اُمید، ایک جگنو کی روشنی

اُمید ایک ایسا جذبہ ہے جو انسان کو مشکل وقت میں ہارنے نہیں دیتا۔
مایوسی زندگی کو اندھیرے میں دھکیل دیتی ہے، جبکہ اُمید روشنی کی کرن بنتی ہے۔
مثبت سوچ اور اللہ پر بھروسا ہر پریشانی کو آسان بنا سکتا ہے۔
زندگی کو بہتر بنانے کے لیے اُمید کا دامن کبھی نہیں چھوڑنا چاہیے۔

اُمید، ایک جگنو کی روشنی
ہم سب نے اپنی زندگی میں ایک نہ ایک بار کسی نہ کسی سے یہ لازمی سنا ہوگا کہ "نااُمیدی کُفر ہے"۔
مگر زندگی میں ایسے بہت مواقع آتے ہیں، بہت مشکلات
پریشانیاں آتی ہیں جب ہم یہ بھول جاتے ہیں اور مایوس ہو جاتے ہیں۔ اُمید کا دامن چھوڑ دیتے ہیں۔

اگر ہم اپنی زندگی میں ماضی کے کچھ صفحات کو کھول کر دیکھیں تو ہمیں یہ چیز واضح نظر آتی ہے کہ ہمارے گزشتہ حالات میں ہمارے اوپر بہت سی مشکلات، پریشانیاں آئیں، اور کیا ہم تب بھی مثبت رہے؟
ایسا شاید 50 میں سے ایک انسان ہی کہہ سکتا ہے کہ میرے اوپر پریشانی آئی اور میں نے اُس پر اُمید نہیں ہاری ،میں نے اُس پر مثبت سوچ رکھی، کوئی ٹینشن نہیں لی۔

پریشانیاں اور مصیبتیں زندگی کا فطری عمل ہیں۔اور پریشان ہونا بُرا نہیں ہے۔مگر اُس پریشانی کے ساتھ ٹھہرے رہنا بُرا ہے۔

اُس کی وجہ سے نااُمیدی کا دامن تھامنا غلط ہے۔خود کو ناکارہ سمجھنا اور کبھی اُس سے باہر نہ آنا خود کو تباہ کرنے کے ہی مترادف ہوتا ہے۔ مایوسی ایک ایسا اندھیرا ہے جو انسان کی زندگی سے روشنی، امید اور خوشی کو چھین لیتا ہے۔ جب انسان کسی مشکل، ناکامی یا دکھ کا سامنا کرتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ اب کچھ بھی بہتر نہیں ہو سکتا، تو یہی کیفیت مایوسی کہلاتی ہے۔ مایوسی انسان کو تنہا کر دیتی ہے، اس کے دل و دماغ کو کمزور کرتی ہے، اور وہ اپنی صلاحیتوں پر یقین کھو بیٹھتا ہے۔ کوئی بھی چیز اتنی مشکل ہوتی نہیں ہے جتنی ہم اُسے بنا دیتے ہیں۔
مصیبتیں، پریشانیاں زندگی کا حصہ ہیں اور فرق اس چیز سے پڑتا ہے کہ ہم اُسے کیسے ڈیل کرتے ہیں۔

اس کی مثال میں آپ کو اس طریقے سے دیتی ہوں کہ
دو افراد کی نوکری ختم ہو گئی۔
ایک نے ہمت نہ ہاری، مثبت سوچ رکھی، سیکھنے کی کوشش کی اور نئی نوکری تلاش کرنا شروع کی۔ کچھ وقت بعد اسے اچھی نوکری مل گئی اور زندگی بہتر ہو گئی۔
دوسرے نے ہر وقت شکایت کی، قسمت کو کوسا، کسی سے بات نہ کی اور مایوسی میں ڈوبا رہا۔ وقت گزرنے کے ساتھ وہ مشکل میں پڑ گیا۔

اس چیز سے آپ اندازہ لگائیں کہ مثبت سوچ اور خود اعتمادی ہمارے لیے کس قدر ضروری ہے۔
منفی سوچ اور مایوسی صرف ہمارے لیے نقصان کا باعث بنتی ہے اور ہماری مشکلات بڑھاتی ہے۔
وہی energy جو ہم overthinking میں لگاتے، وہی اگر ہم کہیں اور مثبت طریقے سے استعمال کریں تو کہاں سے کہاں پہنچ سکتے ہیں...
پریشانیوں کا سامنا کرنے کے لیے کئی چیزیں ضروری ہیں، مگر ان میں کچھ چیزیں جو ہم نے لازمی کرنی ہیں وہ صبر شکر اور سب سے بڑھ کر اُمید ہے ـ
اگر انسان اللہ پر بھروسا رکھے، صبر کرے اور خود پر یقین بحال کرے تو کوئی بھی پریشانی زیادہ دیر اس کا راستہ نہیں روک سکتی۔ ہر رات کے بعد سویرا ہوتا ہے، اور ہر دکھ کے بعد راحت آتی ہے۔ اس لیے مایوسی سے بچنا اور امید کا دامن تھامے رکھنا کامیاب زندگی کے لیے ضروری ہے۔

