عید الاضحی دین اسلام کا ایک اہم اور ایسا رکن ہے جس میں
رب کائنات نے نوع انسانی و انسانیت کی فلاح کے کئی عالمگیر پیمانے دیئے
ہیں۔ جو پوری دنیا میں مسلمانوں کے عظیم اجتماعی ملت ، یک جہتی ، اتفاق و
اتحاد اور امت واحدہ کا تصور بیدار کرتا ہے ۔ علاوہ ازیں دنیا میں نوع
انسانی کو درپیش مسائل کے حل کے لئے ایک مرکز( خانہ کعبہ) پر اکھٹے ہونے
اور بلا امتیاز رنگ و نسل مسلم قوم کی شناخت دیتا ہے تاکہ حج سے حاصل کردہ
تعلیمات کو اپنے اپنے ممالک میں جاکر خود پر دوسروں پر لاگو بھی کریں ۔ اسی
طرح حج کے موقع پر سنت ابراہیمی کے تمام اراکین کا مقصد انسانیت کے دکھ درد
کو سمجھنا اور بنی نوع انسان کے لئے راہ خدا کے خاطر خود کو وقف کرکے ایثار
و قربانی کی مثال بنناہے۔ عید الاضحی کو ایثار و قربانی کا مذہبی تہوار ہے
جو غریب و نادار طبقات اور مسائل کے شکار مسلمانوں کے علاوہ تمام بنی نوع
انسان کے لئے عالمگیر انسانیت کا سبق دیتا ہے ۔ اس وقت دنیا بھر میں مسلم
امہ کو کئی مسائل کا سامنا ہے جس میں سب سے دو بڑے دیرینہ مسائل خانہ
جنگیاں اور مہاجرین ہیں ۔ بدقسمتی سے اس وقت مسلم ممالک مفاداتی جنگوں و
خانہ جنگی میں الجھے ہوئے ہیں اور جنگ زدہ ممالک میں مسلمانوں سمیت دیگر
مذہبی اقلیتوں کو شدید پریشانی ، بھوک افلاس و بد امنی اور خوف کا سامنا
ہے۔ اس وقت سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں شام ، یمن، افغانستان ، لیبیا،
عراق اور صومالیہ کے مسلمان ہیں جو شدید جنگ کی وجہ سے انتہائی تکالیف میں
ہیں۔ اسی طرح اُن مسلمانوں کو جو غیر مسلم اقلیتی ممالک میں رہتے ہیں ،
انہیں اکثریتی گروہ کی جانب سے مسائل درپیش ہیں ۔
مہاجرین میں اس وقت بنگلہ دیش میں لاکھوں کی تعداد میں روہنگیائی مسلمانوں
کو کم خوراک اور زندگی کی بنیادی سہولتوں کی شدید کمی کا سامنا ہے۔روہنگیا
مسلمان مہاجرین اپنے کیمپوں میں بنی عارضی مساجد میں عید الاضحی کی نماز
ادا کرتے ہیں ، غربت و تنگدستی کی وجہ سے روہنگیائی مسلمان سنت ابراہیمی ؑ
ادا نہیں کرسکتے ۔ میانمار کے بدھ انتہا پسندوں کی وجہ سے انہیں اپنے ملک
سے ہجرت کرنی پڑی ۔ مہاجر کیمپ میں انہیں نمازوں کی آزادی ہے لیکن جب
میانمار میں تھے تو بدھ انتہا پسندوں کی جانب سے شعائر اسلام کی ادائیگی کے
لئے انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا ۔ روہنگیائی مسلمان مہاجر کیمپ
میں اپنی مذہبی آزادی کو اپنے ملک میانمار میں بھی ادا کرنے کی خواہش رکھتے
ہیں کہ انہیں اپنے وطن میں شعائر اسلام ادا کرنے کا موقع ملے اور بحفاظت
اپنے وطن میں جاکر مہاجرت کی تکلیف دہ زندگی سے نجات حاصل کریں جہاں انہیں
زندگی کے بدترین دن گزارنا پڑ رہے ہیں۔ واضح رہے کہ بنگلہ دیش میں
روہنگیائی مسلمانوں کو آزادنہ نقل و حرکت کی اجازت نہیں ہے اور انہیں غذائی
قلت کے علاوہ صحت کے مسائل کا بھی سامنا ہے۔اس وقت صرف بنگلہ دیش میں
قریباََ سات لاکھ سے زائد روہنگیائی مسلمان مہاجرین کو میانمار میں ہونے
والے پُرتشدد واقعات و دیہاتوں کے جلائے جانے کے سبب اپنی جان بچانے کے لئے
بنگلہ دیش سمیت کئی ممالک میں پناہ حاصل کرنی پڑی ہے۔
شام میں خانہ جنگی کی وجہ سے لاکھوں کی تعداد میں مہاجرین نے دنیا بھر میں
پناہ کا رخ کیا اور سانحات کی کئی تاریخیں رقم بھی ہوئی ۔ اس وقت ترکی میں
شامی مہاجرین کی تعداد لاکھوں میں ہے صرف استنبول میں شامی مہاجرین کی
