شکیل اعوان کا ہندکو شعری مجموعہ چیندک۔
(Sohail Ahmad Sameem, Abbottabad)
جب گلیات کی صبح پہاڑوں کے شانوں پر اترتی ہے، اور دھوپ اپنی پہلی کرن دیودار کے پتوں پر رکھتی ہے، تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے فطرت نے اپنی بانہوں میں کسی بیتی ہوئی یاد کو بھر لیا ہو۔ ہواؤں میں ایک مٹھاس ہوتی ہے—اور یہی مٹھاس ہندکو کے پہاڑی لہجے میں چھپی ہوئی ہے، جو الفاظ سے نہیں، جذبات سے بولتی ہے۔ یہ وہی علاقہ ہے جہاں ہر چشمہ، ہر درخت، ہر پرندہ ہندکو بولتا ہے۔ یہاں کے لہجے میں ماں کی لوری بھی ہے، بزرگوں کی دعا بھی، اور عاشق کی آہ بھی۔ یہی وہ مٹی ہے جس نے شکیل اعوان جیسے شاعر کو جنم دیا—جو صرف لفظ نہیں بولتا، پہاڑوں کا درد، بستیوں کی خوشبو، اور زبان کی تڑپ بیان کرتا ہے۔ انکا تازہ شعری مجموعہ "چیندک" محض ایک کتاب نہیں، ایک صدائے دل ہے۔ ہندکو کے پہاڑی لہجے میں ڈوبی ہوئی ایک ایسی تخلیق جو دل سے نکلی اور دل تک پہنچی۔ یہ کتاب اُن راستوں کی خوشبو ہے جن پر برسات کے بعد دھند رقص کرتی ہے۔ یہ اُن صداؤں کی گونج ہے جو بچپن میں نانی اماں کی کہانیوں سے سنائی دیتی تھی۔ "چیندک" ہر اس لفظ کا نغمہ ہے جو گلیات کے لہجے میں نرم ہو جاتا ہے، جو پہاڑوں کے بیچ کسی بانسری کی صورت بہتا ہے۔ شکیل اعوان کی یہ شاعری، زبان کی نہیں، پہچان کی شاعری ہے۔ وہ لہجہ جو ہمیشہ کمزور سمجھا گیا، اب "چیندک" میں گونج رہا ہے—پوری شان، پوری آن، اور پوری محبت کے ساتھ۔ ۔۔۔ پہلیاں پیار دا سین کری تح مکری گا آمین کری تح عاشق کی معشوق نے ویراں کٹیا نکا مین کری تح ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شکیل اعوان کا شعری مجموعہ "چیندک" نہ صرف جذبات کی نرمی، بلکہ تہذیب کی پختگی، ثقافت کی وسعت، اور اپنی زبان سے عاشقانہ وابستگی کا بھرپور اظہار ہے۔ اس میں ہمیں ہندکو تہذیب کی جھلکیاں ملتی ہیں: دیہاتی زندگی کی سادگی، روایتی رسوم کی رنگینی، اور سماجی بندھنوں کی نزاکت بھی دکھائی دیتی ہے۔ ہر نظم اور ہر مصرعے میں ایک مقامی انسان کا دکھ، اس کی امید، اور اس کا جینا سانس لیتا دکھائی دیتا ہے۔ کئی ایہہ جے وی لوک مکے گئے ہانڈ کرنے یا کھان تکے گئے غیر تے غیر سے شکیل اعوان اج تے منہ پھیری اپنے سکے گئے ......... شکیل اعوان کا ہندکو لہجہ صرف ایک فنی انتخاب نہیں، بلکہ ایک دل کی بولی ہے۔ وہ ماں کی ممتا سے لے کر بیٹی کی رخصتی تک، کسان کی ہجرت سے لے کر بزرگوں کی خاموشی تک، ہر جذبے کو اپنے علاقائی لہجے، لوک کہاوتوں، اور محاوراتی زبان میں بیان کرتے ہیں۔ ان کے شعری مناظر میں پہاڑی راتیں، بادلوں کی گرج، جلتی لکڑیوں کی خوشبو، اور چولہے پر چڑھی دیسی چائے کی مہک تک موجود ہے۔ یہ کتاب محبت کا بھی بیان ہے، احتجاج کا بھی، فراق کا بھی، اور تلاش کا بھی۔ وہ تلاش جو اپنی جڑوں سے جڑنے کی، اپنی مٹی سے وفا کرنے کی، اور ماں بولی کو سر پر سجاتے ہوئے دنیا کو سنانے کی ہے۔ پھوں وی نینھ چھوڑی ساری کہنی آ یاں ہوش دہئی ساقی کی، خماری کہنی آ یا دینہہ ڈبے، لماں پہیندا، ان ڈٹھا راہ اپروں میں پہنڈ بہوں پہاری کہنی آیاں ٹہکی، اوخی راہ، نالے تہب تے تریہہ اتھیں توڑی ساہ نی میں کھاری کہنی آ یا ڈرے وچ لنگھتی اے حیاتی یے شکیل لگناں آ کوئی شے ادھاری کہنی آیاں دوستو: ادب کا اصل حسن تب آشکار ہوتا ہے جب شاعر یا ادیب اپنے داخلی احساسات کو اپنی مٹی، اپنی زبان، اور اپنی تہذیب سے ہم آہنگ کر کے پیش کرتا ہے۔ لوک فنکار، شاعر اور نغمہ سرا شکیل اعوان کی شاعری اس بات کی جیتی جاگتی مثال ہے۔ ان کی آواز، ان کا لہجہ، ان کے لفظ اور ان کی زبان، سب کچھ پہاڑی زمین، ہندکو لہجے اور ہزاروی محبت کا ترجمان بن چکے ہیں۔ یاد نیں چکھہڑ چُہلے ہوسن اکھ چا موتی ڈُہلے ہوسن پُہلی تے گئے اوہ میکی، لیکن بہوں مشکل نل پُہلے ہوسن ذکر مہڑا جد ہویا ہوسی ہور ببی کٹے کُھلے ہوسن چیندک صرف اپنی ماں بولی میں کی گئی شاعری ہی نہیں بلکہ بلکہ ایک وجود ہے—جو وقت کے گرداب میں بھی اپنی خوشبو، اپنا لہجہ، اور اپنی پہچان بچا لیتی ہے۔ اُس دی راہ وج آ کھلنے آں سکا سئی پر لچ تلنے آں باولی وچ جاں چہاتی ماری سپاں آخیا اس پلنے آں ۔۔ مومن اشنیں، منکر اشنیں دل کعبے وچ لشکر اشنیں یار شکیل ، منائی کہنناں اس کے سارے تہنتر اشنیں "چیندک" صرف ایک شعری مجموعہ نہیں، بلکہ ایک صدائے واپسی ہے—اپنی مٹی، اپنی شناخت، اپنی بولی کی طرف۔ یہ کتاب اُن سب کے لیے ہے جنہوں نے کبھی گاؤں کی گلیوں میں ہندکو کی نرم سرگوشیاں سنی ہوں، یا پہاڑوں کے دامن میں بیٹھ کر ماں کی زبان میں خواب دیکھے ہوں۔ اس تاب کو ضرور پڑھیں اگر پڑھ نہ سکیں تو شکیل اعوان سے سنیں آپ لطف اندوز ہوں گے آخر میں ناصر کاظمی کے شعر اور اسکا ہندکو منظوم ترجمہ دل جدوں کیتا تڑک یاد آیا اوہ تُڑی یاد سی مک یاد آیا تحریر: سہیل احمد صمیم
|