مقبوضہ کشمیر کی خود مختار حیثیت سے متعلق آرٹیکل 370
اوراسکی شق35 A ختم کرنا کشمیریوں کے حق پر ڈاکہ ہے۔ اس کے ذریعے عالمی
قوانین اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کو پامال کرتے ہوئے بھارت نے مقبوضہ
کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کی بھونڈی کوشش کی ہے۔ساری دنیا بالخصوص
پاکستان میں بھارت کے اس سیاہ اقدام کے بعد حکومتی اور عوامی سطح پر شدید
ترین تشویش اورغم و غصہ پایا جاتا ہے۔ بلکہ بھارت نواز رہنے والی سابق وزیر
اعلی محبوبہ مفتی اور عمر فاروق عبداﷲ اور ان کے والد ڈاکٹر فاروق عبداﷲ کے
بیانات بھی اس نوعیت کے آ رہے ہیں گویا تینوں حریت کانفرنس میں شامل ہونے
جا رہے ہیں۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ پون صدی بعد انہیں بھی دو قومی نظریہ کی
افادیت سمجھ آگئی ہے۔ اور تو اور کانگریس کے سینئر کشمیری راہنماغلام نبی
آزاد بھی چیخ پڑے کہ بی جے پی حکومت نے پانچ اگست کو بھارتی آئین قتل کر
دیا ہے۔آرٹیکل35 اے کے تحت مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کے سوا بھارت کا کوئی
بھی شہری یا ادارہ جائیداد نہیں خرید سکتا جبکہ سرکاری نوکریوں، ریاستی
اسمبلی کے لیے ووٹ ڈالنے اور دوسری مراعات کا قانونی حق بھی صرف کشمیری
باشندوں کو حاصل تھا۔ بھارتی انتہاپسند چاہتے ہیں کہ آرٹیکل 35 اے کوختم
کرکے مقبوضہ کشمیر میں مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرکے مقبوضہ کشمیر
پر بھارت کا غاصبانہ قبضہ مستحکم بنایا جائے۔ مسئلہ کشمیر سالہا سال سے
اقوام متحدہ میں ہے لیکن افسوس ناک امر ہے کہ اقوام متحدہ بھی اپنی قرار
دادوں پر عملدر آمد کرانے میں بے بس اور لاچار ہے۔اس مسئلہ کو حل کرنے
کیلئے گزشتہ72 سالوں میں کئی فارمولے بنے اور معاہدے ہوئے لیکن بھارت کی
طرف سے ہمیشہ مکاری اور بد نیتی کا ثبوت دیا گیا۔اب مودی کی حالیہ جنونی
جارحیت سے خطے کے امن کو سنگین خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ یہ نوشتہ دیوار سمجھ
لیں کہ مودی حکومت کا یہ فیصلہ سراسر غیر قانونی، غیر آئینی ہے جس کے
خطرناک نتائج نکلیں گے۔کنٹرول لائن کے آرپار بسنے والے کشمیری بھائیوں اور
پاکستانی حکومت اور عوام نے یہ مذموم بھارتی فیصلہ مسترد کردیا ہے۔حقیقت یہ
ہے کہ نریندر مودی جیسے انتہا پسند کا وزیراعظم بننا ہی بتا رہا تھا کہ یہ
شخص عالمی امن کو داؤ پر لگانے سے بازنہیں آئے گا۔پہلے ہی بھارت کی سات
لاکھ سے زائد فوج مقبوضہ کشمیر میں تعینات نہتے کشمیریوں پر ظلم کے پہاڑ
توڑ رہی ہے اور ابھی اس مودی نے اپنے ظالمانہ اقدامات کو زبردستی نافذ کرنے
کے لیے مزید مسلح فوجی دستے جموں کشمیر میں اتار دیے ہیں ۔تحریک آزادی کو
کچلنے کے لئے بھارتی فوج نہتے کشمیری مسلمانوں پر ظلم و بربریت کر کے
انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی کر رہی ہے۔اس کے خلاف آواز اٹھانے والے
جیلوں میں ڈال دیے گئے ہیں یا نظر بند کر دیے گئے۔ کرفیو نافذ ہے۔ انٹر نیٹ
سروس بند ہے۔ لوگ گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔ تعلیمی و سماجی
سرگرمیاں بند ہیں۔سوال یہ ہے کہ اس مکروہ بھارتی جارحیت کے خلاف رد عمل