تعداد پانچ لاکھ سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔ واضح رہے کہ ترکی اس وقت 30لاکھ
شامہ مہاجرین کی میزبانی و دیکھ بھال کررہا ہے ۔ جس کی وجہ سے اب صورتحال
یہ ہے ،ترکی کے سرحدی علاقوں میں مہاجرین کی تعداد مقامی آبادی سے بڑھ چکی
ہے۔ ترکی کے صوبے کیلس کے حوالے سے بتایا جاتا ہے کہ اب وہاں آبادی کا
تناسب ایک ترک اور شامی مہاجر ہوچکا ہے۔شامی بحران کی وجہ سے ترکی میں اب
تک دولاکھ بچوں کی ولادت بھی ہوچکی ہے۔ شام میں کرد باغیوں و رجیم بشا ر
الاسد کے خلاف مسلح مزاحمت کا سلسلہ جاری ہے جس میں عالمی قوتیں امریکا اور
روس کے دو بلاک بنے ہوئے ہیں ، امریکا نے شام سے اپنی افواج کا اعلان کی
واپسی کا اعلان کیا تھا لیکن تاحال شام میں ایسے حالات پیدا نہیں ہوئے کہ
عالمی طاقتیں خطے کو پر امن قرار دیں سکیں ، یہی وجہ ہے کہ امریکا نے جرمنی
پر دباؤ ڈالا تھا کہ وہ اپنی افواج کو مملکت شام کی جنگ میں بھیجے لیکن
جرمنی نے امریکی دباؤ کو مسترد کرتے ہوئے شام کی جنگ میں شریک ہونے سے
انکار کردیا ۔ عید الاضحی کے موقع پر گزشتہ برس عید کے موقع پر ترکی سے ایک
لاکھ کے قریب مہاجرین عارضی طور پر واپس شام آئے تھے جہاں ان کے لئے عارضی
بندوبست کیا تھا ۔جہاں شامی مہاجرین نے اپنے وطن میں عید منائی تھی۔
افغانستان میں گزشتہ چار دہائیوں سے جنگ جاری ہے جس میں صرف چند برس کے لئے
وقفہ آیا ۔ سوویت یونین کے افغانستان میں داخلے کے بعد ہونی والی جنگ کے
نتیجے میں لاکھوں افغان مہاجرین نے پاکستان اور ایران کا رخ کیا اور
پاکستان اس وقت سب سے طویل عرصہ سے مہاجرین کی میزبانی کرنے والا واحد ملک
بن چکا ہے۔ امریکا اور افغان طالبان کے درمیان جنگ کی وجہ سے پاکستان میں
موجود لاکھوں مہاجرین کی واپسی ممکن نہیں ہوسکی اور اب تین نسلیں پاکستان
میں پروان چڑھ چکی ہیں ۔اقوام متحدہ کی جانب سے افغان مہاجرین کی واپسی کا
شیڈول طے ہوچکا ہے لیکن کابل انتظامیہ کی جانب سے افغان مہاجرین کی واپسی
میں تامل کا مظاہرہ کیا جارہا ہے۔ جس کی وجہ سے پاکستان میں افغان مہاجرین
کی واپسی کی مدت میں ہر بار اضافہ کردیا جاتا ہے ۔ دنیا بھر میں لاکھوں
مہاجرین کی بانسبت پاکستان میں افغان مہاجرین عیدالاضحی کا مذہبی تہوار
روایتی انداز سے مناتے ہیں ، کیونکہ پاکستان میں افغان مہاجرین کی نقل
وحرکت اور کاروبار پر سختی نہیں کی گئی اور عام پاکستانی شہریوں کی طرح
انہیں آزادی حاصل رہی جس کی وجہ سے افغان مہاجرین ہونے کے باوجود پاکستان
کے عام شہریوں کی طرح عید الاضحی میں سنت ابراہیمی ؑ جوش و خروش سے مناتے
ہیں۔واضح رہے کہ ادائیگی مناسک حج کے لئے افغان شہریوں کی بڑی تعداد
پاکستان سے سرزمین حجاز بھی جاتی ہے۔
عراق میں امن استحکام نہیں آسکا ہے ۔ مذہبی تہواروں اور عید اجتماع کے
مواقع پر بم دھماکوں کی وجہ سے عراقی شہریوں کو جانی خوف کا ہر وقت احتمال
رہتا ہے ۔ داعش کے عراق میں خوں آشام واقعات سے ایک عرصے سے نہتے و بے گناہ
انسان اپنی جانوں کی قربانی دیتے رہتے ہیں ۔ عراق میں داعش کی شکست کے بعد
داعشی فتنہ کے بظاہر خاتمہ ہوچکا ہے ۔ تاہم غیر مستحکم ریاست ، کرد نسل کے
اختلافات و غیر ملکی مسلح جنگجو تنظیموں کی موجودگی سمیت کردستان کی آزادی
جیسی تحریک کی وجہ سے عراق ابھی تک خوف کے سائے سے نکل سے امن کی چھاؤں میں
نہیں آسکا ۔ عراق میں مذہبی شعائر منائے تو جاتے ہیں لیکن ناخوشگوار واقعات
