پاکستان کا قومی ترانہ اس کا پسِ منظر، معنی ومفہوم اور وضاحت: چوتھی قسط

شاعر کا مدعا یہ ہے کہ جن عزائم کی بدولت ہم ایک آزاد ملک حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔اس وطن کی بقا اور سلامتی کے لیے بھی ہمارے اندر عزمِ صمیم کا ہوناضروری ہے تاکہ دنیا کو معلوم ہو سکے کہ پاکستان ایک زندہ قوم کے بلند ارادوں کی نشانی ہے،یہ ارضِ پاک ہے اس لیے ہم پر لازم ہے ہم اپنے وطنِ عزیز کی شان وشوکت اور عزت وعظمت کی سر بلندی کے لیے ہرلحظہ کوشاں رہیں اور یہ عزم استقلال ہی کی بدولت ممکن ہے۔

آخری مصرعے میں پاکستان کے لیے دعا کرتے ہوئے شاعر کہتا ہے کہ اے ہمارے اعتماد کے مرکز تو سدا آباد اور خوشیوں سے معمور رہے۔ اس بند کے آخری مصرے میں گویاحفیظ نے پاکستان کو یقین کے مرکز سے تعبیر کیا ہے۔

”یقین“وہ صفت ہے جس کو مذہبی اصطلاح میں ایمان کہتے ہیں۔ یقین ہی سے وہ جذبہ اور شاہانہ شوکت پیدا ہوتی ہے جس سے مادی دنیا کی تسخیر ممکن ہے۔ شاعر کہنا چاہتا ہے کہ ارضِ پاک کا وجود برِ صغیر کے مسلمانوں کے یقین کا محور ہے۔کیونکہ تاریخِ پاکستان اس بات کی گواہ ہے کہ مسلمانوں کو اس بات پر پورا بھروسا تھا اور ان کااعتقاد تھا کہ جس ملک کے حصول کے لیے وہ سر پر کفن باندھ کر چلے ہیں، اسے حاصل کرنے میں ضرور کامیاب ہوں گے۔یقین،عمل کے قدم کی پہلی سیڑھی ہے جو منزلِ مقصود پر پہنچاتی ہے۔حکیم لامت حضرت علامہ اقبالؒ کے الفاظ میں اس کی وضاحت کچھ اس طرح سے ہوتی ہے:
؎ یقیں محکم، عمل پیہم، محبت فاتح عالم
جہادِ زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں
اور
؎ یقیں پیدا کر اے ناداں! یقیں سے ہاتھ آتی ہے
و ہ درویشی، کہ جس کے سامنے جھکتی ہے فغفوری
گویا پاکستان مسلمانوں کے یقین یعنی ایمان کا حصہ ہے اور مسلمانوں کا ایمان کیا ہے؟وہ یہ کہ اللہ وحدہ لاشریک کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔

حفیظ کہتے ہیں کہ اے ارضِ پاک! تو ایسے یقین کی بدولت معرضِ وجود میں آئی ہے جسے کبھی زوال نہیں آسکتا۔بقول احمد ندیم قاسمی:
خدا کرے کہ مری ارضِ پاک پر اترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشہء زوال نہ ہو
یہاں جو پھو ل کھلے، وہ کھلا رہے صدیوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو


یہاں جو سبزہ اگے، وہ ہمیشہ سبز رہے
اور ایسا سبز کہ جس کی کوئی مثال نہ ہو
گھنی گھٹائیں یہاں ایسی بارشیں برسائیں
کہ پتھروں سے بھی روئیدگی محال نہ ہو

خدا کرے کہ نہ خم ہو سر وقار وطن
اور اس کے حسن کو تشویشِ مہ وسال نہ ہو
ہر ایک فرد ہو تہذیب و فن کا اوجِ کمال
کوئی ملول نہ ہو، کوئی خستہ حال نہ ہو

خدا کرے کہ میرے ایک بھی ہم وطن کے لیے
حیات جرم نہ ہو، زندگی وبال نہ ہو
خدا کرے کہ میری ارضِ پاک پر اترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشہء زوال نہ ہو
Transliteration
Khuda kare ke meri arz-e-paak par utray
Woh fasl-e-gul jise andeisha e zawaal na ho
Yahan jo phool khiley, woh khila rahey sadiyon
Yahan khizaan ko guzarnay ki bhi majaal na ho

Yahan jo sabza ugay woh hamesha sabz rahey
Aur aisa sabz ke jis ki koi misaal na ho
Ghani ghataein yahan aisi barshein barsaein
ke pathroon se bhi roeedgi mohaal na ho

Khuda kare ke na khum ho sar-e-waqar-e-watan
Aur uske husn ko tashveesh e mah o saal na ho
Har ek fard ho tehzeeb-o-fun ka auj e kamaal
Koi malool na ho, koi khasta haal na ho

Khuda kare ke mere ek bhi humwatan ke liye,
Hayat jurm na ho zindagi wabaal na ho
Khuda kare ke meri arz-e-paak par utray
Woh fasl-e-gul jise andeisha e zawaal na ho
Translation
May God descend upon my holy homeland
the kind of spring season that fear not fall
Here the flower, they feed centuries
Do not even dare to fall here to
May the spring keep all the gardens ever green
And that green which of its kind unique...
Dark clouds sprinkle such a good rain that
Greenery do not have toil to come out of rocks

May the dignity of my country be preserved
and its beauty may not be altered through Months and years
Each individual acme of art and civilization
No one in my country may feel dilapidated

O God, For any of my fellow countrymen
Life may not be a crime to be evil life!
May God descend upon my holy homeland
the kind of spring season that fear not fall
قومی ترانے کے دوسرے بند میں شاعر نے ملک، قوم اور سلطنت کے لیے دعا مانگی ہے کہ اے ارضِ پاک! تو عوام کی طاقت، محبت اور بھائی چارے کی منہ بولتی تصویر ہے۔یعنی تیرا حصول تب ہی ممکن ہوا جب مسلمانوں نے متحد ہوکر اور اللہ کے حکم سے نعرہئ تکبیر بلند کیا۔گویا اسلام ہی وہ طاقت ہے جس کے نام پر تجھے حاصل کیا گیا اور اے وطن! یہی طاقت تجھے رہتی دنیا تک دوام عطا کرسکتی ہے۔میرے وطن تیرے اندر بسنے والی قوم، ایک زندہ قوم ہے جس نے اپنے عظیم مقاصد کے حصول کے لیے تجھے حاصل کیا۔اے میرے پیارے دیس تو اس قوم کے لیے خوشیوں کا گہوارہ بنا رہے۔تو ہر میدان میں ترقی کرے۔نیز میرے وطن کی حکومت ایسے لوگوں کے ہاتھ میں رہے جو وطن کے سچے خیرخواہ ہوں اور ہمیشہ اس کی بھلائی چاہنے والے ہوں۔گویا وہ حکمران نہ ہوں بلکہ قوم کے خادم ہوں۔اے میرے وطن تو آباد اور شاد رہے۔تو ہمیشہ قائم ودائم رہے اور جس مقصد کے لیے تجھے حاصل کیا گیا ہے وہ پورا ہو۔گویا اس بند کے پہلے مصرعے میں شاعر نے عوام کی طاقت(وہ قوت جو اتحاد سے پیدا ہو) اتحاد اور بھائی چارے کی فضا کو ملکی نظام کی اساس قرار دیا ہے۔

Syeda F GILANI
About the Author: Syeda F GILANI Read More Articles by Syeda F GILANI: 38 Articles with 63378 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.