ایک سرٹیفکیٹ کا سوال ہے بابا

سوال کیا جاتا ہے کہ ۔۔۔۔۔۔
اگر آپ کو شادی کے لئے ایسی لڑکی چاہیئے جو آتے ہی پورا گھر سنبھال لے ساس سسر کی خدمت کرے سب کا کھانا بنائے برتن مانجھے دیوروں کے کپڑے دھوئے اُن کے کمرے صاف کرے جھاڑو پونچھا کرے یعنی آپ کو بیوی کی نہیں کسی کام والی ماسی کی ضرورت ہے تو پھر ایسی لڑکی کا خوبصورت ہونا کیوں ضروری ہے؟
ہم تو کہتے ہیں کہ پھر اُس لڑکی کا پڑھا لکھا ہونا بھی ضروری نہیں ہے ۔
اور پھر سوال تو یہ بھی بنتا ہے اُن لوگوں سے ۔۔۔۔۔۔۔ جنہوں نے شادی کے کچھ ہی دنوں بعد بیرون ملک چلے جانا ہے بیوی کے ساتھ رہنا ہی نہیں ہے عملی زندگی گزارنی ہی نہیں ہے فطرت انسانی کی جس ضرورت کو جائز اور حلال طریقے سے پورا کرنے کے لئے دین میں نکاح کی جو اہمیت بتائی گئی ہے اُسے کسی خاطر میں ہی نہیں لانا ہے خود اپنے ذاتی کثیر جہتی اہداف کی تکمیل کے لئے پوری جوانی الگ تھلگ ہی رہ کر گزارنی ہے مگر رسم دنیا نبھانے کے لئے دو بول بھی ضرور پڑھوا لینے ہیں تو پھر لڑکی کا کنواری اور کم عمر ہونا کیوں ضروری ہے؟
آپ کے ارد گرد محلے پڑوس میں خاندان میں جاننے والوں میں کتنی ہی بیوائیں اور مطلقائیں ہوں گی جن کی کسی طرح دوسری شادی نہیں ہو رہی وہ اپنی زندگی سے بھر پائیں اب اُنہیں محض معاشی سماجی و تمدنی تحفظ درکار ہے جس کے لئے وہ اپنے سارے شرعی حقوق سے دستبردار ہونے کو تیار ہیں اور آپ کو بھی اپنے گھر والوں کے لئے ایک خدمتگار ہی کی ضرورت ہے تو پھر آپ اُن خواتین میں سے کسی کا انتخاب کیوں نہیں کرتے؟ اپنی شرطوں پر اُس سے شادی کریں اور واضح کریں کہ ہم دو چار سال بعد ایک آدھ بار چکر لگا لیں گے اور مرتے دم تک پردیس میں اپنا خون پسینہ ایک کر کے اپنے پورے خاندان کی کفالت جاری رکھیں گے اور آپ کو کسی اعتراض یا احتجاج کا حق نہیں ہو گا اور جب ہم بوڑھے بیمار اور لاچار ہو کر واپس آئیں گے تو ہماری خدمت اور دیکھ بھال بھی آپ ہی کا فرض ہو گا اُن کا نہیں جن کے لئے ہم آپ کے جیتے جی رنڈووں والی زندگی گزاریں گے ۔ سب بھائیوں بہنوئیوں کو گھر بنوا دیں گے اور خود اپنی آخری سانسیں کسی کرائے کے دڑبے میں لیں گے ۔ آپ کو کانچ کی چوڑیاں پہنا کر اپنی بہنوں بھابھیوں کو سونے کی چوڑیاں لے کر دیں گے ۔ بہن بھائیوں کے بچے مہنگے انگریزی اسکولوں میں پڑھیں گے مگر ہمارا اپنا بچہ گورنمنٹ اسکول میں پڑھے گا ۔ غرض ہماری ہماری پہلی ترجیح ہمارے والدین کی فیملی ہوگی نہ کہ ہماری اپنی اور یہ سب آپ کو ہمیشہ برداشت کرنا ہو گا ۔
آپ ایکبار آزما کر تو دیکھیں معاشرہ کیسے کیسے مجبوروں اور بےبسوں سے بھرا پڑا ہے کوئی بیوہ یا مطلقہ بھی خیر آپ جیسے عقل سے بےدخل قربانی کے بکرے کو ڈیزرو تو نہیں کرتی مگر کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہوتا ہے ۔ وہ سماج جہاں لڑکی پر شادی شدہ ہونے کا ٹھپہ لگ جانا ہی کافی سمجھا جاتا ہے ایک نام نہاد رشتہ تک معتبر ٹھہرتا ہے تو بہتر نہیں ہے کہ اُن لڑکیوں کی مدد کی جائے ثواب کمایا جائے جن کی شادی ہو کے ختم ہو چکی ہے اور سماجی ناہمواریوں کے سبب نکاح ثانی کا امکان مفقود ہے اور تمدنی وجوہات کی بناء پر وہ اپنے بنیادی حقوق سے محرومی سے بھی سمجھوتہ کرنے پر راضی ہو جائیں گی ۔ بجائے اس کے کہ آپ کسی جوان جہان کنواری لڑکی کو اپنی زندگی ہی میں بیوگی کا مزہ چکھائیں اُس کے ایمان کو امتحان میں ڈالیں تو اچھا نہیں ہے کہ کسی ایسی لڑکی کا انتخاب کریں جو تقدیر اور حالات کے تھپیڑے کھانے کے بعد جذبات سے بالاتر ہو چکی ہے اُس کی طبیعت میں ٹھہراؤ آ چکا ہے اور اب وہ زندگی کے تلخ حقائق سے سمجھوتہ کرنا جانتی ہے ۔ کوئی بھی بیوہ مطلقہ یا عمر رسیدہ کنواری شادی کے بغیر اپنے گھر میں سب کی خادمہ بنی ہوئی ہے اور کوئی عزت بھی نہیں ہے بھائی بھابھیوں کی نظر میں کھٹکتی ہے اُن پر بوجھ بنی ہوئی ہے اور ماں باپ کے دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد مزید دو کوڑی کی ہو جائے گی تو کیا ہرج ہے کہ وہ نکاح یافتہ ہو جائے ۔ آپ کے ساتھ برائے نام ہی سہی کچھ کوالٹی ٹائم تو گزار لے گی کچھ تو دنیا دیکھ لے گی اور آپ کا بھی جنازہ جائز ہو جائے گا ۔
بظاہر یہ صلاح بہت نامعقول معلوم ہو رہی ہے مگر یہ بھی تو ایک حقیقت ہے کہ بیشمار ایسی لڑکیاں جو باکرہ تھیں تعلیمیافتہ تھیں نوجوان تھیں سیرت و صورت میں یکتا تھیں مگر شادی کے بعد پوری جوانی سسرال والوں کے ساتھ اُن کی باندی بن کر شوہروں کی زندگی ہی میں بیواؤں کی طرح گزاری اور آج بھی ظلم کا یہ سلسلہ رکا نہیں ۔ برصغیری سماج اور مروجہ طرز خاندانی نظام کے باعث اس ظلم کا خاتمہ تقریباً ناممکن ہے مگر ایک اصلاح یہ لائی جا سکتی ہے کہ جو لوگ اپنی ذمہ داریوں کی وجہ سے منکوحہ کے بنیادی حقوق کماحقہ ادا کرنے سے قاصر ہیں تو ایسی خواتین کو قبول کریں جن کی پہلی شادی ختم ہو چکی ہے یا اُن کی عمر نکل رہی ہے اور اُنہیں معاشی و سماجی تحفظ درکار ہے ، لاکھوں کی تعداد میں ہیں ایسی ضرورتمند خواتین خود آپ کے خاندان برادری میں بھی ہوں گی اگر اُن کے بچے ہیں تو اُنہیں بھی قبول کریں ۔ آخر وہ بھی تو آپ کے بغیر رہ کر آپ کے خاندان کی خدمت کریں گی ۔ اور اس سارے بیانیے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ شادی ہی مقصد حیات ہے اور اس کے بغیر دنیا ختم ہو جاتی ہے جو لوگ اس رشتے کی نزاکتوں کو نہیں نبھا سکتے تو افضل تو یہی ہے کہ نکاح سے گریز کریں ۔ یہ صلاح اُنہی کے لئے ہے جنہیں اپنے لئے رفیق حیات نہیں بلکہ محض ایک سرٹیفکیٹ چاہیئے شادی شدہ ہونے کا ، تو کوئی جوان پڑھی لکھی خوبصورت کنواری لڑکی ہی کیوں؟ جب آپ نے زندگی کا سفر اسے ساتھ میں لے کر طے کرنا ہی نہیں ہے اپنی ازدواجی زندگی کی قیمت پر اپنے پورے پریوار کے بخت ہی سنوارنے ہیں تو اُس غریب کے نصیب پھوڑنا ضروری ہے؟ وہاں سہارا دیں جہاں پہلے ہی نصیب پھوٹ چکے اور اب صرف صبر اور سمجھوتہ ہی زندگی کا حصہ ہے ۔

✍🏻 رعنا تبسم پاشا

 

رعنا تبسم پاشا
About the Author: رعنا تبسم پاشا Read More Articles by رعنا تبسم پاشا: 270 Articles with 2039354 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.