وزیر داخلہ اور وزیر خارجہ کا مختلف و متضاد موقف

ایوان پارلیمان کے موجودہ اجلاس کی بابت اسپیکر او پی بڑلا نے دعویٰ کیا کہ یہ ۱۹۵۲؁ کے بعد سب سے زیادہ کام کرنے والا سیشن تھا۔ اس میں ویسے تو ۲۶ قوانین کو بغیر خاطر خواہ بحث و مباحثہ کے منظوری دی گئی لیکن دو قوانین کا چرچا بہت زیادہ ہوا۔ وزیراعظم لال قلعہ سے اپنے خطاب میں بھی ان کا ذکر کرنا نہیں بھولے ۔ ان میں پہلا طلاق ثلاثہ کا بل تھا جسے پیر ۲۹ اکتوبر ۲۰۱۹؁ کو وزیر قانون شیوشنکر پرشاد نے ایوان بالا میں اقلیت کے باوجود کمال مکاری سے پاس کروا لیا ۔ اس کے ایک ہفتہ بعد پیر ہی کے دن وزیرداخلہ نے بڑی سازش کے ساتھ کشمیر کو خصوصی درجہ دینے والی آئین کی دفع ۳۷۰ کا خاتمہ کردیا۔ ابھی یہ ہنگامہ سرد بھی نہیں ہوا تھا کہ اگلے پیر یعنی ۱۲ اگست ۲۰۱۹؁ کو وزیر خارجہ جئے شنکر نے چین کے دورے پر اپنے ہم منصب سے گفت و شنید میں یہ یقین دلا کر غبارے کی ہوا نکال دی کہ یہ فیصلے سرحد پر اثر انداز نہیں ہوں گے ۔ اس طرح سارا معاملہ ٹائیں ٹائیں فش ہوگیا۔ وزیر کارجہ جئے شنکر اپنی غیر معمولی سفارتکاری کے باوجود چین کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پاکستان کی حمایت سے روکنے میں بھی ناکام رہے۔

وزیرداخلہ امیت شاہ نےایوان پارلیمان ۳۷۰ کی بابت بڑے طمطراق سے یہ وضاحت کی تھی کہ ‘‘جب میں جموں کشمیر بولتا ہوں تو اس میں پی او کے (پاکستان کا مقبوضہ کشمیر ) شامل ہے ۔ انہوں نے کہا ہمارے دستور میں جو جموں کشمیر کی سرحد طے ہے اس میں پاکستان کے قبضے والا کشمیر اور اکسائی چن (جو چین کے قبضے میں ہے) بھی شامل ہے۔ وزیر داخلہ نے ایوان پارلیمان کے اندر کہا تھا یہ بہت تاریخی لمحہ ہے اور ہم جموں کشمیر کے لیے جان بھی دے دیں گے’’۔ اس بیان کے ٹھیک ایک ہفتہ بعد ہندوستان کے وزیر خارجہ جئے شنکر نے چین کا دورہ کیا اور مقبوضہ کشمیر و اکسائی چن پر مختلف موقف اختیار کرلیا ۔ چین کے اندر ہندی وزیر خارجہ نے اپنے ہم منصب وینگ یی کے سامنے اعتراف کیا کہ ہندوستان کی حالیہ آئینی ترمیمات کا ہندوستان کی خارجی سرحدوں یا چین کے ساتھ لائن آف ایکچول کنٹرول (ایل اے سی) پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ وزیر خارجہ نے یہ وضاحت بھی کی کہ یہ قدم پاکستان کے ساتھ لائن آف کنٹرول (ایل او سی ) پر بھی کوئی اثر انداز نہیں ہو گا ۔ جئے شنکر نے بتایاکہ ہندوستان کوئی اضافی سرحدی دعویٰ نہیں کررہا ہے اس لیے چین کے اندیشے بے محل ہیں۔

یہ دونوں متضاد بیانات بیک وقت درست نہیں ہوسکتے ۔ اس لیے ان میں سے ایک غلط ہے۔ ہندی سیاست کے معمولی طالبعلم سے بھی اگر دریافت کیا جائے کہ امیت شاہ اور جئے شنکر کے دو متضاد بیانات میں سے کون سا درست ہے تو وہ تفصیل جانے بغیر بلا توقف وزیر خارجہ کے حق میں فیصلہ سنا دے گا۔ اس کی کئی وجوہات ہیں مثلاًجئے شنکر کوئی گھاگ سیاستداں نہیں ہے ۔ وہ خارجہ سکریٹری تھے اور ناتجربہ کار تازہ دم وزیر ہیں اس لیے جھوٹ بولنے مشق نہیں ہوئی ۔ وہ ایوان بالا سے آئے ہیں اس لیے ان کو نہ انتخاب لڑنا ہے اور نہ پارٹی کو الیکشن جتانا ہے امیت شاہ کے ذمہ یہ دونوں کام ہے۔ جئے شنکر کی تربیت سنگھ کی کسی شاکھا یا سرسوتی ودیالیہ میں نہیں بلکہ مشنری اسکول میں ہوئی ہے اس لیے ان کا اوڑھنا بچھونا جھوٹ نہیں ہے ۔ سنگھ کے سنسکار سے آراستہ امیت شاہ کے نزدیک کذب بیانی معیوب فعل نہیں بلکہ بڑی خوبی ہے۔ آخری وجہ یہ ہے کہ امیت شاہ نے یہ بیان ایوان پارلیمان میں دیا جہاں ان کی اندھی تائید کرنے والے تین سو اکیاون ارکان تھے جبکہ جئے شنکر کی بات چیت اپنے سے طاقتور چین کے وزیر خارجہ سے چل رہی تھی۔ وہ اگر چین کے ساتھ جان دینے کی بات کرتے تو گفتگو وہیں ختم ہوجاتی اور وزیر اعظم کو انہیں برخواست کرکے کوئی نیا وزیر خارجہ تلاش کرنا پڑتا۔ دو سال قبل ڈوکلام میں چین اپنی برتری کا مظاہرہ کرچکا ہے اور اب بھی کشمیر کے معاملے میں پاکستانی موقف کا حامی ہے۔

