کیمیا گری: خواب سے تعبیر تک کا ایک کٹھن سفر
(Shams Ur Rahman Gharshin, Quetta)
کیمیا گری: خواب سے تعبیر تک کا ایک کٹھن سفر تحریر: شمس الرحمن غرشین ادب کی دنیا میں مقدار کی کوئی اہمیت نہیں رہی ہے، بلکہ معیار کی کسوٹی پر پورا اترنے والا ہر فن پارہ شہرت عام اور بقائے دوام سے ہم کنار ہو کر آفاقیت کے درجے پر فائز ہو جاتا ہے۔ ادبی تاریخ کی ورق دانی سے یہ بات سچ ثابت ہو جاتی ہے کہ بہت سے ادیب صرف ایک، دو یا چند شاہکار فن پاروں کی بدولت آب حیات کا مزہ چکھ کر ہمیشہ کےلئے ادبی دنیا میں امر ہوگئے ہیں۔ 1947 کو برازیل میں جنم لینے والے پاؤلو کوئیلو کی معرکتہ الاآرا تخلیق کیمیا گری (الکیمسٹ) کا شمار بھی متذکرہ خصوصیات کی بنا پر ان شاہکار فن پاروں میں ہوتا ہے جس کی بدولت کوئیلو کو ادبی دنیا میں دن دونی رات چوگنی شہرت حاصل ہوئی۔ جس کا اندازہ ہم اس جنس گراں مایہ کی 80 سے زیادہ زبانوں میں ترجمہ اور کروڑوں کی تعداد میں اشاعت سے بخوبی لگا سکتے ہیں۔ صنف ادب کے لحاظ سے ناول "کیمیا گری" اسپین سے تعلق رکھنے والے خوابوں کی دنیا میں غوطہ زن اور خزانے کی تلاش میں نکلنے والے مہم جو چرواہے سان تیاگو کی ایک کھٹن آمیز سفری داستان ہے۔ ایک دن سن تیاگو نے اپنے ریوڑ کے ساتھ ایک پرانے چرچ کے سامنے (جہاں انجیر کا درخت بھی ہے) شام ڈھلنے کی وجہ سے اسی جگہ پر رات بسر کرنے کا فیصلہ کیا۔ اپنی جیکٹ سے فرش صاف کرکے ضخیم کتاب کا تکیہ بنا کر لیٹ گیا، اور صبح صادق کے وقت اس نے ایک ادھورا خواب دیکھا: " چرواہا ایک چراگاہ میں اپنی بھیڑوں کے ساتھ ہے کہ ایک چھوٹا بچہ آتا ہے، بھیڑوں کے ساتھ کھیلنا شروع کر دیتا ہے، بچہ کافی دیر تک کھیلنے کے بعد اچانک چرواہے کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر زور سے اچھالنے پر اہرام مصر پر پھینک دیتا ہے۔ دریں اثنا بچہ چرواہے سے کہتا ہے کہ اگر تم یہاں آؤ تو تمھیں خزانہ مل سکتا ہے اور خزانے کی جگہ دکھانے پر چرواہے کی آنکھ کھل جاتی ہے۔" ناول کی کہانی کا تانا بانا چرواہے کے خواب اور اس کی تعبیر کے اردگرد بھنا گیا ہے کہ کس طرح ایک چرواہا اپنی قوت فیصلہ اور عزم مصمم سے کام لے کر مقصد کے حصول میں سرگرم عمل ہوتا ہے اور اپنے خواب کی تعبیر کے لیے اپنی جان جوکھم میں ڈال کر نہ صرف صحرا کی صعوبتیں جھیل لیتا ہے بلکہ افریقہ میں لٹیرے کے ہاتھوں زاد راہ سے ہاتھ دھو بیٹھنے کے باوجود کرسٹل کی دکان پر اپنی شبانہ روز محنت سے کافی دولت بھی سمیٹ لیتا ہے۔ صحرا میں مقیم فاطمہ کی محبت اور عارضی دولت بھی چرواہے کی نظریں خیرہ نہ کر سکیں، بلکہ اپنے مقصد پر برابر جمی رہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ عظیم مقصد کو پانے کے لیے ہر قسم کی قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔ خواہشات نفسانی کی رو میں بہنے اور عارضی چکا چوند کے بجائے طویل المدتی منصوبہ بندی کے لیے حالات سے سمجھوتا کرنا پڑتا ہے۔ اگر انسان کسی مقصد کے حصول کے لیے سعی مسلسل اور جان فشانی سے کام لے تو مصنف کے بقول اس مقصد کے حصول کے لیے کائنات کی ہر شے اس انسان کی مدد میں مصروف ہو جاتی ہے اور بالآخر انسان اپنے مقصد کو حاصل کرکے ہی دم لیتا ہے۔ انسانی زندگی میں کسی مقصد کا تعین اور اس کے حصول کے لیے جدوجہد ہی انسان اور جانور کے درمیان حد فاصل مقرر کرتی ہے۔ انسان کے برعکس، جانور کی زندگی کا مقصد صرف کھانا اور پینا ہی تو ہے۔ ناول کے مرکزی کردار سان تیاگو نے کبھی اپنے خواب کی تعبیر میں قنوطیت اور خوف کو رکاوٹ بننے نہیں دیا، بلکہ خود مشکلات کی بھٹی میں تپ کر وہ کندن بن گیا جس کے لیے کسی دوسرے کیمیا گر کی ملمع کاری کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ یعنی مقصد کے حصول کی لگن میں انھوں نے وہ سب کچھ سیکھا جس سے پہلے وہ یکسر لاعلم تھے۔ انھوں نے جیسے ہی خزانے کی تلاش میں صحرائے نوردی شروع کی تو بوڑھے بادشاہ، دکاندار، دختر صحرا (فاطمہ) اور عرب کیمیا گر نے خضر کی شکل میں ان کی بھرپور رہنمائی کی۔ سفر کے دوران میں چرواہے نے فطرت کے قوانین پر غور و فکر، صحرائی طرز زندگی سے واقفیت، محسوسات کا ادراک اور نشانیوں کی پہچان کے ساتھ ساتھ وہ عالم گیر زبان بھی سیکھ لی جو اظہار خیال کے لیے لفظوں کی محتاج نہ تھی۔ جسے دیگر الفاظ میں محبت کی زبان بھی کہتے ہیں۔ فاطمہ کی محبت اور خواب کی تعبیر کی لگن نے چرواہے کی صلاحیتوں کو ایسی جلا بخشی کہ بالآخر وہ اپنے مقصد کے حصول میں کامیاب ہو گئے۔ اہرام مصر پہنچ کر انھی نشانیوں کے طفیل یہ پتہ لگا کہ ان کا خزانہ اہرام مصر میں نہیں، بلکہ اسی جگہ دفن ہے جہاں متروک چرچ کے سامنے انجیر کے درخت کے نیچے انھوں نے خواب دیکھا تھا۔ خواب سے لے کر خزانے کی تلاش تک اس دائروی سفر کا مطلب صرف یہ تھا کہ مقصد کی تکمیل کے لیے محنت اور سفر شرط ہے۔ سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے ہزار ہا شجر سایہ دار راہ میں ہے تاہم اس بات میں کوئی کلام نہیں کہ دنیا میں کسی بھی کامیابی کی نمود خون جگر کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ بڑے بڑے خواب دیکھنے کے متمنی بےشمار لوگ ہیں، لیکن شرمندہ تعبیر صرف وہ خواب ہوتے ہیں جن کی آب یاری خون جگر سے ہوتی ہے۔ فی الحقیقت صاحب امروز وہی ہے جو دست یاب مواقع اور وسائل کو بروئے کار لا کر سعی مسلسل کے ذریعے اپنے خواب کو حقیقت کا روپ دھار کر حقیقی معنوں میں کیمیا گر بن جائے۔ مصنف کے بقول کیمیا گری صرف وہ وصف نہیں جو کسی دھات کو کندن میں بدل دے، بلکہ ہر وہ شخص جن کے ارادے ارفع اور عزم پختہ ہو، جس کی زندگی میں کوئی مقصد ہو، مقصد کو حاصل کرنے کی لگن ہو، خطرہ مول لینے کی صلاحیت ہو اور سب سے بڑھ کر جو کسی بھی قسم کے یاس و بیم سے بے نیاز ہو کر قوت ارادی اور محنت شاقہ سے کھٹن وقتوں کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کرکے اپنی حالت آپ بدلنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہو، وہ فی زمانہ کیمیاء گر ہے۔ فکری نقطہ نظر سے الکیمسٹ ناول کا شمار زندگی کے ٹھہرے پانیوں میں تموج پیدا کرنے والی کتابوں میں ہوتا ہے۔ اسی طرح فنی فنی نقطہ نظر سے بھی ناول جتنا جامع اور مختصر ہے، اتنی ہی گہری معنویت اور دلچسپی کا حامل بھی ہے۔ مصنف نے مرکب پلاٹ اور گنجلک کرداروں کے بجائے سادہ پلاٹ کا انتخاب کیا ہے اور محض چند مرکزی کرداروں کے ذریعے ہی کہانی کو اختتام تک پہنچایا ہے۔ ناول کے مکالموں میں نہ صرف فلسفیانہ چاشنی پائی جاتی ہے، بلکہ کچھ مکالمے تو صدیوں پر محیط تجربے اپنے دامن میں سموئے ہوئے ہیں۔ ناول میں عشق کی آمیزش قاری کو ایک نشست میں ناول پڑھنے پر آمادہ کرنے کے ساتھ ساتھ مسرت کا سامان بھی بہم پہنچاتی ہے۔ متذکرہ فنی خوبیوں پر مستزاد یہ کہ لفظی لحاظ سے ناول پڑھنے کی حد تک تو ختم ہو جاتا ہے، لیکن ساتھ ہی ساتھ قارئین کے اذہان پر گہرے نقوش اور وحدت تاثر چھوڑ کر دائمی نفسیاتی اور عملی سفر شروع کرتا ہے، جس سے انسانی سوچ کو وسعت اور محیر العقول کارنامے انجام دینے کی اہلیت ملتی ہے۔ یہی اس ناول کی کامیابی کا اصل راز ہے۔ |
|