کی وجہ سے عراقی عوام آزادنہ مذہبی شعائر نہیں مناسکتے۔بھارت میں مسلمانوں
پر عرصہ حیات تنگ کردیا گیا ہے اور مسلم اکثریتی علاقے پر جابرانہ قبضے کی
وجہ سے مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں پر انسانیت سوز مظالم ڈھائے جا رہے ہیں۔
مقبوضہ کشمیر سمیت پورے بھارت میں مسلم اقلیت کو اسلامی شعائر آزانہ ادا
کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا رہتا ہے ۔ جب سے ہندو شدت پسندوں کی جانب سے
گھاؤ رکھشا کے نام پر اجتماعی قتل و غارت کے بہیمانہ واقعات رونما ہو نے
لگے ہیں ، عید قربان کے موقع پر غریب و متوسط مسلم طبقے کوسنت ابراہیمی ؑ
کی ادائیگی میں جنونی ہندو دہشت گردوں کی شدت پسندی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
مقبوضہ جموں و کشمیر میں عیدین کے نماز کے ادا کرنے پر پاندی لگا کر کرفیو
لگا دیا جاتا ہے ۔ عیدین کی اجتماعی نماز کی ادائیگی کو جبراََ ریاستی طاقت
سے روکا جاتا ہے ۔ حالیہ دنوں بھارتی جارحیت میں شدت کے ساتھ اضافہ دیکھنے
میں آیا ہے ۔ ہندو انتہا پسند جماعت نے اکثریتی حکمران پارٹی ہونے کے سبب
مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت میں تبدیلی کا بل بھی لوک سبھا میں پیش کردیا
ہے ، حریت پسند رہنماؤں کو قید اور نظر بند کیا جاچکا ہے تو لاکھوں جارح
بھارتی فوجوں کی موجودگی کے باوجود 28 ہزار مزید بھارتی جارح فوجیوں کا
اضافی نفری مقبوضہ کشمیر میں بھیجے جانے کی منظوری دے دی ہے۔پاکستان کو
مقبوضہ کشمیر کی اخلاقی حمایت کرنے پر دو ہزار سے زاید مرتبہ کنٹرول لائن
کی خلاف وزری کا سامنا کرنا پڑا یہاں تک کلسٹر بموں کے استعمال نے بھارتی
مکروہ چہرے کو بے نقاب کردیا کہ بھارت خطے میں امن نہیں جنگ چاہتا ہے۔ان
حالات میں مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کو مذہبی تہوار منانے میں ان گنت
مشکلات کا سامنا ہر مرتبہ رہتا ہے۔
فلسطین ،یمن ، صومالیہ ، مصر ، لیبیا ، ایران میں بھی صورتحال حوصلہ افزا
نہیں ہے ۔ ان ممالک کو بھی عیدا لاضحی کے موقع پر مسائل کا سامنا ہے ۔خاص
کر یمن میں حوثی باغیوں اور ایران نواز جنگجو ملیشیاؤں کی وجہ سے سعودی عرب
کے ساتھ جنگی صورتحال نے یمن میں مسلمانوں ، خاص کر خواتین و بچوں جو جنگ
کے مضر اثرات کا سامنا ہے ۔ غذائی قلت اور صحت عامہ کی تشویش ناک صورتحال
کی وجہ سے ضرورت ہے کہ یمن و سعودی عرب کے درمیان جلد تنازع ختم ہونے کی
ضرورت ہے ۔عید الاضحی کا بنیادی مقصد مسلمانوں کے درمیان باہمی اختلافات و
درپیش مسائل کا حل نکالنا ہونا چاہے۔ مناسک حج کی اصل روح یہی ہے کہ دنیا
بھر میں ترجیحی طور پر مسلمانوں سمیت بنی نوع انسان کے مسائل کے حل کے لئے
دنیا بھر کے صاحب استطاعت و اثر رسوخ کے حامل مسلمانوں کا عظیم اجتماع ہو ۔
تاکہ بنی نوع انسان بالخصوص مسلمانوں کو پریشانی و دشواریوں سے نکال کر ان
کے لئے آسانیاں پیدا کی جاسکیں۔ ذوالحج کی اصل روح اور عید الضحیٰ کے
اصولوں و رب کائنات کی جانب سے دی جانے والی تاقیامت عالمگیر قوانین کے پیش
نظر تمام مسلمانوں کو اپنے بھائیوں کی تکالیف و پریشانیوں کاادارک کریں اور
نا مساعد حالات کا شکار مہاجرین جو دنیا کے کسی بھی خطے میں ہوں انہیں امن
کے سائے میں اپنے وطن عزیز میں تمام مذہبی تہوار آزادی و بے خوف منانے کے
لئے یکجا مسلم اکثریتی ممالک کے حکمراں اپنا فعال کردار ادا کریں۔
|