امیت شاہ کا کھوکھلا دعویٰ کیلاش پربت کی یاترا سے بھی عیاں ہوگیا ۔ ہر سال جون تا ستمبر کے دوران ہندوستانی تیرتھ یاتریوں کو وہاں جانے کے لیے چین سے ویزہ لینا پڑتا۔ چین کے جس حصے میں یہ مندر واقع ہے اس تبت کے علاقہ کو کشمیر کی مانند محدود خودمختاری حاصل ہے ۔ دلائی لامہ کو ہندوستانی حکومت کی حمایت حاصل رہی ہے اور چین اس پراسی طرح تنقید کرتا رہا ہے جیسے ہندوستان کشمیر کے معاملے میں پاکستان پر کرتا ہے اس کے باوجود تبت کی خودمختاری کو چین نے ختم نہیں کیا ۔ یہی وجہ ہے کہ حکومتِ ہند کے ذریعہ کشمیر کے فیصلے کو درست نہیں سمجھتا اور اس کا برملا اظہار کرتا ہے ۔ کیلاش پربت کی خصوصیت یہ ہے کہ ہندو اس کو شیو دیوتا کا مسکن مانتے ہیں ۔ بودھ مت کے لوگوں کا ایمان ہے کہ گوتم بدھ کی والدہ مہا مایا یہیں حاملہ ہوئی تھیں ۔ جینیوں کا عقیدہ ہے کہ ان کے پہلے تیرتھنکر رشبھ دیو کو کیلاش کے پاس اشٹپد پربت پر موکش ملا ۔ اس لیے ان تینوں مذاہب کے عقیدتمند ان پہاڑوں پر جاتے ہیں ۔ اس کے باوجود چین الزام لگاتا ہے کہ حکومت ہند نے یاتریوں کی سہولت کے لیے چینی سرکار کم سرمایہ خرچ کیا ہے ۔ اتراکھنڈ کے پلکھوا سے وہاں جانے میں چار پانچ دن لگ جاتے ہیں ۔ ہندوتوا کے نام ووٹ حاصل کرنے والی سرکار حج سبسڈی ختم کرنا تو سمجھتا ہے لیکن کیلاش پربت کے لیے چین سے کم خرچ کرنا ناقابلِ فہم ہے۔ ویسے امرناتھ یاترا کو بھی فی الحال بی جے پی نے معطل کررکھا ہے۔

یرقانی دیش بھکت فی الحال طرح طرح کی فیک نیوز پھیلاکراپنے آپ کو بہلا پھسلا رہے ہیں ۔ ان لوگوں نے بنگلور میں بوہروں کے جلوس پر جعلی وندے ماترم کی آواز چپکا کر جھوٹا دعویٰ کردیا کہ آئین کی دفع ۳۷۰ کی منسوخی کے بعد کشمیریو ں کا من پریورتن ہوگیا ہے۔ کشتواڑ میں ہونےوالے ایک پرانے بی جے پی کے جلوس کی ویڈیو پھیلا کر جس کا دفع ۳۷۰ سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا ،خود فریبی میں مبتلا ہوگئے۔ اس دوران حفاظتی صلاح کاراجیت دوبھال بھاری تحفظ میں اننت ناگ پہنچ گئے اور ایک بچے سے سوال کیا کیوں تم خوش تو ہو؟ بچہ بیچارہ کیا جانے کہ یہ کون ہے اور کس بات سے خوش ہے؟ لیکن اس کے پاس کھڑے ہوئے نڈر کشمیری جوان نے کہہ دیا کہ ‘یہاں کون خوش ہے؟’ یعنی کوئی بھی خوش نہیں ہے۔حکومت بار بار کشمیر کی پرامن صورتحال کا دعویٰ تو کرتی ہے لیکن ذرائع ابلاغ پر پابندی، دفع ۱۴۴ کا نفاذ، رہنماوں کی گرفتاری، غلام نبی آزاد اور سیتارام یچوری کی ہوائی اڈے سے واپسی اور شاہ فیصل کو دہلی سے گرفتار کرکے واپس روانہ کرنا ، اس کی تردید کرتے ہیں۔ اسپتالوں میں چھروں سے زخمی مظاہرین کی بڑھتی ہوئی تعداد اور بی بی سی کی ویڈیو جسے پہلے مسترد کرنے کے بعد تسلیم کرلیا گیا سرکاری کذب بیانی کو منہ چڑھاتی ہے۔

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1450752 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.