اسی زمانے میں ہوئے۔جونہی بھارت کے تعلقات میں بہتری پیداہوئی، نہرونے
مذاکرات ختم کرنے کااشارہ دے دیا۔"(ماخوذ:محمد اسد،بندہ صحرائی خودنوشت
سوانح عمر۔ مرتب: پولااسد،محمداکرام چغتائی،ناشر:دی ٹروتھ
سوسائٹی،2اے،81گلبرگ3لاہور)علامہ محمداسد کی خودنوشت پڑھ کرمحسوس ہوتاہے کہ
ہمارے قومی مجرم کون ہیں۔
لیکن یادرکھیں جوقومیں اپنی تاریخ سے اغماض برتتی ہیں ان کاجغرافیہ تبدیل
ہونے میں کوئی دیرنہیں لگتی۔سیدعلی گیلانی جیسامردِمجاہدشروع دن سے ہندو
استعمارکی تمام چالوں کو ناکام بنایاچکا ہے اوروہ برطانیہ اورامریکا کی
کشمیردوستی کوبھی خوب سمجھتے ہیں۔پچھلے کئی برسوں سے پاکستانی موقع پرست
قیادت بھی ان کے مؤقف میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں کرسکی۔یادرہے جب اس ملک کے
ناجائزحکمران کمانڈوفاسق جنرل پرویز مشرف نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو
پس ِ پشت ڈالتے ہوئے مسئلہ کشمیرپریوٹرن لیاتھاتوسب سے پہلے اس اولوالعزم
بوڑھے قائدنے سینہ تان کرمشرف کونہ صرف کھری کھری سنائیں تھیں بلکہ اس کے
ساتھ ہاتھ ملانے سے بھی انکارکردیاتھاحالانکہ پاکستان سے ان کی محبت کامیں
خود گواہ ہوں کہ انہوں نے پاکستان کی سرزمین کو حرمین کے بعدجانا اور
ماناہے۔اب ضرورت اس بات کی ہے کہ سب سے پہلے پاکستانی عوام کوکشمیریوں سے
یکجہتی کااظہارکرتے ہوئے موجودہ حکمرانوں اورپاکستانی پریس کواس طرف متوجہ
کرناہوگاکہ کشمیری لاوارث نہیں ہیں اورہم ہرحال میں کشمیریوں کے ساتھ ہیں
پھراس کے بعدہی عالمی طاقتوں کواس طرف راغب کرناہوگا کہ اس خطے سے
دنیاکاامن منسلک ہے اورہمیں اپنی اس ذمہ داری کااحساس کرتے ہوئے کشمیریوں
سے یکجہتی کااظہارفوری کرناہوگا۔ مجھے یقین ہے وزیر اعظم عمران خان بھی
تاریخ کے ان قومی مجروں کے جرائم سے واقف ہوں گے اورمجھے یقین ہے کہ عمران
خان تاریخ میں قومی مجرموں کی اس فہرست میں اپنانام لکھواناقطعاً پسندنہیں
کریں گے! |