اُمید، یہ کہنے میں تو چھوٹا سا لفظ ہے مگر اس کا معنی اگر ہم سمجھ لیں تو ہماری آدھی سے زیادہ زندگی آسان ہو جائے۔
اُمید، یہ ایک گھنے جنگل میں ایک چھوٹے سے جگمگاتے جگنو کی طرح ہوتی ہے۔ جو مشکل کے گہرے جنگل میں روشنی کی کرن بنتی ہے۔
اُمید، ایک سوکھی بنجر زمین میں بارش کی پہلی بوند کی طرح ہوتی ہے۔ تسکین بخش
یہ چھوٹا سا لفظ ہمیں کس قدر ہمت دیتا ہے اس کا اندازہ آپ اس نفسیاتی تجربے سے لگائیں کہ
ایک بار ایک امریکی سائنسدان یہ جاننا چاہتا تھا کہ چوہے پانی میں کتنی دیر تیر سکتے ہیں۔
اس نے کچھ چوہوں کو پانی سے بھری بالٹی میں ڈالا۔
چوہے تھوڑی دیر تیرتے رہے، لیکن جلد ہی تھک گئے۔
تقریباً 15 منٹ بعد، انہوں نے ہار مان لی اور ڈوب گئے۔
پھر سائنسدان نے ایک مختلف تجربہ کیا۔
اس نے نئے چوہوں کو پانی میں ڈالا۔
جب وہ ہار ماننے والے تھے، تو اس نے انہیں باہر نکال لیا۔
انہیں خشک کیا، تھوڑا آرام کرنے دیا، اور پھر دوبارہ پانی میں ڈال دیا۔

اس بار حیرت انگیز بات ہوئی۔
چوہے بہت دیر تک تیرتے رہے۔ گھنٹوں تک!
کیوں؟ کیونکہ ان کے دل میں اُمید تھی۔
انہیں یاد تھا کہ پہلے بچا لیا گیا تھا، اس لیے وہ دوبارہ بچنے کی اُمید میں تیرتے رہے۔
اس تجربہ میں یہ چوہے تو جان کی بازی ہار گئے مگر یہ تجربہ ہمیں ایک بہت بڑی سیکھ دے گیا۔
اس کہانی سے ہمیں جو سیکھنے کو ملتا ہے وہ یہی کہ اُمید پر دنیا قائم ہے۔
جب بھی انسان دل میں ایک اُمید کے ساتھ کام کرتا ہے، مشکلات کا مقابلہ کرتا ہے تو اُس کے کامیاب ہونے کی شرح ایک نااُمید اور شکوہ کرنے والے انسان سے کئی گنا زیادہ ہوتی ہے۔

پریشان ہونا ایک فطری عمل ہے، مگر صرف اتنا جان لینا کہ کوئی ذات ہے جو ہمارے ساتھ موجود ہے اور ہم پر مہربان ہے، تو چیزیں کافی آسان ہو جاتی ہیں۔

یہ بات ہمیشہ یاد رکھیں کہ اگر آپ کو پریشانیوں میں، آزمائش میں ڈالنے والی ذات اللہ ہے تو نکالنے والی ذات بھی بے شک وہی ہے ـ
تو اپنی ساری اُمیدیں اُس ذات سے وابستہ کریں اور خود کو معمول سے تھوڑا ہلکا کریں ۔
اور پھر دیکھیں، دیکھتے ہی دیکھتے سب کس طرح سلجھ جائے گا ۔

زندگی سب کو ایک بار ملتی ہے اور اِسے جینے کا آپ کو پورا حق ہے ۔
اسے یوں مشکلات میں اُلجھ کر خراب نہ کریں۔

آپ کی زندگی ایک کتاب کی طرح ہے اور آپ اس کے
لکھاری ہیں، تو یہ آپ پر ہے کہ آپ اپنی زندگی کی کتاب کیسی لکھنا چاہتے ہیں۔

اپنے آس پاس محسوس کریں، شکر کی عادت اپنائیں، مثبت سوچ اپنائیں ـ
روز دن کی شروعات ایک مسکراہٹ سے کریں اور اس اُمید کے ساتھ کہ سب ٹھیک ہوگا ۔
اور اگر آج کچھ بُرا ہو رہا ہے آپ کے ساتھ
تو ایک دن اچھا ضرور ہوگا کیونکہ
"آخر کار انجام ہمیشہ خوشگوار ہی ہوتا ہےـ"


(ماہ نور)

 

MAH NOOR
About the Author: MAH NOOR Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.