کیلئے کن اقدامات کی فوری ضرورت ہے ؟ چند ایک تجاویز یہ ہیں۔(1) پاکستان
جلد از جلد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل میں کشمیر کی
موجودہ صورتحال پر ایک جاندار تحریک جمع کروائے۔دفتر خارجہ دنیا بھر کے
ممالک سے سفارتی زرائع سے رابطہ کر کے انہیں بھارتی مکروہ عزائم سے آگاہ
کرے۔(2) اس وقت امریکا افغانستان سے نکلنے کیلئے پر تول رہا ہے اور اس
انخلاء کا خاصہ انحصار پاکستان کے تعاون پر ہے۔ پاکستان کو چاہیے کہ
افغانستان میں اس تعاون کو مسئلہ کشمیر کے حل سے مشروط کر دے۔ وزیراعظم
عمران خان تین دفعہ ’’ایاک نعبد و ایاک نستعین ‘‘پڑھیں اور صدر ٹرمپ سے
فوری رابطہ کرکے جرائت کے ساتھ صورت حال اور اپنے موقف سے آگاہ کریں۔(3)کشمیر
کا بھارت سے الحاق اور اس سے متعلق آئینی دفعات اور دیگر امور قانونی نوعیت
کے حامل ہیں جن کو عالمی عدالتِ انصاف میں لے کر جانا پاکستان کا حق ہے۔
کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان گزشتہ بہتر سالوں سے ایک متنازعہ مسئلہ
ہے، جسے اقوام متحدہ نے اپنی قراردادوں میں تسلیم کیا ہے۔ لھذاحکومت
پاکستان کی منصبی ذمہ داری ہے کہ قابل وکلاء کی خدمات حاصل کرکے عالمی
عدالت انصاف کا دروازہ کھٹکھٹائے۔ اگر بھارت کلبھوشن کا کیس عالمی عدالت
انصاف میں لے جا سکتا ہے تو پھر پاکستان کو اس اہم ترین موقع پر پیش رفت
میں کیا ہچکچاہٹ ہے؟ چونکہ مودی حکومت کی طرف سے صدارتی حکم نامے کا سہارا
لے کر کشمیر سے متعلق آئینی دفعات کو ختم کیا گیا۔ اس پر فوری عمل درآمد
رکوانے کیلئے عالمی عدالت انصاف سے فوری حکم امتناعی لیا جاسکتا ہے۔ (4)
پاکستان کو بھارتی اقدامات کے خلاف تمام بین الاقوامی فورمز پر اس مسئلے کو
پوری شدت کے ساتھ اٹھانا ہوگا۔بھارت نے نہایت مکاری کے ساتھ طاقت کے زور پر
قوانین بدلے ہیں لیکن بھارت کو یاد رکھنا چاہیے کہ کاغذ کایہ ناجائز
ٹکڑاکبھی بھی کشمیری عوام کی رائے کو نہیں بدل سکتا۔حق خود ارادیت مقبوضہ
کشمیر کے عوام کا بنیادی حق ہے جو بہت جلد انہیں مل کر رہے گا۔(4) پانچ
اگست کے بعد سے مسئلہ کشمیر سیدھا سادھا ایک ننگی جارحیت اور مقبوضہ
نوآبادی کا معاملہ بن چکا ہے۔ اب بھارت کو تب ہی مجبور کیا جا سکتا ہے جب
اندرون و بیرون ملک کشمیری بھارتی قبضے کو اتنا مہنگا اور مشکل بنا دیں کہ
بھارت کو اس سے جان چھڑوانے میں ہی اپنی بقا اور عافیت نظر آئے۔ تاریخ گواہ
ہے کہ طاقت اور جبر کے ذریعے غیر اخلاقی فیصلے کیے جا سکتے ہیں لیکن ان کے
ذریعے با اصول لوگوں کے عزائم اور جذبات کبھی نہیں ختم کیے جا سکتے۔بھارتی
اقدامات کے نتیجے میں پانچ اگست کا دن بھارت کی تاریخ کا سیاہ ترین دن
ہے۔جس کے خلاف آزادی اور انسانی حقوق کے علمبردارہمیشہ سراپائے احتجاج رہیں
گے۔ مظلوم کشمیری بھائیوں سے اظہار یکجہتی کے لئے پاکستان اور بیرونی ممالک
میں آباد پاکستانی و کشمیری مرد، عورتیں ، بچے اور بوڑھے چھوٹے بڑے شہر وں
اور قصبوں میں احتجاجی مظاہروں اور ریلیوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ 15
اگست یوم سیاہ کے طور پر منایا جائے گا۔ اس دن لندن میں بھارتی ہائی کمیشن
کے باہر دن ایک بجے احتجاجی مظاہرہ ہوگا۔ برطانیہ میں مقیم تمام پاکستانی و
کشمیری اس کو کامیاب بنائیں۔
|